17 April 2024 و 01:31

وسائل الشیعہ  کتاب جہاد کے دوسرے باب کی ساتویں روایت کا ایک حصہ یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام محمد بن حنفيہ کے لئے جو وصیت  کرتا ہے اس میں فرماتا ہے : «عَلَيْكَ بِقِرَاءَةِالْقُرْآنِ وَ الْعَمَلِ بِمَا فِيه»،قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی وصیت فرماتا ہے ، دو چیز يں ایسی ہیں کہ  روایات میں ان کے لئے کوئی حد اور حدود مشخص نہیں ہیں  اور اس کے جتنا زیادہ ہو  سکے بجا لانے کی ترغیب ہوئی ہے ، ایک بہت زیادہ نماز پڑھنا ہے اور دوسری چیز قرآن کریم کی تلاوت ہے ،قرآن کریم  کے بارے میں جو روایات نقل ہوئی ہیں وہ واضح طور پر اس معنی پر دلالت کرتی ہیں ،یہاں پر امیر المومنین علیہ السلام محمد بن حنفيہ  سے یہی سفارش فرما رہا ہے ،اب اس حدیث کے ذیل میں اعضاء و جوارح کے کچھ فرائض بیان  ہوئے  ہیں ، اور یہ ممکن ہے کہ ان فرائض کا انجام پانے کا راستہ یہی ہو ،اگر انسان اپنے ہاتھوں ، پاوں ، کان اور ۔۔۔۔ کے فرائض انجام پائے اور واقع بھی ہو جائے اور اسی پر باقی بھی رہے تو اس کا راستہ یہی ہے «عَلَيْكَ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَالْعَمَلِ بِمَا فِيهِ وَ لُزُومِ فَرَائِضِهِ وَ شَرَائِعِهِ وَ حَلَالِهِ وَ حَرَامِهِ وَ أَمْرِهِ وَ نَهْيِه‏»،قرآن کریم میں امر اور نہی ، حلال اور حرام ، واجبات اور احکام جو بھی بیان ہوئے ہیں انسان اپنے آپ کو ان کے انجام دینے کا پابند قرار دیں «وَ التَّهَجُّدِ بِه»،یہاں پر رات میں قرآن پڑھنے پر تاکید ہوئی ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان خاص کر سحر کے نزدیک اگر قرآن کی قرائت کرے تو اس کی اپنی  ایک  خاص اہمیت  ہے ،«وَ تِلَاوَتِهِ فِي لَيْلِكَ وَ نَهَارِكَ»،اس کے بعد فرماتا ہے «فَإِنَّهُ عَهْدٌ مِنَ اللهِ»،وہ تہجد ، شاید پوری رات انسان قرآن کے ساتھ رہے ، اس "لیلک اور نهارک" سے مراد یہ ہے کہ زندگی میں قرآن کے لئے کوئی  ایک  خاص وقت معین نہیں ہے ، صبح ، ظہر ، عصر، رات ، جس وقت پر بھی ہو قرآن کی  تلاوت  کرے «فَإِنَّهُ عَهْدٌ مِنَ اللهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى»،یہ علت کو بیان کر رہا ہے «إِلَى خَلْقِهِ فَهُوَ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ  مُسْلِمٍ أَنْ يَنْظُرَ كُلَّ يَوْمٍ فِي عَهْدِهِ وَ لَوْ خَمْسِينَ آيَةً»،یہ انسان کا خدا سے تجدید عہد کے لئے ہے ، انسان کا خدا سے بیعت ہے ،انسان  جب  بھی  قرآن پڑھتا ہے خداوند متعال سے ایک جدید بیعت کر لیتا ہے «وَ اعْلَمْ أَنَّ دَرَجَاتِ  الْجَنَّةِ  عَلَى عَدَدِ آيَاتِ الْقُرْآن»، یہ ایک مشہور بات ہے کہ شايد آپ سب کو معلوم ہو گا ، خود بہشت کی حقیقت کو قرآن تشکیل دیتا ہے ، بہشت کے درجات کو خداوند متعال نے قرآن کریم کی آیات کے تعداد کے مطابق بنایا ہے ، اور جنت کی حقیقت اور اس کے درجات  انہیں آیات سے بنتا ہے ،  اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ جو بھی قرآن کریم کی ایک آیت کو جانتا ہو اور اسے پڑھ لیں صرف ایک درجہ اوپر جاتا ہو کیونکہ اس  حدیث  میں فرماتا ہے «فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يُقَالُ لِقَارِئِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَ ارْق»، قیامت کے دن قرآن کے قاری سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتے  ہوئے اوپر درجات پر جاؤ " بلکہ قرآن کریم  کا  بطون بھی جنت کے درجات کے جزء میں سے ہے ، یعنی  جو بھی   قرآن کریم  کے  بطن اور اس کے تفسیر سے نزدیک  اور آشنا ہو اس کےلئے بھی زیادہ سے زیادہ درجات ہوں گے، لہذا یہ بتا سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ جنت کے درجات صرف ظاہری آیات کے تعداد کے مطابق ہو ، بلکہ  اس میں قرآن کریم  کا  بطون  بھی  شامل ہے ، جو بھی انسان قرآن کریم کی آیات کے  باطن سے جتنا زیادہ آگاہ ہو اتنا ہی زیادہ اس کا درجات ہو گا اور چونکہ آیات کے بطن کا کوئی حد معین نہیں ہے تو یہ خود خداوند تبارک و تعالی سے ملاقات پر ختم ہوگا «فَلَا يَكُونُ فِي الْجَنَّةِبَعْدَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقِينَ أَرْفَعُ دَرَجَةً مِنْهُ»انبياء اور صدیقین کے بعد سب سے اونچا درجہ اس شخص کا ہے جو قرآن کا قاری ہو ، البتہ اس بات کو میں نے اپنے بعض اساتید سے سنا ہے شايد بعض روایات میں بھی ہو  کہ  ممکن  ہے  کوئی  اس دنیا میں حافظ قرآن ہو، لیکن جب وہ اس دنیا سے چلا جائے قرآن کی ایک آیت بھی اس کے لئے باقی نہ رہے ، یہ  احتمال بھی ہے ، یہ ایک حقیقت ہے ، جو شخص اس دنیا سے قرآن کو اپنے ساتھ  اُس عالم میں لے جا سکے، یہ توفیق اس کےلئے پیدا ہو جائے بہت بڑی توفیق ہے  انشاء  اللہ  خداوند متعالی ہم سب کو نصیب فرمائے.


 



ماخذ : ماخذ: وسائل الشیعه،‌ ج 15، ص 171



کلمات کلیدی :


۱,۶۰۳ قارئين کی تعداد: