٢٥ رجب امام موسی کاظم علیہ السلام کی روز شہادت

23 December 2024

01:21

۶,۳۴۴

چکیده :
دوران زندگی : امامت سے پہلے کا دور جو ١٢٨ ہ ق سے ١٤٨ آپ اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ گزارے ، اور امامت کے بعد کا دور ١٤٨ سے ١٨٣ تک ہے جو منصور دوانیقی ،مہدی عباسی ، ہادی عباسی ، اور ہارون رشید پر مشتمل ہے ، سب سے زیادہ آپ علیہ السلام کی امامت کا دور عصر ہارون میں تھا جس کی مدت ٢٣ سال ، ٢ ماہ ، ١٧ دن تھی اور ہارون عباسی دور کا پانچوان خلیفہ تھا اس کے دور میں حضرت زیادہ تر قید خانہ میں رہے.
نشست های علمی

٢٥ رجب امام موسی کاظم علیہ السلام کی روز شہادت

نام: موسی ٰ علیہ السلام

مشہور القاب: عبد صالح ، کاظم ، باب الحوائج

کنیت : ابو الحسن ، ابو ابراہیم

باپ: اما جعفر صادق علیہ السلام

ماں: حمیدہ خاتون

تاریخ ولادت : ٧ صفر صبح روز یکشنبہ ١٢٨ہ ق

جائے ولادت: ''ابواء '' مکہ و مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے ۔

تاریخ شہادت : ٢٥ رجب ١٨٣ ہ ق ہارون کے حکم سے زہرہ دیا گیا

جائے شہادت :بغداد میں ہارون رشیدکے قید خانہ میں

قبر مطہر : کاظمین ، بغداد کے قریب

دوران زندگی : امامت سے پہلے کا دور جو ١٢٨ ہ ق سے ١٤٨ آپ اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ گزارے ، اور امامت کے بعد کا دور ١٤٨ سے ١٨٣ تک ہے جو منصور دوانیقی ،مہدی عباسی ، ہادی عباسی ، اور ہارون رشید پر مشتمل ہے ، سب سے زیادہ آپ علیہ السلام کی امامت کا دور عصر ہارون میں تھا جس کی مدت ٢٣ سال ، ٢ ماہ ، ١٧ دن تھی اور ہارون عباسی دور کا پانچوان خلیفہ تھا اس کے دور میں حضرت زیادہ تر قید خانہ میں رہے.

امام موسی کاظم علیہ السلام کا جهاد

امام جعفر صادق علیہ السلام نے جن خطوط پر اپنی جد وجہد اور منصوبہ بندی کے ذریعہ معاشرے میں اپنا جہاد جاری رکھا ہوا تھا انہی خطوط اور جد وجہد پر امام موسی کاظمعلیہ السلام نے اپنا جہاد جاری رکھا جس کے چار محور تھے :

پہلا محور: فکری منصوبہ بندی کرنا، نظریاتی بیدا ری پیدا کرنا ،نیز منحرف عقائد اور قبائلی ، قومی و مذہبی اختلافات کی چارہ جوئی کے عمل کو آگے بڑہانا ،اس دور کے خطرناک پروپیکنڈوں میں سے ایک الحادی نظریات کی ترویج تھا ، اس کے خلاف امام موسی کاظم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ مستحکم علمی دلائل کے ساتھ ان سے بحث کرنے کے لئے میدان میں آتے او ان نظریات کی سبکی ، حقیقت سے دوری اور غیر منطقی ہونے کو آشکار کرتے ، یہاں تک کہ ان نظریات کے حامل لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنی غلطی اور گمراہی کا اعتراف کیا ۔

یہ حکمران طبقے پر گراں گزری اور یوں حکام نے ان کو دبانے اور سخت ترین سزائیں دینے پر اتر آئے ، عقائد کے بارے میں گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی گئی ، چنانچہ امام نے اپنے ایک ساتھی ہشام کو پیغام بھیجا کہ وہ لاحق خطرات کے پیش نظر گفتگو میں پرہیز سے کام لیں ، یوں ہشام خلیفہ مہدی کے مرنے تک عقائد کے بارے میں بات کرنے سے پرہیز کرتے رہے [1].

دوسرا محور:اپنے وفاداروں او ر حامیوں کی براہ راست نظارت اور ان کے ساتھ نظم و ہم آہنگی پیدا کرنا ، تا کہ حکومت وقت کو سیاسی طور پر کمزور کرنے ، اس کے ساتھ روابط نہ رکھنے اور سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع نہ کرنے کے سلسلے میں مناسب موقف اختیار کیا جاسکے ۔

امام علیہ السلام کے اس موقف کا اظہار آپ کے ایک ساتھی (صفوان جمال ) کے ساتھ آپ کی گفتگو سے ہوتا ہے ،آپ نے صفوان سے فرمایا :

ای صفوان تمہاری ہر صفت پسندیدہ او راچھی ہے سوائے ایک چیز کے ۔

صفوان : قربان جاؤں وہ کون سی صفت ہے ؟

امام علیہ السلام : تمہارا اپنے اونٹوں کا اس ظالم ( ہارون) کو کرائے پر دینا۔

صفوان: خدا کی قسم میں نے غرور و تکبر جتانے یا شکار و لہو و لعب کے لئے اسے اونٹ کرائے پر نہیں دیئے بلکہ میں نے تو اس سفر (حج) کے واسطے دیا ہے ،علاوہ از این میں بذات خود ان کے ساتھ نہیں جاتا ، بلکہ اپنے آدمیوں کو ان کے ساتھ بھیجتا ہوں ۔

امام علیہ السلام : اے صفوان کیا کبھی تمہارا کرایہ ان کے ذمے ( واجب الاداء ) باقی رہتا ہے ؟

صفوان :میری جان آپ پر فدا ہو، ہاں ایسا ہوتا ہے ۔

امام علیہ السلام : اس صورت میں کیا تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ کرائے کی ادائیگی تک وہ زندہ رہیں ؟

صفوان: جی ہاں !

امام علیہ السلام:جو کوئی ان کے زندہ رہنے کی تمنا کرے وہ انہی میں سے ہے اور جس کا تعلق ان سے ہو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے[2].

اس کے بعد اس کے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی :وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُون‏[3].

اما م علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو ہارونی نظام حکومت میں داخل ہونے اور کسی قسم کا عہدہ یا کام قبول کرنے سے منع کیا ، چنانچہ آپ نے زیاد بن ابی سلمہ سے فرمایا :

اے زیاد میں کسی بلندی سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ان ظالموں کے لئے کوئی کام انجام دینے یا ان میں سے کسی کی فرش پر پاؤں رکھنے کی بہ نسبت زیادہ پسند کرتا ہوں [4].

تیسرا محور: آپ کا حکام کے مقابلے میں یہ اعلانیہ اور صریح استدلالی موقف اختیار کرنا ، کہ آپ دوسروں کی بہ نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اور دیگر تمام مسلمانوں سے آپ حق خلافت میں مقدم ہیں ۔

قبر رسول ۖ کے پاس ایک جم غفیر کے سامنے آپ نے ہارون کے روبرو اپنا استدلال پیش کیا ،وہاں ہارون نے رسول اللہ کی ضریح کی جانب رخ کر کے یوں سلام کیا :

اے میرے چچا زاد بھائی آپ ۖ پر دورد و سلام ہو ،،

اس وقت امام بھی موجود تھے آپ نے رسول اللہ ۖ کو یوں سلام کیا :

سلام ہو آپۖ پر اے میرے پدر بزرگوار''

یہ سننا تھا کہ ہاروں آپے سے باہر ہو کر سخت طیش میں آگیا کیونکہ امام نے فخر وعظمت میں اپنی سبقت ثابت کر دی تھی ،چنانچہ مامون نے غیظ و غضب بھرے لہجے میں کہا:

آپ نے ہم سے زیادہ رسول ۖ سے قریب ہونے کا دعوی کیوں کیا ؟

امام نے دو ٹوک اور دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا :

اگر رسول اللہ ۖ زندہ ہوتے اور تم سے تمہاری بیٹی کی خواستگاری کرتے تو کیا تم اسے قبول کرتے ؟

ہارون نے جواب دیا :سبحان اللہ ! یہ تو عرب و عجم کے سامنے میرے لئے باعث فخر ہوتا۔

امام نے فرمایا : لیکن رسول اللہ ۖ مجھ سے میری بیٹی نہیں مانگ سکتے اور نہ میں دے سکتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ہمارے باپ ہیں نہ کہ تمہارے ، اسی لئے ہم تمہاری نسبت آنحضرت ۖ سے زیادہ نزدیک ہیں [5].

ہارون امام کی دلیل کے آگے منہ کی کھا کر کھسیانا ہو گیا اور امام کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور آپ کو حوالہ زندان کیا[6].

چوتھا محور : امت کے انقلابی جذبے کو بیدار کرنے کے لئے علوی انقلابیوں کی ان بغاوتوں اور تحریکوں کی حوصلہ افزائی جن کا مقصد امت مسلمہ کے ضمیر اور اسلامی عزم و ارادے کو ظالم ومنحرف حکمرانوں کے آگے سرنگوں ہونے سے بچانا تھا ،امام مخلص علویوں کی مدد بھی فرماتے تھے ،جب شہید فخ حسین بن علی ابن حسن نے امام کے معتقد شیعوں او علویوں کی توہین اور ان پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر فاسد ماحول کے خلاف بغاوت کا عزم کیا تو وہ پہلے امام موسی کاظم کی خدمت میں مشہورہ لینے آئے ، امام نے فرمایا: آپ قتل ہو جائیں گے ، پس اپنی تلوار تیز کر لیجئے کیونکہ لوگ فاسق ہیں ۔

جب آپ کو حسین کے قتل کی خبر ملی تو آپ نے گریہ فرمایا اور ان الفاظ میں ان کی توصیف کی : خدا کی قسم وہ صالح ، کثرت س روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے والے اور معروف کا حکم دینے اور منکر سے منع کرنے والے تھے ان کے گھر انے میں ان جیسا کوئی نہ تھا [7].

یہ مختصراً و ہ چار محور ہیں جن پر امام موسی کاظم علیہ السلام اپنی جد وجہد کو جاری رکھا ہوا تھا ، امام موسی کاظم علیہ السلام کے فضائل و کمالات بھی ایسی تھیں کہ خلفاء وقت کے لئے وہ بھی ناگوار تھے ہم یہاں پر نمونہ کے طور پر اہل سنت کے دو بڑے عالم دین کے ان کے بارے میں قول کو بیان کرتے ہیں.

کہ اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن طلحہ تحریر کرتے ہیں:

«هو؛ الامام ، الكبير القدر العظيم الشأن ، الكثير التهجّد ، الجادّة في الإجتهاد، المشهود له بالكرامات ، المشهور بالعبادة ، المواظب علي الطاعات ، يبيّت الليل ساجدا و قائما و يقطع النهار متصدقاً و صائماً ولفرط علمه و تجاوزه عن المعتدين عليه دُعي كاظما ، كان يجازي المسيء بإحسانه إليه ، ويقابل الجاني عليه بعفوه عنه ، و لكثرة عباداته كان يسمي بالعبد الصالح ، ويُعرف بالعراق بباب الحوائج إلي الله ، لنجح المتوسلين إلي الله تعالي به ، كراماته تحار منها العقول ....»[8]

”وہ ایک عظیم القدر اور عظیم الشان امام تھے، بہت زیادہ تہجد گذار اور محنت و کوشش کرنے والے تھے ، جن کی کرامات ظاہر تھیں اور جو عبادت میں مشہور اور اطاعت الٰہی پر پابندی سے گامزن رہنے والے تھے،راتوں کو رکوع و سجود میں گزارتے تھے اور دن میں روزہ رکھتے اور خیرات فرمایا کرتے تھے، اور بہت زیادہ حلم و بخشش اور اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کی بخشش کی وجہ سے آپ کو کاظم کے نام سے پکارا جاتا تھا، اور جو شخص آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا آپ اس کا جواب نیکی اور احسان کے ذریعہ دیتے تھے، اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے، اور بہت زیادہ عبادت کی وجہ سے آپ کا نام ”عبد صالح“ پڑ گیا، اور آپ عراق میں ”باب الحوائج الی اللہ “ کے نام سے مشہور ہوئے، کیونکہ ان کے وسیلہ سے خدا ئے قادر سے متوسل ہوا جاتا ہے جس کا نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ اور آپ کی کرامات عقلوں کو حیران کردیتی ہیں۔۔۔“

اسی طرح آپ کی شان میں اہل سنت کے بہت زیادہ تعصب رکھنے والے عالم ابن حجر لکھتے ہیں:

« و كان معروفاً عند أهل العراق بباب قضاء الحوائج عند الله و كان أعبد أهل زمانه و أعلمهم و أسخاهم»[9]

”آپ عراقیوں کے درمیان خدا کی طرف سے باب اللہ کے نام سے مشہور تھے اور اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عبادت گزار، سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ سخی انسان تھے“۔

امام علیہ السلامکے تلخ ترین مصائب: امام کی یہ فضائل و کرامات اور سرگرمیاں ہارون کے غیظ وغضب اور کینے میں اضافے کا باعث بنتا تھا ،یہی وجہ ہے کہ امام ایک طویل مدت ( تقریباً سولہ سال) زندانوں میں گزاری اور وہیں اپنے رب سے جاملے ۔

آپ نے دوران قید تلخ ترین مصائب اور سخت ترین تکالیف کا سامنا کیا ، یہاں تک کہ آپ زندان سے تنگ آگئے اورمدت کی طوالت سے ملول ہوئے ، حکومت آپ کو مختلف زندانوں میں منتقل کرتی رہی ، اس خوف سے کہ کہیں آپ کا رابطہ کسی شیعہ کے ساتھ برقرار نہ ہو سرکاری پولیس اور جاسوس سختی سے آپ کی نگرانی کرتے رہتے تھے ۔

امام طویل مدت تک ہارون کی قید میں رہے ،طویل قید نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور آپ کے بدن مبارک کو گھُلا کر رکھ دیا ،یہاں تک کہ جب آپ سجدہ کرتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا زمین پر کوئی کپڑا پڑا ہوا ہو ، ایک مرتبہ خلیفہ کے ایک نمائندے نے آپ سے عرض کیا :''خلیفہ آپ سے معذرت خواہ ہے اور اس نے آپ کی آزادی کا حکم دیا ہے ، بشرطیکہ آپ اس سے ملاقات فرما کر معذرت حاصل کریں یا اس کی خوشنودی حاصل کریں ''

امام نے نہایت بے نیازی کے ساتھ صریح الفاظ میں نفی میں جواب دیا ، یوں آپ نے زہر قاتل کا تلخ جام پینا گوارا فرمایا ، آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ کو اپنا ہمنوا بنانے کے سلسلے میں گمراہ حکمرانوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے اور ان کی گمراہی آشکار ہو[10].

امام نے زندان سے ہارون کے نام ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہارون پر اپنے شدید غصے کا اظہار فرمایا : ''بتحقیق جتنے میرے مشقت و آلام کے گزریں گے اتنے ہی دن تیرے راحت و آرام کے بھی گزر جائیں گے ، پھر ایک دن ایسا آئے گا جب ہم سب کا خاتمہ ہوگا ، او رکبھی ختم نہ ہونے والا دن آ پہنچے گا ، اس دن بدکار لوگ خسارے میں ہوں گے[11].

ہارون کے زندان میں امام قسم قسم کی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے ، کیونکہ ایک طرف سے آپ کو بیڑیوں سے پا بہ زنجیر کیا گیا دوسری طرف سے آپ پر زبردست سختیاں او راذیتیں روا رکھی گئیں ، ہارون رشید نے ہر قسم کے مصائب ڈہانے کے بعد آخر کار آپ کو زہر دے کر شہید کیا ، یوں آپ شہادت و سعادت کی منزل پر فائز ہوئے اور اپنے خالق سے جاملے ، آپ کی شہادت ٢٥، رجب ١8٣ ہ ق کو واقع ہوئی [12].



[1] - رجال کشی :ص١٧٢

[2] - مکاسب شیخ انصاری باب الولایة من قبل الجائر

[3] - سوره ہود/ ١١٣

[4] - مکاسب شیخ انصاری باب الولایة من قبل الجائر

[5] - اخبار الدول :ص١١٣

[6] - تذکرة الخواص :ص ٣٥٩

[7] - مقاتل الطالبین :ص٤٥٣

[8] - کشف الغمه :ج2،ص212

[9] - الصواعق المحرقه :ص203

[10] - دائرة المعارف الاسلامیہ ،مقالہ دور الآئمہ از شہید صدر :ص٩٦

[11] - البدایة و النہایة :ج١٠، ص ١٨٣ اور تاریخ بغداد

[12] - ابن خلکان :ج٢، ص١٧٣ اور تاریخ بغداد

برچسب ها :