ویٹیکن کیتھولک کے بعض مذہبی شخصیات سے ملاقات میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی دامت برکاتہ کے بیانات
26 December 2024
19:47
۲,۵۶۶
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
پوپ بینڈکٹ کے صدر اور ویٹیکن کیتھولک کے کچھ سٹاف جو مقام معظم رہبری ( مد ظلہ العالی) کے برطانیہ میں مستقر نمایندے کی دعوت پر ایران آئے ہوئے ہیں بروز جمعرات 12 مئی 2016 کو مرکز فقہی ائمہ اطہار علیہم السلام میں آئے اور حضرت آيت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) سے ملاقات کی ، اس ملاقات میں فقہ شیعہ اور مسیحیت میں کرامت انسانی کے موضوع پر گفتگو ہوئي۔
آپ کے بیانات درج ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
آپ دوستوں سے ملاقات اور خواتین و حضرات جو اس مرکز فقہی میں تشریف لائے ہیں خوشی حاصل ہوئی ، امید ہے اس مقرر وقت میں شیعہ فقہ میں کرامت انسانی کے موضوع پر جو گفتگو کریں مفید واقع ہوں گے ۔
دین اسلام میں کرامت انسان فرق نہیں مسلمان ہو یا غیر مسلمان کے بارے میں بہت سارے بحث و گفتگو ہوئے ہیں ، اور بنیادی طور پر دین میں انسان کے لئے خاص مقام و منزلت قرار دیا گیا ہے ، اس بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے : «وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَني آدَمَ وَ حَمَلْناهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْناهُمْ مِنَ الطَّيِّباتِ وَ فَضَّلْناهُمْ عَلى كَثيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضيلاً». (اسراء 70)
ہم آج اس موضوع کے بارے میں بحث و گفتگو نہیں کریں گے کہ ادیان کے نظر میں انسان کی کیا عزت و کرامت ہے کہ یہ خود اپنی جگہ ایک مفصل بحث ہے ، ہم یہاں پر گفتگو کو شیعہ فقہ سے منحصر کریں گے کہ شیعہ فقہ میں کرامت انسانی کیسا ہے ؟ ہمارا دعوا یہ ہے کہ شیعہ فقہ جامع ترین شرایع اور قوانین کے لحاظ سے کامل ترین اور قوی ترین فقہ ہے ۔
ہمارے فقہ میں بچہ کے حقوق کے حوالہ سے ولادت سے ایک سال قبل سے لے کر بالغ ہونے تک کا دستور موجود ہے ، ہمارے فقہ میں انسان کے تمام پہلووں کے بارے میں چاہئے وہ ذاتی ہو یا اجتماعی، سیاسی ہو یا اقتصادی ،صحت، عورت، انٹرنیشنل ، جنگ ، صلح ۔۔۔۔۔سب کے بارے میں بہت ہی عمیق قوانین موجود ہے ۔
یقینا آپ کو معلوم ہو گا کہ ان آخری چند سالوں میں حوزات علمیہ میں فقہ کے بارے میں جو کتابیں چھپی ہیں میرے خیال میں تقریبا سو جلد کتابیں ہیں ۔
اس مقدمہ کے بعد میں اس مطلب کو بھی بیان کرلوں کہ بنیادی طور پر ہمارا فقہ انسان کے تکامل کے لئے ہے ، اثر سے خالی صرف ایک قسم کی خالی دستورات نہیں ہیں ،اور ایسا نہیں ہے کہ یہ بتایا جائے کہ دین صرف کچھ ظاہری اعمال ہے کہ خداوند متعالی نے انسان سے طلب کیا ہے ، بلکہ فقہ میں ہر حکم اور دستور جو موجود ہے وہ انسان کے تکامل سے مربوط ہے۔
انسان کا جان ، مال ، عزت اور نسل دین سے مربوط ہے ،لہذا اگر ہم فقہ میں کرامت انسانی کے بارے میں تحقیق کرنا چاہئے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اس بارے میں شیعہ فقہ یعنی فقہ اہل بیت علیہم السلام میں کوئی خاص دستور ہے یا نہیں ؟
شیعہ فقہ میں ایک حصہ محرمات اور حرام کاموں کے بارے میں ہے کہ مسیحیت اور دوسرے ادیان میں بھی ہے ،لیکن دوسرے ادیان میں اتنا وسیع نہیں ہے جتنا شیعہ فقہ میں ہے ،اگر ان تمام محرمات کو ایک جملہ میں خلاصہ کرنا چاہئے تو اسی عنوان کرامت انسانی میں خلاصہ ہو جاتا ہے ،مثلا جنگ کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ حکم دیتا ہے کہ مردوں کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا حرام ہے ، اگرچہ دشمن مسلمان مرنے والوں کے بدن کا ٹکڑا ٹکڑا کرے ، اسلام کسی بھی انسان کے بدن کو ٹکڑا کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔
اسی طرح جنگ میں بشر دوستانہ دستورات بچوں ، بوڑھوں ، بوڑھیوں ، بیمار لوگوں، اور اسیروں کے بارے میں موجود ہے ، اگر ہم ان سب کو جمع کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام اور شیعہ فقہ انسان کے کرامت کا قائل ہے ۔
کسی جنگ میں مسلمانوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہم کر سکے تو دشمن کے پانی کو زہر آلود کر لیں تا کہ دشمن پورا ختم ہو جائے اس طرح ہم ان پر غلبہ پیدا کر سکیں گے ، کیا آپ(ص) ہمیں اس کی اجازت دیں گے ؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اجازت نہیں دی اور فرمایا : یہ کام حرام ہے ،دشمن سے جوانمرانہ طریقہ سے مقابلہ کرنا چاہئے ،اگر ہم ان کے پانی میں زہر ڈال دیں تو ان کے فوج کے علاوہ غیر فوجی اور بے گناہ لوگ بھی مر جائیں گے لہذا آپ (ص) نے اس کی اجازت نہیں دی۔
اسی طرح سقط جنین کے بارے میں یورپ میں مسیحیت کا تفصیلی نظریہ کیا ہے مجھے معلوم نہیں ہے ، میں صرف اجمالی حد تک جانتا ہوں ، اسلام اورشیعہ فقہ میں جو چیزیں ہیں کیا ان میں بھی ہے یا نہیں ؟اسلام کہتا ہے کہ اگر نطفہ منعقد ہو گیا اگرچہ اس کے منعقد ہونے کے ایک منٹ بعد ہی ہو ، اگر عورت یا مرد یا ڈاکٹر اس نطفہ کو ختم کرے تو وہ قاتل حساب ہو گا ،اسلام اس قدر انسان کی کرامت کا قائل ہے کہ کہتا ہے اگر نطفہ ابھی رحم میں ٹہرگیا ہو کسی کو حق نہیں ہے اسے ختم کرلے اور اگر ایسا کرے تو قاتل حساب ہو گا ، اگر اس کی ماں نے اس نطفہ کو ختم کیا ہو تو اس کے دیہ سے اسے ارث نہیں ملے گا ، خود یہی حکم کرامت انسانی کے رعایت کرنے کا ایک اعلی نمونہ ہے ۔
بہت ہی افسوس کا مقام ہےکہ یورپ میں اس وقت نامشروع روابط بہت زیادہ ہوا ہے ،روایات میں ہے کہ جب ہمارے پیشواوں سے سوال ہوتا کہ زنا کیوں حرام ہے ؟فرماتے ہیں اس کی ایک اہم علت یہ ہے کہ نسب کے لحاظ سے نسل بشر پر مشکل نہ آئے ۔
یقینا جو بچہ غیر شرعی طریقہ سے پیدا ہوتا ہے اس کا باپ اور قوم معلوم نہیں ہے ! اس حرام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کسی انسان کی نسب کے بارے میں کتنا اہمیت کا قائل ہے ۔
اس وقت ہمارے اکثر بڑے مراجع مصنوعی پیوند کاری کو جس میں عورت کے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کے نطفہ کو اس عورت کے رحم میں قرار دینے کو حرام قرار دیتے ہیں اس کی اصلی علت یہی ہے کہ جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کا نسب مجھول ہوتا ہے ! میں اگر اسلام کی کرامت انسانی کے نمونے کو بیان کرنا چاہوں تو بہت سارے احکام ہیں ،مجھے معلوم نہیں کہ آپ لوگ اس بارے میں کس حد تک علم رکھتے ہیں ، ہمارے بزرگ محققین کا یہ اعتقاد ہے کہ اسلام آنے کے بعد گذشتہ شرایع کی دستورات نسخ نہیں ہوئے ہیں ۔
البتہ گذشتہ انبیاء کی نبوت کا زمانہ ختم ہو چکا ہے ، لیکن ان کی دینی دستورات اپنی جگہ پر باقی ہے ،یعنی اگر کوئی چیز حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہما السلام کے حقیقی شریعت میں حرام تھی تو وہ آج بھی حرام ہے ،مگر ان موارد میں جہاں اسلام میں حکم تغییر ہوا ہو ، لہذا قرآن میں فرماتا ہے ربا حرام ہے جیسا کہ گذشتہ کتابوں میں بھی حرام تھا اور یہ بہت ہی اہم مطلب ہے ۔
ایک اور نمونہ کو بھی بیان کر لوں کہ جنگ خیبر کے واقعہ میں ذکر ہےکہ خیبر کے فتح ہونے سے پہلے یہودی قلعہ خیبر میں تھے ایک یہودی چرواہے نے ان کے بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لئے قلعہ سے باہر صحراء کی طرف لے گئے تھے ، جب یہ چرواہا مسلمانوں سے ملے اور اسلام کے بارے میں مطلع ہوا تو مسلمان ہوا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خدمت میں آکر عرض کیا یا رسول اللہ (ص) یہ بھیڑ بکریاں یہودیوں کے ہیں جو اس وقت خیبر میں ہیں آپ ان کو اپنے قبضہ میں لے لیں تا کہ مسلمان اس سے استفادہ کر لے ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : نہیں ! یہ تمہارے ہاتھ میں امانت ہے ۔
ٹھیک ہے تم مسلمان ہو گیا ہے لیکن یہ تمھار مال نہیں ہے ، اس امانت کو ان کے مالک کو دے دینا چاہئے ،ملاحظہ فرمائيں کہ ایک انسان کے مال کا کتنا احترام ہے فرق نہیں وہ انسان مسلمان ہو یا یہودی یا مسیحی ،اس حالت جنگ میں بھی جہاں ایک خاص قسم کی حالات ہے اس کے باوجود ہمارے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کام کی اجازت نہیں دی ۔
کرامت انسان سے مربوط کاموں میں سے ایک انسان کا دین ہے ،مال، جان، عزت و آبرو کے ساتھ انسان کا دین بھی مہم ہے ،فقہ شیعہ میں ایک قانون ہے جو محترمات اور مقدسات کی اھانت حرام ہونے کے بارے میں ہے ،یعنی ایک مسلمان انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے ادیان کے پیراواوں کے مقدسات کی اہانت کرے ، حتی کہ قرآن مجید فرماتا ہے بت پرست افراد کا بھی سب و لعن اور اہانت مت کرو ، یہ بھی بہت ہی مہم مسئلہ ہے ۔
ہمارے دین میں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اصلی اور واقعی تورات اور انجیل اور ادیان الہی کے مقدسات کی توہین کرے ،جس طرح ہمارے ہاں مساجد محترم ہے اسی طرح دوسرے ادیان کے عبادت گاہوں جیسے چرچ اور دوسرے مراکز جن میں خدا کی عبادت ہوتی ہے محترم ہے ، کسی بھی صورت میں کسی چرچ کو خراب کرنا جائزنہیں ہے ،مقدسات کا احترام محفوظ ہونا چاہئے اور مقدسات کی اہانت حرام ہونے کا موضوع ہمارے فقہی قوانین میں سے ایک ہے ۔
کلی طور پر ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو عقلاء کے درمیان حق الناس شمار ہوتا ہے اس کی رعایت ضروری ہے ،یعنی اگر عقلاء بغیر کسی حب اور بغض اور غیر عقلائی جہات کے بغیر صرف عقلی اعتبار سے کسی انسان کے لئے کسی حق کا قائل ہو جائے تو اسلام بھی اس حق کا قائل ہو گا ، انہیں میں سے ایک حق التالیف ہے کہ آجکل ایک بین الاقوامی موضوع ہے ، یہ ہمارے فقہ میں بھی ذکر ہوا ہے اور اسے قبول بھی کیا گیا ہے ، یہ بھی کرامت انسانی کی ایک جہت ہے ۔
امام سجاد علیہ السلام سے ایک مفصل روایت رسالہ حقوق میں ذکر ہے کہ اتفاق سے آج امام سجاد علیہ السلام کا روز ولادت بھی ہے ،میں نہیں سوچتا ہوں کہ انسان کے حقوق کے بارے میں اس سے زیادہ دقیق کوئی بیان کر سکے ،اس میں انسان کے تمام اعضاء اور جوارح کے حق کو بیان کیا گیا ہے آنکھ ، ہاتھ، کان ۔۔۔سب کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے ، اس کے بعد تمام افراد جیسے استاد ،شوہر، بیوی ،اولاد ، عوام کے حقوق حتی کہ وہ حیوانات جن کا انسان سے ربط ہے ان کا حقوق بھی بیان ہوا ہے ،مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے رسالہ حقوق امام سجاد علیہ السلام کو ایک بین الاقوامی منشور کے عنوان سے ثبت کيا گیا ہے ۔
میں اس میں سے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں اور میاں بیوی کے حقوق سے شروع کرتا ہوں ملاحظہ کریں کہ اسلام اور شیعہ فقہ میاں اور بیوی کے لئے کتنے اہمیت کا قائل ہے ، فرماتا ہے : «فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَهَا لَكَ سَكَناً وَ أُنْساً فَتَعْلَمَ أَنَّ ذَلِكَ نِعْمَةٌ مِنَ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْكَ فَتُكْرِمَهَا»جان لو! کہ خدا نے عورت کو مرد کے لئے انس اور آرامش کا وسیلہ قرار دیا ہے پس یہ خدا کی طرف سے تمہارے لئے ایک نعمت ہے ،اس کی احترام کرنی چاہئے ، یعنی اسلام کہتا ہے کہ یہ عورت تمہارے لئے ایک دوست کی طرح نہیں ہے جس طرح آجکل یورپ میں بتایا جاتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے ،بلکہ بیوی تمہارے لئے ایک نعمت ہے تمہیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اس کی حق کو اداء کرنا چاہئے ۔
معاشرہ کے کچھ لوگ فقیر ہوتے ہیں ،ہمارا دین اور فقہ ثروتمند افراد کے ذمہ فقراء کے کچھ حقوق قرار دیے ہیں جس کی کیفیت مفصل ہے لیکن اس کا کلی صورت یہ ہے کہ خداوند ثرتمندوں سے فرماتا ہے : «إِذَا رُزِقْتَ فَأَوْسِع» اگر تمہیں کچھ مال و منال ملے اور تمھاری روزی زیادہ ہو گئی تو معاشرہ میں تمہارا امداد بھی زیادہ ہونا چاہئے ۔
اسی طرح یہ تعبیر بھی ہے : «مَنْ زَادَهُ اللهُ كَرَامَةً فَحَقِيقٌ بِهِ أَنْ يَزِيدَ النَّاسَ إِكْرَاما» فرماتا ہے : اگر خدا کسی شخص کو عزت اور مقام دیا تو اسی بھی اسی لحاظ سے لوگوں کی زیادہ عزت کرنی چاہئے ، اس عبارت میں بہت اہم معنی ہے اور معاشرہ میں کرامت انسانی کے اصول میں سے ایک ہے ۔
اسلام اور ہمارا فقہ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی فقیر تم سے کوئی چیز طلب کرے تو اسے خالی ہاتھ نہ پلٹاؤ، ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتا ہے : خداوند متعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو جو تعلیمات دی ان میں سے ایک یہ ہے : «يَا مُوسَى أَكْرِمِ السَّائِلَ بِبَذْلٍ يَسِيرٍ أَوْ بِرَدٍّ جَمِيل» اے موسی ! اگر کوئی نیازمند تم سے کوئی چیز طلب کرے تو تم اس کی عزت کرو اور اس کی حاجت کو پورا کرو اگرچہ بہت ہی کم مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو بہت ہی خوش اخلاقی کے ساتھ اسے مسترد کر دو ، یہ ہمارے دین کے نیازمندوں کے ساتھ برتاؤ کا حکم ہے۔
میں اپنی آخری بات کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس جملہ میں خلاصہ کرتا ہوں اور سب سے درخواست ہے کہ اس جملہ کے بارے میں غور وفکر کریں کہ دین اسلام اور فقہ شیعہ کا یہی دستور ہے : «الْخَلْقُ عِيَالُ اللهِ فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللهِ مَنْ نَفَعَ عِيَالَ الله»تمام بشر خداوند متعالی کا عیال ہیں ، یعنی اسلام کہتا ہے بیوی اور بچے اور گھر والے صرف تمہارے عیال نہیں ہیں ،عیال وہ ہیں جن کی احتیاجات کے بارے میں انسان فکرمند ہوتا ہے اور اس کے اخراجات کو پورا کرتا ہے ،اسلام یہ کہتا ہے کہ تمام بشر خداوند متعالی کا عیال ہے ، اور خدا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جس سے خدا کے عیال کو کچھ فائدہ پہنچے ،یہ ہمارے فقہ میں ایک قانون کلی ہے تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ انسان اور اس کی تکریم کے بارے میں سوچیں ۔
اس بارے میں بہت زیادہ مطالب ہیں لیکن نہیں چاہتا ہوں کہ آپ تھک جائے او آپ کے مطالب سے بھی مستفیذ ہونا چاہتاہوں ۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته
سوال و جواب
سوال: جیسا کہ میں نے یہ بات حوزہ علمیہ کے ایک شخصیت سے بھی پوچھا تھا کہ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ، اس بارے میں شیعہ نظریات زیادہ واضح نہیں ہے صرف اہل سنت کے نظریات بیان ہوتے ہیں ، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ شیعہ نظریہ کے مطابق گذشتہ ادیان ابراہیمی میں سے کیا چیز نسخ ہوئی ہے؟
جواب: بہت اچھا مطلب ہے اور ہماری پریشانی کا ایک سبب بھی ہے کہ ابھی تک شیعہ فقہ بشریت کے لئے واضح نہیں ہوا ہے ،نہ فقط بشریت کے لئے حتی کہ اہل سنت بھی شیعہ فقہ کے بارے میں زیادہ مطلع نہیں ہیں ،دوسرے ادیان کی بات تو اپنی جگہ ہے ،جیسا کہ بیان ہوا 90 فیصد سے زیادہ گذشتہ شرایع کے احکام باقی ہیں البتہ اسلام میں جدید احکام جو گذشتہ ادیان میں نہیں تھے بہت زیادہ ہیں ، اسی طرح نماز پڑھنے کا جو طریقہ ہے وہ گذشتہ ادیان میں نہیں تھے ۔
بعض موارد میں طہارت اور نجاست میں بھی کچھ اختلاف ہے ،لیکن یقینا ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو گذشتہ ادیان میں حرام ہو اور ہمارے دین میں وہ حلال ہوا ہو !ربا، شراب، زنا، چوری یہ سب گذشتہ ادیان میں حرام تھے ہمارے دین میں بھی اسی حرام ہونے پر باقی ہے بلکہ بہت سخت انداز میں بیان ہوا ہے ،اس کے لئے ایک اچھا اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے ان شاء اللہ ۔
سوال: آپ نے فرمایا : ہر وہ چیز جسے عقلاء حق انسان ہونے کے بارے میں اتفاق کرتا ہے فقہ شیعہ بھی اسے قبول کرتے ہیں ؟
جواب : جی ہاں! یہ صرف اس صورت میں ہے کہ عقلاء صرف عقل پر اعتماد کرتے ہوئے یہ حکم کرے اور اس میں دوسری چیزوں جیسے نفسانی غرائز ، شہوات ، قدرت طلبی اور منفعت طلبی کے لحاظ سے نہ ہو ۔
انسانی حقوق کے عالمی ڈیکلریشن کے بارے میں ہم عقلائی اعتراضات رکھتے ہیں ، ہمارا اعتراض یہ ہے کہ اس ڈیکلریشن میں جو چیزیں بیان ہوئي ہیں ان میں سے بعض کا عقلائی ملاک و معیار نہیں ہے ، چونکہ خود عقل اور عقلاء کے ملاک اور معیار ہیں ، مثلا جب آپ عقل اور بناء عقلاء کی طرف مراجعہ کریں تو کہتا ہے انسان (مرد اور عورت) کو شادی کرناچاہئے تا کہ بشر کی نسل باقی رہے ،اور عالمی ڈیکلریشن میں جو آزادی بیان ہوا ہے اس سے غلط استفادہ کر کے کہتے ہیں ہم جنس پرستی میں کوئی اشکال نہیں ہے ،یہ بات عقلی اور عقلاء کے ملاک اور معیار سے متناسب نہیں ہے ،ہم نے اسی مرکز فقہی میں انسانی حقوق کے عالمی ڈیکلریشن پر علمی اعتراضات کی ہیں کہ ان شاء اللہ اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے چھاپ لیں گے ۔
چونکہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے بارے میں بہت سارے ممالک ، حکومت اور لوگ اس کی طرف توجہ کرتے ہیں تو میری آپ سے یہی خواہش ہے کہ مسیحی اور دوسرے ادیان کے روحانی اس اعلامیے کے بارے میں ایک علمی اور عالمانہ بحث و گفتگو کریں ۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے بارے میں ایک بنیادی اعتراض جو ہمارے بحث سے بھی مربوط ہے یہ ہے کہ اس میں کرامت انسان کے بارے میں ایک کامل تعریف بیان نہیں کیا گیا ہے ، یہ واضح ہونا چاہئے کہ اس کرامت انسانی کو خود انسان یا اس انسان کے خالق ہی معین کر سکتا ہے اور ان میں سے جو بھی ہو اسی حساب سے راستہ بدل جائے گا۔
سوال: آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے پاس فقیر کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے تو کم از کم اس کے لئے ایک مسکرائے ، کتاب مقدس جس کی ہم پیروی کرتے ہیں اس میں بھی یہ بات ذکر ہے کہ چرچ کے انتظامی ذمہ دار کے پاس اگر کوئی راہب آکر کوئی چیز مانگ لیں اور اس کے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو کم از کم اس سے کوئی اچھی بات کر لیں اور یہ اچھی بات اس چیز سے زیادہ اہم ہے جو اسے دیا جاتا ہے ، دونوں ادیان میں یہ بات ایک جیسا ہونا میرے لئے بہت ہی پرکشش ہے ۔
جواب:اس سے بھی زیادہ مہم بات یہ ہے کہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ ہمارے ائمہ علیہم السلام تمام آسمانی کتابوں پر عبور رکھتے تھے ، امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتا ہے میں اہل تورات سے تورات کے مطابق اور اہل انجیل سے انجیل کے مطابق بات کرنے کے لئے تیار ہوں ، یہ بھی ہمارے مذہب کی خصوصیات میں سے ایک ہے کہ ہمارے آئمہ علیہم السلام تمام آسمانی کتابوں پر عبور رکھتے تھے ۔
سوال: سزائے موت، رجم اور پھانسی کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟
جواب: ہمارے فقہ میں قصاص کے نام سے ایک بحث ہے ، یہ حکم دوسری آسمانی کتابوں میں بھی ذکر ہوا ہے لہذا خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے پہلے بھی آسمانی کتابوں میں بتا چکے ہیں «وَ كَتَبْنا عَلَيْهِمْ فيها أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ اْلأَنْفَ بِاْلأَنْفِ وَ اْلأُذُنَ بِاْلأُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ وَ الْجُرُوحَ قِصاصٌ»پس یہ حکم صرف اسلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی کتابوں ، چاہئے وہ تورات ہو یا مسیحیت میں پھانسی کا حکم موجود ہے ، او رابھی بھی یہ ان کے قوانین میں سے ہے کہ جو بھی ان کے دین سے خارج ہو جائے وہ مرتد ہو گا اور اس کے لئے ایسا ہی سزا ہے ۔
پس پہلی بات تو یہ ہے کہ قصاص کا حکم تمام آسمانی ادیان میں موجود ہے ، عقلائی لحاظ سے بھی اگر کوئی کسی کے ناحق قتل کر دے اور اس سے زندہ رہنے کے حق کو چھین لے تو کیا ہمارا عقل اور عقلاء یہ نہیں کہتے ہیں کہ اسی اندازہ سے اس کا بھی مجازات ہونا چاہئے اور وہ بھی زندگی سے محروم ہو جائے ، لیکن اسلام اس عقلائی حق کی تائید کرنے کے ساتھ ان کو عفو اور گذشت کرنے کی سفارش کی ہے ، اور قصاص کو دیہ اور مالی مجازات میں تبدیل کرنے کے کچھ راستے قرار دیے ہیں ۔
قرآن کریم فرماتا ہے: «وَ لَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ يا أُولِي اْلأَلْبابِ»قصاص صرف ایک شخصی اور مقتول کے گھر والوں کے دل کی تشفی کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ قصاص جامعہ بشری کی حیات کا سبب ہے ، میرا یہ خیال ہے کہ ان آخری صدیوں میں دنیا کے قدرتمند ممالک پھانسی کے حکم کوختم کرنے کے درپے ہیں یہ اپنی جنایت کے دائرہ کو بڑھانے کے لئے ہے ،آپ دیکھیں کہ بوسینا میں کتنے بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوا، لیکن بین الاقوامی کوٹ میں ان قاتلوں کے پھانسی کا کوئي حکم نہیں آیا، کیا عقل یہ نہیں کہتا ہے کہ جس شخص نے ہزاروں انسانوں کو ناحق طریقہ سے حق حیات سے محرم کیا ہے ، کیا اسے معاشرہ میں فساد پھیلانے والے کے عنوان سے ختم نہیں کرنا چاہئے ؟ کیا یہ صحیح ہے کہ اس شخص کو ایسا ہی چھوڑے رکھے اور وہ اپنے اس قتل اور وحشت گری کو کرتا جائے ؟
آج یہ داعش کے نام سے جو گروہ دنیا میں اسلام کے نام پر جنایت کر رہا ہے ، اور شیعہ اور سنی دونوں اس گروہ کو مسلمان نہیں جانتے ہیں اور حق بات بھی یہی ہے کہ اس طرح کی جنایت اسلام کی روح سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ،ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کے قدرتمند افراد اور انٹرنیشنل سیکورٹی تنظیمیں اسلام کو بدنام کرنے اور اسلام کو ختم کرنے کے لئے اس گروہ کو وجود میں لایاہے ،البتہ میں آپ کو بھی یہ انتباہ کر لوں کہ دنیا کے یہ قدرت طلب لوگ کرہ ارضی سے تمام آسمانی ادیان کو ختم کرنے کے درپے ہیں ،لہذا آپ جیسے ادیان کے بزرگوں کو خود بھی بیدار رہنا چاہئے اور مسیحیت اور بشریت کو بھی اس خطر سے آگاہ رکھنا چاہئے ۔
حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے زمانہ میں کچھ برے لوگوں نے ایک یہودی عورت کے ہاتھوں سے چوڑیوں کو نکال لیے تھے ، آپ علیہ السلام نے فرمایا : حاکم اسلامی اس عورت پر جو ظلم ہوا ہے اگر اس پر مر جائے تو سزاوار ہے ۔
ملاحظہ فرمائيں کہ شیعہ انسانوں حتی کہ غیر مسلمانوں کے حقوق کی رعایت کے بارے میں کتنا اہمیت دیتے ہیں ۔
سوال: ایران ایک شیعہ ملک ہونے کے لحاظ سے ایران سے باہر جتنے شیعہ زندگی بسر کرتے ہیں ان کی دفاع کے بارے میں احساس کرتے ہیں اور فقہ شیعہ کے مطابق ان کے دفاع کیا قانون ہے ؟
جواب:فقہ میں یہ قانون ہے کہ ہر انسان کو دوسرے انسانوں کی مدد کرنی چاہئے ،خصوصا اگر وہ انسان اس سے مدد طلب کرے ، فرق نہیں وہ مدد طلب کرنے والا انسان شیعہ ہویا غیر شیعہ ، یہ ہمارے دین کا دستور ہے، ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : «خَيْرُ النَّاسِ مَنِ انْتَفَعَ بِهِ النَّاس» ؛ بہترین انسان وہ ہے جس سے دوسرے استفادہ کرسکے اور انہیں فائدہ پہنچے ، اسلام اور فقہ شیعہ یہ کہتا ہے کہ انسان صرف اپنے یا اپنے ہم وطن کے فکر میں نہ رہے بلکہ بشریت کے منافع کو مد نظر رکھنا چاہئے ، فرق نہیں وہ انسان کہاں ہو۔
البتہ ہمارا فقہ بین الاقوامی روابط اور حکومتیں ایک دوسرے بارے میں جو قوانین رکھتے ہیں ان کے بارے میں رعایت کا حکم دیتا ہے ان قوانین کے خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے ،لہذا ہر مورد میں یہ دیکھنا ہو گا کہ کس قدر وہ دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے فرق نہیں وہ شیعہ ہو یا غیر شیعہ ، حتی اگر مسیحی اور یہودی بھی ہو انہیں بھی فائدہ پہنچانا چاہئے ، اور جہاں تک ہو سکے انہیں مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
ایک اور مطلب یہ ہے کہ شیعہ فقہ میں عقل اور عقلاء کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور ہمارے دین میں عقل کے بغیر خدا کی اطاعت ممکن ہی نہیں ہے ، تعقل اور تفکر کے بغیر علم کی کوئی اثر نہیں ہے اور اس علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
عقل کی اپنی خاص اہمیت ہے البتہ اس بارےمیں تفصیلات تحقیقی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں ، قرآن کریم میں فرماتاہے : «هَلْ يَسْتَوِي الَّذينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذينَ لا يَعْلَمُونَ إِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا اْلأَلْبابِ»؛فرماتا ہے عالم اور جاہل برابر نہیں ہے ، اور صاحبان عقل ہیں جو عالم اور غیر عالم کے درمیان فرق کو معلو م کر سکتاہے ، اسلام نے ہمیشہ لوگوں کو تعقل اور تفکر کی دعوت دی ہے قرآن کریم اور روایات میں یہ احکامات بہت زیادہ ذکر ہوا ہے ۔
سوال: میں روم میں ہوتا ہوں وہاں پر میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ پوپ اور اس سے پہلے والے پوپ نے دین کے انتخاب میں آزاد ہونے کے بارے میں بات کی ہے کہ ہر شخص آزاد ہے جو دین چاہئے وہ انتخاب کرے ، اس بارے میں میں نے سنی نظریہ کو معلوم کر لیا ہے، ابھی آپ سے اس بارے میں شیعہ نظریہ کو جاننا چاہتا ہوں ۔
جواب: ہمارے پاس بھی قرآن کریم میں ایک قانون بیان ہوا ہے کہ فرماتا ہے : «لا إِكْراهَ فِي الدِّينِ»یہ ہمارے قرآنی قوانین میں سے ایک ہے کہ دین کو جبری سے ٹھونسا نہیں جاتا «قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ»؛ قرآن فرماتا ہے ، بشریت کے لئے اچھے اور برے سب بیان ہوئے ہیں اور اسے عقل کی نعمت سے بھی نوازا ہے ۔
اس کا نتیجہ یہ ہے اس عقل کے ساتھ وہ اچھی چیزوں کے پیچھے جائیں گے ، یعنی انسان اچھے اور برے کے شناخت کے بغیر کسی چیز کو اختیار نہیں کر سکتا ،اگر دینی آزادی سے مراد یہ ہو کہ انسان اچھے اور برے معیارات کو پہچانے بغیر اور عقل کو کام میں لائے بغیر اپنی ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات کے مطابق کسی دین کو اپنا لیں تو یہ انتخاب نہ کوئی عقلی کام ہے اور نہ ہی شرعی۔
پس اسلام بھی دین میں آزادی کے قائل ہے البتہ وہ آزادی جو عقل اور آگاہی کے مطابق ہو۔
سوال:جرمن میں ہمارے ساتھ ایک مشکل یہ ہے کہ وہ مسلمان جو پناہگزین کے طور پر آئے ہیں ، اور کبھی شریعت کے نام پر کچھ کام کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم شریعت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا یہ کام قانون کے خلاف ہوتا ہے ، مثلا ایک مسلمان لڑکی کسی سے ناجائز تعلقات قائم کرتی ہے اس کا ماں اور باپ کہتے ہیں ہم اس کو قتل کر دیں گے کیونکہ اس نے ہماری عزت کو پایمال کر دیا ہے ، لیکن جرمن کا قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ اس لڑکی کو قتل کرے ، اس بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے ؟
جواب: اگر اس لڑکی کا کوئی شوہر نہ ہو تو نہ شیعہ اور نہ سنی کوئی بھی قانون اس کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیتا ہے ،اسلام میں چونکہ گھرانہ کی بہت زیادہ ارزش و قیمت ہے ، گھرانہ والوں کے حقوق معین کیے ہیں، یہ بھی کرامت انسانی میں سے ہے ، لہذا وہ عورت جس کا کوئی شوہر ہے اور اس لڑکی کے درمیان فرق ہے ۔
اس کے علاوہ ہمارے فقہ میں "قاعدہ الزام" کے نام سے ایک قانون ہے یہ قانون ایک انسان مسلمان کے نکاح ، معاملات اور دوسرے تمام کاموں میں دوسرے ادیان کے ساتھ زندگی گزارنے کے قانون کو معین کیا ہے ۔
ہمارے فقہ میں شراب کا لین دین حرام ہے ، اگر کوئی مسلمان شراب خرید کر اسے بھیج دیں تو اس کا یہ معاملہ باطل ہے وہ اس پیسہ کا مالک نہیں ہو سکتا ،لہذا اگر اسے کوئی گھر بھیج دیں تو جو پیسہ اس نے شراب بھیج کر جو پیسہ کمایا ہے گھر کی قیمت میں وہ پیسہ نہیں لے سکتا ، اب اگر یہ مسلمان کسی مسیحی کے ساتھ لین دین کرتا ہے کہ خود اس کی باطل عقیدہ کے مطابق اس کے دین نے اسے شراب کے لین دین کی اجازت دی ہے ،یہاں پر اس قانون الزام کے مطابق اس کا یہ معاملہ صحیح ہے اور اگر اسے گھر بھیج دیں تو اس سے پیسہ لے سکتا ہے اور اسلام کہتا ہے اس میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔یہ قانون ہمارے فقہ سیاسی کے قوانین میں سے ایک ہے البتہ اس کے بہت ساری مثالیں ہیں ، میں نے خود اس بارے میں ایک کتاب لکھا ہے لیکن ابھی تک انگلش میں ترجمہ نہیں ہوا ہے ۔
لہذا ایک مسلمان جو یورپ ممالک میں زندگی کرتے ہیں یہ قانون کہتا ہے کہ تمام ادیان کے احکام اور قوانین کہ ان ادیان کے پیروکار اپنے دین کے مطابق انجام دیتے ہیں آپ کو بھی اس کی احترام کرنی چاہئے ، یعنی ایک مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ اسلام میں ایسا حکم نہیں ہے لہذا میں اس حکم کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہوں ۔
اسلام میں ربا حرام ہے ، البتہ خدا قرآن کریم میں فرماتا ہے : ہم نے گذشتہ ادیان میں بھی ربا کو حرام قرار دیا تھا اگرچہ اس وقت مغرب میں جس دین پر عمل کرتے ہیں اس میں ربا کو جائز جانتے ہیں ، اسلام اور شیعہ فقہ کہتا ہے کہ ربا کے حرام ہونے کی وجہ سے کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے ربا نہیں لے سکتا، لیکن " قانون الزام" کے مطابق ایک مسیحی جو یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے دین میں ربا جائز ہے اس سے ربا لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
سوال: ادیان کے درمیان رابطہ کے بارے میں ،مثلا اسلام کہتا ہے قرآن بہترین پیغام ہے ، مسیحی کہتے ہیں ہم سب سے زیادہ بہتر ہیں ، یہودی کہتے ہیں ہم سب سے اچھے ہیں ،ہر کسی کا اپنے دین کوسب سے بہتر سمجھنا ہمارے دینی گفتگو میں کیا تاثیر رکھتے ہیں ، اور اس بارے میں شیعہ نظریہ کیا ہے ؟
جواب:قرآن کریم نے اس سوال کے جواب کو دیا ہے فرماتا ہے تمام آسمانی کتابوں میں تحریف ہواہے اسی وجہ سے ان میں اختلاف ہے اور ان کے مطالب بھی ایک جیسے نہیں ہے ، لیکن اس قرآن کریم کے ایک آیہ کریمہ کا دوسرے قرآن کریم کے ایک آیہ کریمہ سے اختلاف نہیں ہے ، لہذا قرآن کے بیان کے مطابق کہ فرماتا ہے «أفلا تعقلون»، «أفلا یتدبرون»؛ اگر کوئی تعقل اور تفکر کے ساتھ ان آسمانی کتابوں کا مطالعہ کریں تو بہت ہی آسانی سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم دوسری آسمانی کتابوں سے قابل مقایسہ نہیں ہے حتی کہ ان کے جو اصلی کتابیں ہیں ان سے بھی قابل مقایسہ نہیں ہے ۔
آپ کے پاس تشخیص کے لئے ملاک اور معیار ہونا چاہئے ، اسلام نے عقل کو ملا ک قرار دیا ہے ، آپ عقلی ملاک کے ساتھ میدان میں آئيں اور قرآن کریم کے احکامات کو تورات اور انجیل کے احکامات کے ساتھ مقایسہ کریں تو آپ کے لئے یہ واضح ہو جائے گا کہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کے درمیان کتنا فرق موجود ہے ، قرآن کریم میں جو انسجام اور جامعیت پائی جاتی ہے کیا وہ دوسری کتابوں میں ہے ؟ عقل یہی کہتا ہے کہ جامعیت ، امنیت کے بارے میں گہرا قوانین ، بشر کی سعادت اور تکامل قرآن اور شیعہ روایات میں بیان ہوئے ہیں ۔
ایک اہم مطلب یہ ہے کہ توحید ادیان میں کچھ مشترکات پائی جاتی ہیں جیسے:
1۔ عبادت خدا: ہماری عبادت صرف خدا کے لئے ہونی چاہئے ، یعنی خدا کے قانون کے علاوہ کوئی بھی دوسرا قانون بشریت پر حاکم نہیں ہونا چاہئے ،یہ ہمارے مشترکات میں سے ایک ہے ۔
2۔ قیامت پر اعتقاد: یعنی اس عالم کے بعد بھی ایک اور عالم موجود ہے جس میں ہم سب کو جوابگو ہونا ہے۔
3۔ ظلم نہ کرنا: ظلم کا حرام ہونا تمام ادیان میں بشری میں موجود ہے ۔
یہ ہمارے کچھ مشترکات ہیں کہ ادیان کے درمیان ہونے والے گفتگو میں ان چیزوں کو بیان ہونا چاہئے ۔
میرا تجویز یہ ہے کہ اس طرح کے پروگراموں میں شیعہ فقہ اور مسیحی فقہ کے درمیان مقایسہ ہونا چاہئے اور اس کے بعد جو مشترکات حاصل ہوتے ہیں ان کے بارے میں گفتگو کریں کہ ادیان کے درمیان گفتگو کا طریقہ ہی یہی ہے ۔
ہمارے رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فرمایشات میں ایک مطلب کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ میں بھی اسی مطلب کے بارے میں تاکید کرتا ہوں کہ اس وقت دنیا کے قدرتمندوں پر جو جہالت طاری ہے وہ جہالت 1400 سال پہلے کی جہالت سے بہت زیادہ ہے جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ تمام آسمانی ادیان کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔
میں اس بات کوآپ جیسے ادیان کے بزرگوں کے سامنے با بانگ دہل کہتا ہوں کہ اس وقت دنیا کے قدرتمند ممالک تمام آسمانی اور توحید ی ادیان کو ختم کرنے کے درپے ہیں اگر ان ادیان کے علماء بیدار نہ ہو جائے تویہ لوگ اپنے برئے عزائم میں کامیاب ہو جائیں گے ۔
حوزہ علمیہ قم اور علماء اسلام ہر جہت سے گفتگو کرنے کے لئے تیار ہیں اور اسے بہت زیادہ ضروری بھی سمجھتے ہیں تا کہ دنیا کی دینی جوامع کی حفاظت کر سکیں ان شاء اللہ
السلام علیکم و رحمة الله و برکاته