زمان غیبت میں جھاد ابتدائی کے جائز ہونے کے بارے میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی ( دامت برکاتہ) کے بیانات

03 July 2024

20:02

۲,۶۸۵

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

حریم امام: سب سے پہلے آپ جھاد ابتدائی کے بارے میں مقدمہ کے طور پر کچھ فرمائيں تا کہ اس کے بعد ہم اصلی بحث کی طرف آئیں۔

استاد: سب سے پہلے میں  جناب عالی اور ہفت نامہ حریم امام کے مسولین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

مجھے امید ہے کہ یہ ہفتہ نامہ امام کے فقہی ،اصولی ، سیاسی ، اخلاقی اور تربیتی نظرات کو حوزات علمیہ اور ملکی علمی مراکز اور دانشمندوں کے لئے کچھ حد تک بیان کریں گے۔

جھاد ابتدائی قرآنی اور فقہی مباحث میں سے ایک اہم بحث ہے ، مخصوصا ہمارے فقہ سیاسی میں اس بارے میں بہت زیادہ توجہ دینے اور  تحقیق  کرنے کی ضرورت ہے، ہم اپنے بحث کو امام خمینی (رضوان الله تعالی علیه) کی اس فرمایش سے شروع کرتے ہیں کہ آپ نے کتاب تحریر الوسیلہ میں کتاب امر بہ معروف و نھی از منکر  کے آخر میں (ختام فیه مسائل) کے عنوان کے ذیل میں دوسرے مسئلہ میں فرماتا ہے: «فی عصر غیبة ولی الامر و سلطان العصر(عجل الله تعالی فرجه الشریف) یقوم نوابه العامه و هم الفقها الجامعون لشرایط الفتوا و القضا مقامه فی اجراء السیاسات و سایر ما للامام(علیه السلام). الا البدأة بالجهاد» یعنی وہ تمام اختیارات جنھیں خدا وند تبارک و تعالی نے امام معصوم (علیہ السلام) کے لئے قرار دیا ہے وہ سب عصر غیبت میں جامع الشرائط فقہاء کے لئے حاصل ہے ،ان میں سے صرف ایک مورد میں استثناء کیاہے وہ جھاد ابتدائی ہے۔

البتہ صرف کتاب {البیع} میں فرماتے ہیں: " جھاد ابتدائی کو امام ( علیہ السلام) سے مخصوص کرنے میں ‏غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے یعنی تحریر الوسیلہ میں صراحت کے ساتھ اسے استثناء کیا ہے لیکن کتاب "البیع" میں اسے قابل غور مسئلہ قرار دیا ہے۔

یہاں پر ایک سوال ہے کہ کیا امام خمینی (رہ) نیابت کے دلائل کو جھاد ابتدائی کے شامل ہونے سے قاصر سمجھتے ہیں ؟ یعنی جھاد ابتدائی میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں کہ امام معصوم کے علاوہ کوئی اور اسے انجام نہیں دے سکتا، یا علم فقہ کی اقتضا یہ ہے کہ آپ  نیابت  عامہ کے دلائل کے مطلق ہونے کا قائل ہیں لیکن جھاد ابتدائی کے مسئلہ میں ایک خاص دلائل کے تحت ان عمومات اور اطلاقات کو مقید اور تخصیص کرتا ہے ، شاید امام(رہ) کے ذھن شریف میں یہ بات تھی۔


اس وقت اسلام اور اھل بیت کے دشمن اس جھاد سے بہت ہی غلط فایدہ اٹھانا چاہتا ہے لھذا اس بارے میں مکمل اور جامع گفتگوکرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس کے تمام پہلووں واضح ہو جائے ، سوال یہ ہے کہ کیا بنیادی طور پر اسلام میں جھاد ابتدائی کے نام سے کوئی چیز موجود ہے ؟ اور کیا جھاد کو ابتدائی اور دفاعی کے لحاظ سے تقسیم کرنا صحیح ہے ؟

اس سوال کے جواب کے مقدمہ کے طور پر یہ عرض کروں گا کہ  علماء نے جھاد ابتدائی کی کوئی واضح اور کامل تعریف بیان نہیں کیا ہے ۔ کیا جھاد ابتدائی کا معنی یہ ہے کہ ان کافروں  سے مقابلہ کرنا جو نہ مسلمانوں سے جنگ لڑ رہے ہیں اور نہ جنگ لڑنے کی تیاری میں ہے  حتی کہ مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی کوئی سازش بھی نہیں کر رہے ہیں؟ یا جھاد ابتدائی یہ ہے کہ وہ کفار جو فی الحال جنگ نہیں لڑ رہے ہیں ، پھر اس میں فرق نہیں کہ وہ سازش کر رہے ہوں یا نہ ، اس مسئلہ میں ایک بحث یہ ہے ۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اس زمانہ میں وہ مسلمان جو غیر اسلامی ممالک میں قیام پزیر ہیں وہ اپنے   حاکم جو کہ کافر ہیں یا جو بھی ہوں جو مسلمانوں سے  مقابلہ کر رہا ہے ان سے مقابلہ کرے ، کیا یہ جھاد ابتدائی ہے یا نہیں؟ہم اس تعریف کے جو حصہ یقینی ہے اسی حصہ کو لیتے ہیں اور یہ کہیں گے : جھاد ابتدائی یہ ہے کہ وہ کفار جو فی الحال مسلمانوں پر حملہ آور نہیں ہیں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش وغیرہ بھی نہیں کر رہا ہے ان دو خصوصیات کے مد نظر قرآن کریم ، روایات اور فقہ میں دیکھیں کیا جھاد ابتدائي کے نام سے ایسی کوئی چیز موجود ہے کہ مسلمان کفار اور مشرکین کو اسلام کی طرف دعوت کریں اور اگر وہ قبول نہ کرے تو ان سے جنگ کرے ، کیا اس بارے میں کوئی دلیل موجود ہے یا نہیں؟

اس سوال کا جواب ہاں میں ہے ، جو انسان قرآن کریم سے بہت ہی مختصر ارتباط رکھتا ہو اسے معلوم ہے کہ قرآن کریم میں جھاد ابتدائي کے بارے میں بہت ساری آیات موجود ہیں ، نہ ایک نہ دو بلکہ جھاد ابتدائی کے بارے میں متعدد آیات موجود ہیں ، کہ یہ خود اپنی جگہ ایک بحث ہے کہ اس بارے میں اتنی ساری آیات موجود ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ کیا جھاد کا حکم شراب کے حرام ہونے کی حکم کی طرح تدریجی تھا ؟ یہ ایک مسلم بات ہے ۔

تمام مورخین اور مفسرین فرماتے ہیں کہ اسلام کی ابتداء میں جھاد نام کی کوئی چیز نہیں تھی، جو بھی اس بارے میں بحث و گفتگو کرنا چاہتے ہیں اسے اس بارے میں متوجہ رہنا چاہئے ، یہ اسلام کی امتیازات میں سے ہے،رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے مکہ میں جو 13 سال گزراے وہاں پر جھاد کا مسئلہ تشریع ہی نہیں ہوا۔قرآن کریم میں کچھ آیات ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام دعوت اور دعوت کے لازمی ہونے کے مسئلہ کے ساتھ آغاز ہوا ہے ۔

انہی میں سے سورہ احزاب کی یہ آیات ہیں :«يا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْناكَ شاهِداً وَ مُبَشِّراً وَ نَذيراً وَ داعِياً إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَ سِراجاً مُنيراً وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللهِ فَضْلاً كَبيراً وَ لا تُطِعِ الْكافِرينَ وَ الْمُنافِقينَ وَ دَعْ أَذاهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَ كَفى‏ بِاللهِ وَكيلاً». یا سورہ نحل کی یہ آیت : «ادْعُ إِلى‏ سَبيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جادِلْهُمْ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ».
مکہ میں رسول خدا(صلی الله عليه و آله وسلم) کے اصحاب آپ سے عرض کرتے تھے کفار اور مشرکین ہمیں آزار و اذیت پہنچاتے ہیں ،یہاں تک کہ عبد الرحمن بن عوف نے آکر رسول خدا (ص) سے عرض کیا: " جب ہم مشرک تھے تو عزت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے کسی کو ہمیں کچھ کہنے کی جرات نہیں تھی ، لیکن اب جب ہم مسلمان ہوئے ہیں تو آپ ہمیں کسی سے جنگ لڑنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں" پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: " لم اؤمر بالقتال؛مجھے ابھی جنگ کا حکم نہیں ہوا ہے"یہ اسلام کا ایک مرحلہ ہے کہ یہ مرحلہ مختصر بھی نہیں تھا ، تقریبا 13 سال اس کی مدت تھی۔

لیکن جنگ کے بارے میں نازل ہونے والی پہلی آیت سورہ حج کی آیت نمبر 39 ہے : « أُذِنَ لِلَّذينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلى‏ نَصْرِهِمْ لَقَدير» البتہ اس آيت میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جھاد ابتدائی جائز ہے بلکہ فرماتا ہے : اذن یعنی ابھی تک مسلمانوں کو جھاد کی اجازت نہیں تھی ، مفسرین فرماتے ہیں : یہ آیت پیغمبر کے مکہ کے قیام کے آخری دو تین مہینے یا مدینہ میں ہجرت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہے کہ غالبا یہی بتاتے ہیں کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہے ۔

یہ بات بھی بتا دوں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمان میں  اسلام میں جتنے بھی جنگیں ہوئیں ہیں وہ سب کے سب مدینہ میں ہوئی ہیں ، مکہ میں جو 13 سال حضور اکرم (ص) نے گزارے ہیں ان ایام میں کوئي جنگ ہی نہیں ہوئی ہے ،بہر حال اس آيت میں جھاد کے جايز ہونے کو بیان کیا ہے البتہ وہ بھی صرف مکہ کے مشرکین کے ساتھ۔

اس کے بعد جھاد کے لئے تین اور مراحل ذکر ہوا ہے، پہلے مرحلہ میں جیسا کہ بیان ہوا مسلمانوں کو صرف مکہ کے مشرکین سے جنگ لڑنے کی اجازت تھی ،ہر کافر اور مشرک سے جنگ لڑنے کی اجازت نہیں تھی، اس کے بعد دوسرا مرحلہ اہل کتاب سے جھاد کا مرحلہ ہے ، سورہ توبہ کی آیت اسی کے بارے میں ہے : «قاتِلُوا الَّذينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ لا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ لا يُحَرِّمُونَ ما حَرَّمَ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ لا يَدينُونَ دينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذينَ أُوتُوا الْكِتابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَ هُمْ صاغِرُون‏» تیسرا مرحلہ سارے مشرکین سے جھاد کا مرحلہ ہے ، چاہئے وہ مدینہ کی مشرک ہو یا غیر مدینہ کے ، وہ مکہ کے مشرک ہو یا غیر مکہ کے ، قرآن کریم اس مرحلہ کے بارے میں فرماتا ہے : «قاتِلُوا الْمُشْرِكينَ كَافَّةً» چوتھا مرحلہ سورہ توبہ کی آیت 123 میں بیان ہوا ہے کہ فرماتا ہے : «يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا قاتِلُوا الَّذينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَ لْيَجِدُوا فيكُمْ غِلْظَة» سورہ بقرہ کی آیت 193 میں بھی فرماتا ہے: «وَ قاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَة»، یہ حکم ہر قسم کی کافر سے جنگ لڑنے کے بارےمیں ہے چاہئے وہ مشرک ہو یا غیر مشرک۔

البتہ یہ قتال کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کے بارے میں ایک نظریہ ہے ، اس بارے میں ایک اور تقسیم بھی ہے اسے میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔

بہر حال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں جھاد کے بارے میں کچھ آیات ہیں ۔

یہ نظریہ بھی ہے کہ جھاد کی تشریع تدریجی طور پر ہوا ہے جس طرح شراب کے حرام ہونے کا حکم تدریجی طور پر بیان ہوا اسی طرح  جھاد کے بارے میں بھی تدریجی طور پر بیان ہوا ہے ، جھاد کے بارےمیں موجود آیات زیادہ تر سورہ بقرہ ، نساء اور انفال میں ذکر ہیں ۔

شاید قتال اور جھاد کے بارے میں مہمترین اور آخری آیات سورہ مبارکہ توبہ کی ابتداء کی 16   آیات ہیں کہ یہ آیات جھاد کے بارے میں بہت ہی واضح ہیں ان آیات کے مطابق مسلمانوں کو جھاد کا حکم ہوا ہے چاہئے کفار جنگ لڑنے کا ارادہ رکھتا ہو یا نہیں ، اور قتال و جھاد واجب کے عنوان سے بیان ہوا ہے ۔

البتہ ان آیات کے بارے میں باریک بینی سے بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ، اور ان آیات کے بارے میں ایسے ہی کوئی نظر نہیں دے سکتے ، بعض نے یہ بھی بتائے ہیں کہ جھاد کے بارے میں سب سے پہلی آیت یہ آیت ہے : «وَ قاتِلُوا في‏ سَبيلِ اللهِ الَّذينَ يُقاتِلُونَكُمْ وَ لا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدين‏» لیکن بہر حال آیہ «اُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتِلُونَ» مقدم ہے ، آیہ «اُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتِلُونَ»بھی جھاد کے واجب ہونے کے بارے میں ہے اور جھاد ابتدائی  پر دلالت کرنے والی سب سے زیادہ واضح آیت یہ آیت ہے : «وَ قاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ يَكُونَ الدِّينُ لِلَّه‏»

زمان غیبت میں جھاد ابتدائی کے جائز ہونے کے بارے میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی ( دامت برکاتہ) کے بیانات


اس آیت میں جو کلمہ فتنہ ذکر ہوا ہے اس کی وضاحت فرمائيں؟

اس بارے میں میں آيات جھاد  کے بحث  میں تفصیلا گفتگو کی ہے  کہ کلمہ «فتنه» نہ شکنجہ کرنے کے معنی میں ہے اور نہ ہی کفار کا مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے کے  معنی میں ہے ،رشید رضا نے اپنی کتاب تفسیر المنار میں فتنہ کو کفار کا مسلمانوں کے خلاف سازش کرنا بتایا ہے ، اور افسوس کی بات ہے کہ یہ فکر حوزہ کے طلاب کے ذہن میں بھی رسوخ پیدا کر چکا ہے اور ان کا نظریہ بھی یہی ہے ، در حالیکہ قرآن کریم کی آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اس آیت میں فتنہ شرک کے معنی میں ہے ۔

مثلا خداوند تبارک و تعالی کچھ آیات میں فرماتا ہے کہ کفار تم لوگوں کو فتنہ کی طرف لے جانے کے بارے میں اصرار رکھتا ہے یعنی تم لوگوں کو شرک کی طرف لے جانا چاہتا ہے ۔

بعض آيات میں اس طرح واضح طور پر بیان ہوا ہے ، اور ان آیات کے ذیل میں معتبر روایات بھی موجود ہے جن سے تائید ہوتی ہے کہ فتنہ سے مراد شرک ہے ،یعنی جھاد ابتدائی کا اصلی ہدف   اور مقصد دنیا سے کفر اور شرک کو ختم کرنا ہے ، اسی طرح سورہ نساء کی آیت 91 میں فرماتا ہے : «ستجدون آخرين يريدون ان يامنوکم و يامنو قومهم کل ما ردوا الی الفتنه.» یہاں پر بھی فتنہ شرک کے معنی میں ہے ۔


پس جن آيات کو آپ نے بیان کیا ہے ان کے مطابق جھاد ابتدائی ایک واجب امر ہے ؟

جی ہاں! یہ آیات بہت ہی واضح طور پر جھاد ابتدائي کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے ، یہ بھی میں نے آيات جھاد میں بیان کیا ہے کہ بعض نے آيہ شریفہ «و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم»کو دوسرے آيات کے لئے قید قرار دیا ہے ، صحیح بات ہے کہ یہ قید یہاں پر ہے لیکن جب ہم نے یہ قبول کر لیا کہ یہ آیات تدریجی نازل ہوئی ہیں تو اسے بھی قبول کرنا پڑھے گا کہ بعد والے مراحل پہلے مرحلہ سے فرق رکھتا ہے ۔

مثلا خداوند بعد میں فرماتا ہے : «وقاتلوا المشرکين کافه». یعنی وہ  آپ سے جنگ لڑے یا نہ لڑے ان سب کو مار ڈالو ، پس یہ قید ان مراحل کے لئے نہیں ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس بات کو بھی میں نے اپنی جگہ پر ثابت کیا ہےکہ «الذين يقاتلون» میں قید احترازی کا عنوان نہیں ہے بلکہ کفار پہلے سے ہی مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی فکر میں تھے ، قرآن فرماتا ہے : «لا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم». لہذا یہ  «الذین یقاتلونکم» قید نہیں ہے ، اصولی اصطلاح کے مطابق ہمارے پاس ایک وصف غالبی ہے یعنی کفار ایسے افراد ہیں جن کی خصوصیت یہ ہے کہ «لا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم».۔

قرآن کریم کی جھاد کے بارے میں کچھ آیات یہی سورہ بقرہ، سورہ توبہ، سورہ نساء اور سورہ انفال کی آیات ہیں کہ بیان ہوا ،بہت زیادہ آیات ہیں ، ان میں جنگ اور قتال کا حکم ہوا ہے  ، ان آیات سے بخوبی استفادہ ہوتا ہےکہ اسلام میں جھاد ابتدائي ہے بلکہ واجب ہوا ہے ، ان آیات کے مقابلہ میں کچھ دوسری آیات ہیں ، منجملہ سورہ نساء کی آیات 90 اور 91 کہ خداوند تعالی فرماتا ہے : «فان اعتزلوکم فلم يقاتلوکم و القوا اليکم السلم». مشہور یہ بتاتے ہیں کہ سلم کا معنی صلح ہے ، پس آيت میں یہ فرماتا ہے کہ اگر کفار تم سے کوئی  شیطنت نہ کرے اور جنگ نہ لڑے اور صلح کی پرچم کو اوپر کرے۔۔۔۔ کہ آخر میں فرماتا ہے : «فما جعل الله لکم عليهم سبيلا»یعنی آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ ان سے کوئی  لڑائی کرے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ جھاد ابتدائی کے بارے میں اہل سنت  شیعہ کی نسبت بہت زیادہ قائل ہیں ، یہ بھی بتاوں کہ  جھاد ابتدائی کے بارے میں ہمارے فقہاء کا مشہور نظریہ یہ ہے  کہ ایک امام معصوم کی موجودگی میں ہونا چاہئے ، لیکن اہل سنت اس شرط کے بھی قائل نہیں ہیں ، کہتے ہیں کہ اگر ایک فاسق انسان حاکم ہو اور وہ جھاد ابتدائی شروع کرے تو ہمیں بھی شروع کرنا چاہئے ، اور دوسری طرف سے اہل سنت نے یہ بھی بتائے ہیں کہ بعض آیات ، آیات جھاد کے ذریعہ نسخ ہوئی ہیں ، وہ لوگ بہت ساری آیات جھاد میں مسئلہ نسخ کو بیان کرتے ہیں ، مثلا کہتے ہیں آیہ فان اعتزلوکم»اوایل اسلام کے لئے ہے کہ اگر کفار اس آیت پر عمل کرے : «القوا اليکم السلم فما جعل الله لکم عليهم سبيلا».

لیکن  قرآن میں نسخ کا مسئلہ فقہای شیعہ کے ہاں کبروی اور صغروی دونوں لحاظ سے مورد بحث و گفتگو ہے ، کبروی لحاظ سے نسخ قرآن ، قرآن کے ذریعہ صحیح ہے لیکن صغروی لحاظ سے مرحوم آقای خوئی نے کتاب البیان میں تقریبا 36 مورد کو گن کر بتایا ہے کہ اہل سنت ان موارد میں نسخ کے قائل ہیں ،بعد میں ان سب کا جواب دیا ہے ، جہاں تک مجھے یاد ہے ان میں سے ایک دو مورد کو قبول کر لیتے ہیں ،حتی کہ  خاص کر اس آیت کے بارے میں ایک  بہت ہی مفید مطلب کو بیان کرتے ہیں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ آیات کفار اور مشرکین سے جھاد ابتدائی کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے ، کیا یہ آیت یہ نہیں بتاتی ہے کہ اگر انہوں نے تم سے صلح کیا تو اس کے بعد پھر ان سے جنگ لڑنے کا حق حاصل نہیں ہے ؟ جواب یہ ہے کہ سورہ نساء کی آيت 90 مشرکین کے بارے میں نہیں ہے ، اس آیت میں کچھ ایسی نشانیاں ہیں کہ جو منافقین میں سے مرتد لوگوں کے بارے میں ہے ، یعنی ایک گروہ جو اسلام لے آتے اور اس کے بعد اسلام سے خارج ہو جاتے ، خداوند متعال نے اس مسئلہ کو بیان فرمایا ہے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ «القوا الیکم السلم»میں« السلم» صلح کے معنی میں نہیں ہے  بلکہ یہ اسلام کے معنی میں ہے ،یہاں پر اس بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کی فرصت نہیں ہے ، اگر کوئی ما قبل آیات کی سیاق و سباق پر نظر کریں تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ آیہ کریمہ مرتدیں کے بارےمیں ہے ، جن آیات سے مرتد کے واجب القتل ہونا ثابت  ہیں ان میں  سے ایک آیت یہی آیت ہے ، بعض کہتے ہیں ہمارے پاس مرتد کے قتل واجب ہونے کے بارے میں کوئي دلیل نہیں ہے ، ان افراد کو جان لینا چاہئے کہ اس مسئلہ پر دلالت کرنی والی آیات میں سے ایک یہی آیت ہے ۔


کیا یہ مرتد کی دونوں قسموں یعنی مرتد فطری اور ملی دونوں کو شامل ہے ؟

اس بارےمیں بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ، میں نے اپنی کتا ب جو کہ ابھی تک چھپ نہیں چکی ہے اس بارے میں تفصیلا بحث و گفتگو کی ہے ۔

کیا آپ کی نظر میں جھاد ایک قسم کی عقیدہ کو کسی پر ٹھونسنا نہیں ہے اور کیا یہ آیہ «لا إکراه فی الدين» سے تعارض نہیں ہے ؟

بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے ،کیونکہ ممکن ہے کوئی یہ بولے کہ جھاد ابتدائی میں یہ بولا جاتا ہے کہ یا مجبور کر کے ایمان لائیں یا مر جائیں ، اس جھاد ابتدائی کی ایک طرف اجبار کرنا اور اپنے عقیدہ کو ٹھونسنا ہے ، در حالیکہ قرآن فرماتا ہے: «لا اکراه فی الدین قد تبین الرشد من الغی». (سورہ بقرہ آیہ 253)پس یہ آیت جھاد ابتدائی کے بارے میں موجود آیات سے نہیں ملتی۔

اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ «لا اکراه فی الدين » کے بارے میں ایک بحث یہ ہے کہ یہ جملہ ، جملہ خبری ہے یا جملہ انشائی، میری نظر میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جملہ ، جملہ انشائی نہیں ہے کہ دوسری ان  آیات کے مقابلہ میں ہوں جن میں جھاد انشاء ہوا ہے ، یہ جملہ  انشائی نہیں ہے ، اور یہ بیان کرنا نہیں چاہتا ہے کہ میں یہ انشاء کر رہا ہوں  «لايجوز الإکراه فی الدين»، ، بلکہ یہ جملہ خبری ہے ، جب جملہ خبری ہو یعنی دین میں کوئی اکراہ نہیں ہے ، کیوں؟ کیونکہ یہ دین پورے کا پورا لوگوں کی نفع اور مصلحت کے لئے ہے، اور جس چیز میں لوگوں کی فائدہ ہوں اس میں کوئی کراہت نہیں ہوتی ، پس یہ جملہ ایک جملہ خبری ہے ، اس جملہ کی طرح «لارَفَثَ ولافُسُوقَ ولاجِدالَ فی الحَجِّ»  نہیں ہے  کہ یہ انشائی جملہ ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ«الدین»میں الف اور لام ، الف لام عہد ہے ،جو لوگ اس آیت سے استدلال کر  کے کہتے کہ انسان دین کے انتخاب کرنے میں آزاد ہیں ان کو چاہئے کہ «الدین»میں الف اور لام کو جنس لینا چاہئے ، یہ بولے کہ خدانے فرمایا ہے جو بھی دین ہو «لااکراه» یعنی تم آزاد ہو جو بھی دین اختیار کرنا چاہتے ہو کر لو ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جملہ خبری ہونے کے علاوہ «الدین»میں جو الف و لام ہے وہ الف لام عہد ہے ، یعنی دین اسلام میں ، آلوسی کہتا ہے :  الاکراه فی الحقیقة إلزام الغیر فعلاً لایری فیه خیراوالدین خیر کله» یہ بہت ہی مہم مطلب ہے ، اگر اس آیت کو انشائی دینے سے نکال لیں ، اور ہم اصولیوں کے اصطلاح کے مطابق یہ آیت آیات جھاد سے معارضہ کی قابلیت نہیں رکھتی، ایک اور مطلب یہ ہے مرحوم آقای طباطبائی فرماتے ہیں: دین ایک قلبی امر ہے اور امور قلبیہ اکراہ کا متعلق واقع نہیں ہوتا ، یہ بھی ایک اچھا بیان ہے ، لیکن آیت میں مزید فرماتا ہے : «قد تبین الرشد من الغی». یعنی خدا یہاں پر یہ فرمانا نہیں چاہتا کہ دین قابلیت اکراہ نہیں ہے ؛ فرماتا ہے: یعنی ہم نے  گمراہی کو  ہدایت سے جدا کر دی ہے ، لہذا اس آيت سے بھی ہم کوئی خاص مطلب نہیں نکال سکتے ، اب کچھ روشن فکر لوگ چاہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے تمسک کر تے تا کہ یہ بولے انسان مختار ہے جس دین کو بھی چاہئے وہ انتخاب کر سکتا ہے ، یہ اس وجہ سے ہے کہ اس نے آیت کو صحیح طرح سمجھا نہیں ہے ، پس قرآن کریم میں جھاد ابتدائی کے بارے میں بہت ساری آيات ہیں ان آیات سے جھاد ابتدائی کے مشروع ہونے بلکہ جھاد ابتدائی کے واجب ہونے کو استفادہ کر سکتے ہیں ، اور کوئی ایسی آیت بھی نہیں ہے کہ جو اس آیت کو نسخ کرے یا مقید کرے یا اس آیت سے معارضہ کرے ، میں  جھاد ابتدائي کے بارے میں موجود آیات کو پچاس درس میں بیان کر چکا ہوں ، اور یہاں پر بہت ہی خلاصہ بیان کر رہا ہوں ، ان شاء اللہ محققین اس بارے میں کامل طور پر ان دوروس کو ملاحظہ فرمائيں گے ۔

 جھاد ابتدائی کے بارے میں جو اجازت دی گئی ہے اس بارے میں ہمارے قارئین کے لئے کچھ نکات بیان فرمائیں۔

جھاد دفاعی کے بارے میں ایک اور مطلب جو کہ قابل توجہ ہے وہ امام باقر علیہ السلام سے منقول ایک روایت صحیحہ ہے  کہ کتاب کافی کی جلد 8 صفحہ 201 پر موجود ہے ، علی بن ابراهیم عن ابیه عن ابن ابی عمیر عن عمر بن اذینه عن محمد بن مسلم ،محمد بن مسلم کہتا ہے :میں نے آیہ کریمہ«وَ قاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ يَكُونَ الدِّينُ لِلَّه‏» کے بارے میں امام باقر علیہ السلام سے سوال  کیا ، محمد بن مسلم ایک فقیہ ہے ، اس کے لفظی معانی کے بارےمیں تو کوئی سوال نہیں کیا ہے ، چونکہ کوئی کلمہ ان کے لئے مجھول نہیں تھا ، «قاتلوهم»، «لاتکون فتنه» اور «یکون دین الله» کا معنی تو اس کے  لئے واضح تھا ، پس انھوں نے کیا سوال کیا ہے ؟میرے خیال میں محمد بن مسلم کا سوال اس بارے میں تھا کہ کیا یہ آيہ کریمہ ابھی جھاد ابتدائی کو ہمارے اوپراور آيندہ آنے والوں پر واجب کرتا ہے یا نہیں؟ امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: «لَمْ يَجِئْ تَأْوِيلُ هَذِهِ الْآيَةِ بَعْد»؛یعنی اس آیت کی تاویل ابھی نہیں آئی ہے ۔

یہاں پر چند احتمالات ہیں ،ایک احتمال یہ ہے کہ حضرت یہ فرمانا چاہتا ہے کہ یہ آيت ابھی مقام انشاء میں ہے اور اس پر عمل کرنے کا وقت حضرت حجت (عجل الله تعالی فرجه الشريف) کے ظہور کا وقت ہے ، میں اسی احتمال کو صحیح سمجھتا ہوں۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ«لم یجیء»  یعنی اس کی کامل طور پر واقع ہونا اور عملی طور پر تحقق پانا ابھی نہیں ہوا ہے صرف ایک محدود حد تک ہے کامل طور پر زمان ظہور میں ہی واقع ہو گا۔

پہلے احتمال کے مطابق ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ان آیات سے وجوب استفادہ ہوتا ہے لیکن خداوند متعالی نے ہمارے پیغمبر اکرم(ص) کو تشریع میں دخالت کا اختیار عطا کیا ہے لہذا اس کی کامل طور پر واقع ہونا ابھی نہیں ہے۔

اسی طرح کی ایک چیز نماز کے بارے میں بھی واقع ہوا ہے ، لہذا امام باقر (ع) آگے فرماتے ہیں : «إِنَّ رَسُولَ اللهِ(ص) رَخَّصَ لَهُمْ لِحَاجَتِهِ وَ حَاجَةِ أَصْحَابِه‏»؛  یعنی پیغمبرا کرم (ص) نے اپنے اور اپنے اصحاب کے لئے جو ضرورت تھی اس کے اقتضاء کے مطابق زمان ظہور تک اس کی اجازت دی ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے : «فَلَوْ قَدْ جَاءَ تَأْوِيلُهَا لَمْ يَقْبَلْ مِنْهُمْ»؛جب اس آیت کی تاویل کا زمانہ واقع ہو گا اور یہ فعلیت کو پہنچے گی تو اس کے بعد کفار اور مشرکین کی کفر اور شرک قبول نہیں ہو گا،اس کے بعدفرماتا ہے:«لَكِنَّهُمْ يُقْتَلُونَ حَتَّى يُوَحَّدَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ وَحَتَّى لَا يَكُونَ شِرْكٌ» ۔

نتیجہ یہ ہے کہ اسلام میں جھاد ابتدائی کی مشروعیت اور خداوند متعالی نے اسے انشائی صورت میں واجب کیا ہے یہ ایک مسلم اور قطعی چیز ہے ، لیکن اس معتبر روایت کے مطابق رسول اکرم(ص) نے ایک قسم کی اجازت دی ہے تا کہ دوسرے مسلمان زمان ظہور تک سختی میں نہ رہے ، اگر مسلمانوں کو یہ اجازت نہ ملتی تو جھاد ابتدائي ایک واجب کے عنوان سے لازم اور ضروری ہوتا ۔

کیا آپ کا جھاد ابتدائی کے بارے میں فقہی نظریہ یہی ہے ؟

جی میرا اس بارے میں میرا فقہی نظریہ یہی ہے ۔

پس آپ کا نظریہ یہ ہے کہ عصر غیبت میں جھاد ابتدائی معطل ہے؟

شرع میں جھاد ابتدائی ہے لیکن واجب نہیں ہے ، اس بارے میں امام معصوم کی اذن کے شرط ہونے کے بارے میں بھی بیان کروں گا۔

ایک اہم مطلب جس سے اکثر لوگ غافل ہیں یہ ہے کہ ہم چاہئے جھاد ابتدائی کے وجوب کا قائل ہوں یا اس کے مشروعیت کا،اسلام یہ نہیں بتاتا کہ جاو کفار کے سر پر تلوار لے کر کھڑے ہو جاو اور ان سے یہ کہو کہ یا اسلام قبول کرو یا مرنے کے لئے تیار ہو جاو، کبھی بھی ایسا نہیں بتاتا، جھاد ابتدائی کے بہت اہم شرایط میں سے ایک اسلام کی طرف دعوت دینا ہے ، یعنی حاکم مسلمین اور علماء اسلام پہلے مرحلہ میں کفار اور مشرکین کو اسلام کی طرف دعوت دیں ، یہ نہ کہا جائے کہ وہ لوگ خود جا کر مطالعہ کریں ، ایسا نہیں ہے بلکہ ہمیں چاہئے کہ جا کر ان سے بولیں کہ وہ اسلام کے بارے میں مطالعہ کریں اور انہیں اس کی دعوت دیں، سورہ توبہ میں ہے :یعنی اگر عین جنگ کے دوران اگر مشرکین میں سے کسی نے آپ کہا کہ مجھے تھوڑی دیر کے لئے پناہ  دے دو تا کہ اس میں آپ مجھ سے اسلام کے بارے میں بات کریں ، تو اس کو پناہ دینا چاہئے اور اسے اپنے پاس لے آئیں اور اسلام کے بارے میں اس سے بات کریں ، اورا س کے بعد بھی اگر اس نے قبول نہیں کیا تو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے اسی جگہ پر نابود کر لے ، بلکہ اسے اپنے چھاونی طرف واپس جانے دو اور اپنے لوگوں کے درمیان جانے دو اس کے بعد دوبارہ اس سے جنگ لڑو۔

اس سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ خود دعوت ہی موضوع ہے ، اگر دعوت کے بعد مشرکین یہ بولے کہ ہمیں دس بیس سال اسلام کے بارے میں مطالعہ کرنے کا وقت درکار ہے ہمیں اسلام کے بارے میں سوال اور شبھات ہے ، تو اس صورت میں انہیں مہلت دے دینی چاہئے ،یہ بھی ایک اہم مطلب ہے کہ جھاد ابتدائی سے پہلے اسلام کی طرف دعوت دینی چاہئے ،یہ اس بات کے علاوہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی 13 سالوں میں جنگ نہیں تھی ، اس بارے میں بہت ہی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

یہاں پر میں یہ بھی واضح کر لوں کہ ہم نے اسی مرکز فقہی میں فقہ الدعوۃ کے نام سے ایک موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں ، ایک محقق کو اس بارے میں ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اس دعوت کے بارے میں اور اس کے شرائط ، اور خصوصیات کے بارے میں تحقیق کریں، فقہ الدعوۃ کے بارے میں بحث و گفتگو ہونی چاہئے ، اس کے بعد جھاد کی باتیں ہو جائے۔


آپ جھاد ابتدائی کے اھداف کے بارے میں کچھ مطالب بیان کریں ! اس جھاد کے اھداف کیا ہیں؟

ان تمام مطالب سے مہم اس جھاد ابتدائی کے اھداف ہے ، بہت لوگ اس بارے میں غور و فکر نہیں کرتے  ہیں، اس جھاد کا ہدف کیا کسی ملک کو فتح کر کے مسلمان ممالک میں وسعت لانا ہے ؟ کبھی بھی ایسا نہیں ہے ، ایسی بات کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے ،جھاد ابتدائي کے اھداف میں سے ایک فتنہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے ، اور یہ بیان ہو ا کہ فتنہ کا معنی شرک ہے ، چونکہ اسلام نے تمام معجزات ، دلائل اور حجتوں کو لایا ہے اس کے بعد کسی کے مشرک باقی رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔

یعنی ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو بھی اسلام کے بارے میں صحیح مطالعہ کرے ، یقینا وہ سر تسلیم خم ہو گا ، اسلام یہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی مشرک نہ ہو ، اور کوئی انسان اپنی عمر کے آخر تک مشرک باقی نہ رہے ، اسی لئے فرماتا ہے : «حتی لاتکون فتنة و یکون الدین لله»؛ اسلام یہ چاہتا ہے کہ سب انسان اسلام کی حاکمیت کے زیر سایہ واقع ہو جائے ، یہ دوسرا ہدف ہے ۔

اس وقت دنیا میں جو کافر حکومتیں قائم ہیں دیکھو انھوں نے دنیا میں کتنے مشکلات پیدا کیے ہیں اور پیدا کر رہے ہیں۔

تیسرا ہدف توحید مراکز کو زندہ کرنا ہے ، قرآن فرماتا ہے : «وَ لَوْ لا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ وَ بِيَعٌ وَ صَلَواتٌ وَ مَساجِدُ يُذْكَرُ فيهَا اسْمُ اللهِ كَثيراً».  ۔

چوتھا ہدف عزت اسلام ہے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خطبہ میں ہے آپ فرماتی ہے: «الجهادُ عِزّاً للاسلام.»میری نظر میں یہ مطلب بہت ہی قابل توجہ ہے ،سورہ نساء کی آیت 75 میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے ،اسلام نے انسان کی حقوق کی طرف توجہ دی ہے ، اسلام کہتا ہے جو لوگ مشرک ہیں ان کی نسل اور بچے مشرک پیدا ہوتے ہیں ، ان کو مستضعفین سے تعبیر فرمایا ہے ۔

جھاد ابتدائي کے اھداف میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان یہ بتائے کہ اگر خود مشرکین مسلمان نہیں ہوتے ہیں تو کم از کم ان کے بچے اور عورتیں اس حالت شرک سے نکل جائیں۔

قرآن فرماتا ہے : «وَ ما لَكُمْ لا تُقاتِلُونَ في‏ سَبيلِ اللهِ وَ الْمُسْتَضْعَفينَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّساءِ وَ الْوِلْدانِ الَّذينَ يَقُولُونَ رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْ هذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُها وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ نَصيرا»کیا یہ ایک مقدس ہدف اور مقصد نہیں ہے ۔

میں یہاں پر مرحوم علامہ طباطبائی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے ایک بات کی طرف اشارہ کرنے کو مناسب سمجھتا ہوں،انھوں نے اپنی تفسیر میں جھاد ابتدائي کے بارے میں پانچ مطالب اور نکات کو بیان کیا ہے ، محققین سے تقاضا ہے جائيں ان نکات کو پڑھ لیں ، میں صرف ان نکات کی طرف ایک اشارہ کرتا ہوں۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو فطرت کے مطابق ہے ، اور بشر یت کی سعادت اور خوشبختی اسی میں ہے کہ وہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہو جائے ، «ذلک الدّینُ القَیِّم»؛ قیم یعنی دنیا اور آخرت کا قوام ، ہماری دنیا اور آخرت کی ساری سعادت اور خوشبختی اسلام سے وابستہ ہے ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بہت ہی عمدہ مطلب ہے ، دین توحید کا اقامہ کرنا حقوق انسانی میں سے ہے ، آجکل دنیا میں حقوق بشر کے بارے میں بہت زیادہ نعرہ بلند کرتے ہیں ، ہم ان سے یہی سوال کریں گے کہ کیا دین توحید کو اقامہ کرنا اور اسے عملی کرنا حقوق انسانی میں سے نہیں ہے ؟ سورہ شوری کی آیت 13 میں فرماتا ہے :

«شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً وَ الَّذي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ وَ ما وَصَّيْنا بِهِ إِبْراهيمَ وَ مُوسى‏ وَ عيسى‏ أَنْ أَقيمُوا الدِّينَ وَ لا تَتَفَرَّقُوا فيهِ».: میں نے اس «أن أقیموا الدین»سے  ایک اور جگہ پر بھی استفادہ کیا ہے ۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ دین کی دفاع کرنا ہماری فطری حقوق میں سے ہے ۔

چوتھا مطلب جو کہ بہت ہی زیادہ مہم ہے یہ ہے کہ علماء شیعہ اور اہل سنت علماء کے نظر میں   جو جھاد اسلام مشروع ہوا ہے وہ اس طرح کی جھاد نہیں ہے جو آجکل داعش نے خونریزی کے لئے اپنایا ہوا ہے ، بنیادی طور پر جس جھاد کو داعش  نے اپنایا ہے وہ جھاد شیعہ اور اہل سنت علماء کے اعتقاد میں جو جھاد ہے اس  کے بالکل مقابل میں  ہے ، بلکہ اسلام میں جھاد بشریت کی حیات کے لئے ہے ، خداوند متعال سورہ انفال کی آیت 24 میں فرماتا ہے : «يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اسْتَجيبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْييكُم‏»؛ یعنی خدا اور اس کے رسول نے جو بھی بیان کیا ہے وہ تمھاری حیات  کے لئے ہے ، اگر خدا نے فرمایا ہے : : «يا أَيُّهَا النَّبِيُّ جاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنافِقينَ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِم‏»، تو یہ بشریت کی حیات کے لئے ہے ۔

پس جس جھاد کو اسلام بیان کرتا ہے وہ  خونریزی اور مختلف ممالک پر قبضہ جمانے کے لئے نہیں ہے ، اسلام کم سے کم خونریزی کے لئے کوشش کرتا ہے ،بلکہ اسلام میں جھاد بشریت کی حیات کے لئے ہے۔

پانچوان مطلب یہ ہے کہ علامہ فرماتے ہیں : «وَعَدَ اللهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِم‏»،  آیہ کریمہ جو کہ حضرت مھدی اور خلیفہ الھی کے خلافت کے بارے میں ہے ، یہ ممکن نہیں ہے مگر جھاد اور دشمنان دین الھی سے قتال کے بغیر۔

البتہ دوسرے بہت سارے مطالب موجود ہیں ، بہر حال اگر ہم جھاد کی مشروعیت اور وجوب کا قائل ہو جائے تو اس کی تمام خصوصیات کو بھی مد نظر رکھنی چاہئے اور یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں جھاد ابتدائی کے اھداف اور شرائط کیا ہیں،  یہاں پر اصل کام دعوت کرنا ہے ، اگر کوئی مشرک تحقیق کرنا چاہئے تو اسے امان ملنا چاہئے ۔

یہ سارے شرائط ہیں اور وہ روایت جسے ہم نے کتاب کافی سے نقل کیا ہے وہ بھی مھم ہے ۔


جھاد ابتدائی کے امام معصوم (علیہ السلام) کے زمان حضور اور ان کے اذن کے ساتھ ہونے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

امام (رضوان الله تعالی علیه) نے  اپنی کتاب تحریر الوسیلہ میں کتاب الجھاد کو بیان نہیں کیا ہے ، اور ان کے فتواوں کے ظاہر سے جو چیز واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ  آپ جھاد ابتدائی کو امام معصوم علیہ السلام کے اذن سے مشروط سمجھتے تھے، یہ ایک مفصل فقہی بحث ہے۔

بعض یہ سوچتے ہیں کہ یہ مسئلہ اجماعی ہے اور کہتے ہیں چونکہ ہمارے سارے فقہاء جھاد ابتدائي کے لئے حضور امام معصوم کو شرط جانتے ہیں شاید اسی وجہ سے امام (رضوان الله تعالی علیه) کا نظریہ بھی ایسا ہے ۔

لیکن میں یہ بتاوں کہ  یہ مسئلہ ایک اجماعی مسئلہ نہیں ہے ، جب ہم  شیخ مفید ، ابو الصلاح حلبی اور سلار جیسے  فقہاء کے اقوال کی طرف مراجعہ کرتے ہیں تومعلوم ہوتا ہےکہ ان کے نظر میں جھاد ابتدائی کے لئے امام معصوم کا زمان حضور اور ان کے اذن کوئی دخالت نہیں رکھتا ،مشہور فقہاء جیسے شیخ طوسی ، ابن براج، ابن حمزہ، ابن ادریس ، محقق اپنی کتاب شرایع میں ، علامہ حلی کی تمام کتابوں میں، فخر المحققین اور شہید ثانی سے لے کے متاخرین تک سب کہتے ہیں جھاد ابتدائی کے لئے اذن معصوم شرط ہے ، لیکن قدما میں سے جن چند افراد کو بیان کیا وہ کہتے ہيں کہ ایسی کوئي شرط نہیں ہے ، لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ جھاد کے بارے میں جوقرآن کریم کی آیات ہیں وہ مطلق ہیں، یہ بہت ہی مہم مطلب ہے اس کے بارے میں توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے پاس دو قسم کی روایات ہیں ، کچھ روایات میں معصوم  علیہ السلام کی اذن کو شرط بتاتے ہیں ، اور دوسری قسم کی روایات میں  معصوم علیہ السلام کی اجازت کو شرط نہیں بتایا ہے ، ان دونوں قسم کی روایات میں جمع بھی ممکن ہے ، یہ بھی بہت ہی دقیق مطالب میں سے ہے ، چونکہ جھاد کے مسئلہ میں لوگوں کے خون بہانا ، غنائم اور اسیر کرنا وغیرہ ہے لہذا بہت ہی  باریک بینی سے جانچنے کی ضرورت ہے ۔

میں یہ بتاوں گا کہ جن روایات میں حضور معصوم کو شرط قرار دیا گیا ہے ، یہ شرط اس لئے نہیں ہے کہ چونکہ معصوم کے پاس مقام عصمت ہے تو یہ سبب ہوتا کہ اس میں یہ نقصانات نہ ہوں ، بلکہ یہ شرط یہ اس لئے ہے کہ ان کو سب چیز یں معلوم ہے اور تمام احکام کی رعایت کرتے ہیں ، باب جھاد میں کچھ روایات ہیں کہ جن میں یہ بیان ہوا ہےکہ عورتوں ، بچوں او ربوڑھوں کو قتل نہیں کر سکتے ، میری کوتاہ ذہن میں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ جن روایات سے حضور معصوم  (علیه السلام) کا شرط استفادہ ہوتا ہے ان کی دلیل ، مقام عصمت نہیں ہے ، بلکہ معصوم عليه السلام کا احکام الھی کا پایبند  ہونا اور احکام کی رعایت کرنا ہے ۔

حتی کہ میں یہاں پر ایک مطلب کو بیان کرتا ہوں کہ اہل تحقیق جا کر اس بارے میں تحقیق و جستجو کریں ، اس وقت جن کلمات کے بارے میں تحقیق کرنی چاہئے ان میں سے ایک کلمہ " امام عدل" ہے ،روایات میں ہے : «لا جهاد الا مع امام عادل».  کیا  امام عدل کا مصداق صرف امام معصوم (علیه السلام) ہے ، یا وہ حاکم اسلامی جو احکام کی رعایت کرتا ہے  وہ بھی اس کے مصادیق میں سے ہے ؟روایات میں غور و فکر کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جن روایات میں امام عدل کی بات ہوئی ہے ،ان میں احکام کی رعایت ضروری ہے۔

اس بارے میں آپ کا فقہی نظریہ کیا ہے ؟

میرا نظریہ یہ ہے کہ جھاد ابتدئی میں اذن معصوم (علیه السلام) شرط نہیں ہے ، مرحوم آقای خوئی(قدس سره)  کا نظریہ بھی یہی ہے حتی کہ صاحب جواہر کی بعض عبارات سے یہی استفادہ ہوتا ہےکہ نیابت کے دلائل عمومی ہے ، میرا نظر بھی یہی ہے کہ حضور معصوم (علیه السلام) شرط نہیں ہے ۔

ہمارے پاس دو قسم کی روایات ہیں ، بالفرض ہم یہ بتائيں کہ امام عدل صرف امام معصوم (علیه السلام) سے ہی منحصر ہے ، وہ روایات جن میں حضور معصو م کو شرط نہیں گردانا ہے وہ قرآن کے موافق ہیں، کیونکہ اس بارے میں قرآن  کا بیان مطلق ہے ، قرآن کریم کی آیات اس پر دلالت نہیں کرتی کہ امام معصوم  (علیه السلام) کا ہونا ضروری ہے  ، ہمارے پاس آیات کی اطلاق اور ادلہ نیابت جو کہ اپنے مناسب مقام پر بیان ہوئے ہیں ، روایات کی بھی دوقسمیں ہیں، ایک قسم وہ روایات ہیں جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ امام جو مفترض الطاعۃ ہے ان کا حضور ضروری ہے ، کہتے ہیں : «لا جهاد الا مع الامام». وہ روایات جو مشہور کے مستندقرار پائے ہیں جن کے مطابق وہ بتاتے ہیں حضور اور اذن معصوم شرط ہے  ان میں تعابیر کچھ یوں ہے : «الامام المفترض الطاعة»، «لا جهاد إلا مع الامام» و «لا غزو إلا مع امام عادل» یہ تین تعابیر موجود ہیں۔

لیکن وہ روایت جو امام معصوم کے ہونے کو شرط نہیں جانتے وہ ایک موثق روایت ہے کہ کتاب کافی میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے ، عباد بصری امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا:آقا ! آپ نے جھاد اور جھاد کی سختیوں  کو چھوڑ دیا اور حج پر چلے گئے ،مگر خداوند متعال نے قرآن میں نہیں فرمایا ہے«إن الله اشتری من المومنین أنفسهم و أموالهم بان لهم الجنة یقاتلون فی سبیل الله فیقتلون و یقتلون وعدا علیه حقا فی التوراة و الانجیل و القرآن و من أوفی بعهده من الله». (توبہ :111)امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کے بعد کوبھی پڑھ لو : «التائبون العابدون الحامدون السائحون الراکعون الساجدون الآمرون بالمعروف و الناهون عن المنکر.» امام نے فرمایا : اگر کسی زمانے میں ان صفات کے حامل افراد کو پیدا کیا تو ان کے ساتھ مل کر جھاد کرنا حج سے زیادہ بہتر ہے ۔

اس روایت سے یہی استفادہ ہوتا ہےکہ ایک امام ہونا چاہئے تا کہ ایسے افراد ان کے ارد گرد جمع ہو جائے تا کہ قواعد و ضوابط کو برقرار کرے، اس وقت جب دشمنان اسلام سے جنگ لڑنا چاہو گے تو ہواپرستی ، غضب، دشمنی اور کینہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلام کے لئے جھاد لڑے گا ۔

یہ فقہی گفتگو فقہ الحدیث میں مفصل طور پر موجود ہے ، میری نظر میں یہ دوقسم کی روایات قابل جمع ہیں ، اور ان کا جمع بھی یہ ہے کہ جھاد ابتدائی کے مانٹرین کرنے کے لئے ایک ایسا شخص ہونا چاہئے جو احکام اسلام کو جانتا ہو اور جنگ کے تمام قواعد و ضوابط کی رعایت کرے ، یعنی امام علیہ السلام کی مقام عصمت اس میں کوئی دخل انداز نہیں ہے ۔


 اس وقت جعرافیایی لحاظ سے کچھ باڈر ہیں اور دنیا پہلے کے دنیا سے فرق ہوا ہے اس وقت جھاد  کے کیا احکام ہیں ؟ حضرت امام نے فرمایا تھا  ہم کسی بھی جنگ کے آغاز کرنے والے نہیں ہے ، کیا ہم اس وقت شام کے مسائل میں دخل اندازی کر رہے ہیں ؟

سورہ توبہ کی آیات میں خداوند متعالی رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم)سے فرماتا ہے جن مشرکین سے عہد و پیمان کیا ہے اور وہ اپنے عہد و پیمان پر قائم ہیں اور عہد کو نہیں توڑا ہے ، ان سے کیے ہوئے عہد پر باقی رہو، اس سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ اگر اسلامی حکومت نے اپنے ہمسایہ ممالک  اور دوسرے ممالک سے عہد و پیمان کیا ہو ا ہے کہ ایک دوسرے پر تجاوز نہیں کریں گے تو اس عہد پر باقی رہنا چاہئے اور اس عہد کی رعایت کرنی چاہئے ، اگر کوئی جھاد ابتدائی کے واجب ہونے کا قائل ہو حتی کہ زمان غیبت میں ،تو یہ سوال پیش آتا ہے کہ ایران کے مسلمان کس طرح دنیا کے اس طرف کے کفار اور مشرکین سے جنگ لڑیں گے؟

جو افراد جھاد ابتدائی کے واجب ہونے کا قائل ہیں ان اس پر ایک مطلب کو اضافہ کرنا چاہئے کہ اگر کوئی اسلامی ملک ، حتی کہ اس کی حکومت اسلامی بھی نہ ہو ، اور کسی حکومت کے ساتھ عہد و پیمان کرے تو اسی عہد و پیمان کے مطابق کام کرنا چاہئے اوردونوں کو ایک دوسرے کی طرف تجاوز کرنے کا حق نہیں ہے ،

اس وقت اسرائیل اور صہیونزم سے مقابلہ کرنا جھاد ابتدائي اور داعش سے مقابلہ سے کوئی ربط نہیں رکھتا، ایران اس وقت اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اگر داعش کو ابھی جہاں پر ہے وہاں پر روکا  نہ جائے تو ایران تک آجائے گا، تو یہ جھاد دفاعی کے مصادیق میں سے ہے اور ایران اپنے دفاع کرنے کے لئے داعش سے جنگ لڑ رہا ہے ،جب اسرائيل نیل تا فرات کا نعرہ لگا سکتا ہے تو ایران بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے دفاع کے لئے حزب اللہ اور فلسطین کی مدد کرنے کے لئے آتا ہوں ، یہ چیزیں جھاد ابتدائي سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے ۔


حرف آخر

میری خواہش ہے کہ لوگ اس بحث کو بہت ہی دقت سے پڑھیں ، انقلاب اسلامی ایران سے پہلے " جھاد در اسلام" کے نام سے ایک کتاب لکھی گئی تھی ، اس کتاب میں تمام مفسرین اور فقہاء کے اقوال پر اشکال کیا گیا اور آخر میں یہ نتیجہ لیا گیا کہ ہمارے پاس جھاد ابتدائی کے نام سے کئی چیز ہے ہی نہیں ہے ، در حالیکہ اگر کوئی قرآن کی ابتدائی معلومات ہی رکھتا ہو اور اجتھادی اور اصولی قواعد و ضوابط اس کے ہاتھ میں ہو اور کوئی تعصب وغیرہ نہ ہو تو وہ بخوبی جھاد ابتدائی کے ہونے  کو قرآن کریم کی آیات سے استفادہ کر سکتا ہے ۔

فقہ میں بیا ن کیا جاتا ہے : «فریضة من فرائض»ہے  بعض کہتے ہیں کہ جھاد ابتدائی ارکان اسلام میں سے ہے ، میرے خیال میں شہید ثانی فرماتا ہے : «من أعظم ارکان الاسلام» حتی کہ بعض نے  اس کے مرتبہ کو اتنا اوپر لے گیا ہے کہ بتائے ہیں ، جھاد ابتدائی کے واجب ہونے کا مسئلہ یا اس کی مشروعیت دین کی ضروریات میں سے ہے ، صاحب جواہر فرماتا ہے : «لا خلاف بین المسلمین، وجوبه کالضروری».

ان سب کے باوجودکیا ہم یہ بولیں کہ یہ سب باتیں ہیں ، ہمارے پاس جھاد ابتدائی کے نام سے کوئی چیز ہے ہی نہیں ہے ؟اور قرآن کریم میں جھاد کے بارے میں جتنی آیات ہیں ان سب کو جھاد دفاعی کے لئے بتائیں ؟ میرے خیال میں یہ سب ایک غلط فکر ہے ۔


کیا اس میں مرنے والے شہید ہیں ؟ مثلا جو افراد اس وقت شام میں مارے جاتے ہیں کیا یہ شہید ہیں ؟

جی ہاں! یقینا شہید ہیں، قرآن کریم کی آیات اس پر دلالت کرتی ہے ، ان مرنے والوں کے شہید ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے ۔


کیا اس طرح کے کام انٹرنیشنل  قوانین کے خلاف ورزی نہیں ہے ؟کچھ حد تک ان قوانین سے تعارض پیدا نہیں کرتا؟

اس وقت بیرون ممالک نے ان قوانین کا کچومر نکال دیا ہے ، آمریکا دنیا کے اس کونے سے اٹھ کر دنیا کے اس کونے میں ایشیا میں آتا ہے ، اور سعودی عرب و قطر کو شام اور عراق کو ختم کرنے کے لئے تربیت دیتا ہے ، اس طرح انٹرنیشنل قوانین کو ختم کر دیا ہے ، قرآن کریم بھی یہی فرماتا ہے کہ جب بھی مشرکین اور کفار اپنے عھد و پیمان کو ختم کر لے تو تم بھی ان عہد و پیمان کو ختم کر لو۔

 

برچسب ها :