آئمه علیهم السلام اور علم غیب

24 November 2024

04:30

۴,۸۸۷

خبر کا خلاصہ :
امیر المومنین علیہ السلام علم غیب کے بارے میں ایک خاص تعبیر کو بیان فرماتا ہے کہ شاید ہماری گفتگو کا طریقہ ہی بدل جائے ، حضرت فرماتا ہے " جہاں بھی عالم اور معلوم کے درمیان واسطہ موجود ہو وہ علم غیب نہیں ہے.
آخرین رویداد ها

آئمه علیهم السلام اور علم غیب

آئمہ علیہم السلام کے علم غیب نہ صرف روایت سے ثابت ہے بلکہ اس کی بنیاد قرآن کریم کی آیات ہیں

امام حسین علیہ السلام کا قیام حضرت کے اپنے اور اپنے اصحاب با وفا کے شہادت کے بارے میں علم کے ساتھ تھا( پہلا حصہ)

بسم الله الرحمن الرحیم
 
الحمدلله رب العالمین وصلی الله علی سیدنا محمدوآله الطاهرین ولعنة الله علی اعدائهم اجمعین من الآن إلی قیام یوم الدین

اس موضوع کے بارے میں بحث و گفتگو بہت ہی اہم بحث،  امام کے علم غیب  کے بحث پر موقوف ہے ، جو افراد امام حسین علیہ السلام کے اس قیام کے بارے میں صحیح اور درست تحلیل نہیں کر سکے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس اعتقادی بحث کے بارے میں علمی کمزوری رکھتے ہیں ، لہذا ہمیں یہاں پر پہلے اس بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے کہ خدا کے علاوہ پیغمبروں اور آئمہ  اطہار صلوات اللہ علیھم اجمعین بھی علم غیب رکھتے ہیں یا نہیں؟ تا کہ اس بارے میں امامیہ کا کلام آیات اور روایات کے مطابق واضح ہو جائے ۔

اس بارے میں ہم پہلے قرآن کریم کی آیات کو مستقل طور پر بیان کریں گے اس کے بعد اس بارے میں موجود روایات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔

علم غیب کے بارےمیں روایات مختلف ہیں ، جس طرح مرحوم مجلسی قدس سرہ نے بیان کیا ہے اس کے مطابق یہ روایات آپس میں قابل جمع بھی نہیں ہے ، بحار الانوار جلد 26 میں کہ جس کا عنوان ابواب علوم آئمہ علیہم السلام ہے اس میں ایک باب کو یہ قرار دیا ہے «باب أنهم لا یحجب عنهم علم السماء و الارض و الجنة و النار و أنه عرض علیهم ملکوت السموات و الأرض ویعلمون علم ما کان وما یکون إلی یوم القیام‍ه»، اور دوسرے باب کے عنوان کو «باب أنهم علیهم السلام لایعلمون الغیب»، ایک اور باب کے عنوان کو «باب أنهم خزّان الله علی علمه و حملة عرشه»، ذکر کیا ہے ،اگر یہ حضرات علم خدا کے خزانہ دار ہیں ، اور آسمان و زمین ، بہشت و جہنم کے علم ان سے پوشیدہ نہیں ہے ، عام طور پر ایسے علم کا بروز اور ظہور علم غیب میں ہی ممکن ہے ، پس دوسری روایات میں کیسے کہہ رہا ہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام غیب کے بارے میں علم نہیں رکھتے  ؟ ان دونوں قسم کی روایات کو آپس میں کیسے جمع کیا جاتا ہے؟

ہم یہاں پر اس گفتگو میں  علم غیب کے بارے میں موجود آیات کے بارے میں کچھ اشارہ کریں گے تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ ہم اس بارے میں قرآن کریم سے کیا استفادہ کر سکتے ہیں ؟ کیا قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ علم غیب اس کے واقعی معنی میں صرف خداوند تبارک و تعالی سے مختص ہے اور خدا کے علاوہ کوئی بھی اس بارے میں علم نہیں رکھتے ہیں ؟

امیر المومنین علیہ السلام علم غیب کے بارے میں ایک خاص تعبیر کو بیان فرماتا ہے کہ شاید ہماری گفتگو کا طریقہ ہی بدل جائے ، حضرت فرماتا ہے " جہاں بھی عالم اور معلوم کے درمیان واسطہ موجود ہو وہ علم غیب نہیں ہے [1]" اس لحاظ سے علم غیب اس مودر سے مخصوص ہے جہاں پر تعلم اور سیکھانا اور عالم اور معلوم کے درمیان میں واسطہ نہ ہو ، یہاں پر مفسرین اور فقہاء اس بارے  میں بحث و گفتگو کی ہیں کہ کیا علم اصول کے قواعد ان آیات کریمہ میں جاری ہیں یا نہیں ؟ وہ آیات جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ علم غیب صرف خداوند تبارک و تعالی سے مخصوص ہے ، کیا ان میں کوئی استثناء ہے یا نہیں ؟لہذا اس بارے میں قرآن کریم سے ایک واضح نتیجہ حاصل ہونا چاہئے ،چونکہ جب روایات کے آپس میں تعارض ہوں تو بالاخر یہ وہیں پر جا کر ختم ہو گا کہ کونسی روایت کتاب خدا سے مطابق ہے ؟اگر قرآن کریم سے یہ استفادہ ہو جائے کہ علم غیب اس کے واقعی معنی میں خداوندت بارک و تعالی سے منحصر ہے اور خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے  ممکن نہیں ہے تو وہ روایات آپس میں قابل جمع نہیں ہیں ۔

 لیکن اگر ہم قرآن کریم سے یہ استفادہ کریں کہ علم غیب خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بھی ہو سکتا ہے تواس وقت لا یعلمون الغیب  اور وہ تعابیر جن میں آئمہ علیہم السلام کو خزان علم بتائے ہیں قابل جمع ہیں ، اس کے بعد یہ بحث ہو گا کہ آیا علم غیب کلی طور پر  اس کے تمام موارد غیر خدا کے لئے حاصل ہوتا ہے یا ان کا علم غیب محدود ہے ؟یعنی قرآن کریم کی آیات اس چیز پر دلالت کرتیں ہیں کہ خدا وند تبارک و تعالی کے اذن سے علم غیب ملائکہ ، پیغمبروں اور آئمہ اطہار صلوات اللہ علیہم اجمعین کے پاس موجود ہے ،تو کیا یہ فرماتا ہے کہ وہی علم غیب جو خدا کے پاس ہے سب کے سب ان حضرات کے پاس بھی ہے یا نہیں بلکہ محدود حد تک خاص خاص موارد میں ان کے پاس علم غیب ہے ؟یہ بھی ایک بہت ہی مہم بحث ہے۔

اس بحث کا ایک اور موضوع یہ ہے کہ کیا خود منصب نبوت یہ اقتضاء کرتا ہے کہ نبی کو علم غیب جاننے والا ہونا چاہئے یا ان دونوں کے درمیان کوئی ارتباط نہیں ہے  ، نبوت اور علم غیب کے درمیان تفکیک ہو سکتا ہے ؟ ممکن ہے کوئی شخص نبی ہو لیکن اس کے پاس علم غیب نہ ہو ، اسی طرح یہ بات بھی قابل گفتگو ہے کہ کیا رسول اور نبی کے درمیان علم غیب کے ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟

کیا ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ نبوت اور رسالت کے درمیان جو فرق ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول کے پاس علم غیب  ہوتا ہے اور نبی علم غیب نہیں جانتا ؟

اسی طرح اس بارے میں بھی گفتگو اور بحث ہونا چاہئے کہ کیا قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ انبیاء کو جو علم غیب دیا گیا ہے کیا یہ علم غیب کسی اور کے پاس بھی ہو سکتا ہے یا نہیں ؟

ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ جس طرح خداوند تبارک و تعالی کے اذن سے پیغمبران الہی علم غیب کو جانتے ہیں ، یہی علم غیب آئمہ اطہار علیہم السلام کو بھی عنایت ہوئی ہے ، اور یہ بحث اس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آئمہ علیہم السلام کے علم غیب جاننے کے بارے میں نہ صرف روایت موجود ہے بلکہ اس کی بنیاد قرآن کریم ہے اور متعدد آیات اس پر دلالت کرتی ہیں ،اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد ہم امام حسین علیہ السلام کے واقعہ پر پہنچتے ہیں کہ ہم یہ بتاتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ قیام ایسا قیام تھا کہ بہت سارے افراد اس کے واقع ہونے کے بارے میں علم رکھتے تھے ، اور وہ چیز جو متعدد افراد کے لئے معلوم ہو وہ پھر علم غیب نہیں ہے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، امیر المومنین علیہ السلام اور امہات المومنین سے واقعہ عاشورا کے بارے میں کچھ روایات نقل ہوئی ہیں اور کچھ دوسرے لوگ بھی جانتے تھے کہ طبیعی طور پر یہ واقعہ واقع ہو گا ، لہذا حضرت امام حسین  علیہ السلام کی حرکت علم غیب  پر متوقف نہیں تھا ، لیکن ہمیں  اس بارے میں گفتگو کرنا چاہئے کہ امام اس نتیجہ کے بارے میں جانتے تھے اس کے باوجود کیسے اس کے لئے اقدام فرمایا ؟کہ اس بارے میں انشاء اللہ ہم گفتگو کریں گے ، یہ اجمالی گفتگو ہے اس کا تفصیل کچھ یوں ہے :

علم غیب کے بارے میں قرآن کریم کی آیات کے تین قسمیں ہیں ،ایک قسم کی آیات میں علم غیب کو خداوند تبارک و تعالی سے منحصر کیا ہے ۔

دوسری قسم کی آیات میں یہ بتاتے ہیں کہ  خدا کے اذن سے انبیاء اور رسول  بھی علم غیب جانتے ہیں  ۔

اور تیسری قسم کی آیات وہ ہیں جن میں انبیاء حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علم غیب کو اپنے آپ سے نفی کرتے ہیں  ۔

  وہ آیات جن میں علم غیب کو خداوند تبارک و تعالی سے منحصر کی ہیں وہ درج ذیل ہیں : : «قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ اْلأَرْضِ الْغَيْبَ إِلاَّ اللهُ»[2] "کہہ دیجئے کہ آسمان و زمین میں غیب کا جاننے والا اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور یہ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ انہیں کب دوبارہ اٹھایا جائے گا " ، کہ "من فی السموات و الأرض"مقدم ہوا ہے الغیب پر،جو نفی مطلق پر دلالت کرتی ہے ، یعنی فقط خدا غیب جانتا ہے «عِنْدَهُ مَفاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُها إِلاّ هُوَ»"اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے"[3]، «فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّهِ،»"تمام غیب کا اختیار پروردگار کو ہے"[4] ، یہاں پر  انّما ذکر ہوا ہے جو کہ ادات حصر میں سے ہے ( یعنی جس اسم پر انما یا دوسرے ادات حصر داخل ہو وہ اس حکم کو صرف اسی سے منحصر کرتا ہے ) «وَ لِلّهِ غَيْبُ السَّماواتِ وَ اْلأَرْضِ وَ إِلَيْهِ يُرْجَعُ اْلأَمْرُ كُلُّهُ»[5] "اور اللہ ہی کے لئے آسمان اور زمین کا کل غیب ہے اور اسی کی طرف تمام امور کی بازگشت ہے"« عالِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهادَةِ»[6]. "وہ غائب اور حاضر سب کا جاننے والا " کچھ آیات میں اصل علم غیب  اور مفاتیح علم غیب ( مفاتیح کو بعض نے خزان معنی کیا ہے ، لیکن اس کا معنی خزان سے بھی زیادہ دقیق ہے )  اور علام الغیوب ہونے کو صرف خداوند تبارک و تعالی سے منحصر کرتے ہیں ، کیا یہ متعدد آیات تقیید اور تخصیص کے قابل ہیں یا نہیں ہے ؟اس کے بارے میں ہم گفتگو کریں گے ۔

دوسری قسم کی آیات میں فرماتا ہے؛انبیاء خداوند تبارک و تعالی کی عنایت اور وحی کے مدد سے علم غیب جانتے ہیں «عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَدًا‌‍*إِلاّ مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا»"وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے * مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے "(سورةجن / 26 و 27)، یہاں پر اس بارے میں گفتگو کرنا چاہئے کہ کیا رسول کے عنوان میں کوئی خصوصیت ہے یا اس سے مراد نبی اور رسول دونوں ہے ؟بعض مفسرین کے کلمات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ  عنوان رسول میں خصوصیت ہے، مخصوصا سورہ آل عمران کی آیت 179 میں  جہاں فرماتا ہے :«وَ ما كانَ اللهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَ لكِنَّ اللهَ يَجْتَبي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشاءُ»"اور وہ تم کو غیب پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ہاں اپنے نمائندوں میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کرلیتا ہے"،اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ رسالت کا مقام نبوت سے بلند ہے اور خدا اپنے رسول کو علم غیب عنایت فرماتا ہے ۔

بعض نے یہ بتائے ہیں کہ جہاں پر بھی رسول اور نبی ایک ساتھ ذکر ہو وہاں پر ان دونوں میں فرق ہے لیکن اگر الگ الگ ذکر ہو جائے تو یہ عام ہے اور اس میں نبی بھی شامل ہے ، ہم ابھی ان آیات کے دقیق بحث میں نہیں جائيں گے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے مفصل تفسیر کی ضرورت ہے بہر حال آیہ کریمہ «عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَدًا»، میں  علی غیبه ،مجموع  الغیب پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ مبھم ہے اور ہم اس آیہ کریمہ سے یہ استفادہ نہیں کر سکتے کہ خداوند تبارک و تعالی نے اپنے برگزیدہ رسول کو تمام غیب سے آگاہ کرتا ہے بلکہ صرف محدود طریقہ سے موجبہ جزئیہ کے طور پر دلالت کرتا ہے ۔

ایک اور آیت میں فرماتا ہے :«ذلِكَ مِنْ أَنْباءِ الْغَيْبِ نُوحيهِ إِلَيْكَ»[7] "یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کررہے ہیں"، یعنی یہ اخبار غیبی میں سے ہے کہ تمہارے اوپر وحی کرتے ہیں، لہذا ہمارے میں قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے کہ جو ان آیات کے مقابل میں آئے جن میں علم غیب کو خداوند متعالی سے منحصر کرتا ہے جیسے یہ آیت :«لِلّهِ غَيْبُ السَّماواتِ وَ اْلأَرْضِ» و «لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ اْلأَرْضِ الْغَيْبَ إِلاَّ اللهُ»، پس ہمارے پاس کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو اس چیز پر دلالت کرے کہ خدا کے علاوہ رسل خصوصا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام علم غیب کو جانتے ہوں ، ہم ایسی کسی مطلب کو قرآن کریم سے استفادہ نہیں کر سکتے ۔

تیسری قسم کی آیات وہ ہیں جن میں پیغمبران اور خصوصا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علم غیب کو اپنے آپ سے نفی کرتے ہیں جیسے:«لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدي خَزائِنُ اللهِ وَ لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَ لا أَقُولُ لَكُمْ إِنّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاّ ما يُوحى‏ إِلَيَّ»[8]. "ہمارا دعو ٰی یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس خدائی خزانے ہیں یا ہم عالم الغیب ہیں اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مُلک ہیں. ہم تو صرف وحی پروردگار کا اتباع کرتے ہیں

، روایات میں جو عناوین ہیں وہ تقریبا 20 عنوان سے زیادہ ہے ، انہیں میں سے ایک علم مستاثر اور علم غیر مستاثر ہے ، علم مستاثر  یعنی وہ علم جو خداوند متعالی سے مخصوص ہے ، مرحوم مجلسی کہتے ہیں ، اس آیہ کریمہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس غیب کو اپنے آپ سے نفی کیا ہے جو خداوند تبارک وتعالی سے مختص ہے نہ  کہ مطلق غیب کو۔

واقعہ عاشورا کے بارے میں لکھی ہوئی ایک کتاب کے مقدمہ میں اسی آیت کریمہ سے تمسک کیا ہے «لا اقول لکم عندی خزائن الله و لا اعلم الغیب» ، اور یہ اعتراض کیا ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے آپ سے علم غیب کو نفی فرما رہا ہے تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین اپنے حرکت کے نتیجہ کے بارے میں علم غیب رکھتے تھے ؟ اس شخص نے نہ عاشورا کو سمجھا ہے اور نہ ہی اس آیہ کریمہ کو۔

خلاصہ یہ ہے کہ علم غیب کے بارے میں موجود آیات کے تین قسمیں ہیں:

پہلا قسم یہ ہے کہ غیب اپنے کامل معنی میں تمام مصادیق اور موارد کے ساتھ یعنی جنس اور ذات علم غیب  خداوند تبارک و تعالی سے مختص ہے ، دوسرا قسم یہ ہے کہ علم غیب محدود  طریقہ سے  خدا کے اذن سے انبیاء الہی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی عنایت ہوا ہے ، اور تیسرا قسم وہ آیات ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علم غیب کو اپنے آپ سے نفی کرتے ہیں ۔

ان آیات کو آپس میں جمع کرنے کا طریقہ واضح ہے ، میرے خیال میں یہاں پر اطلاق اور تقیید کی بات نہیں ہے ، اگر کچھ آیات  دلالت کرتیں کہ خداوند تبارک و تعالی کے پاس تمام علم غیب ہے اور دوسری آیات دلالت کرتیں کہ یہ تمام علم غیب خدا کے اذن سے پیغمبر کے پاس ہے ، تو وہاں پر اطلاق اور تقیید اور تخصیص کی بات ہوتی ، لیکن آیات ایسے نہیں ہیں ، بلکہ آیات کی ایک قسم یہ بتاتے ہیں کہ علم غیب اس کے تمام موارد کے ساتھ خدا کے پاس ہے اور خدا کے علاوہ کوئی بھی اسے نہیں جانتا !دوسرے قسم کی آیات میں یہ بیان ہوا ہے کہ انبیاء کچھ محدود حد تک علم غیب کو جانتے ہیں ، اور محدود سے مراد ایک دو یا چند مورد نہیں ہے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا کے نامحدود علم غیب کے مقابلہ میں آئمہ علیہم السلام کا علم جتنا بھی وسیع ہو پھر بھی محدود ہے لہذا اس لفظ محدود سے آپ کو اشتباہ نہ ہو ،بعض افراد کی طرح جو آئمہ علیہم السلام کی علم غیب کو صرف احکام میں بتاتے ہیں ، ہم ایسا نہیں کہتے بلکہ ہم اس سے بھی زیادہ کے قائل ہیں کہ انشاء اللہ بیان ہوں گے ۔

لیکن ہم ان آیات کو آپس میں جمع کرنے کے لئے دوسری قسم کی آیات کو پہلی قسم کی آیات کا مخصص قرار نہیں دے سکتے ؛دوسری قسم کی آیات یہ ہیں:«عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَدًا‌‍ إِلاّ مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ»، اور پہلی قسم کی آیات یہ ہیں :«لِلّهِ غَيْبُ السَّماواتِ وَ اْلأَرْضِ» و «لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ اْلأَرْضِ الْغَيْبَ إِلاَّ اللهُ»، یا «إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّهِ»،یا مشہور کی طرح اس کا قائل ہو جائيں کہ انما حصر پر دلالت کرتی ہے ، بعض فقہاء جیسے امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) انما کے حصر پر دلالت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن ہمیں قبول ہے کہ یہ حصر پر دلالت کرتی ہے ۔

ایک اور مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ بتائے کہ آيہ شریفہ «عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَدًا‌‍ *  إِلاّ مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ»  میں الا استثنای منقطع ہے ، یعنی اگر «علی غیبه» میں یہ بتائيں کہ غیب اضافہ ہوا ہے تو اس میں ابھام بھی نہیں ہے ، اس صورت میں اس کا معنی خدا کا تمام غیب ہو گا یعنی کوئی بھی خدا کے علم غیب کو نہیں جانتے ،اور یہاں پر یہ بات ہے کہ مستتثنی انبیاء میں سے ایک ہے کہ جسے  خدانے انتخاب کیا ہے اور مستثنی منہ بھی تمام علم غیب ہے«فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَدًا» یعنی فلا یظهر علی جمیع علم غیبه! تو "الا" منقطع ہو جائے گا کہ جس کا معنی یہ ہو گا کہ کوئی بھی خداوند عالم کے تمام علم غیب کو نہیں جانتا اور خدا کے برگزیدہ افراد اور انبیاء خدا کے کچھ علم غیب کو جانتے ہیں ۔

پس اس آیہ کریمہ میں وو احتمال موجود ہے اور دونوں احتمال کے مطابق ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ خداوند متعالی نے اپنے تمام علم غیب کو کسی اور کے لئے قرار دیا ہو، میں نے آیات کریمہ میں جتنا بھی غور و فکر کیا ایسی کوئی چیز ذہن میں نہيں آئي ، حتی کہ آیہ «وَ ما كانَ اللهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَ لكِنَّ اللهَ يَجْتَبي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشاءُ»، یہ علی الغیبیعنی جنس الغیب! اور و لکن الله بھی  اس بات کی تائيد کرتا ہے کہ ما قبل آیت میں بھی "الا" استثناء منطقع ہے ، یعنی خدا ایک گروہ کو انتخاب کرتا ہے اور کچھ حد تک علم غیب کو ان کے لئے عطا کرتا ہے ۔

یہاں پر ایک بہت ہی اہم مطلب ہے اور وہ یہ ہےکہ کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے آپ سے علم غیب کی نفی فرماتا ہے ؟ خداوند متعالی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتا ہے :«قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسي نَفْعًا وَ لا ضَرًّا إِلاّ ما شاءَ اللهُ وَ لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَ ما مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلاّ نَذيرٌ وَ بَشيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ»"آپ کہہ دیجئے کہ میں خود بھی اپنے نفس کے نفع و نقصان کا اختیارنہیں رکھتا ہوں مگر جو خد اچاہے اور اگر میں غیب سے باخبر ہوتا تو بہت زیادہ خیر انجام دیتا اور کوئی برائی مجھ تک نہ آسکتی -میں تو صرف صاحبان هایمان کے لئے بشارت دینے والا اور عذاب الٰہی سے ڈرنے والا ہوں " (اعراف / 188)، « قُلْ إِنْ أَدْري أَ قَريبٌ ما تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبّي أَمَدًا» (جن / 25)، «قُلْ ما كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَ ما أَدْري ما يُفْعَلُ بي وَ لا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاّ ما يُوحى‏ إِلَيَّ وَ ما أَنَا إِلاّ نَذيرٌ مُبينٌ»"آپ کہہ دیجئے کہ میں کوئی نئے قسم کا رسول نہیں ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے گا میں تو صرف وحی الہٰی کا اتباع کرتا ہوں اور صرف واضح طور پر عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہوں " (احقاف / 9)۔

سوال یہ ہے کہ کیوں  سورہ مبارکہ انعام آیت 50 «قُلْ لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدي خَزائِنُ اللهِ وَ لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ»"آپ کہئے کہ ہمارا دعو ٰی یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس خدائی خزانے ہیں یا ہم عالم الغیب ہیں" کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ حکم ہوا ہے کہ اپنے آپ سے علم غیب جاننے کی نفی کرے؟ جواب یہ ہے  روایات میں ہے کہ خداوند تبارک و تعالی نے اپنے علم کے 28 حروف میں سے دو حرف کو حضرت عیسی علیہ السلام اور 4 حرف کو حضرت موسی علیہ السلام کو دے دیا کہ جب آئمہ علیہم السلام تک پہنچتا ہے تو حروف کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے ، اور حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے اسی دو اسم اعظم کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرتا تھا اور نابینا کو  شفا عطا کرتا ہے ، کہ اسی وجہ سے کچھ لوگ حضرت عیسی کے خدا ہونے کا قائل ہو گئے ! چونکہ ان سے پہلے کے شرایع اور آسمانی ادیان میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہوئی تھی ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے آپ سے علم غیب کی نفی فرمایا تا کہ لوگ دوبارہ اسی راہ  پر نہ چلے !

مرحوم آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی (قدس سرہ) نے کتاب پاسداران وحی [9] ، اسی مطلب کو بیان فرمایا ہے ہم جو روایات میں یہ دیکھتے ہیں امیر المومنین اور دیگر آئمہ علیہم السلام اپنے آپ سے علم غیب کی نفی کرتے ہیں یہ اس وجہ سے ہے کہ  لوگوں میں اتنی تحمل نہیں ہے کہ جتنے علم آئمہ کے پاس ہیں ان کو قبول کرے ، کہیں ایسا نہ بولیں کہ یہ حضرت سب چیزوں کو جانتا ہے اور سب چیزوں سے باخبر ہے کیا کچھ ہوا ہے اور کیا کچھ ہونے والا ہے سب چيزیں ان کے ہاتھ میں ہے اور نعوذباللہ ان کی ربوبیت اور الوہیت کے قائل ہو جائے ! لہذا اپنے آپ سے علم غیب کی نفی کرتے تھے ۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم سے یہ استفادہ  ہوتا ہے کہ خدا وند متعالی نے اپنے علم غیب کو اگرچہ محدود  اور جزئی صورت میں ہی انبیاء اور رسولوں کے علاوہ کسی اور کو بھی عطا کیا ہے ؟ یہ بہت ہی اہم  بحث ہے ! ایک دفعہ تو ہم یہ بتاتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات دلالت کرتی ہیں کہ صرف وہ لوگ جو وحی کے ذریعہ مستقیم خدا ی تبارک و تعالی سے رابطہ میں ہیں وہی علم غیب سے مستفید ہوتے ہیں جیسے یہ آیات :«ذلک من انباء الغیب نوحیه إلیک[10]، يا تلک من انباء الغیب نوحیها الیک[11] ، یا قرآن کی ان آیات میں وسعت ہے اور غیر انبیاء اور رسل بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں ۔

قرآن کریم میں تین آیات موجود ہیں جن سے اس کے دوسرے افراد کو بھی شامل ہونا استفادہ ہوتا ہے ،ان میں سے پہلی آیت سورہ حج کی آیت 78 ہے «وَجاهِدُوافِي اللهِ حَقَّ جِهادِهِ هُوَ اجْتَباكُمْ وَماجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبيكُمْ إِبْراهيمَ هُوَسَمّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِنْ قَبْلُ وَ في هذا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهيدًا عَلَيْكُمْ وَ تَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ فَأَقيمُوا الصَّلاةَ وَ آتُوا الزَّكاةَ وَ اعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى‏ وَ نِعْمَ النَّصيرُ» "اور اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین میں کوئی زحمت نہیں قرار دی ہے یہی تمہارے بابا ابراہیم علیہ السّلام کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی مسلم اور اطاعت گزار رکھا ہے تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو لہذا اب تم نماز قائم کرو زکوِٰ اداکرو اور اللہ سے باقاعدہ طور پر وابستہ ہوجاؤ کہ وہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے"۔

اس آيت کریمہ کا مخاطب ایک خاص گروہ ہیں کہ خدا نے ان کو لوگوں کے درمیان سے انتخاب کیا ہے اور اس کا مخاطب تمام لوگ نہیں ہیں۔

ہمارا استدلال آیہ کریمہ کے ذیل سے ہے کہ فرماتا ہے:«لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ»" تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو "یہاں  پر تین گروہ کو بیان فرمایا ہے ، رسول، لوگ اور وہ گروہ جو رسول اور لوگوں کے درمیان ہیں، آیت کریمہ کا ظاہر تفسیر کا محتاج نہیں ، آیت اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ رسول لوگوں کے ایک گروہ پر گواہ ہے اور یہ گروہ خود تمام لوگوں پر گواہ ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ گروہ کون ہیں ؟ جو بھی ہو،ہم اہل سنت کے ساتھ بحث و گفتگو نہیں کرتے ہیں  کہ یہ گروہ کون ہیں ؟ خود جا کر تاریخ اسلام کے اوراق کو پلٹا کر دیکھیں کہ پیغمبر اکرم  صلی للہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت علیہم السلام کے علاوہ ایسا علم کس کے پاس تھے؟بہر حال اس آیہ کریمہ کے مطابق ایک گروہ ہیں جو تمام لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں، لوگوں پر گواہ ہونے کا معنی یہ نہیں ہے کہ خودان کے وجود پر گواہ ہوں، بلکہ ان کے اعمال کے گواہ ہیں ، ان کے ایمان اور کفر ، حب و بغض اور ہر وہ چیز جو ان کے اعمال سے مربوط ہیں ، خصوصا دینی امور، لہذا آیہ کریمہ مطلق ہے اور یہ فرماتا ہے یہ گروہ لوگوں کے تمام اعمال پر گواہ ہیں حتی کہ شخصی اعمال پر بھی۔

لہذا روایات میں بھی کہ امام باقر علیہ السلام فرماتا ہے :«نحن الشهداء علی الناس[12]». ، ہم لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں ، ہمارا ستدلال یہ ہے کہ گواہی دینا اس وقت ہے جب کسی چیز کو جانتا ہو ، جو شخص کوئی گواہی دینا چاہتا ہو وہ جب تک اس چيز کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہو گواہی نہیں دے سکتا ، پس یہ گروہ ہمارے اعتقاد کے مطابق آئمہ علیہم السلام ہیں کہ جو لوگوں کے تمام اعمال کے بارے میں جانتے ہیں فرق نہیں وہ اسی وقت ہو یا گذشتہ زمانہ میں یا آیندہ زمانہ میں ، چونکہ ناس کا معنی صرف اسی زمانہ کے لوگ نہیں ہے۔

آيت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس گروہ پر گواہ ہے ، کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف اپنی حیات طیبہ میں گواہ ہے ؟ نہیں! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گواہ ہے حتی کہ حیات کے بعد بھی ، یہ گروہ بھی ایسا ہی ہے کہ اپنے حیات کے بعد بھی گواہ ہیں ، آیہ کریمہ مطلق ہے اور صرف زمان حیات پر دلالت نہیں کرتا ۔

یہ آیہ کریمہ اثبات امامت اور امامت کی خصوصیات کو ثابت کرنے کے لئے بہت ہی قوی آیت ہے ، بعض لوگ جن کے پاس علم نہیں ہیں کہتے ہیں کہ امامت پر دلالت کرنی والی کوئی آیت موجود نہیں ہے ، ہم ان سے یہی پوچھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ «شَهيدًا عَلَيْكُمْ وَ تَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ» اس کا مخاطب کون ہے ؟ آیہ کریمہ کا ظاہر رسول ، لوگ اور ایک گروہ کے بارے میں تصریح ہے اور ہم شیعہ اس چیز کے معتقد ہیں کہ  پیغمبر اور لوگوں کے علاوہ جو گروہ ہے اس سے مراد ہمارے آئمہ علیہم السلام ہیں ۔

اس بارے میں دوسری آیت سورہ فاطر کی آیت 32 ہے :

«ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَيْراتِ بِإِذْنِ اللهِ ذلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبيرُ».پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا کہ ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خدا کی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور درحقیقت یہی بہت بڑا فضل و شرف ہے

اس سے ما قبل  آيت میں فرماتا ہے : «وَ الَّذي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِما بَيْنَ يَدَيْهِ إِنَّ اللهَ بِعِبادِهِ لَخَبيرٌ بَصيرٌ»ور جس کتاب کی وحی ہم نے آپ کی طرف کی ہے وہ برحق ہے اور اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور بیشک اللہ اپنے بندوں کے حالات سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے " ۔

ہم نے  قرآن کو آپ کی طرف وحی کی ہے ، یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی ہوئی ہے ،اس کے بعد فرماتاہے : ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا ہے جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا ،، وارث کا کیا معنی ہے ؟ ظاہری بات ہے کہ وراثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہی ہو گا چونکہ "اورثنا" میں یقینا نبی اکرم شامل نہیں ہے ، بلکہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ایک گروہ ہے  «الَّذينَ اصْطَفَيْنا»یعنی لوگوں کے درمیان ایک گروہ ہیں کہ ہم نے انہیں نبی اکرم کے بعد کتاب کا وارث  چن لیا ہے ، قرآن کریم کی اس بارے میں کچھ دوسری آیات ہیں جیسے یہ آیت : «إِنَّ اللهَ اصْطَفى‏ آدَمَ وَ نُوحًا وَ آلَ إِبْراهيمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمينَ»[13] " اللہ نے آدم علیہ السّلام,نوح علیہ السّلام اور آل ابراہیم علیہ السّلام اور آل عمران علیہ السّلام کو منتخب کرلیا ہے "ان آیات میں غور و فکر کرنے سے یہی واضح ہوتا ہے کہ مصطفون ایک خاص گروہ ہیں نہ کہ سارے لوگ، اور ہم اس گروہ کو آئمہ اطہار علیہم السلام  جانتے ہیں ، اور «اورثنا الکتاب» میں کتاب سے مراد بھی قرآن کریم ہے  کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد وراثت میں چھوڑا گیا ہے ، اور اس سے مراد تورات اور انجیل نہیں ہے ، اسی وجہ سے روایات میں ہے : «نحن الوارثون»[14]«،کتاب کے وارثین ہم اہل بیت ہیں ۔

اس روایت کی بنیاد  قرآن کریم کی یہی آیہ کریمہ ہے ،پس اس آیہ کریمہ سے بھی یہی استفادہ  ہوتا ہے کہ ایک گروہ ہیں جو کتاب کے وارث ہیں ، اور وارث کتاب ہونے اور کتاب کے بارے میں علم رکھنے کے درمیان لازم و ملزوم ہونا بھی واضح ہے ، وراثت کا یہ معنی نہیں ہے کہ کتاب کا وجود ظاہری ان کے پاس ہو بلکہ وارثت کا حقیقی معنی ، کتاب کا رکھنا ہے ۔

جیسا کہ بعض آیات میں اس بارے میں تصریح ہوئی ہے ، جیسے یہ آیت کریمہ: «مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ»(الرعد / 43).ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام  قرآن کے بارے میں عالم تھے ، چونکہ وارث کتاب تھے اور وارث کے لئے اس کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے ، آئمہ اطہار علیہم السلام  سے منقول خود روایات میں یہ تعبیر موجود ہے کہ ہمارے پاس علم الکتاب کامل طور پر موجود ہے.[15]

،اہم مطلب یہ ہے ، کہ جب آئمہ اطہار علیہم السلام کتاب کے بارےمیں عالم ہیں اور یہ کتاب ہر چیز کو بیان کرنے والا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آئمہ علیہم السلام تمام امور کے بارے میں عالم ہیں ۔

اب علم آئمہ علیہم السلام  کی کیفیت خود اپنی جگہ ایک الگ بحث ہے کہ اس کی طرف ہم اشارہ کریں گے ۔

تیسری آیت سورہ توبہ کی آیت  105 ہے : «قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُولُهُ وَ الْمُؤْمِنُونَ»، ہمارے نزدیک " الْمُؤْمِنُونَ" " اور پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کواللہ ً رسول اور صاحبانِ ایمان سب دیکھ رہے ہیں "سے مراد آئمہ اطہار علیہم السلام ہیں ، یہ آیت کریمہ بھی آیہ کریمہ  «وَ تَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ»  کی طرح ہے، یعنی خدا و رسول اور مومنین میں سے ایک گروہ آپ کے اعمال پر گواہ ہیں ۔

پس یہاں تک ہم نے قرآن کریم کی آیات سے یہ نتیجہ حاصل کیا کہ علم الغیب  اس کے کامل اور وسیع معنی میں خداوند تبارک و تعالی کے پاس ہے اور محدود انداز میں موجبہ جزئیہ کی صورت میں انبیاء اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کے پاس ہیں ۔یہ مطلب بہتر ین انداز میں قرآن کریم سے استفادہ ہوتا ہے ،یعنی صرف آیات کی طرف توجہ کرنے  سے بغیر کسی غور و فکر کے حتی کہ روایات کے بھی بغیر خود قرآن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ علم غیب کچھ محدود انداز میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے پاس موجود ہے۔

البتہ یہاں پر عقلی استدلال بھی بیان کرتے ہیں کہ خداوند متعالی وجود نامحدود ہے اور اللہ کے علاوہ باقی سب وہ فرشتے ہوں یا انبياء اور آئمہ علیہم السلام  کے وجود محدود ہیں، اور محدود کسی نامحدود کے لئے ظرف واقع نہیں ہوسکتا،ممکن ہے بعض اہل سنت شیعوں پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ شیعہ یہ کہتے ہیں  کہ ہمارے آئمہ علیہم السلام خدا کی طرح سب چیزوں سے آگاہ ہیں ، درحالیکہ اب تک کسی بھی شیعہ عالم دین نے یہ بات نہیں کی  ہے ، البتہ بعض مفوضہ اور متصوفہ اور۔۔۔۔۔ کہ جن کے پاس نہ علم ہے اور نہ اس امامت سے کچھ فائدہ ہوا ہے جن کا ہم معتقد ہیں،یہ لوگ اس طرح کے کچھ توھمات کرتے ہیں ،لیکن امامیہ کے کسی بھی بڑے مجتہد اور مفسر  میں سے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ علم غیب جو خدا وند متعالی کے پاس ہے وہ سب کے سب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہے ، کہ آئمہ طاہرین علیہم السلام  کے پاس ایسے علم کے ہونے کی بات کرنا تو دور کی بات ہے ۔

ایک اور مطلب روایات پر توجہ دینا ہے ؛ان شاء اللہ واقعہ عاشورا کے تحقیق کو بیان کرتے وقت ہم یہ بتا دیں گے کہ یہ واقعہ امام کے علم غیب پر متوقف نہیں تھا، لیکن یہ مطلب صحیح طرح بیان ہونا چاہئے کہ ہم امام علیہ السلام کے علم کو قرآن کریم سے استفادہ کرتے ہیں تا کہ کسی کےلئے بھی کوئی شک باقی نہ رہے کہ امام علیہ السلام ان مسائل میں جو اسلام کی بنیاد سے مربوط ہے ان کے بارے میں خدا نے جو علم غیب ان کے پاس رکھا ہے اس سے راہنمائي لیتا ہے ، البتہ اس کے قواعد و ضوابط کو بھی بیان کروں گا کچھ موارد ہیں کہ جو دین ، رسالت ، انسان کی ہدایت اور سعادت سے مربوط ہیں ان تمام امور کا علم آئمہ علیہم السلام کے اختیار میں ہونا چاہئے تا کہ لوگوں کی ہدایت کر سکے ۔

واقعہ عاشورا چونکہ دین کی بنیاد سے مربوط ہے لہذا یہ امام علیہ السلام کے علم غیب کے مصادیق میں سے ہو سکتا تھا ، لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المومنین علیہ السلام کے بہت ساری روایات سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی  خبر تھی،لہذا آپ علیہ السلام کا قیام علم غیب پر متوقف نہیں تھا ، لہذا ہمیں یہاں پر غیب کے معنی میں توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بعض نے بتایا ہے غیب یعنی وہ جو پنھان ہو اور عیاں نہ ہو۔

علم غیب کے بارے میں ممکن ہے یہ سوال ہو جائے کہ آپ جو کہتے  قرآن کریم کی کچھ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انبیاء اور آئمہ علیہم السلام  کے پاس کچھ حد تک علم غیب ہے ، اس کا ملاک اور معیار کیا ہے؟

جواب یہ ہے کہ  ملاک اور معیار قرآن کریم کی آیات میں ہے ، سورہ یوسف کی آیت 101میں فرماتا ہے :«رَبِّ قَدْ آتَيْتَني مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَني مِنْ تَأْويلِ اْلأَحاديثِ»"پروردگار تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دیا -" ،سلطنت دینے اور احادیث کے تاویل کے علم دینے کے درمیان کیا تناسب ہے ؟ آیت کریمہ اس باپ پر دلالت کرتی ہے کہ  سلطنت دیے جانے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ علم بھی دیا جائے جو اس حکومت کو چلانے کے لئے حاکم کو ضرورت ہوتی ہے ،امامت اور رسالت عطا کرنے کا تقاضا بھی یہ ہے کہ وہ علم جو رسالت اور امامت سے مربوط ہے اس علم کو امام اور رسول کے لئے عنایت ہو جائے۔

ایک اور آيت میں فرماتا ہے :«وَ جَعَلْناهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا وَ أَوْحَيْنا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْراتِ وَ إِقامَ الصَّلاةِ وَ إيتاءَ الزَّكاةِ وَ كانُوا لَنا عابِدينَ»[16]"اور ہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف کارخیر کرنے نماز قائم کرنے اور زکوِٰادا کرنے کی وحی کی اور یہ سب کے سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے"یعنی آئمہ  لوگوں کو ہمارے حکم سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں ، اس لحاظ سے لوگوں کی ہدایت خدا کے حکم محتاج ہے ، اور خدا کے حکم آئمہ  علیہم السلام کے علم میں ظہور ہوتا ہے ، یعنی انبیاء اور آئمہ علیہم السلام اگر لوگوں کو ہدایت کرنا چاہئے تو ان کے پاس رسالت اور امامت سے مربوط  تمام امور کا علم ہونا چاہئے ، یہ بہت ہی اہم اور قابل غور و فکر مطلب ہے ۔

امامت کا میدان ایک وسیع میدان ہے اور اس میں احکام ، اعتقادات حتی کہ مہم موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں، ممکن ہے جزئي  موضوعات کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ یہاں پر علم امام کی ضرورت نہیں ہے ، اگرچہ امام اس کے بارے میں بھی علم رکھنے کی قدرت رکھتا ہے اور اس بارے میں کچھ روایات بھی موجود ہیں کہ فرماتے ہیں ؛«إِنَّ الْإِمَامَ إِذَا شَاءَ أَنْ يَعْلَمَ عُلِّمَ»[17]امام جب کسی چیز کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو جان لیتے ہیں "، لیکن ان روایات کے علاوہ خود قرآن کریم کی آیات بھی اس چیز کو ثابت کرتا ہے کہ سلطنت ، رسالت اور امامت اور ان سے مربوط امور کے علم رکھنے کے درمیان رابطہ ہے اور دونوں لازم اور ملزوم ہے ۔

اس مطلب کے لئے ہمارے پاس بہت سارے شواہد ہیں ، جیسے:«فَقَدْ آتَيْنا آلَ إِبْراهيمَ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ آتَيْناهُمْ مُلْكًا عَظيمًا»[18]"ہم نے آلِ ابراہیم علیہ  السّلام کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم سب کچھ عطا کیا ہے"۔

میرے خیال میں آیات قرآن کے بارے میں یہی مقدار کافی ہے اگرچہ ہر ایک آیات کے بارے میں بہت ہی گہرا تفسیر ی بحث و گفتگو ہے، آيہ «إِلاّ مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ» کے بارے میں مرحوم علامہ طباطبائي نے تفسیر المیزان میں بہت ہی غور طلب مطالب بیان کی ہے ، لیکن میں اسی مقدار پر اکتفاء کرتا ہوں ،انشاء اللہ آيندہ کے درس میں اس بارے میں موجود روایات کو بیان کروں گا ۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]
ـ نهج البلاغه، خطبه 128، «انما هو تعلّم من ذي علم».
[2]
ـ سوره نمل: 65.
[3]
ـ سوره أنعام: 59.
[4]
ـ سوره يونس: 20.
[5]
ـ سوره هود: 123.
[6]
ـ سوره انعام: 73.
[7]
ـ سوره آل‌عمران: 44.
[8]
ـ سورة أنعام: 50.
[9]
ـ پاسداران وحي، چاپ 1387، ص191.
[10]
ـ سوره آل‌عمران: 44. خطاب به حضرت مريم.
[11]
ـ سوره آل‌عمران: 49. خطاب به حضرت نوح.
[12]
ـ کافي، کتاب الحجة، حديث 497.
[13]
ـ سوره آل‌عمران: 33.
[14]
ـ تفسير فرات کوفي، ص667.
[15]
ـ اصول کافي، چاپ اسلاميه، ج1، ص229.
[16]
ـ سورة الأنبياء: 73.
[17]
ـ الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏1، ص 258.
[18]
ـ سورة نساء: 54

برچسب ها :