امام حسین علیہ السلام
23 December 2024
14:24
۵,۸۱۱
چکیده :
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک هو
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت
اکثر روایات کے مطابق آپ کی ولادت ٣ شعبان المعظم 4 هجری کو ہوئی ، جب آپ علیہ السلام پیدا ہوئے تو جبرئیل ایک ہزار فرشتوں کی معیت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنے کے لئے شرفیاب ہوئے ،فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے فرزند دلبند کو والد بزرگوار کی خدمت میں لائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان کا نام حسین علیہ السلام رکھا۔
جناب ام الفضل کا خواب اور اس کی تفسیر
ابن سعد اپنی کتاب طبقات میں عبد اللہ بن بکر بن حبیب سہمی اور وہ حاتم بن صخہ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب عباس بن عبد المطلب کی زوجہ ام الفضل کہتی ہیں کہ میں نے امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے ایک رات پہلے خواب میں دیکھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن اقد س سے گوشت کا ایک ٹکڑا جدا ہو ا اور میری آغوش میں آگیا ۔
س خواب کی تعبیر میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھی : آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا خواب سچا ہے تو میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں جلد ایک فرزند پیدا ہوگا ۔
اور میں اسے دودھ پلانے کے لئے تماہرے سپرد کروں گا[1] ۔
چنانچہ وہ مبارک دن آپہنچا کہ حضرت فاطمہ کے ہاں ایک فرزند متولد ہوا اور اسے دودھ پلانے کی خاطر میرے حوالے کیا گیا۔
ایک دن میں اس مولودمبارک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے گئی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بیٹھا کر چومنا سروع کیا ، اسی دوران بچے کے پیشاب کا قطرہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لباس مبارک پر گرا .
میں نے اس دوران جلدی سے بچہ کو آنحضرت کی آغوش سے جدا کیا تو اس نے رونا شروع کردیا ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غضبناک افراد کی طرح فرمایا : اے ام الفضل ذرا آہستہ میرا لباس تو دھویا جا سکتا ہے لیکن تم نے میرے بیٹے کو تکلیف پہنچائی ہے[2].
میں نے حسین علیہ السلام کو اسی حالت میں چھوڑا اور کمرہ سے باہر پانی لینے کے لئے چلی گئی۔
جب میں واپس آئی تو دیکھا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمرو رہے تھے ، میں عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے رونے کی کیا وجہ ہے ؟
آپ نے فرمایا کچھ دیر پہلے جبرئیل آئے اور انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ میری امت میرے اس فرزند کو قتل کر دے گی ۔
علماء محدثین سے منقول ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام ایک سال کے ہوئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر خدا کی طرف سے بارہ فرشتے نازل ہوئے جن کے چہرے سرخ تھے ، اور ان کے پر و بال کھلے ہوئے تھے ، عرض کرتے ہیں
اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہی ظلم و سلم جو قابیل نے ہابیل پر کیا تھا آپ کے فرزند حسین علیہ السلامپر بھی کیا جائے گا ، او رجس طر ح بابیل کو اس کا اجر دیا جائے گا اسی طرح آپ کے حسین علیہ السلام کو بھی اجر دیا جائے گا ، اور حسین کے قاتلوں کو و ہی عذاب دیا جائے گا جو ہابیل کے قاتلوں کو ملے گا ۔
اسی اثناء میں آسمانوں کے تمام مقرب فرشتے آنحضرت کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور امام حسین علیہ السلامکی شہادت کی خبر پر رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تعزیت عرض کی ، اور وہ مقام جو خداوند کریم نے شہادت کے عوض امام حسین کو عطا فرمایا اس کی خبر پہنچائی ، اور حسین علیہ السلام کی قبر کی تربت رسو ل خدا کی خدمت میں پیش کی ، اسی دوران رسو ل خدا نے دعا فرمائی کہ اے خدا !
جس نے میرے فرزند حسین کو اذیب پہنچائی اسے ذلیل و خوار فرما، اور انہیں قتل کر جو حسین علیہ السلام کو قتل کرے ، اور اس کے قاتل کو اپنے مقصد میں کامیاب نہ فرما[3].
اور سنہ ٦١ ہجری وہ وقت موعود ہے جس کے بارے میں خدا نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرشتوں کے ذریعہ مطلع فرمایا تھا ، امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کے زمانہ کے برخلاف یہ وہ دور ہے جس میں مسلمانوں کے اندر بنی امیہ کے ساتھ جنگ کی ضرورت اور شرعی حیثیت کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے
ہمیں اس دور میں یہ دیکھ کر کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ مسلمانوں نے بنی امیہ کو خود پسندی و تکبر ، ان کی طرف سے گذشتہ عداوتوں کے احیاء اور دور جاہلیت کی سوچ کی طرف میلان کا اظہار شروع کر دیا تھا ۔
بنی امیہ نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے اسلام قبول کیا تھا [4].انہوں نے تاریخ اسلام میں سب سے پہلے کھلے عام بدعتوں اور غیر اسلامی آداب و رسوم کی داغ بیل ڈالی تھی تا کہ ایران و روم کے بادشاہوں کی تقلید کریں ، اس طرح انہوں نے خلافت کو قیصر و کسریٰ کی استبدادی اور خاندانی حکومتوں کی شکل میں ڈھال دیا تھا[5]
یہ حقایق کھل کر مسلمانوں کے سامنے آگئے تھے جب کہ و ہ ایک مدت تک بنی امیہ کے ظم و ستم کی آگ میں جلتے رہے تھے ، اور بنی امیہ اسلامی اقدار کی حرمت کو پامال کر کے اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت کرتے رہے تھے ، صورت حال یہاں تک پہنچی کہ یزید نے اسلامی اصولوں کا اعلانیہ مذاق اڑاتے ہوئے یہ کفر آمیز جملے کہے :
لعبت بنو هاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل
لبست من خندق ان لم انتقم من بنی احمد ما کان فعل[6]
''بنی ہاشم نے حکومت کے حصول کے لئے ایک کھیل کھیلا تھا ، وگرنہ وہ آسمان سے کوئی خبر آئی نہ وحی کا نزول ہوا ، اگر میں آل احمد سے احمد کے کارناموں کا انتقام نہ لوں تو پھر میرا شمار خندق والوں کی اولاد میں نہ ہو ''
امت مسلمہ اور اسلام سے امت کی آگاہی کے بارے میں امام حسین علیہ السلامکا نقطہ نظر یہ تھا کہ پیغمبر کے بعد امت مسلمہ نظریاتی بیداری سے لیس نہیں تھی ۔
بلکہ پیغمبر سے ان کی وابستگی جذباتی بنیاد پر تھی اور وہ بھی آپ کی وفات کے بعد بتدریج کم ہوتے گئے اور اس کی وجہ امت کی علمی اور عملی میدان میں مسلسل غلطیان تھیں ۔
ان غلطیوں میں سے ہر ایک کا جداگانہ اثر ممکن ہے کہ قابل توجہ نہ ہو لیکن جب غلطیوں کے انبار لگ جائیں تو اس کے اثرات خطرناک ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ فتنہ و فساد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ،کامل ابن اثیر :ج٣، ص٢٦٤جیسا کہ یزید کے زمانے میں امام حسین علیہ السلامکو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ۔
امام حسین علیہ السلامنے اپنے والد کا پانچ سالہ دور حکومت دیکھا تھا ، جب وہ اس کوشش میں تھے کہ مکمل تباہی سے پہلے امت کی اصلاح اور اسے نشاة ثانیہ عطا کر سکیں اوراگر امت اپنے مشن سے دور ہونے پر مصر تھی تو کم از کم اسے اس بات پر آمادہ کر سکیں کہ وہ تاریخ میں آپ کے نظریاتی و انقلابی لائحہ عمل کو دوسروں تک منتقل کرے
چھتے سال کے خاتمے سے قبل آپ نے اپنے بھائی حسن علیہ السلامکے سامنے امت کو آخری سانسیں لیتے اور اپنے نظریاتی وجود کو خیر باد کہتے دیکھا ، آپ نے مشاہدہ کیا کہ امت مسلمہ لوگوں کے ایک ایسے ریوڑ کی شکل اختیار کر گئی ہے جو اپنے آپ کو بنی امیہ کی بے پایان دنیوی خواہشات کی بھینٹ چڑہا رہا ہے [7].
ان حقائق نے امام حسین علیہ السلامکو ایک مایوس کن جنگ لڑنے پر مجبور کیا ایک ایسی جنگ جس میں آپ کو وقتی طور پر جنگی نقطہ نظر سے کامیابی حاصل نہ ہو ۔لیکن آپ اپنے اس عمل سے امت کے ضمیر کو جھنجھوڑنا اور مسلمانوں کے نظریاتی عزائم کو زندہ کرنا چاہتے تھے ، حالانکہ مسلمان چھوٹی چھوٹی مصلحتوں کے گرداب میں کانوں تک ڈوب چکے تھے ۔
مختصر یہ کہ امام حسین علیہ السلاماس نتیجے پر پہنچے کہ امت کو بیدار کرنے کے لئے آپ کو ایک سخت فداکاری کے ذریعے اپنے عزہ و اقارب اور اصحاب کی جانوں کو قربان کرنے اور کسی قسم کی جانثاری سے دریغ نہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
حسین علیہ السلام قیام کرتے ہیں
جب امام حسین علیہ السلام نے یقین کر لیا کہ اسلامی نظریات ان گمراہ کن مذاہب و اعتقادات کے سائے تلے مٹے چلے جارہے ہیں جنہیں بنی امیہ نے اپنی ناپاک حکومت کو تباہی سے بچانے کے لئے رائج کیا تھا تو آپ نے نظریات کو لے کر میدان عمل میں اتر آئے ، جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ موجودہ حالات نیز دینی بے حسی اور مادی مظالم کے خوف کے شدید احساس ، اس کے علاوہ طویل عرصے تک ظالم حکمرانوں کی اطاعت سے متاثرہ ذہنیت کے نتیجے میں اسلام کے نظریاتی مفاہیم کو زبانی گفتگو اور فکری بحثوں کے ذریعے قبو ل کرنے سے قاصر ہے تو آپ نے میدان عمل میں اترنے کے لئے فوری اقدام فرمایا ، اب آپ ہی امت کی بیداری کی آخری امید تھے ۔امت مسلمہ بھی آپ کو خلیفہ بر حق جانتے تھے لیکن آپ کی مدد کے سلسلے میں ان کے حوصلے اور ارادے ضعیف تھے ، بقولے ان کے دل آپ کے ساتھ تھے لیکن ان کی تلواریں آپ کے برخلاف [8].
ان حالات میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ستر اصحاب نیز خواتین و اطفال کمر بستہ ہو کر نکلے اور آپ نے اپنی المناک شہادت کے ذریعے امت کے ان عزائم کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش فرمائی جو خودساختہ مذاہب ونظریات کے باعث بے حس ہو چکے تھے ، امام نے چاہا کہ آپ کی شہادت ظالم حکمرانوں کی پشت پ رکوڑوں کی مانند برسے اور اس لہو لہان کر دے اور غافل انسانوں کو بیدار کر دے تا کہ وہ آگاہی کے ساتھ مکتب اسلام کے حوالے سے اپنا احتساب آپ کریں ، نیز نظریاتی شکوک اور عادلانہ قیادت کے بارے میں شبہات کا خاتمہ ہو اور امت ایک ایسا موقف اختیار کرے جس کی بنیادیں ہر قسم کے انحراف سے پاک اور شریعت اسلامی کے اصولوں کے مطابق استوار ہوں
و صلی الله علی محمد و آل محمد
[1] - شیخ مفید ( الارشاد ) ص ٤٣٢ ، ابن نما ( مثیر الاحزان ) ابن جوزی تذکرة خوازلامة ) ص٣٣١، تاج العروس :ج٩، ص ١٧٧
[2] - البحار 80: 104، ح 10. الوسائل 3: 405، ب 8 من النجاسات، ح 5.
[3] - امام حسین کی سوانح حیات ، سید ابن طاوؤس :ص ١١
[4] - تاریخ اسلام ، حسن ابراہیم :ج١، ص٢٧٨ تا ٢٧٩
[5] - رسالة فی معاویة و الامویین از جاحظ 'تحقیق از عزة العطار ،ص١٦
[6] - نثر اللالی علی نظم الاداری آلوسی
[7] - شیخ علی کورانی در مقدمہ کتاب ہکذا تکلم الحسین از محمد عقیقی :ص٨
[8] - یہ فرزدق شاعر کا قول ہے ملاحظہ ہو تاریخ طبری :ج٤، ص ٢٩٠، نیز تاریخ کامل ابن اثیر :ج٣، ص٢٨٦