خاندان کے معنوی سلامت کے عنوان سے منعقد سمینار میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) کا خطاب94/10/24

24 November 2024

05:01

۲,۱۳۹

خبر کا خلاصہ :
سلامت نفس کیا ہے کہ اس بارے میں انسان یقین تک جب پہنچے گا جب وہ خود اعتدال نفس تک پہنچ جائے ، جب تک انسان خود اس اعتدال تک نہیں پہنچے وہ سلامت کے بارے میں اظہار نظر نہیں کرسکتا
آخرین رویداد ها
بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين و صلّي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين و لعنة الله علي أعدائهم اجمعين من الآن إلي قيام يوم الدين
"سلامت معنوی "ایک اہم موضوع ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں بہت پہلے اس بارے میں بحث و گفتگو ہونی چاہئے تھی ۔
ہمارا موضوع گفتگو " خاندان میں معنوی سلامت کی اہمیت " ہے ، ہم یہاں پر دوسرے عناوین اور تعاریف  کو چھوڑ دیتے ہیں ، کہ سلامت کیا ہے ؟ سلامت معنوی اور اخلاق کے درمیان کیا رابطہ ہے؟ سلامت معنوی اور نفسانی امور میں کیا رابطہ ہے ؟ ایک محقق کو ان سب کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے ۔
لیکن یہاں پر ہم جو چیز عرض کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم کلی طور پر گھر اور اجتماع دونوں میں سلامت معنوی کو مہمترین اور بہترین عامل جانتے ہیں ، یہ ہمار ی  اصل بات ہے ، دین اپنے وسیع معنی میں جس میں اعتقادات ، اخلاق ، فروع دین ۔۔۔۔سب شامل ہیں ان سب کا نتیجہ اجتماعی سلامت اور خاندانی یا افراد کے سلامت معنوی ہے ، کامل دین کے مجموعہ  کا ایک حصہ علم اخلاق ہے کہ جس کا موضوع نفس انسان کو معتدل بنانا ہے ۔
علماء اخلاق کا تمام ہم و غم انسان کے نفسانی قوتوں جیسے قوت شہوانی، قوت غضبیہ وغیرہ  کو معتدل کرنے کے راستہ کو بیان کرنا ہے ،تا کہ انسان اپنی زندگی میں ایک واضح نتیجہ تک پہنچ جائے ، علم اخلاق میں اچھے اور برے صفات کوبیان کرتے ہیں وہ اسی لئے ہے تا کہ انسان کا روح اور نفس اعتدال تک پہنچ جائے ، ہم جب تک اعتدال تک نہیں پہنچیں گے  سلامت معنوی کر درک ہی نہیں کر سکیں گے  ۔
ممکن ہے ہم سلامت کے مفہوم کے بارے میں گفتگو کریں ، لیکن سلامت نفس کیا ہے کہ اس بارے میں انسان یقین تک جب پہنچے گا جب وہ خود اعتدال نفس تک پہنچ جائے ، جب تک انسان خود اس اعتدال تک نہیں پہنچے وہ سلامت کے بارے میں اظہار نظر نہیں کرسکتا، ان چیزوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علم اخلاق کہ جس کا کام انسانی قوتوں کو اعتدال کرنا ہے یہ خودکل  دین کا ایک حصہ ہے ، ہم یہاں سے اپنے اصلی موضوع کی طرف آتے ہیں ۔
اگر ہم اپنے گھر میں سلامت معنوی کو لانا چاہئے تو اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ گھر والوں کو دین شناسی اور دین داری کی طرف جلب کریں ،کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم آج اس سے دور ہو رہے ہیں ، آجکل گھر والوں کے دین شناسی اور دین داری کے لئے کچھ کام نہیں ہوتا ہے ۔

خاندان کے معنوی سلامت کے عنوان سے منعقد سمینار میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) کا خطاب94/10/24

البتہ ہمارے میڈیا اور حوزہ اور غیر حوزہ میں ثقافت کے مسولین اپنے اپنے پروگرام کے تحت اس بارے میں کچھ مطالب بیان کر لیتے ہیں ،  لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ خاندانی معاملات میں دین داری کی رشدو نمو ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے ، بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ متوقف ہوا ہے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ  اس بارے میں ہم سیر نزولی کی طرف جا رہے ہیں ۔
گھر والوں میں دین کے ملتزم ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ صبح سویرے چیخ و پکار سے بچوں کو صبح کی نماز کے لئے اٹھائے ، بلکہ ایسا کرنا تو دین کے خلاف ہے ، ہم کبھی دین کا غلط معنی کرتے ہیں ۔
میں یہاں پر ہمارے مرحوم والد محترم کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ،ہمار ا ایک چھوٹا بھائی تھا، ایک دن ہمارے والدہ محترمہ نے صبح سویرے اس کو نماز کے لئے اٹھا لیا لیکن وہ اٹھ نہیں رہا تھا ، دوبارہ اسے اٹھانے لگی تو اس وقت والد محترم نے والدہ سے مخاطب ہو کر فرمائے: آپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ سوئے ہوئے انسان کو اس طرح نیند سے اٹھائے ، مگر یہ کہ اس نے آپ سے بتایا ہوا ہو کہ جیسا بھی ہو مجھے نیند سے اٹھائے، والدہ نے جواب دیا کہ اس نے خود مجھے کسی بھی صورت اٹھانے کا بتایا ہوا ہے ۔
بہر حال ہمیں پورے دین کو جاننا چاہئے ،ہم نے یہ بہت سنا ہے کہ قرآن کریم میں خداوند متعالی کی عبادت کے ساتھ ساتھ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا بھی حکم ہے ، جیسا کہ سورہ مبارکہ اسراء کی آیت 23 میں فرماتا ہے :«وَ قَضى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً» :اسی طرح سورہ لقمان کی آیت 14 میں فرماتا ہے:«أَنِ اشْكُرْ لي‏ وَ لِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصيرُ» میری نظر میں خاندان  میں معنوی سلامت کے لئے اس آیت کریمہ کو محور قرار دینا چاہئے ۔
کتاب کافی میں صفحہ 428 پر امیر المومنین (علیہ السلام ) سے ایک روایت نقل ہے ، آپ فرماتا ہے :«فَمَصِيرُ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ وَ الدَّلِيلُ عَلَى ذَلِكَ الْوَالِدَانِ»:تمام بندگان کی برگشت خداکی طرف ہے اور اس کی طرف راہنمائی کرنے والا والدین ہیں ۔
قرآن کریم کیوں والدین کے بارے میں اتنا تاکید کرتا ہے ؟آیا صرف اس وجہ سے کہ چونکہ ان کو اپنے بچوں پر  حق ولادت ، حق وجود اور  حق حیات ہے ،اس لئے خدا نے ان کو اپنے ساتھ قرار دیا ہے ؟ یا نہیں ،اس روایت کے مطابق اگر انسان کی محور زندگی سے والدین خارج ہو جائے تو انسان خدا سے بھی دور ہو جاتا ہے ، جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں  آجکل مغربی ممالک اسی مشکل میں پھنسا ہوا ہے ۔
ہمارے پاس ایسا سرمایہ ،معارف اور ذخایر موجود ہے ،یہ روایت بہت ہی  پُر معنی ہے ، ہم کیوں خدا کا شکر ادا کریں؟ اس لئے کہ اس کی طرف واپس جانا ہے ، اس لئے کہ ہمارا انتہا اسی کی طرف ہے ، نہ کہ اس لئے کہ نعوذباللہ یہ بتائیں کہ خدا بننے کے لئے ، نہیں ایسا نہیں ہے ، بلکہ اس لئے کہ ہماری زندگی میں خدا کے علاوہ کوئی بھی دوسری چیز نہ ہو ، ہمارا سب کچھ خدائی ہو  جائے ۔
کس طرح ہمارا سب کچھ خدائی ہو سکتا ہے ؟ «والدليل علي ذلک الوالدان»والدین ہیں جو دینداری ، دین پر پاپند ہونے ،اور اخلاق اور آداب  بچوں کو سیکھتا ہے ۔
میں یہ  تجویز دیتا ہوں کہ اس بارے میں ایک نظر خواہی کی جائے کہ کتنے فیصد جوان حقوق والدین کے معتقد ہیں ؟ میرے خیال میں شاید دس فیصد تک بھی نہ ہو ،حقوق والدین صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اس کے سامنے کھڑے ہو جائے اور اس سے بلند آواز میں بات نہ کرے ، حقوق والدین بہت زیادہ ہیں ، ہمیں چاہئے کہ حقوق والدین کو لکھ لیں اور تمام گھر والوں کو دے دیں، گھر والوں کی حفاظت اور نگھداری کا رمز بقاء اسی میں ہے ۔
خاندان  کی معنوی سلامت کے کچھ عوامل ہیں لیکن ان میں سے ایک مہترین اور اصلی ترین عامل والدین ہے ۔
اسی روایت میں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :«وَ لَا تَعْصُوا الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّ رِضَاهُمَا رِضَا اللهِ وَ سَخَطَهُمَا سَخَطُ اللهِ»: والدین کی نافرمانی مت کرو کیونکہ ان کی رضایت میں خدا کی خشنودی ہے اور اگر ان کو غضبناک کیا تو خدا غضبناک ہو گا ۔
حضرت کے اس کلام میں کوئی قید و شرط نہیں ہے کہ والدین مسلمان ہو یا غیر مسلمان، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، کوئی فرق نہیں ہے ۔
سورہ مبارکہ شوری کی آیت 13 کی طرف توجہ فرمائيں :«شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً وَ الَّذي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ وَ ما وَصَّيْنا بِهِ إِبْراهيمَ وَ مُوسى‏ وَ عيسى‏ أَنْ أَقيمُوا الدِّينَ»؛خدا وند متعالی پیغمبر اکرم(ص) سے فرماتا ہے : اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبر تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم٬ موسٰی٬اور عیسٰی کو بھی کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے پائے.
حضرت نوح، ابراہیم، موسی اور عیسی کو جو نصحیت کی ہے وہ یہ ہے کہ «أن أقيمو الدين»؛دین کو قائم کرو۔
ہمارے پاس ایک «ابلاغ دين» ہے  اور ایک «اقامه دين»؛ دین کواگرچہ انبیاء لے آئے ہیں ، اسے ابلاغ  اور بیان کیا ہے ، لیکن ان کی ذمہ داری یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے ، بلکہ ان کا وظیفہ یہ بھی ہے کہ اس دین کو اقامہ بھی کریں۔

خاندان کے معنوی سلامت کے عنوان سے منعقد سمینار میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) کا خطاب94/10/24

تفسیر قمی میں ایک روایت ہے جس میں  «أقيموا الدين» کو پہلے درجہ میں «تعلّم الدين»؛ معنی کرتا ہے، دین سیکھو اور سیکھاؤ، کہ آجکل بہت سارے خاندان اس چیز سے غافل ہیں ، کہتے ہیں مساجد اور مدارس ہیں ، وہاں جا کر دین سیکھ لیں گے ہمیں ہی سیکھانے کی کیا ضرورت ہے ، ایسا نہیں ہے ، یہ پیغمبری وظیفہ والدین کے ذمہ ہے ،ان کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو دین سیکھائے ، اگر دین نہ ہو تو ممکن نہیں ہے کہ سلامت معنوی محقق ہو جائے ۔
اس روایت میں دین کو توحید اوراعتقادات معنی کیا ہے ،آجکل ہمار ے خاندانوں میں ایک مصیبت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے جوان اپنے اعتقادات ، اخلاق اور عادات کو ان الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا وغیرہ سے لیتے ہیں ۔
اس وقت والدین اور اولاد کے درمیان آپس میں کوئی گفتگونہیں ہوتی ، مغربی ممالک نے ان پرنٹ میڈیا سے بہت فائدہ لیا ہے ، البتہ یہ علم ہے اور ضروری بھی ہے اور یہ ترقی ہی کرتا جائے گا ، لیکن وہ لوگ اس سے بہت ہی فائدہ لیتے ہیں ۔
اس وقت ان چیزوں نے اسلامی معاشروں میں خاندانوں کے اندر مشکل پیدا کیا ہے ، اب اس کے مقابلہ میں کونسا مرکز ہے جو جوامع اسلامی کی اس مشکل کو حل کرے ، ہمیں تو امید ہے کہ سلامت معنوی ایجاد ہو جائے ، لیکن اس کے لئے پہلے اس مشکل کو ختم کرنا پڑے گا، خاندانی مشکلات کو حل کرنے کے لئے ہمارے ملکی ذمہ داروں نے کیا کیا ہے؟
کبھی اس بارے میں آپس میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں کہ بینڈوتھ کو زیادہ کرے یا کم کرے ، آخر میں اسے بھی سیاسی بنا لیتا ہے اور مسئلہ یہیں پر ختم ہو جاتی ہے ، لیکن آج ہمارے محترم لوگ خصوصا جوانان عزیز کو جو خطر ہ ہے اس سے سب غافل ہیں ، اس وقت ہم مشکلات میں پھنس گئے ہیں تو تین چار سال بعد کیا ہو گا؟ اس بارے میں ابھی سے سوچنا چاہئے ۔

برچسب ها :