آئمہ علیہم السلام اور علم غیب(2)
26 December 2024
20:04
۳,۶۵۸
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
آئمہ علیہم السلام اور علم غیب(2)
آئمہ علیہم السلام کے پاس وسیع علم ہیں کہ خدا وند تبارک و تعالی نے صرف انہیں عنایت فرمایا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام کا قیام اپنے اور اصحاب باوفا کے شہادت کے علم کے ساتھ تھے (حصہ دوم)
بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمدلله رب العالمین و صلی الله علی
سیدنا محمد و آله الطاهرین و لعنة الله علی أعدائهم اجمعین من الآن الی قیام یوم
الدین
أعظم الله أجورنا و أجورکم بمصابنا
الحسین(علیه السلام)
واقعہ عاشورا کی حقیقت سے آگاہی کے لئے ہمیں علم امام علیہ السلام کے بارے میں صحیح غور و فکر کے ساتھ بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے اسی صورت میں ہمیں عاشورا ، کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی اس حرکت کے بارے میں ایک نئی افق کھل جائيں گے ۔
میں نے اس بارے میں جتنا زیادہ غور و فکر کیا تو اس واقعہ کے بارے میں میں بہت ہی زیادہ تعجب میں پڑ گیا ، اگر ہم امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک کے حرکت کو اسی ظواہر میں دیکھیں تو ہم صحیح طرح اس قیام کو سمجھ نہیں پائيں گے ،جب تک امامت کی حقیقت اور امام کے علم ہمارے لئے واضح نہ ہو ہم امام حسین علیہ السلام کی حرکت کے بارے میں کوئي جامع تجزیہ و تحلیل بیان نہیں کر سکيں گے ۔
میرا یہ دعوا ہے کہ جب تک امام علیہ السلام کے علم کا دائرہ ہمیں معلوم نہ ہو جائے اور جب تک یہ معلوم نہ ہو جائے کہ امام علیہ السلام علم غیب کو جانتے ہیں یا نہیں ؟ واقعہ کے جزئیات کے بارے میں علم رکھتے تھے یا نہیں ؟ ہمیں اس حرکت کی حقیقت اور عظمت کا علم نہیں ہو گا ، لہذا یہ تصور نہ ہو کہ یہ صرف ایک مقدماتی بحث و گفتگو ہے اور کوئی یہ نہ سوچے کہ ہمیں اس بارے میں زیادہ بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ ایک بہت ہی اہم مقدمہ ہے ۔
اس بحث و گفتگو کی ترتیب یوں بیان ہوا:
اول: علم غیب کے بارے میں قرآن کریم کی آیات پر ایک نظر۔
دوم: علم غیب اور علم امام علیہ السلام کے بارے میں روایات کی تحقیق۔
سوم: ان دونوں سے جو نتیجہ ملے گا اس کے ساتھ ہم واقعہ عاشورا کے بارے میں بحث و گفتگو کریں گے کہ علم غیب کا ہونا، نہ صرف اس حرکت و قیام کا مانع ہے بلکہ اس کی عظمت کو اور زیادہ کرتا ہے اس کے علاوہ حضرت علیہ السلام کے قیام کے نتیجہ کی نسبت علم عادی درکار تھا اور بہت سارے افراد اس سے آگاہ تھے ، ہمارے بحث و گفتگو کے یہ تین محور ہیں۔
گذشتہ درس میں ہم نے آيات کو بیان کیا اور ان سے جو نتیجہ ملا وہ تقریبا مرحوم طباطبائي کے نتیجہ کے برخلاف تھا ، بلکہ اکثر علماء کے نظریہ کے برخلاف تھا ، ان کی بات یہ تھی کہ علم غیب اصلی طور پر تو خداوند متعالی کے پاس ہے اور یہی علم غیب خدا کے اذن سے سب کے سب آئمہ اطہار اور انبیاء علیہم السلام کے لئے دیا جاتا ہے ۔
ہم نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ بات اگرچہ اس کی بنیاد ایک فلسفی بات ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے کوئی واضح دلیل نہیں ہے ، اس کے علاوہ حکم اور موضوع کی تناسب بھی صحیح نہیں ہے ، ان آیات کے لئے ایک بہت ہی کلی اطلاق ہے اور اس کے موارد استثناء بھی ہیں ۔
واضح الفاظ میں ہم یہ بتا دیں کہ تمام علماء امامیہ ایک مورد کے استثناء پر اتفاق ہیں ، اور ان موارد استثناء میں سے وہ علم جو یقینا خدا کے پاس ہے وہ «إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَة»" یقینا اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے "[1] ، قیامت کے وقت کو صرف اور صرف خدا جانتا ہے اور کوئی بھی پیغمبر حتی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسے نہیں جانتے ، اور حضرت حجت (عجل الله تعالي فرجه الشريف)کے ظہور کے وقت کے بارے میں بھی تقریبا روایات میں ایسا ہی بیان ہوا ہے ، کہ کوئی بھی نہیں جانتے حتی کہ خود حضرت بھی اس سے واقف نہیں ہے یعنی یہ بھی ان علم غیب میں سے ہے جسے خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا، لا یعلم إلا الله.
اسی آیت میں قیامت کے وقت کے علاوہ کچھ اور موارد کو بھی اضافہ کیا ہے «وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ ما فِي الْأَرْحامِ وَ ما تَدْري نَفْسٌ ما ذا تَكْسِبُ غَداًوَما تَدْري نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللهَ عَليمٌ خَبير»" اور وہی پانی برساتا ہے اور شکم کے اندر کا حال جانتا ہے اور کوئی نفس یہ نہیں جانتا ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کسی کو نہیں معلوم ہے کہ اسے کس زمین پر موت آئے گی بیشک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے"۔
اس وقت جو سوال عام طور پر کیا جاتا ہے کہ آجکل میڈیکل علم اتنا وسیع ہوا ہے کہ ارحام میں مذکر ہے یا مونث اسے معلوم کر سکتا ہے ، پس کیسے اس آیت کریمہ میں فرما رہا ہے کہ یہ علم صرف خدا وند متعال کے پاس ہے ؟
جواب یہ ہے کہ خداوند متعال کا اس بارے میں علم صرف مذکر اور مونث ہونے کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ اس بچہ کی تفصیلی خصوصیات کے بارے میں بھی ہے ، کہ یہ خوبصورت ہے یا بد صورت؟ سعادت نصیب ہو گا یا نہیں ؟ وہ کیا کیا کام کرے گا؟ کتنی مدت زندہ رہے گا؟ کوئی بھی میڈیکل علم یہ نہیں بتا سکتا کہ جو بچہ ماں کے رحم میں ہے وہ دولتمند ہو گا یا فقیر؟ ظالم ہے یا عادل؟ اس کی زندگی کیسی ہو گی؟ وہ کس طرح مرے گا؟ بشر کا علم اتنا پیشرفت نہیں ہے کہ یہ سب تفصیلات بیان کر سکے۔
بزرگان ان چیزوں کو موارد استثناء کے طور پر قبول کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ باقی تمام موارد میں کہتے ہیں کہ خدا کا علم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کو بالعرض دیا گیا ہے ۔
لیکن ہم یہاں یہ عرض کرتے ہیں کہ اس ادعا کے لئے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، اس کے علاوہ خو د حکم اور موضوع کی مناسبت کا اقتضاء یہ ہے کہ یہ صرف خداوند تبارک و تعالی سے مختص ہے ، لہذا ہم یہ بتاتے ہیں کہ علم غیب اپنے وسیع و عریض حدود کے ساتھ صرف خدا کے اختیار میں ہے ، لیکن ایک محدود حد تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے اختیار میں بھی قرار دیا گيا ہے ، اور اس محدود سے مراد عرفی محدود نہیں ہے بلکہ یہی بھی ہم جیسے افراد کے لئے نامحدود ہے ، یہ مطلب خود آیات کریمہ سے استفادہ ہوتا ہے ۔
علم غیب کے لئے ہم دو قسم کی تعریف کر سکتے ہیں اگرچہ ہم نے کہیں ان دونوں کے بارے میں تصریح سے لکھا ہوا نہیں دیکھا ہے ۔ ایک تعریف یہ ہے کہ غیب یعنی«ما غاب عن الناس» وہ جو لوگوں سے پوشیدہ ہو ، اس تعریف کے مطابق ممکن ہے ایک چیز ایک شخص کے لئے غیب ہو اور وہی چیز دوسرے شخص کے لئے غیب نہ ہو ،جو چیز لوگوں کے سامنے نہیں ہے وہ غیب ہو گا، لیکن پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے لئے مشہود ہے مثلا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتا ہے کہ یہ شخص کب مرے گا، یہ لوگوں کے لئے علم غیب ہے لیکن خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے یہ علم غیب نہیں ہے۔
یہ علم غیب کی ایک تعریف ہے کہ اس بیان کے مطابق علم غیب کا ایک نسبی معنی ہے ،لیکن علم غیب کا ایک اور معنی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے خطبہ 128 میں بیان فرمایا ہے کہ کوئی شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : «لَقَدْ أُعْطِيتَ يَا أَمِيرَالْمُؤْمِنِينَ عِلْمَ الْغَيْبِ فَضَحِكَ عليه السلام وَ قَالَ لِلرَّجُلِ وَ كَانَ كَلْبِيّاً يَا أَخَا كَلْبٍ لَيْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَيْبٍ وَ إِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِنْ ذِي عِلْم»،حضرت اس خطبہ میں ایک ملاک اور معیار کو بیان فرماتا ہے کہ علم غیب یہ ہے کہ اس میں عالم واسطہ اور استاد کے بغیر معلوم کے بارے میں علم حاصل کرتا ہے ، لیکن اگر کسی علم کو کوئی استاد سکھائے تو وہ علم غیب نہیں ہے !اس قول کے مطابق علم غیب صرف خدا وند متعالی سے منحصر ہے ، جو بھی خدا نے پیغمبر اکرم اور آئمہ اطہار صلوات اللہ علیہم اجمعین کو عنایت فرمایا ہے وہ اگرچہ عام انسانوں کے نظر وں سے مخفی ہے لیکن چونکہ خدا نے انہیں عطاء کیا ہے او ر ان حضرات نے خدا کے واسطہ سے اس علم کو حاصل کیا ہے لہذا اسے علم غیب کہا نہیں جاتا ۔
اس لحاظ سے آيات کو آپس میں جمع کرنا بہت ہی واضح ہے ، جہاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آپ سے علم غیب کی نفی فرما رہا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ بشر اصالتا اور ذاتی طور پر علم غیب نہیں جانتا ہے ، غیر ممکن ہے کہ کوئی انسان علم غیب جانتا ہو حتی کہ پیغمبر بھی، چونکہ پیغمبر کو بھی معلم کی ضرورت ہے اور ان کا معلم و استاد خداوند تبار ک و تعالی ہے، اگر ہم یہ بات کریں تب بھی آيات کو جمع کرنا ممکن ہے کہ یہاں پر اصلی اور عارضی کی بات ہو گی ، یعنی علم غیب کا بحث موضوعی طور پر غیر خداوند تبارک و تعالی سے منتفی ہے ۔
جو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتا ہے اور دوسرے لوگ اسے نہیں جانتے جیسے وہ واقعات جو آئندہ زمانوں میں واقع ہونے والے ہیں ، چونکہ یہ خداوند متعالی کی طرف سے الہام ہوا ہے لہذا اسے غیب نہیں کہا جا سکتا، لہذا یہ علم غیب کے موضوع سے خارج ہے ، پس علامہ طباطبائي اور ان کے ہمفکر بزرگان کو اس موضوع کو باقی رکھتے ہوئے یہ بتانا چاہئے کہ وہی علم غیب جو خدا کے پاس ہے وہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھی ہے فرق صرف یہ ہے کہ خدا کے پاس ذاتی ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس عارضی ہے ، لیکن امیر المومنین علیہ السلام کے اس فرمان کے مطابق جو چیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہے وہ علم غیب کے موضوع سے ہی خارج ہے ۔
روایات کے بحث میں بھی مرحوم مجلسی نے بحار الانوار میں ایک باب لکھا ہے جس کا عنوان ہے" آئمہ علیہم السلام علم غیب نہیں جانتے" خود آئمہ اطہار علیہم السلام سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا آپ علم غیب جانتے ہیں ؟ فرماتے ہیں : نہیں !بزرگ علماء اس روایت کو تقیہ پر حمل کرتے ہیں ،لیکن امیر المومنین علیہ السلام کے اس فرمان کے مطابق اس میں کیا اشکال ہے کہ ہم یہ بتائيں کہ آئمہ علیہم السلام جن چیزوں کے بارے میں فرماتے ہیں وہ علم غیب کے موضوع سے خارج ہے ، اور یہ ان عناوین سے کوئی منافات نہیں رکھتا جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے آئمہ علیہم السلام ما کان و ما یکون کے بارے میں علم رکھتے ہیں، کہ ان شاء اللہ روایات کو بیان کرتے وقت اسے بھی بیان کروں گا ۔
ایک اور آيت میں فرماتا ہے :«يَوْمَ يَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ ماذاأُجِبْتُمْ قالُوا لاعِلْمَ لَنا إِنَّكَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوب»[2] "جس دن خدا تمام مرسلین کو جمع کرکے سوال کرے گا کہ تمہیں قوم کی طرف سے تبلیغ کا کیا جواب ملا تو وہ کہیں گے کہ ہم کیا بتائیں تو خود ہی غیب کا جاننے والا ہے " قیامت کے دن تمام پیغمبروں کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں اپنی اپنی قوم نے کیا جواب دیا ، تو سب کہیں گے ہمارے پاس کچھ علم نہیں ہے تو غیب کو جاننے والا ہے ،یہاں پر اہل سنت کے علماء جیسے ابو سعید خثعمی نے اپنے تفسیر میں لکھا ہے :«إنهاتدل علی بطلان قول الامامیةأن الائمة یعلمون الغیب»،یہ بات امامیہ کے نظریہ کے بر خلاف ہے کہ بتاتے ہیں کہ آئمہ علیہم السلام علم غیب جانتے ہیں، یہ استدلال اس شخص کی جہالت پر دلالت کرتا ہے ۔
ہم آئمہ علیہم السلام کےجس علم غیب کے جاننے کا ادعا کرتے ہیں وہ اور وہ علم غیب جس کا خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام اپنے آپ سے نفی کرتے ہیں ان دونوں میں فرق ہے اور دونوں دو الگ موضوع ہے ، آئمہ علیہم السلام کے بارےمیں امامیہ جس علم غیب کو بتاتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ بہت سارے علوم جنہیں بشر نہیں جانتے اسے آئمہ علیہم السلام جانتے ہیں، اس آيت کریمہ کو بھی ان آيات کے ساتھ قرار دینا چاہئے تا کہ آیات کا بحث کچھ حد تک کامل ہو جائے ۔
روایات
روایات میں ہم کتاب کافی کے مطابق ابواب کے عناوین کی طرف اشارہ کریں گے، بعض عناوین کچھ یوں ہے :1۔ آئمہ اہل الذکر ہیں[3] ،قرآن کریم میں فرماتا ہے :«فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُون»، اس سے مراد آئمہ علیہم السلام ہیں
2ـ «شهداء علی الناس»[4] ، لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں ، 3ـ «اولو الامر» ہیں [5]، 4ـ ، زمین پر خدا کا خلیفہ ہے [6]، 5ـ نور الله عزوجل[7]، 6ـ ارکان الارض[8]، 7ـ اوتوا العلم ، ہیں[9] ، ایک اور آيت جس کے بارے میں ہمیں بحث و گفتگو کرنا چاہئے یہ آيہ کریمہ ہے «ثُمَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ يُخْزيهِمْ وَ يَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ الَّذينَ كُنْتُمْ تُشَاقُّونَ فيهِمْ قالَ الَّذينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَ السُّوءَ عَلَى الْكافِرين»[10]"اس کے بعد وہ روزِ قیامت انہیں رسوا کرے گا اور پوچھے گا کہاں ہیں وہ میرے شریک جن کے بارے میں تم جھگڑا کیا کرتے تھے - اس وقت صاحبان علم کہیں گے کہ آج رسوائی اور برائی ان کافروں کے لئے ثابت ہوگئی ہے " روایات میں ہے کہ اوتوا العلم ائمه(علیهم السلام) ہیں مرحوم علامہ طباطبائي (رضوان الله تعالی علیه) بھی سیاق کے قرینہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اوتو ا العلم ایک خاص قوم ہیں کہ جو توحید کے اعلی درجہ پر فائز ہیں فرماتا ہے : «و هؤلاء الذين وصفهم الله بأنهم أوتوا العلم وأخبر أنهم يتكلمون بكذا هم الذين رزقوا العلم بالله و انكشفت لهم حقيقة التوحيد فإن ذلك هوالذي يعطيه السياق من جهة المقابلة بينهم مع وصفهم بالعلم وبين المشركين الذين ينكشف لهم يومئذأنهم ماكانوا يعبدون إلاأسماء سموهاوسرابا توهموه».[11]فرماتا ہے کہ کلمہ "قال" قیامت کے دن کے لئے اس لئے ہے کہ اس دن کوئي بھی بات کرنے کی قدرت نہیں رکھتا مگر وہ افراد جنہیں خدا نے اجازت دی ہوئی ہے «لا یتکلمون إلا من أذن له الرّحمن و قال ثوابا»،نتیجہ یہ ہے کہ اس دن صرف اور صرف آئمہ طاہرین علیہم السلام بات کر سکیں گے ۔
8۔ خدا کے
برگزیدہ افراد جنہیں خدا نے اپنی کتاب کو دیا ہوا ہے «من
اصطفاه الله من عباده و اورثهم کتابه»[12]، 9ـ،لوگوں کے اعمال ان کے لئے
عرضہ ہوتے ہیں [13] 10ـ علم کا معدن اور مخزن [14] 11ـ شجره نبوت[15] 12ـ ، ملائکہ کے رفت وآمد کا
محل [16] 13ـ پیغمبر اور تمام انبیاء کے
علم کے وارثین [17] 14ـتمام آسمانی کتابوں سے
آگاہ [18] 15ـتمام زبانوں سے آشنا[19] 16ـاللہ کے اسم اعظم سے آگاہ
[20] 17ـ ،
آيات الانبیاء ان کے پاس ہے [21]. 18ـ ، صحيفه ،جفر،جامعه اور
مصحف فاطمه(سلام الله علیها) آگاہ ہیں
[22]، 19ـ ،
ہر شب جمعہ کو ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے [23].
20ـاگر
اپنے علم کو زیادہ نہ کریں تو جن کو جانتے ہیں وہ ختم ہو جائے گا [24]. 21ـ، آئمہ علیہم السلام تمام علوم سے آگاہ ہیں [25]. 22ـ، آئمہ علیہم السلام جب بھی کسی چیز کے جاننے
کا ارادہ کرے اسی وقت آگاہ ہو جاتے ہیں [26]
23ـ اپنے موت کے وقت سے آگاہ
ہیں [27]. ،یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ
ہے کہ ہرامام اپنے شہادت کے وقت کو جانتے ہیں اور اپنے قاتل کو بھی پہنچانتے ہیں
اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح شہید ہو گا ، زہر کے ذریعہ یا کسی اور چيز سے ،کبھی
آئمہ علیہم السلام کی زندگی میں موجود
حاکم انہیں مسموم کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت فرماتے تھے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے
۔
24ـ، آئمہ علیہم السلام ما کان اور وما یکون کا علم رکھتے ہیں [28]،
25ـ
خداوند متعالی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس جس علم سے آگاہ کیا ہے
ان سب کو امیر المومنین علیہ السلام کو بھی اس کی تعلیم دی ہے [29]. 26ـ،اگر لوگوں کے زبان پر تالا (وکاء) لگے ہوتے(یعنی باتیں آگے پیچھے نہیں بتاتے ) تو
آئمہ علیہم السلام ہر وہ چیز جو تمہارے زندگي میں واقع ہوتے سب کو بیان کرتے [30]. 27ـ محدثین ہیں اور ملائکہ ان سے باتیں کرتے ہیں [31]. 28ـ مفهَّمون، ہیں اور علوم کو انہیں سمجھایا گیا ہے [32]. 29ـ ، عالم ارواح اور روح القدس سے ارتباط رکھتے ہیں ـ باب فیه ذکر الارواح التی فی الائمة، [33]
30ـ ایک اور باب کا عنوان یہ
ہے :«وقت ما یعلم الامام جمیع علم الامام
الذی قبله»[34]
، جب اپنے سے ماقبل امام کے تمام علم سے آگاہ ہو جاتے ہیں ، وہ بھی ایسا وسیع علم
ہے کہ دنیا میں آئمہ علیہم السلام کے
علاوہ کسی بھی عام انسان کے پاس اتنا وسیع علم نہیں ہے ، یہ علوم کب امام کو حاصل
ہوتا ہے ؟ آیا جب پیدا ہوا تھا اس وقت سے ہی ان تمام علوم پر تسلط رکھتے تھے یا
نہیں ؟
31ـ «باب انه لم یجمع القرآن کله إلا الائمه و أنه یعلمون کله»[35] ، پورے قرآن کے بارے میں عالم ہیں اور علم الکتاب ان کے پاس ہے ۔
ان ابواب میں سے ہر ایک باب متعدد روایات پر مشتمل ہے ، اور ہر روایت میں فقہ الحدیث کا بحث بہت ہی اچھا بحث ہے ، کبھی میں ان میں سے ہر ایک روایت کے بارے میں دو تین گھنٹے سوچتا ہوں تا کہ اس کے مطلب کو حاصل کر سکوں ، لہذا آپ تمام علماء اور محققین سے میری گزارش ہے کہ ان روایات کے بارے میں غور و فکر کریں اور ان میں موجود مطالب کے بارے میں سوچیں۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم ان روایات کے بارے میں سند کے حوالہ سے بحث اور گفتگو کرنے سے بے نیاز ہے ، ان روایات کے درمیان ، صحیح السند روایات بہت زیادہ ہیں کہ جن سے تواتر معنوی حاصل ہوتا ہے ، روایات کا تواتر معنوی یہ ہے کہ وہ وسیع علم جو عام انسانوں میں سے کسی کے بھی پاس نہیں ہے وہ آئمہ معصومین علیہم السلا م کے پاس ہے ، اور ان علوم کی وسعت اتنا زیادہ ہے کہ ان میں اولین اور آخرین اور تمام آسمانی کتابوں، گذشتہ اور آیندہ کے امتوں ،گذشتہ اور آيندہ کے واقعات اور فتنوں اور تمام زبانوں کا علم اس میں شامل ہے ،روایات میں یوں نقل ہے کہ ہمارے آئمہ علیہ السلام ہر ملک کے لوگوں سے انہیں کی زبان میں بات کرتے تھے۔
پس یہ روایات سند کے لحاظ سے تواتر معنوی ہے ، اور ان تمام روایات کا قدر مشترک ایک وسیع اور کلی علم ہے، البتہ اگر ہم ان ابواب کو تقسیم کرنا چاہئے تو یوں تقسیم ہو گا کہ ان روایات میں سے بعض التزامی طور پر علم امام پر دلالت کرتی ہیں ، جیسے یہ حضرات روی زمین پر خدا کا خلیفہ ہے ،اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ خلیفہ خدا کا علم دوسرے لوگوں کی طرح ہو،اگر ایسا ہو تو دوسرے لوگوں سے کیا فرق کرتا ہے ؟بعض روایات ایسے ہیں جو صراحت کے ساتھ آئمہ علیہم السلام کے علم کے وسیع ہونے پر دلالت کرتے ہیں جیسے : «يَعْلَمُونَ عِلْمَ مَا كَانَ وَ مَا يَكُونُ وَ أَنَّهُ لَا يَخْفَى عَلَيْهِمُ الشَّيْء»[36]، يا «أَنَّ الْأَئِمَّةَ(ع) لَوْ سُتِرَ عَلَيْهِمْ لَأَخْبَرُوا كُلَّ امْرِئٍ بِمَا لَهُ وَ عَلَيْه»[37] ، اور تیسری قسم کی روایات وہ ہیں جن میں ہم علم آئمہ علیہم السلام کے وسعت کو ان روایات کے اطلاق سے استفادہ کرتے ہیں جیسے یہ روایت:أنهم معدن العلم، این معدن العلم۔
ان روایات کے بارے میں دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اس علم کا منبع یا اپنے سے ما قبل امام ہے کہ پہلے والے امام سے بعد والے امام کی طرف منتقل ہوتا ہے یا روح القدس ہے ،آئمہ علیہم السلام روح القدس سے رابطہ میں تھے یا محدث تھے ، مشہور محدثین کہتے ہیں کہ محدث وہ ہے کہ جس کے ساتھ فرشتہ بات کرتا ہے ، لیکن وہ خود فرشتہ کو نہیں سکتا !آئمہ علیہم السلام کے محدث ہونے کو اہل سنت نے بھی تصریح کی ہے ، صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 78 پر لکھا ہے کہ ہمیں قبول ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بھی کچھ افراد ایسے تھے جن کے ساتھ ملائکہ بات کرتے تھے اور حق اور باطل کے درمیان تشخیص دیتے تھے ، حتی کہ اہل سنت کے بعض علماء جیسے ابن حجر عسقلانی اور متقی کندی وغیرہ امام صادق علیہ السلام کے محدث ہونے کے بارے میں تصریح کیے ہیں ۔
وحی اور محدث کے درمیان فرق یہ ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی ہوتا تھا تو آپ جبرائیل کو دیکھ لیتے تھے اور وحی کو ان سے مستقیم سن لیتے تھے لیکن محدث ملائکہ کو نہیں دیکھتا ہے لیکن آواز کو سن لیتا ہے ۔
"مختلف الملائکہ " کے عنوان میں یہ بحث ہوتی ہے کہ مختلف ملائکہ کا ظہور یہ ہے کہ اس میں فرشتہ نظر آتا ہے ، آئمہ علیہم السلام فرماتے ہیں ہم اپنے کمرے کو ملائکہ کے نزول کے لئے تیار کرتے ہیں «وَسَّدْنَا لَهُمُ الْوَسَائِد»[38] ،ان روایات اور عناوین کے درمیان کیسے جمع کیا جائے ؟اس بارے میں اسی باب محدث میں گفتگو ہونا چاہئے۔
مرحوم فیض نے محدث کے لئے ایک الگ تفصیل بیان کیا ہے اور بعض بزرگان بھی اسی کو بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگرچہ محدث کا معنی ملائکہ سے بات کرنا ہے لیکن اس کا شرط یہ نہیں ہے کہ ملائکہ کو نہ دیکھیں ، ممکن ہے ملائکہ کو بھی دیکھ لیں لیکن عام طور پر ملائکہ کو نہیں دیکھتے ہیں ۔
آئمہ علیہم السلام کے محدث ہونے اور ملائکہ ان کے علم کے منابع میں سے ایک ہونے کے بارے میں ایک اور مطلب یہ ہے کہ کیا یہ اور ان کا روح القدس سے ارتباط ہونا دونوں ایک ہے یا نہیں ؟ روایات میں دو عنوان ذکر ہوا ہے لیکن ممکن ہے کہ محدث ہونا اور روح القدس سے ارتباط دونوں ایک ہو ، ہماری نظر میں یہ احتمال بھی ممکن ہے ۔
جی ہاں آئمہ معصومین علیہم السلام کے پاس اتنے وسیع علم ہے اور ہم اگر اس کو علم غیب بتائيں تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہے ، لیکن قرآن اور روایات کے اصطلاح کے مطابق اگر ہم بات کریں تو اسے علم غیب نہیں کہنا چاہئے کیونکہ یہاں پر واسطہ ہے ۔
علم آئمہ معصومین علیہم السلام سے مربوط روایات کو ملاحظہ کرنے کے بعد ہمیں چند مطالب حاصل ہوتے ہیں :
پہلا مطلب یہ ہے کہ خود آئمہ معصومین علیہم السلام تصریح فرماتے ہیں کہ اسم اعظم کے 73 حرف میں سے 72 حرف ہمیں عطا ہوا ہے اور ایک حرف خود خداوند متعالی سے مختص ہے ، کہ جسے اسم مستاثر کہتے ہیں ۔
یہ بھی عرض کروں کہ کوئی یہ نہ سوچیں کہ 73 اور 72 کے درمیان صرف ایک حرف کا فاصلہ ہے ، شاید یہی ایک حرف ان 72 حرف کے سینکڑوں برابر اثر رکھتا ہو،کہ حقیقت بھی ایسا ہی ہے، اس بیان کے مطابق ہمارے پاس دو قسم کے علم ہیں ، علمٌ لا یعلمه إلا الله، وہ علم جسے خدا کے علاوہ کوئی بھی اس سے آگاہ نہیں ہے کہ یہی علم مستاثر ہے اور دوسرا وہ علم ہے جسے خداوند متعالی نے ملائکہ ، انبیاء اور آئمہ کو عطا کیا ہے ، یہ ہمارے اس بحث و گفتگو کا نتیجہ ہے جو ہمیں ان روایات کو آپس میں ملانے سے حاصل ہواہے ۔
دوسرا مطلب روایات کا علم کو علم موقوف اور علم ممضی میں تقسیم کرنا ہے۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :«وَ أَمَّا قَوْلُهُ عالِمُ الْغَيْبِ فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ عَالِمٌ بِمَا غَابَ عَنْ خَلْقِهِ فِيمَا يَقْدِرُ مِنْ شَيْءٍ وَ يَقْضِيهِ فِي عِلْمِهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَهُ وَ قَبْلَ أَنْ يُفْضِيَهُ إِلَى الْمَلَائِكَةِ فَذَلِكَ يَا حُمْرَانُ عِلْمٌ مَوْقُوفٌ عِنْدَهُ إِلَيْهِ فِيهِ الْمَشِيئَةُ فَيَقْضِيهِ إِذَا أَرَادَ وَ يَبْدُو لَهُ فِيهِ فَلَا يُمْضِيه»[39] ، فرماتے ہیں : ایک علم ہے کہ جس میں خدا کے ارادہ اور مشیت کی نسبت بداء اور تغییر پیدا ہوتا ہے ، یہ علم موقوف ہے لیکن وہ علم جس میں خدا کا ارادہ حتمی اور غیر قابل تغییر ہے وہ علم مقدر اور علم ممضی ہے کہ یہ علم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کو دیا گیا ہے «فَأَمَّا الْعِلْمُ الَّذِي يُقَدِّرُهُ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَيَقْضِيهِ وَ يُمْضِيهِ فَهُوَ الْعِلْمُ الَّذِي انْتَهَى إِلَى رَسُولِ اللهِ ص ثُمَّ إِلَيْنَا»[40]
ایک روایت میں امیر المومنین اور امام باقر علیہما السلام فرماتے ہیں :«لَوْ لَا آيَةٌ فِي كِتَابِ اللهِ لَأَخْبَرْتُكُمْ بِمَا كَانَ وَ بِمَا يَكُونُ وَ مَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة»[41] ، بعض انبیاء کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ خبر دیتے تھے کہ فلان شخص دو دن بعد مر جائے گا لیکن وہ نہیں مرتا تھا اور لوگ کہتے تھے کہ آپ کیسا نبی ہے کہ آپ نے یہ بات کی تھی لیکن ایسا تو نہیں ہوا ؟
امیر المومنین اور امام باقر علیہما السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں ایک آیت ہے کہ اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم ان سب واقعات کو جو قیامت تک واقع ہونے ہیں تمہیں بتا دیتے ، یہ وہی علم موقوف عند اللہ ہے کہ صرف خداوند تبارک و تعالی کے پاس ہے ، کوئی نہیں جانتا کہ کسی واقعہ میں بداء ہو گا یا نہیں ؟۔
کیا حضرت حجت (حج) کے ظہور کی علامات میں بداء واقع ہوتا ہے یا نہیں ؟ بعض روایات میں ہے کہ بداء واقع ہوتا ہے ، اور صحیح بات بھی یہی ہے ، لیکن کیا یہ صرف حتمی علامات سے مختص ہے ؟ چونکہ غیر حتمی علامات میں بداء کی ضرورت بھی نہیں ہے ، ممکن ہے ایک چیز حتمی علامت ہو لیکن اس میں بداء حاصل ہو جائے کہ اس بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ۔
تیسرا مطلب یہ ہے کہ علم آئمہ علیہم السلام میں علم مستفاد کے نام سے ایک تعبیر موجود ہے کہ اسی فرمان امیر المومنین علیہ السلام کو تائید کرتا ہے ، علم مستفاد ، یعنی وہ علم جس کے لئے واسطہ ہے اور کسی اور سے ہے ، خداوند تبارک وتعالی کا علم اپنے سے ہے یعنی بالذات ہے لیکن علم آئمہ علیہم السلام علم مستفاد ہے ، روایات میں وارد ہے کہ آئمہ علیہم السلام ہر شب جمعہ کو عرش خداوند متعالی سے متصل ہوتے ہیں اور اپنے علم کر بڑھاتے ہیں ، اگر یہ اتصال نہ ہو تو ان کے علم ختم ہو جائيں گے ، یہ علم مستفاد ہے ۔
روح القدس، محدث ہونا، ہر شب جمعہ کو علم حاصل کرنا، شب قدر کے بارےمیں موجود روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ علیہم السلام مسلسل اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں ، اس سے بھی ایک اہم مطلب بیان کروں کہ آئمہ علیہم السلام کا علم کو زیادہ کرنا حتی کہ علم نبی بھی دنیا سے محدود نہیں ہے ،بلکہ عالم آخرت میں بھی علم بڑھانے کا مقام ان کے لئے موجود ہے ، اگر کوئي احادیث کی کتابوں میں اس بارے میں تحقیق کرے تو اسے بہت اچھی طرح یہ واضح ہو جائے گا ،کبھی یہ اعترا ض کیا جاتا ہے کہ یہ کیسا علم ہے کہ جو آپ اپنے آئمہ علیہم السلام کے لئے بنا رہے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ ہر روز ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے ، کیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو کہ اعظم خلق خدا ہے ان کا علم ان سے کم ہے ؟ جواب یہ ہے کہ روایات میں ہے کہ ہر وہ علم جو شب جمعہ کو آئمہ معصومین علیہم السلام کے لئے افاضہ ہوتا ہے وہ ان سے پہلے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المومنین علیہ السلام اور دیگر اماموں کو اگرچہ وہ دنیا سے چلے گئے ہیں ان کو بھی عطا ہوتا ہے۔
بعض بزرگوں نے بتائے ہیں کہ جب امام علیہ السلام دنیا میں تشریف لاتے ہیں ان کے اندر ایک قدسی نوری قوت قرار دیا جاتا ہے کہ یہی ان کے علم کا منبع ہے ، اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ روایات میں فرماتے ہیں آئمہ علیہم السلام پیدایش سے ہی قوت الہیہ کا حامل ہوتے ہیں اور آيہ مبارکہ تطہیر ان کی مقام عصمت کو ولادت سے پوری حیات کو بتاتی ہے :«إِنَّما يُريدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيرا»[42] ، علم کے مسئلہ میں ان روایات میں تصریح ہوا ہے کہ ان کا علم ہر روز اور ہر ہفتہ اور ہر ماہ اضافہ ہوتا ہے ، البتہ یہ اضافہ ہونا خود اس اصل قوہ الہیہ سے منافات بھی نہیں ہے ، اور قوہ قدسیہ پر دلالت کرنی والی روایات سے یہ استفادہ نہیں کر سکتے کہ ولادت کے وقت سے ہی تمام علوم ایک ساتھ ان کے اختیار میں قرار دیا گیا ہے ۔
اہل سنت کی علم امام کے بارے میں کرنے والے اشکالات میں سے ایک یہ ہے کہ کہتے ہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ علوم تدریجی طور پر ملا ہے ، لیکن آپ لوگ آئمہ علیہم السلام کے بارے میں بتاتے ہو کہ ان کو ایک ساتھ یہ سارا علوم ملا ہے ؟جواب یہ ہے کہ ہم یہ نہیں بتاتے ہیں کہ ایک ساتھ ملا ہے ، البتہ وہ قوہ الہیہ ان کے اندر موجود ہے اور مسلسل اس میں اضافہ ہوتا ہے حتی کہ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی۔
ایک اور مطلب یہ ہے کہ یہ آيات کریمہ اور روایات جو آئمہ علیہم السلام کے علم کے وسیع ہونے پر دلالت کرتی ہیں حتی کہ ان کو پتہ چلتا ہے کہ کب شہید ہونگے ، لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امام ہادی علیہ السلام جب مریض ہوتا ہے تو کسی کو کربلا بھیجتا ہے تا کہ ان کی شفا یابی کے لئے دعا کریں ، یعنی ظاہری طور پر عام لوگوں کی طرح عمل کرتے ہیں۔
ایک صحیح السند روایت کتاب کافی کتاب الحجة باب أن الأئمه يعلمون علم ما کان و ما يکون میں ہے کہ فرماتا ہے:امام صادق علیہ السلام اپنے اصحاب جیسے سدیر، داود رقّی، ابو بصیرکے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ناراضگی کی حالت میں فرمایا «يَا عَجَبَاهْ لِأَقْوَامٍ يَزْعُمُونَ أَنَّا نَعْلَمُ الْغَيْبَ مَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ لَقَدْ هَمَمْتُ بِضَرْبِ جَارِيَتِي فُلَانَةَ فَهَرَبَتْ مِنِّي فَمَا عَلِمْتُ فِي أَيِّ بُيُوتِ الدَّارِ هِي»[43] ،عجیب ہے لوگ سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس علم غیب ہے ، درحالیکہ خدا کے علاوہ کوئی بھی غیب کو نہیں جانتے ، میری لونڈھی نے کچھ خطاء کی تھی ،تو وہ فرار کر گئی اور مجھے پتہ نہیں چلا کہ وہ کس گھر میں چھپ گئی ہے ۔
جب یہ نشست ختم ہوا تو سدیر ان کے پیچھے پیچھے گیا اور کہا کہ آقا ہم نے آج آپ علیہ السلام سے ایک عجب بات سنی، یہ کیا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے لوگوں کے بات سے تعجب ہوتا ہے ، مگر آپ کے پاس علم غیب نہیں ہے اور آپ کو معلوم نہیں ہے کہ وہ لونڈھی کس گھر میں چھپی ہوئی ہے ؟ «جُعِلْنَا فِدَاكَ سَمِعْنَاكَ تَقُولُ كَذَا وَ كَذَا فِي أَمْرِ خَادِمَتِكَ وَ نَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّكَ تَعْلَمُ عِلْماً كَثِيراً وَ لَا نَنْسُبُكَ إِلَى عِلْمِ الْغَيْبِ قَالَ فَقَالَ يَا سَدِيرُ مَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَالَ قُلْتُ قَرَأْنَاهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ»، آپ علیہ السلام نے فرمایا : تم نے قرآن پڑھا ہے ؛ عرض کیا : جی ہاں! فرمایا: «قَالَ فَهَلْ وَجَدْتَ فِيمَا قَرَأْتَ مِنْ كِتَابِ اللهِ قالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَدْ قَرَأْتُهُ»، کیا تم نے اس آیت کریمہ کو پڑھا ہے ؟ عرض کیا : جی ہاں ،«قَالَ فَهَلْ عَرَفْتَ الرَّجُلَ وَ عَلِمْتَ مَا كَانَ عِنْدَهُ مِنْ عِلْمِ الْكِتَابِ»، تمہیں پتہ ہے کہ خدا جس کے بارے میں فرماتا ہے عنده علمٌ من الکتاب اس کا علم کتنا تھا ؟عرض کیا: آپ علیہ السلام فرمائيں تا کہ مجھے معلوم ہو جائے «قَالَ قُلْتُ فَأَخْبِرْنِي حَتَّى أَعْلَمَ قَالَ قَدْرُ قَطْرَةٍ مِنَ الْمَطَرِ الْجُودِ فِي الْبَحْرِ الْأَخْضَرِ»، آپ علیہ السلام نے فرمایا :جس نے بلقیس کی تخت کو آنکھوں کی ایک پلک چھپکنے کی مدت میں شرق عالم سے غرب عالم میں لے آیا تھا اس کے پاس دریا سے ایک قطرہ کے برابر خدا کا علم اس کے پاس تھا اس کے بعد فرمایا «قُلْ كَفى بِاللهِ شَهِيداً بَيْنِي وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ»[44] ، فرمایا : من عنده علم الکتاب، خدا کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح کی روایات جن میں خود امام صراحت کے ساتھ علم غیب کو اپنے آپ سے نفی فرما رہے ہیں کیا کرنا چاہئے؟ مرحوم مقرم کہتے ہیں ،سدیر کی روایت میں ، تقیہ کیا ہے ، اس مجلس میں کچھ ایسے افراد بیٹھے ہوئے تھے جن میں اس گہرے مطلب کو تحمل کرنے کی طاقت نہیں تھی، اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ مرحوم مجلسی نے کتاب مرآۃ العقول میں اس حدیث کے راویوں کو کمزور قرار دیا ہے اور اس بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ افراد یا مجہول ہیں یا ضعیف ہیں ۔
اور تیسرا احتمال بھی اس میں دیتے ہیں کہ اس حدیث میں علم کے نفی کرنے سے مراد یہ ہے کہ اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے کہ وہ لونڈھی کس کمرہ میں چلی گئی ہے اور یہ حضرت علیہ السلام کے علم لدنی سے منافات نہیں ہے ، ان تینوں احتمالات کو مرحوم مقرم نے بیان کیا ہے ۔
لیکن ہم نے جس مطلب کو بیان کیا ہے اس کے بعد ان باتوں کی بتانے کی ضرورت نہیں ہے ، چونکہ اس بیان کے مطابق امام فرماتا ہے کہ ہمارے پاس وہ علم غیب نہیں ہے جو بلاواسطہ ہوتے ہیں ، لیکن اگر میں چاہوں کہ جان جاوں کہ یہ لونڈھی کہاں ہے تو خدا مجھے آگاہ کرے گا اور"اذا شاوا " والی روایات کے بحث بھی اپنی جگہ ایک قابل غور و فکر بحث ہے کہ انشاء اللہ عرض کروں گا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ حجر اسماعیل میں بیٹھے تھے آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا آگے پیچھے دیکھیں کہ کوئی جاسوس ہمارے پیچھے تو نہیں ہے؟ ایک صحابی گیا اور آگے پیچھے دیکھ کر آیا اور عرض کیا : نہیں ہے ،کہتے ہیں اگر آئمہ علیہم السلام کے پاس علم غیب ہے تو ایسے سوال کرنے کی کیا وجہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے سوال کیا ؟اس کے جواب میں مرحوم علامہ طباطبائی (رضوان اللہ علیہ) فرماتا ہے : آئمہ علیہم السلام اپنے کاموں میں طبیعی طور پر عمل کرتے تھے اور غیر عادی علم سے استفادہ نہیں کرتے تھے، لہذا آئمہ علیہم السلام کے علم کو عادی اور غیر عادی علم میں تقسیم کرتے ہیں ،ہماری روایات میں اس طرح کے سوالات بہت زیادہ ہیں حتی کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علم کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا وحی نازل ہونے سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اتنے زیادہ علم تھے یا نہیں ؟اس کے جواب میں بعض نے سورہ طہ کی آیت 114 کے مطابق مسئلہ انزال و تنزیل یا نزول دفعی یا تدریجی کےبحث کو بیان کیا ہے آیت کریمہ یہ ہے :«لاتَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَ قُلْ رَبِّ زِدْني عِلْما»[45]
، لیکن آیت کریمہ کا ظاہر یہ ہے کہ خداوند متعالی نے وحی نازل ہونے سے پہلے ہی اس قوت کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے قرار دیا تھا ، مرحوم مقرم نے اپنی پوری طاقت کو اسی نکتہ پر لگایا ہے کہ خداوند متعالی نے ایک قدرت قدسیہ کہ بعض روایات میں اسے نور کا ستون بتایا گیا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا فرمایا تھا کہ جس کے وجہ سے آپ کے پاس وسیع علم تھے حتی کہ بعثت سے پہلے بھی، میرے ذہن میں یہ بات ہے کہ بعض قدیم بزرگوں نے فرمائے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا علم صرف بعثت کے بعد سے منحصر نہیں ہے بلکہ بعثت سے پہلے بھی آپ کے پاس علم تھے۔
ہم نے جو مطالب بیان کیا اس کے مطابق پھر علم بالذات اور بالعرض کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح علم کو عادی اور غیر عادی میں بھی تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح قدرت قدسیہ کے مسئلہ کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے حتی کہ میرزای قمی اور فاضل نراقی نے علم ما کان و ما یکون و ما ہو کائن الی یوم القیامۃ میں جو توجیہ بیان کیا ہے اس کی بھی ضرورت نہیں ہے ،کہ بتائے ہیں کہ علم ادب میں لفظ " ما" ہمیشہ عموم پر دلالت کرتا ہے اس بارے میں ہمارے خدشات ہیں بلکہ یہ لفظ غالبا عموم میں استعمال ہواہے ۔
لیکن قرآن کریم کی آیات اور روایات سے استفادہ کرتے ہوئے ہم نے جو مطالب بیان کی کہ علم غیب اور وہ علم موقوف صرف خدا سے مختص ہے کہ جس کا دائرہ بھی نامحدود ہے لیکن آئمہ علیہم السلام کا علم خود ان کے فرمان کے مطابق سب کے سب ما کان... یعنی ما وقع،ماهوممضی،ماهومقدّرو علمٌ یقدّره الله ہے، آئمہ علیہم السلام کے پاس علم موقوف نہیں ہے لیکن وسیع علم ہے کہ خدا نے صرف ان کو عنایت فرمایا ہے ۔
کوئی یہ نہ سوچیں کہ جب آپ علم غیب کو آئمہ علیہم السلام سے نفی کر رہا ہے تو یہ محدود علم سے ان کو کیا فائدہ ہے؟جواب یہ ہے کہ اگر ہم اولین اور آخرین سب کے علم کو ایک ساتھ جمع کر کے لائیں تو پھر بھی آئمہ علیہم السلام کے اس محدود علم تک نہیں پہنچتا ہے ، یہ علم خدا کے علم کے مقابل میں محدود ہے نہ کہ بشر کے علم کے مقابلہ میں ، اور ان کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے ، آئمہ علیہم السلام کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم یہ بولیں کہ وہی علم غیب جو خدا کے پاس ہے وہی آئمہ علیہم السلام کے پاس بھی ہے ، اس کے لئے ہمارے پاس کوئي دلیل نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف پر ہمارے پاس دلیل ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ علیہم السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس علم غیب نہیں ہے اور صحیح بات بھی یہی ہے ، یہ جو فرماتے ہیں کہ علم غیب نہیں ہے یعنی بغیر واسطہ والا علم نہیں ہے ، امام صادق علیہ السلام بھی جو فرماتے ہیں کہ مجھے تعجب ہے ان لوگوں پر جو یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس علم غیب ہے یعنی یہ لوگ سوچتے ہیں ہمارے پاس بلا واسطہ علم غیب ہے۔
جی ہاں ! ہمارے پاس علم کتاب ہے ، ما کان و ما يکون و ما هو کائنٌ إلی یوم القیامه کا علم ہمارے پاس ہے ، بعض اصحاب کے لئے یہ علم غیب کو انکار کرنا بہت سخت گزرا تھا ، امام علیہ السلام نے فرمایا تم لوگ تعجب مت کرو ، ہم جو بات بھی کرتے ہیں وہ کتاب خدا سے ہی کرتے ہیں اور کتاب بھی تبیانٌ بکل شی( ہر چیز کو بیان کرنے والی) ہے، لیکن یہ علم غیب نہیں ہے ۔
بہر حال یہ کچھ ایسے مضامین کے عنوانات ہیں جو ان روایات میں ذکر ہے کہ ان کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
واقعہ عاشورا کے تحلیل کرنے کے لئے ہمیں ان مطالب سے استفادہ کرنا چاہئے ، حضرت امام حسین علیہ السلام واقعہ کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے لیکن خدا کے امر کی تعمیل کے لئے اقدام کرتے ہیں اور یہ بہت ہی مہم ہے ۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته
[1] ـ لقمان: 34.
[2]. مائده: 109.
[3]. الكافي (ط - الإسلامية)، ج1، ص: 210.
[4]. سابق، ص: 190.
[5]. سابق ، ص: 192.
[6]. سابق ، ص: 193.
[7]. سابق
، ص: 194.
[8]. سابق ، ص: 196.
[9]. سابق ، ص: 213.
[10]. سوره نحل، آيه 27.
[11]. تفسير الميزان: ج12، ص233.
[12]. الكافي (ط - الإسلامية)، ج1، ص: 214.
[13]. سابق: ص219.
[14]. سابق: ص221.
[15]. سابق.
[16]. سابق۔
[17]. سابق ، ص223.
[18]. سابق ، ص227.
[19]. سابق.
[20]. سابق ، ص230.
[21]. سابق ، ص231.
[22]. سابق ، ص238.
[23]. سابق ، ص253.
[24]. سابق ، ص254.
[25]. سابق ، ص255.
[26]. سابق ، ص258.
[27]. سابق.
[28]. سابق ، ص260.
[29]. سابق ، ص263.
[30]. سابق ، ص264.
[31]. سابق ، ص270.
[32]. سابق.
[33]. سابق ، ص273.
[34]. سابق ، ص274.
[35]. سابق ، ص228.
[36]. الكافي (ط - الإسلامية)، ج1، ص: 260.
[37]. سابق ، ص: 264.
[38]. بحار الأنوار(ط- بيروت)، ج47، ص: 33.
[39]. الكافي (ط - الإسلامية)، ج1، ص: 256.
[40]. سابق.
[41]. التوحيد (للصدوق)، ص: 305.
[42]. احزاب: 33.
[43]. الكافي (ط - الإسلامية)، ج1، ص: 257.
[44]. سابق.
[45]. طه: 114.