امام(عليه السلام) تمام لوگوں کے اعمال پر گواہ ہے
24 November 2024
04:16
۳,۴۳۴
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
امام(عليه السلام) تمام لوگوں کے اعمال پر گواہ ہے
بسم الله الرحمن الرحیم الحمدلله رب العالمین و صلی الله علی سیدنا محمدوآله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین من الآن الی قیام یوم الدین
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم «وَ جاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهادِهِ هُوَ اجْتَباكُمْ وَ ما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبيكُمْ إِبْراهيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِنْ قَبْلُ وَ في هذا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهيداً عَلَيْكُمْ وَ تَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقيمُوا الصَّلاةَ وَ آتُوا الزَّكاةَ وَ اعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى وَ نِعْمَ النَّصير» سوره حج: آيه 78)
ہماری گفتگو ایک بہت ہی اہم موضوع کے بارے میں ہے ، ہمارے ائمہ علیہم السلام کے اوصاف میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حضرات لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں ، اگرہم اس مطلب کو صحیح طرح سمجھ سکے تو انسان کی زندگی میں بہت ہی اچھی تبدیلي آجاتی ہے ۔
اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے اماموں کے تمام اوصاف کی بنیادیں خود قرآن کریم میں موجود ہیں، یعنی اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے آئمہ علیہم السلام کے پاس وسیع علم ہے ، یا آئمہ اطہار علیہم السلام سے کوئی خطا سرزد نہیں ہوتا اور معصوم ہیں ، یا یہی عنوان کہ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ یہ خصوصیات کسی روایت یا کسی کتاب میں ذکر ہوا ہو کہ جس کے لئے پھر تحقیق کرنے کی ضرورت پڑے کہ اس کا سند صحیح ہے یا نہیں ہے ؟ اگرچہ اس بارے میں بہت ساری روایات بھی موجود ہیں ، لیکن یہ شیعوں کے افتخارات میں سے ہے کہ ان کے پیشواوں کی صفات اور ہر وہ چیز جو ان کے بارے میں قائل ہیں ان سب کی بنیاد قرآن کریم ہے اور قرآن کریم سے ہی یہ سب اخذ ہوتے ہیں ۔
لیکن افسوس ہے کہ ہمارے معاشرہ میں کچھ روشنفکر لوگ تاریخی غلط باتوں سے اثر انداز ہو کر آئمہ معصومین علیہم السلام کے مقام و منزلت کو کھٹاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئمہ معصومین علیہم السلام علماء ابرار تھے کہ تمام احکام کو جانتے تھے ، ان سے جو بھی حکم پوچھیں اس کا جواب دے دیتے ہیں ، اور اہل گنا ہ بھی نہیں ہیں ، بس اسی حد تک، اس کے بعد جن مسائل کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں ان میں سے ایک لوگوں اور امت کے اعمال پر گواہ ہونے کا مسئلہ ہے کہ جس کے بارے میں ہم یہاں پر گفتگو کریں گے۔
ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام گذشتہ انبیاء اور آئمہ معصومین علیہم السلام پر گواہ اور شاہد ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام تمام لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں ، شیعہ ہو یا غیر شیعہ ،اور اعمال سے مراد بھی ہر وہ چیز ہے جو انسان کے دنیا اور آخرت میں اس کی سعادت اور شقاوت سے مربوط ہوتا ہے ، جانتے ہیں کہ یہ انسان اہل نماز ہے یا نہیں ہے ، اہل گناہ ہے یا نہیں ، اگرچہ سینکڑوں فرسخ دور بھی ہو تب بھی گواہ ہیں ۔ہم امام زمانہ (عج) سے جو معافی چاہتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ ہمارے اعمال آپ کے قلب مطہر کو آرزدہ کرتے ہیں ، اس کی وجہ یہی اعتقادی فکر ہے کہ ہم حضرت کو اپنے اعمال پر گواہ جانتے ہیں ۔
پس ہمارے آئمہ اطہار علیہم السلام جانتے ہیں کہ کون مومن ہے اور کون غیر مومن! کون ان کی ولایت کو قبول کرتے ہیں اور کون قبول نہیں کرتے!اور کون اہل بہشت ہے اور کون اہل جہنم ہے؟!
اس بحث کا( کہ ہمارے آئمہ ہمارے اعمال پر گواہ ہیں یا نہیں اس کا) اصلی فائدہ قیامت میں شفاعت کے بحث میں ظاہر ہوتا ہے ، ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ قیامت کے دن انسان کی شفاعت کرنے والوں میں سے ایک آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ صرف محشر میں حاضر ہو کر یہ پوچھیں کہ تمھارا حساب و کتاب کیا ہوا؟ کوئی مشکل تو نہیں ہے ؟ تمہارے گناہان معاف ہوئے یا نہیں ؟ بہشت کی طرف جاؤگے یا جہنم کی طرف؟ اس کے بعد بولیں کہ ہم تمھارے بارے میں کچھ سوچتے ہیں !نہیں ایسا نہیں ہے ، چونکہ دنیا میں ہمارے اعمال کو آئمہ دیکھ رہے ہیں ، لہذا اس بارے میں صحیح واقف ہیں کہ کون شفاعت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے ؟اس کے بعد آئمہ خود شفاعت کے لئے آتے ہیں کسی کو وہاں پر چیخ و پکار کر مدد مانگنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، اگرچہ قیامت کے دن ہر طرف چیخ و پکار ہی ہو گا ، لیکن آئمہ علیہم السلام شفاعت کے لئے خود تشریف لائيں گے ، چونکہ انسانوں کے اعمال پر گواہ ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کون کون شفاعت کے نیازمند ہیں ۔
بعض مفسرین اور فقہاء جیسے مرحوم آیت اللہ العظمی سبزواری نے تفسیر مواھب الرحمن میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ قیامت کا دن ایسا دن ہے کہ ہر کسی سے پہلے خود خداوندتبارک و تعالی انسانوں کے تمام چھوٹے بڑے اعمال پر شاہد اور گواہ ہے «لا یغادر صغیرة و لا کبیرة»(کهف:49)، روز قیامت ایسا دن ہے کہ انسان کے تمام اعمال حاضر ہے، «فمن یعمل مثقال ذرةٍ خیراً یره»،اگر انسان نے ذرہ برابر نیکی اور برائي کی ہو اسے دیکھ لے گا ، اور دائيں بائيں ملائکہ بھی نگہبانی دے رہے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے «ما يلفظ من قول الا لديه رقيب عتيد»(ق:18) ، یہ دونوں فرشتے انسان کے اعمال پر گواہ ہیں اور اسے لکھ رہے ہوتے ہیں ،البتہ یہ دو ہیں یا ایک فرشتہ اس بارے میں اختلاف ہے اور مشہور یہی ہے کہ دو فرشتے انسان کے اعمال کو لکھ رہے ہوتے ہیں ، لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک فرشتہ ہے وہ کہتے ہیں کہ یہی فرشتہ ایک لحاظ سے رقیب ہے اور دوسرے لحاظ سے عتید۔
قیامت کے دن انسان کے اعمال حاضر ہے اور خدا اور ملائکہ بھی ان سے آگاہ ہیں ، اس کے باوجود یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ خدا نے آئمہ کو ہمارے اعمال کا گواہ قرار دیا ہے ؟ مرحوم سبزواری نے اس کا جواب یوں دیا ہے: یہ خدا کی طرف سے مجرمین کے لئے اتمام حجت کے لحاظ سے ہے ، لیکن ہم ان سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ مگر کتنے اتمام حجت کی ضرورت ہے ؟ اس شخص کا اعمال بھی حاضر ہے ، اس نے جو کچھ کیا ہے ان سب کا فلم(ویڈیو) بھی موجود ہے ، کیا وہ انکار کر سکتا ہے ؟ قیامت کے دن تمام اعمال حاضر ہے ، وہ مقام حضور اور شہود ہے ،«یوم تبلی السرائر»(طارق:9)،حتی کہ انسان کا باطن ، کفر، نفاق، شرک ، ایمان اور انسان کا معنوی مراتب سب عیان ہونے کا دن ہے ۔
لہذا یہاں پر اتمام حجت کی بات نہیں کر سکتے ، بلکہ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام کو گواہ قرار دینے کی دو وجہ ہے ایک وجہ یہ ہے کہ انسان کے اعمال پر جتنے زیادہ افراد گواہ ہوں گے خود یہ ایک قسم کی عذاب ہے ، یہی دیکھ لینا کہ ملائکہ کے ہاں ذلیل ہو رہا ہے ، خدا کے نزدیک ذلیل ہو رہا ہے ، انبیاء اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کے نزدیک بھی ذلیل ہو رہا ہے ، یہ سب اس کے لئے عذاب ہے ۔
دوسرا پہلو یہی ہمارا مورد گفتگو بحث ہے کہ مقام شفاعت کے تحقق کے لئے خدا دنیا میں یہ قدرت آئمہ اطہار علیہم السلام کے سپرد کیا ہوا ہونا چاہئے کہ بندوں کے اعمال پر گواہ ہوں ، یہ گواہ تمام اعمال پر بھی ہے اور تمام نیات اور ہر وہ چیز پر جو لوگوں کے دلوں میں ہوتے ہیں ۔
ہمارے درمیان عام طور پر گواہی ظاہری کاموں میں ہوتا ہے ، انسان کسی کو کچھ کرتے یا کہتے ہوئے سنتا یا دیکھتا ہے تو اس کی گواہی دیتا ہے لیکن قرآن کریم میں جس گواہی کو بیان کیا ہے وہ حتی کہ ان چیزوں کے بارے میں بھی ہے جو انسانوں کے دلوں میں ہوتا ہے ،اس طرح کی بہت ساری روایات ہیں کہ کوئی شخص امام کی خدمت میں آتا ہے اس کے کچھ بولے بغیر امام فرماتا ہے ٹہرو تم یہ سوال پوچھنا چاہتے ہو ، وہ بھی تعجب کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ کہاں سے آپ کو یہ پتہ چلا؟ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس مسئلہ کے بارے میں اعتقاد رکھتے ہوں اور اس کے بعد کسی گناہ کے کرنے کا فکر کر لیں ؟ نہیں ! ایسا نہیں ہو سکتا، یعنی اگر انسان اس بارےمیں اعتقاد رکھتا ہو کہ آئمہ علیہم السلام ہمارے اعمال و افکار اور جو کچھ ہمارے دلوں میں گزرتے ہیں ان سب پر گواہ ہیں تو اس کے بعد کسی اور کے خلاف غلط فکر نہیں کریں گے !دوسروں سے دل میں کینہ نہیں رکھیں گے ، گناہ کرنے کے بارے میں سوچیں گےبھی نہیں اور شیطانی افکار کو اپنے آپ سے دور کریں گے۔
کبھی یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہم ایسا کیا کام کریں تا کہ گناہ کا فکر ہمارے ذہنوں میں نہ آئے ؟جواب یہ ہے کہ ہم اپنے اعتقاد کو قوی کریں ، ہمارے پاس مکتب اہلبیت علیہم السلام سے اتنے سارے معارف موجود ہیں ، کہ انہیں میں سے ایک آئمہ علیہم السلام کا ہمارے اعمال پر گواہ ہونا ہے ۔
میرے خیال میں اس بارے میں روایات تواتر کی حد تک ہے ، اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ متواتر روایت کے بارے میں کہتے ہیں اس کی سند کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، مثلا حسن آپ کو کسی واقعہ کے بارے میں بتائيں ،اس کے بعد یہی واقعہ علی، حسین، تقی اور دوسرے 20 نفر بھی بتائيں تو یہ تواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہے جس کے بعد آپ کو یقین حاصل ہوتا ہے اور اس بارے میں کچھ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حسن سچا انسان ہے یا نہیں ؟
ہماری روایت کی کتابوں میں ایک باب ہے جس کا عنوان ہے کہ ہمارے اعمال ملائکہ کے ذریعہ آئمہ علیہم السلام تک پہنچاتا ہے کہ ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے حتی آئمہ علیہم السلام کے شہادت کے بعد بھی ہمارے اعمال ان تک پہنچ جاتی ہیں ، یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ اس وقت خداوند متعالی کا حجت حی اور زندہ امام زمان (عج) ہے لیکن دلائل سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اورتمام آئمہ طاہرین علیہم السلام تک پہنچ جاتے ہیں ۔
بہر حال اس گفتگو کے دو بہت ہی اچھے نتائج حاصل ہوتا ہے ایک فائدہ تو قیامت کے دن شفاعت کا مسئلہ ہے ، اور دوسرا آئمہ اطہار علیہم السلام سے ارتباط قائم کرنے کا بحث ہے کہ قرآن میں فرماتا ہے: «يا ايها الذين امنوا اتقو الله وکونوا مع الصادقين » (توبه /119) یہ اس سوال کا جواب بھی ہے کہ جب ہم کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حرم میں جاتے ہیں تو حضرت کو کہاں سے پتہ چلتا ہے کہ ہم ان کے زائر ہیں ؟ جو لوگ علم دین، قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمایشات سے دور ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ حضرات بھی عام انسانوں کی طرح ہیں ، عام انسان جب مر جاتا ہے تو اس کے بعد کسی چيز کے بارے میں کچھ توجہ نہیں ہوتے ہیں لیکن ان کی یہی بات بھی غلط ہے ۔
ہم اپنے اعتقادات اور قرآنی اور روایايي محکم اور مضبوط دلائل کے مطابق یہ بتاتے ہیں کہ انسان جب اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو وہ نابود نہیں ہوتا ، آپ جب بھی کسی مردہ انسان کے قبر پر جاتا ہے تو اس کی روح کو حاضر کرتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہےکہ کون اس کے قبر پر آیا ہے ۔
جب ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ ہمارے آئمہ علیہ السلام شہداء علی الناس ہیں ، تو اس کا معنی یہ ہےکہ جب آپ امام رضا علیہ السلام کے حرم میں جاتے ہیں تو حضرت کو پتہ چلتا ہے کہ آپ آیا ہے ،اماموں کے زیارت دور سے کیسے صحیح ہے ؟ اسی دلیل کے تحت ان کے لئے دور اور نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا اور سب کچھ جانتے ہیں، امام رضا علیہ السلام کے زیارت کے اذن دخول میں یہی مطلب ذکر ہے کہ ہم جو کچھ بھی بولیں آپ متوجہ ہوتے ہیں ، سلام کرتا ہوں تو جواب دیتا ہے ، لیکن ہم کچھ خاص مصلحت کی تحت ان کے سلام کے جواب کو نہیں سن سکتے!پس دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام حیات اور ممات دونوں حالت میں ہمارے تمام اعمال پر گواہ ہیں ۔
انسان کے تمام اعمال سے آئمہ علیہم السلام کے آگاہ ہونے کے بارے میں ایک محکم دلیل سورہ حج کی آیہ 78 ہے ، کہ اس سے پہلی والی آیت میں مسلمانوں کو چار دستور دیتا ہے «یا ایها الذین آمنوا ارکعوا واسجدوا واعبدوا ربکم وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون»،رکوع کریں، سجدہ کریں، خدا کی عبادت کریں، اور اچھے کام انجام دیں تا کہ کامیاب ہو جائے ، اس کے بعد فرماتا ہے : «وجاهدوا فی الله حق جهاده»،خدا کی راہ میں جہاد کرو اور وہ بھی حق جہاد ۔
خداوند متعالی یہ جانتا ہے کہ تمام مسلمان حق جہاد ادا نہیں کر سکتے ، کیا حق جہاد کو آسان سمجھا ہوا ہے ؟ رکوع ، سجدہ اور اچھے کاموں کو تو سب انجام دے سکتے ہیں ، لیکن حق جہاد جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ ہمارے تمام اعمال میں ذرہ برابر ریا اور شرک نہ ہو، اور تمام اعمال صرف اور صرف خدا کے لئے ہو۔
آیہ کریمہ کی اس جملہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف خاص افراد حق جہاد کو انجام دے سکتے ہیں، اس کے بعد فرماتا ہے :«و ما جعل علیکم فی الدین من حرج مله ابيکم ابراهيم....» ،خدا نے آپ کو انتخاب کیا ہے اور جس دین کو آپ کےلئے قرار دیا گیا ہے وہ دین بھی سخت دین نہیں ہے ، اور یہ آپ کے باپ ابراہیم کا آئین ہے کہ آپ کو مسلمان کہا گیا ، کہ اس دعا کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے کعبہ کے بنانے کے بعد خدا سے یہ درخواست کیا تھا کہ میرے ذریہ کو مسلمانوں میں سے قرار دیں «ربنا واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا امة مسلمة لک...»(بقره 128) میرا اصل مقصد آیہ کریمہ سے اس حصہ کو بیان کرنا ہے
؛«لیکون الرسول شهیداً علیکم و تکونوا شهداء علی الناس»،آیہ کریمہ میں تین گروہ کو بیان کیا ہے : 1 – رسول، 2- لوگ ، 3- وہ گروہ جو رسول اور لوگوں کے درمیان واسطہ ہے ۔
خدا فرماتا ہے کہ میں یہ جو کہہ رہا ہوں کہ حق جہاد کو انجام دو یہ اس لئے ہے کہ سب سے پہلے لیکون الرسول شهیداً علیکم، رسول آپ پر گواہ ہو ، اور دوسری بات یہ ہے : «تکونوا شهداء»، آپ بھی گواہ ہو ، اورتیسرا «علي الناس»،آپ لوگوں پر گواہ رہیں، لہذا تین گروہ بیان ہوئے : رسول، لوگ اور وہ گروہ جو رسول اور لوگوں کے درمیان ہیں، اب سوال یہ ہے کہ یہ درمیانی گروہ کون لوگ ہیں؟ واضح ہے کہ اگر ہمارے پاس اس آیہ کریمہ کے ذیل میں کوئی روایت نہ ہوتی ، آیہ یہی فرماتا ہے کہ رسول آپ آئمہ پر گواہ ہے ۔
قیامت کے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ گواہی دے گا کہ خدا وند تبارک و تعالی کی طرف سے آئمہ معصومین علیہم السلام کے ذمہ جو کام تھے انہوں نے کامل طور پر انجام دے ہیں، واقعا انسان اگر قرآن کریم سے کچھ حد تک مانوس ہو تو یہ زیارت نامے اور دعائيں وہ سمجھ سکتا ہے ، زیارت آئمہ میں ہم یہ پڑھتے ہیں «اشهد أنک جاهدت فی الله حق جهاده»،یہ صرف ہمارے آئمہ سے مخصوص ہے ، آئمہ کے علاوہ کوئی بھی حق جہاد انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا ۔
حتی کہ مراجع اور ہمارے دینی بزرگان کہ ان کے تمام زحمتوں اور سعی اور کوششوں کو جمع کر لیں تب بھی یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ حق جہاد کو انجام دیا ہے ، حتی کہ امام خمینی قدس سرہ کہ اس عظمت کے ساتھ کہ تاریخ روحانیت شیعہ اور مرجعیت میں کوئی مثال نہیں ہے ، انسان ان کے لئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا :«اشهد أنک جهادت فی الله حق جهاده»، آپ نے اپنی پوری عمر کو اسلام کے لئے وقف کر دیا تھا ، لیکن یہ حق جہاد ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے آئمہ علیہم السلام سے مخصوص ہے ۔
روایات میں بھی ہے کہ فرماتے ہیں یہ آیہ ہم سے مخصوص ہے ،البتہ اگر روایت بھی نہ ہو تب بھی معلوم ہے کہ یہ افراد ایک خاص گروہ ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان پر گواہ ہے اور وہ خود لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں ، اور اس آيہ کریمہ کے مطابق شیعوں کا یہ اعتقاد ہے کہ یہ گروہ آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں، اور قرآن کریم میں ان کی خصوصیات کو بیا ن کیا گیا ہے، ان مختلف سائٹ اور ٹی وی چیلنز پر وہابی جن باتوں کو بیان کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کہتے ہیں : قرآن میں امامت کا مسئلہ کہاں بیان ہوا ہے ؟واقعہ غدیر کے بارے میں جو آیات ہیں ان کو ہم بیان نہیں کرتے ہیں کہتے ہیں ہم اسے قبول نہیں کرتے ہیں لیکن امامت پر دلالت کرنی والی آیات میں سے ایک آیت یہی آیت ہے کہ اس کے امامت پر دلالت کرنے کے لئے کسی روایت کی بھی ضرورت نہیں ہے ، کہ ہم پوچھتے ہیں کہ یہ درمیانی گروہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور لوگوں کے درمیان میں ہیں کون ہیں ؟ وہ گروہ کہ جن پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گواہ ہے اور یہ خود لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں ،ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ سنی لوگ اس آیت کا معنی کیسے کرتے ہیں ؟ وہ لوگ اس طرح معنی کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام امت اسلامی پر گواہ ہے اور امت اسلامی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لے کر قیامت تک سب کے سب یہود ، نصاری اور مشرکین پر گواہ ہیں ، یعنی تمام امت اسلامی تمام امتوں پر گواہ ہیں ۔
یہ بات بالکل غلط بات ہے ، کیا خدا تمام امت کو گواہ قرار دے سکتاہے ؟ اس امت میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ، فاسق، متدین ، عادل، عالم ، جاہل ، پاگل اور عاقل سب قسم کے لوگ ہوتے ہیں، کیا یہ سب گواہ ہیں؟!
کبھی بھی عقل ایسے معنی کو قبول نہیں کرتا ، یہ لوگ یہ بھی نہیں سمجھتے ہیں کہ گواہ دینے والا اور جن کے بارے میں گواہ دیا جا رہا ہے کم از کم ایک ہی زمانہ میں ہونا چاہئے ، یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ امت گذشتہ امتوں پر گواہ ہے کہ جن کا زمان بھی مختلف ہے ۔
لہذا اپنی اس بات کی توجیہ کے لئے ایک قسم کے باطل تاویل اور تفسیر کوبیان کرتے ہیں ، تفسیر عیاشی میں امام صادق علیہ السلام سے یہ روایت ذکر ہے کہ آپ فرماتا ہے : «فإن ظننت أن الله عنی بهذه الآیة جمیع اهل القبلة»،کیا تم یہ سوچتے ہو کہ اس آیت میں خدا نے تمام مسلمانوں کو ارادہ کیا ہے ؟ ملاحظہ فرمائيں کہ امام علیہ السلام کس قدر خوبصورت اور اچھے انداز میں دلیل کو بیان فرماتا ہے :«أفتری أن من لا یجوز شهادته فی الدنیا علی صاع من تمرٍ يطلب الله شهادته يوم القيمة بحضرة جميع الاهم الماضية کلا»،کیا آپ لوگوں نے یہ سوچا ہے کہ جس انسان کی گواہی اس دنیا میں کچھ کھجور پر بھی قبول نہیں کیا جاتا ہے کیا خدا قیامت کے دن تمام لوگوں کے اعمال کی نسبت ان کی گواہی کو قبول کرے گا ؟ ہرگز نہیں!
یہ گواہان رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے امت میں سے ایک خاص گروہ ہیں اور وہ گروہ ہم ہیں ، اس روایت سے یہ مطلب استفادہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہونا صرف اعزازی طور پر نہیں ہے کہ بس خدانے ان کو ایک مقام دیا ہو تا کہ صرف لوگوں کے اعمال پر گواہ رہیں ، بلکہ اس مقام کے مطابق کچھ وظائف بھی ذمہ پر آتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اس گواہ کے مطابق حکم ہو گا ، لہذا امام علیہ السلام فرماتا ہے ایک شخص جس کی گواہی اس دنیا میں ایک کھجور کے بارےمیں قبول نہیں ہے کیا خدا اس کی گواہی کو لوگوں کے اعمال کے بارے میں قبول کرے گا ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے ۔
قرآن نور ہے ، انسان کو چاہئے کہ ان آیات کو پڑھ لیں اور خدا سے مدد طلب کرے تا کہ اس کتاب کا مختصر مطلب انسان کے لئے واضح ہو جائے،آئمہ علیہم السلام کے لوگوں کے اعمال کے بارے میں آگاہ ہونے کے بارے ہمارے پاس قرآنی دلیل بھی ہے اور بہت ساری روایات بھی،جیسا کہ یہ آیہ کریمہ:«قل اعملوا فسیری الله عملکم و رسوله و المؤمنون»(توبه:105) ،کہ صراحت کے ساتھ فرماتا ہے خدا ، رسول اور مومنین کا ایک گروہ تمہارے اعمال کو دیکھتے ہیں ۔
اگر اس مسئلہ کے بارے میں ہم واقعا اعتقاد رکھتے ہیں تو ہمارے گفتار ، اٹھنا بیٹھنا ، زندگی اور کاروبار سب میں موثر ہونا چاہئے ۔
پرانے زمانہ میں کہتے تھے آیہ کریمہ «ما یلفظ من قولٍ إلا لدیه رقیب عتید» کو اپنے کمرہ اور کام کرنے کی جگہ پر لکھ کر رکھیں تا کہ ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہے ، اوپر والی آیت بھی ایسا ہی ہے کہ ہمیشہ ہمارے مد نظر ہونا چاہئے کہ یہ حضرات ہمارے اعمال کے گواہ ہیں ۔
خود یہ محفل اور میرا اور آپ سب کا یہاں حاضر ہونا اور ہماری یہ تمام باتیں امام زمان اور آئمہ معصومین علیہم السلام خصوصا حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے سامنے ہے۔
السلام علیک یا ابا عبدالله
ان ایا م میں اہلبیت علیہم السلام پر بہت زیادہ مصائب ڈھائے گئے ، مصیبت کربلا کے بارےمیں جتنا بھی بیان کرے کم ہے ، لیکن سب سے زیادہ مصیبت وہ وقت ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام قتل گاہ میں زمین پر گرے۔
راوی کہتا ہے امام آخری لحظات میں «انقلب علی یمینه فلم یتمکن»دائیں طرف پلٹنا چاہتے تھے لیکن نہیں پلٹ سکا ، کیوں؟ یقینا ان تیروں کی وجہ سے کہ جو آپ کر بدن اطہر میں لگے ہوئے تھے،«انقلب علی شماله فلم یتمکن»، بائيں طرف مڑنا چاہتے تھے لیکن وہ بھی نہ کر سکا ، نقل ہوا ہے کہ اپنے مبارک ہاتھوں سے کچھ مٹی جمع کر لیا اور سر مبارک کو اس مٹی پر رکھا اور یہ عرض کیا «الهی رضاً لقضائک تسلیماً لأمرک لا معبود سواک» و سیعلم الذین ظلموا أی منقلب ینقلبون.
خدایا ! ان مجالس کے بدولت ہمیں زیادہ سے زیادہ امامت سے آشنا فرما۔