امام حسین علیہ السلام سے عشق انسان کو نجات دلاتا ہے
24 November 2024
04:16
۳,۸۹۴
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
عزاداری ابا عبد اللہ حسین علیہ السلام برگزار کرنے اور اس میں شرکت کرنے کی اہمیت
بسم الله الرّحمن الرّحیم الحمدلله رب
العالمین و صلی الله علی سیدنا محمد و آله الطاهرین
و لعنة الله أعدائهم أجمعیمن الآن إلی
قیام یوم الدّین
قال الله تبارک و تعالی: «وَ مَنْ
أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعا إِلَى اللهِ وَ عَمِلَ صالِحاً وَ قالَ إِنَّني
مِنَ الْمُسْلِمين»(فصلت:33)
خداوند متعالی کے عظیم نعمتوں میں سے ایک حتی کہ اصل رسالت خدا سے بھی برابر ہے واقعہ عاشورا اور کربلا ہے ، میں کبھی یہ سوچتا ہوں کہ اگر ظلم ظالم اور یزید و ابن زیاد۔۔۔۔ کی بات نہ تھی ، تو کیا خدا سے تقرب پیدا کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام کے خیمہ سے بہتر کسی اور جگہ جمع ہو سکتے تھے ؟التبہ خدا نے اپنے ساتھ تقرب پیدا کرنے کے لئے نماز ،روزہ ،حج اور جہاد۔۔۔ کو قرار دیا ہے ،لیکن یہ روایت ہے کہ فرماتا ہے : «احبّ الله من احبّ حسینا»(کامل الزيارات:52) ، اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی خدا کا محبوب ہونا چاہتا ہے تو اسے حسینی ہونا چاہئے ،اسے امام حسین علیہ السلام کے در پر جانا چاہئے، امام حسین علیہ السلام کے خیمہ میں چلے جائیں ،خدا وند متعالی نے امام حسین علیہ السلام اور واقعہ عاشورا کے لئے کیا کچھ عنایت نہیں کیا ہے ؟جس طرح ماہ مبارک رمضان ایک طریقہ سے انسان کو پاکیزہ کرتا ہے ،میرا یہ اعتقاد ہے کہ محرم اور صفر اور یہ عزاداری بھی ایک قسم کی ہماری پاکیزہ ہونے کا سبب ہے ۔
پورا سال ہر کوئي اپنے مال و دولت اور منصب کے پیچھے ہوتا ہے لیکن جب محرم پہنچتا ہے تو یہ ان میں سے بہت سی چيزوں کی صفائی کر لیتا ہے ،ہمیں اس نگاہ سے محرم کو دیکھنا چاہئے ۔
آپ دیکھیں کہ پہلے سے مخصوصا انقلاب سے پہلے کچھ لوگ یہ کہتے تھے کہ کچھ عرب لوگوں کو ایک ہزار سال پہلے مارے ہیں،اس سے ہمارا کیا ربط ہے کہ ہم ان کے لئے عزاداری کریں؟پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم خود اپنے آپ کو ترقی کر رہے ہیں ، یہ عزاداری اس عزاداری کی طرح نہیں ہے کہ جو کسی کے دنیا سے چلے جانے پر اس کے غم میں روتے ہیں ،یہ بہت ہی بلند و بالا ہدف رکھتا ہے ، ہم ان عزاداری میں اپنے اصلاح اور تزکیہ کرتے ہیں ۔
افسوس کا مقام ہے کہ ہم نہضت عاشورا کے اس پہلو سے غافل ہیں ، روتے ہیں لیکن صرف ثواب اور شفاعت کے لئے، یہ سب اپنی جگہ صحیح ہے ،میرا اعتقاد یہ ہے کہ اگر معرفت کے ساتھ مجلس یا ہر وہ جگہ جو امام حسین علیہ السلام سے مربوط ہے داخل ہو جائے ، مسجد یا حسینیہ یا سبیل ،یا چای بنانا ہو ،یا کوئی سیاہ کپڑا لگانا ہو ، امام حسین علیہ السلام سے مربوط مجالس و محافل ایسا ہے کہ انسان جتنا زیادہ اس میں داخل ہو جائے ایک عظیم معدن اور ایک بڑے خزانہ میں پہنچتا ہے ، علم ، عزت ،قدرت ، عاقبت بخیری، مال ، خلاصہ کلام دنیا اور آخرت کی سلامتی امام حسین علیہ السلام کے خیمہ میں ہے ۔
یہ ہماری کوتاہ
فکری ہے کہ ہم بہت ہی محدود فکر کرتے ہیں ،یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ان مجالس
میں پیسہ خرچ کرنے کے بجائے کسی لڑکی کا جہیزیہ دیں ، یہ دونوں آپس میں قابل
مقایسہ ہی نہیں ہے ، کبھی امام حسین علیہ السلام کے لئے ایک قطرہ آنسو بہانا ابو
قبیس کے پہاڑ کے برابر صدقہ دینے سے بھی زیادہ ارزش رکھتا ہے ،لیکن کونسا آنسو؟
کیسی معرفت کے ساتھ؟ آئمہ علیہم السلام کے زمانہ میں بھی کچھ لوگ آئمہ سے
عرض کرتے تھے ہم مستحبی حج انجام دینا
چاہتے ہیں ،تو کچھ لوگ کہتے ہیں حج مستحبی کے بدلے فقراء کو صدقہ دے دیں ، امام
علیہ السلام نے فرمایا : نہیں ایسا نہیں کرو، چونکہ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ
حج میں کچھ ایسے آثار ہیں کہ صدقات میں میں نہیں ہے ، ہر کام اپنی جگہ ، انسان صدقہ بھی دے اور حج پر بھی چلے جائيں ،
لہذا روایات میں آیا ہے کہ ہر سال حج
مستحبی انجام دو اور صدقہ بھی دو۔
امام حسین علیہ السلام پر رونے کے آثار کے بارے میں جو روایات ہیں کہ خدا اس کے گناہوں کو محو کرتا ہے ، اس کی درجات کو اوپر لے جاتا ہے ، اس کا کیا معنی ہے ؟ اگر ان بہت ساری صدقات کے ثواب کو جمع کریں تو امام حسین علیہ السلام پر رونے کے ایک قطرہ اشک کر برابر نہیں ہو سکتا ، امام عالی مقام پر رونے پر درجہ ملتا ہے ،حسنہ ملتا ہے اور گناہ معاف ہو جاتا ہے لہذا اس لحاظ سے مجالس عزاداری کی طرف توجہ کرنا چاہئے اور آپ سب سے میرا یہ درخواست ہے کہ واقعہ کربلا اور عاشورا کو اس لحاظ سے دیکھیں کہ یہ انسانوں کو پاکیزہ کرنے اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے ہے ۔
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ خدا ان کو پسند کرے تو وہ یہ سوچیں کہ اپنے آپ کو کس طرح امام حسین علیہ السلام سے نزدیک کر سکتا ہے ،جتنا امام حسین علیہ السلام سے نزدیک ہو گا اتنا وہ خدا سے نزدیک ہو جائے گا اور خدا ان کو پسند کرے گا ، خدا کی محبت کا رمز و راز یہ ہے ، لہذا جس انسان کے دل میں امام حسین علیہ السلام کی محبت نہ ہو ممکن نہیں ہے کہ وہ خداکا محبوب واقع ہو جائے ، اگرچہ وہ دن رات نماز پڑھے ، روزہ رکھے ، حج پر چلے جائے اور صدقہ دے دیں ۔
ہمیں ہر سال اس فرصت سے صحیح استفادہ کرنا چاہئے اور اپنے درجات کو بلند کریں ، پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس میں کوئي چیز تکراری نہیں ہے ، کہ یہ بتایا جائے کہ گذشتہ سال دس روز مجالس تھے اس سال بھی دس روز ہے ،ہم سب اس چیز سے غافل ہیں کہ عزاداری میں تکرار نہیں ہے ، ہر لحظہ عزادار کے لئے ایک رتبہ ہے ، ہر لحظہ انسان کے اچھے ہونے کا موقع ہے ، جو لوگ اہل معرفت ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہر لحظہ ان کے دلوں میں معرفت کے نئی دروازے کھل جاتے ہیں ۔
کل الخیر فی باب الحسین ہے ، کل الخیر یعنی علم، عزت ، قدرت ، عظمت ، عاقبت بخیری ،اور سب چيزیں ، اگر اپنے بچوں کی اچھائی اور بہتری کو چاہتے ہیں تو ان کے ہاتھ کو پکڑ کر خیمہ امام حسین علیہ السلام میں لے آو،میں ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو عزای حسینی کے لئے خیمہ لگاتے ہیں ۔
جو آیہ کریمہ تقریر کے ابتداء میں تلاوت کیا اس کے بارے میں کچھ گفتگو کروں ، جب امام حسین علیہ السلام مدینہ سے مکہ تشریف لائے ، مکہ کے حاکم نے امام عالی مقام کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ کیوں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کر رہے ہو، اور یزید کے ہاتھو کیوں بیعت نہیں کررہے ہو ؟ میرے پاس آجاو میں امان دیتا ہوں ، اور شام میں یزید کے پاس آپ کی سفارش کرتا ہوں تا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے ۔
امام علیہ السلام نے دو خطوط میں اسی آیہ کریمہ کو ذکر کر کے اس کا جواب دے دیا «وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعا إِلَى اللهِ وَ عَمِلَ صالِحاً وَ قالَ إِنَّني مِنَ الْمُسْلِمين»،تم یہ کہتے ہو کہ میں تفرقہ پھیلا رہا ہو ؟ میں لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دے رہا ہو ، کیا اس سے بھی بڑھ کو کوئی بات ہے ؟ قرآن فرماتا ہے :«وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعا إِلَى اللهِ وَ عَمِلَ صالِحاً وَ قالَ إِنَّني مِنَ الْمُسْلِمين»، اس آیہ کریمہ اور خود امام حسین علیہ السلام کے بیان کے مطابق ، آپ قیامت تک تمام عالم کو خدا کی طرف دعوت دیتا ہے ، یہ عزاداری اس دعوت کا جواب ہے یعنی ہم ان مجالس عزاداری میں شرکت کر کے اور عزاداروں کی خدمت کر کے حضرت کی ندا پر لبیک کہہ رہے ہیں اور ہم خدائی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں ، لہذا یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے ۔
لہذا سبیلیں اور مجالس عزاداری جتنا زیادہ ہو بہتر ہے ، اس راہ میں جتنا بھی کام کرے کم ہے ، اس مطلب کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جسے اس سال مراجع تقلید میں سے ایک نے فرمایا تھا کہ یہ جو کہا جاتا ہے عزاداری میں افراط ہوتا ہے ، عزاداری میں اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے ،یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ اس بات کے کرنے والا عزاداری اور امام حسین علیہ السلام کی عظمت سے ناواقف ہے،امام حسین علیہ السلام کے لئے جتنا سینہ زنی کرے اور جتنے فداکاری کرے کم ہے ،بزرگان نے جو فرمایا ہے کہ قمہ زنی مت کرو ، چونکہ اس وقت قمہ مارنا اسلام کے غلط تصور کو پیش کرتا ہے لیکن اگر اسے اسلام اور شیعہ کے خلاف تبلیغ کرنے کے لئے استفادہ نہ کرتے تو امام حسین علیہ السلام کے لئے جتنا بھی کرے کم ہے ۔
سینہ زنی کرنے والے کا سینہ سرخ ہو جاتا ہے یہ اس کے لئے ایک توفیق ہے ، کیا یہ سوچتے ہیں کہ یہ کہیں لکھا نہیں جاتا ہے ؟ امام حسین علیہ السلام کے لئے جو بھی کام ہم کر سکتے ہیں کر لینا چاہئے ، یہ بہت بڑا توفیق الہی ہے ، یہ نہ بولا جائے کہ یہی کافی ہے ، البتہ ملاک اور معیار اپنے جگہ پر ہونا چاہئے ۔
اگر امام حسین علیہ السلام سے مربوط روایات میں غور و حوض کرے ،تو میرے خیال میں کوئی بھی انسان امام حسین علیہ السلام کے ارادہ کے بغیر ان مجالس اور محافل میں نہیں آسکتا ہے ، ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ ہمارے آئمہ اطہار علیہم السلام اپنے محبین اور مبغضین کو اپنے زندگی میں اور شہادت کے بعد اچھی طرح جانتے ہیں ، اور عزاداری کی توفیق خود ان کے ارادہ اور توجہ سے نصیب ہوتی ہے ، لہذا ہمیں اس کا قدر کرنا چاہئے کہ اس خیمہ کے نیچے آنا نصیب ہوا ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں عزاداری کر رہے ہیں ہمیں ہر سال پہلے سے بہتر انداز سے عزاداری کرنا چاہئے ، اور اس میں اختلاف پیدا ہونے کا موقع نہ دیں ۔
امام حسین علیہ السلام خود بھی ایسے اختلاف پر راضی نہیں ہے ، اگر میں ایک طلبہ امام حسین علیہ السلام کے بارے میں تقریر کرنا چاہوں تو مجھے اس انتظار میں نہیں ہونا چاہئے کہ مجھے دعوت دی جائے ،اور اس سے اپنے لئے مقام بنا لیں ، بلکہ یہ صرف خدا اور امام حسین علیہ السلام کے لئے ہونا چاہئے انشاء اللہ وہ خود مدد کریں گے ۔
اس وقت جو مشکلات سب کے لئے درپیش ہے ، یہ عمومی خرابی جو وجود میں آئے ہیں اور سب گھروں تک رسوخ کر چکے ہیں ان سے نجات کا واحد حل یہ ہے کہ جوانوں کو امام حسین علیہ السلام کے خیمہ میں لے آئيں ،اور ان سے کہا جائے کہ جائيں تنھائي میں سوچیں کہ یہ تصویر ، یہ فلم دیکھنے اور یہ نامحرم سے ارتباط پیدا کرنے میں کیا امام حسین علیہ السلام راضی ہے ؟
امام حسین علیہ السلام سے عشق انسان کو نجات دیتا ہے ، اور جو بھی اس راہ میں آجائيں امام علیہ السلام اس کے ہاتھ کو تھام لیتا ہے اور اسے نجات دیتا ہے حضرت کی عنایت نہ صرف آخرت میں ہے کہ ہم سب کو ان کی شفاعت کی امید ہے بلکہ اس دنیا میں بھی نجات کی کشتی ہے «إِنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ ... مِصْبَاحُ هُدًى وَ سَفِينَةُ نَجَاةٍ»(عيون أخبار الرضا(ع)1: 60)، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کشتی میں سوار ہونے کا راستہ کیا ہے اور کس طرح اس نجات کی کشتی سے اپنے اور جوانوں اور معاشرہ کی نجات کو حاصل کر سکتا ہے ؟
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته