جواب : کسی کا
گناہکار ہونا اور اس گھر میں کسی بچہ کی پیدایش خداوند متعال کی عدالت سے کوئی ربط
نہیں رکھتا ہے ، خداوند متعالی نے اپنے
تمام بندوں کو اچھے اور برے دونوں راستے کو دیکھا دیا ہے اور انسانوں کی راہنمائی
کے لئے پیغمبروں کو بھیجا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ان
کے بر حق جانشینوں اور زمان غیبت میں
مراجع عظام اور علماء معصومین علیہم السلام
کی پیروی کرتے ہوئے اچھے اور برے کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں ، اس کے
علاوہ خود خدا نے بھی انسان کے اندر عقل کو قرار دیا ہے کہ جس کی مدد سے انسان
اچھے اور برے کی خود تمیز کر سکتا ہے ، اور خداوند متعال نے بشر کی ہدایت کے لئے
کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ، اب اگر کوئی
انسان ان تمام ہدایت اور سعادت کے راستوں کو چھوڑ دیں اور روشن اور مستقیم راستہ
سے بھٹک جائے اور انحراف اور گمراہی کی طرف چلا جائے ،تاریکی اور اپنی ہلاکت کی
طرف چلا جائے تو ایسے گھرانہ میں کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو یہ خدا کے عدالت سے کوئی
ربط نہیں رکھتا ہے ؟خداوند متعال نے ہدایت کے اسباب کو سب کے اختیار میں قرار دیا ہے ، اب ایک انسان اس سے
استفادہ کرتا ہے اور خود کو اپنی فطرت کی راہ پر قرار دیتا ہے ، اور ایک نفر
گمراہی پر چلا جاتا ہے ،ہر کوئی اپنی اختیار سے جسے خدا نے اسے قرار دیا ہے چلتاہے
، ضمنا اس طرح کے گھرانوں میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اپنی سرنوشت کو خود بدل سکتا
ہے اور پاکیزہ گی اور سعادت کی طرف آسکتاہے ۔
بہر حال اس بہن
کے مشکل کے بارے میں آپ کو جو ہم بتا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ :
دنیا میں صرف یہ
نہیں ہے جو مشکلات میں ہو ، بلکہ اس دنیا میں ہر کوئی اپنے حساب سے مشکل اور
پریشانی میں مبتلاء ہیں ، ان پریشانیوں کی وجہ کیا ہے ؟ قرآن کریم کی آيات اور اہل
بیت عصمت علیہم السلام کی روایات کے مطابق مومنین کے لئے جو پریشانیاں آتی ہے وہ
یا خود ان کے جہالت اور اس کام کے عواقب سے بے خبری کی وجہ سے ہے ، یا یہ خدا کا
امتحان ہے ، یا اس کے معنوی درجات کو اوپر لے جانے کے لئے ہے ،ان میں سے ہر ایک کی
مختصر تشریح یہ ہے :
الف:کبھی انسان
کچھ خطا اور غلط کاموں کا مرتکب ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا کی زندگی میں اسے
پریشانیاں پیدا ہوتی ہے ، ہر گناہ کے اپنے خاص اثر اور نتائج ہے ، کچھ گناہوں کی وجہ سے انسان فقیر
ہوتا ہے ، اسی طرح دوسرے گناہوں کے اپنے
اپنے خاص برے نتائج ہیں ، جیسا کہ امام علی علیہ السلام دعا کمیل میں فرماتا ہے :«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَهْتِكُ
الْعِصَمَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَيِّرُ النِّعَمِ اللَّهُمَّ
اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ الدُّعَاءَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ
الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلَاءَ»؛خدایا
میرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ہیں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول
عذاب کا باعث ہوتے ہیں۔ ا ن گناہوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغیر کر دیا کرتےہیں
۔ان گناہوں کو بخش دے جو دعاوٴں کو تیری بارگاہ تک پھنچنے سے روک دیتے ہیں ان گناہوں
کو بخش دے جو امیدوں کو منقطع کر دیتے ہیں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا
سبب ہوتے ہیں۔اور یہ سب پریشانیاں بھی اس لئے ہے تا کہ اس کے گناہوں کا کیفر ہو ،
چونکہ خداوند متعال اپنے مومن بندہ کو پسندکرتا ہے تو بعض گناہوں کے سلسلے میں اسے
گرفتار کرتا ہے تا کہ اس کے گناہ کا سزا اسے اسی دنیا میں ملے ،اور آخرت میں اس کا بوجھ کم ہو ، اور یہ خود خدا کا اپنے
مومن بندہ کے لئے لطف اور رحمت ہے ، لیکن جو شخص مورد غضب قرار پاتا ہے وہ اکثر و
بیشتر کسی مصیبت میں مبتلاء ہونے کے بجائے اس کی نعمت کو زیادہ کیا جاتا ہے تا کہ
آخرت میں اسے دردناک عذاب میں مبتلاء کرے ۔
ب۔ کچھ پریشانی کبھی
خدا کی طرف سے امتحان اور آزمائش کے لئے ہے،خدا کے ثابت قوانین میں سے ایک یہ ہے
کہ مومنین کو آزمائش میں ڈال دیتے ہیں ، جیسا کہ قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں
اس مسئلہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، نمونہ کے طور پر سورہ آل عمران کی آیت 186
ملاحظہ فرمائيں:«لَتُبْلَوُنَّ في
أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أُوتُوا الْكِتابَ
مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ
تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ»؛"یقیناً تم اپنے اموال اور نفوس کے ذریعہ آزمائے جاؤ
گے اور جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور جو مشرک ہو گئے ہیں سب کی طرف سے بہت
اذیت ناک باتیں سنو گے – اب اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو یہی
امور میں استحکام کا سبب ہے"۔سورہ بقرہ آیت 155 میں فرماتا ہے:«و لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ
وَنَقْصٍ مِنَ الاَمْوالِ وَالأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ
الصَّابِرِينَ»؛"اور ہم یقیناً
تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال و نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور
اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں"۔سورہ عنکبوت آیت 2 اور 3میں
فرماتا ہے :«أحسب الناس أن يتركوا أن يقولوا آمنا و
هم لا يفتنون»۔کیا
لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہےکہ و ہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دے جائيں گے کہ ہم ایمان
لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے ، اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی
آزماچکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہر حال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی
ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں "۔پس یقینا خدا وند متعال مسلمانوں کو
بھی آزمائے گا،اور اس وقت معلوم ہو گا کہ کون سچے ایماندار ہیں اور کون جھوٹا
ایمان کا دعویدار ہے ، البتہ خدا کے آزمائش کا کوئی خاص چارچوب نہیں ہے بلکہ ہر
کسی کا اس کے روحی حالات کے مطابق آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور اس کا امتحان ہوتا
ہے ، لہذا ایک اور آیت میں فرماتا ہے :«وَنَبْلُوكُمْ
بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ فِتْنَةً وَ إِلَيْنا تُرْجَعُونَ»(انبياء: 35)، اور ہم
امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں اور تم پلٹ کر
ہماری ہی طرف آو گے"۔
خداکے
امتحان اور آزمائش کی حکمت کیا ہے ؟ اگرچہ خداوند متعال تمام کاموں سے آگاہ ہے،
لہذا بندوں سے جو امتحان لیا جاتا ہے وہ ان چیزوں کے بارے میں جہالت کو ختم کرنے
کے لئے نہیں ہے ، لیکن خالص مومنوں کے شایستگی اور لیاقت کو ظاہر کرکے دوسروں کو
دیکھانے اور ان کے اندورنی استعداد کو
ظاہر کرنے کے لئے ان کا امتحان لیا جاتا ہے ۔
مومن
انسان کو خالص کرنا اور اس کے ایمان کا جوہرہ آشکار ہونا خدا کے امتحان اور آزمائش
کے حکمتوں میں سے ایک ہے ۔جس طرح سنہار سونے کو آگ میں ڈال دیتا ہے تا کہ اس کے
کچرے آگ میں ختم ہو جائے اور خالص سونا مل جائے ، خداوند متعال بھی مومن انسانوں
کو غم و اندوہ اور گرفتاریوں میں ڈال کر اس کے ایمان کو خالص کرا لیتا ہے ، اسی
طرح سچے مومن اور صرف مومن ہونے کے
دعویدار انسانوں کو الگ الگ کرنا بھی خدا کے امتحان اور آزمائش کی حکمتوں میں سے
ایک ہے ، جیسا کہ حضرت علی فرماتے ہیں :«لَا
بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَنْ يُمَحَّصُوا وَ يُمَيَّزُوا وَ يُغَرْبَلُوا وَ
يُسْتَخْرَجُ فِي الْغِرْبَالِ خَلْق»؛، "لوگ خالص ہونا چاہئے اور ان کا
امتحان ہونا چاہئے اور اچھے اور برے الگ ہونا چاہئے " لہذا مومنین ان کے
ایمان کے مرتبہ اور روحی حالت کے مطابق خدا کے سخت امتحانات واقع ہوتا ہے اور کوئی
یہ نہ سوچے کہ ایمان کا راستہ ہمیشہ سرسبز باغوں سے گزرتا ہے اور با ایمان افراد
اس طولانی سفر میں صرف پھولوں کے پتوں پر قدم رکھتے ہیں یہ فکر اور سوچ ایمان اور
دین کی ماہیت سے بے خبری کی علامت ہے ، شاید یہی سوچ اور فکر تھی کہ مکہ میں بعض
مسلمانوں کے افکار میں رخنہ ڈالا تھا کہ ہم کب تک خدا واحد پر ایمان رکھنے کے جرم
میں ظلم و ستم میں پستے رہیں ؟خداوند متعال نے ان کے ذہنوں سے اس فکر کو ختم کرنے
کے لئے ذیل کی ان آیات کو نازل فرمایا:«أَ
حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذينَ
صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبينَ»(عنكبوت/2-3)؛ کیا لوگوں نے یہ خیال کر
رکھا ہےکہ و ہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دے جائيں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ
آزمائے نہیں جائیں گے ، اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزماچکے ہیں کیونکہ اللہ
کو بہر حال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون
جھوٹے ہیں "۔
گویا
یہی غلط افکار کہ ایمان لانے کے بعد پھر کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے ، مدینہ میں
بھی مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی پیدا ہوئے تھے کہ خداوند متعال نے ان کے اس غلط اور
عقیدہ کو باطل قرار دینے کے لئے یوں فرمایا :«أَمْ
حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذينَ
خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْساءُ وَ الضَّرَّاءُ وَ زُلْزِلُوا
حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى نَصْرُ اللَّهِ أَلا
إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَريب»(بقره:
214)؛
کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم
کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف
پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار
اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟(انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی
نصرت عنقریب آنے والی ہے۔
جنگ احد کے بعد جس میں مسلمانوں کے بہت سارے نقصانات ہوئے اور زخمی بھی ہوئے
اور 70 بہت ہی اچھے جنگنجو اور فوج کے سپہ سالار شہید ہوئے (ایسے حالت میں ، یہ
بیان کرنے کے لئے کہ ایمان اور دینداری میں مشکلات ہے ) خداوند متعال نے اس آیت
کریمہ کو نازل فرمایا :«أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا
يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذينَ جاهَدُوا مِنْكُمْ وَ يَعْلَمَ الصَّابِرينَ»(آل
عمران:142)؛کیا تم (لوگ) یہ سمجھتے ہیں کہ
جنت میں یونہی چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیںکہ تم میں سے جہاد
کرنے والے اور صبر کرنے والے کون ہیں؟بہر حال خدا کے آزمایش کا باب ایک مفصل باب
ہے اور اس کی حکمتیں بھی بہت زیادہ ہیں اور خدا ہر بندہ کو ایک خاص انداز سے
آزمايش میں قرار دیتا ہے ، چنانچہ پیغمبران الہی سخت امتحان اور آزمایش میں واقع
ہوتے تھے ۔
ج- اجر کوزیادہ کرنا اور روحانی انعام:کبھی پریشانیاں اور امتحانات الہی
اس لئے ہے کہ خداوند مومن انسانوں کو امتحان میں ڈال دیتا ہے تا کہ وہ ان پر صبر
کرے اور اس کے روحانی درجات کو بلند کرے ، اس بارے میں عبد الرحمن سے ایک روایت
نقل ہے جس میں فرماتے ہیں :«عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ قَالَ ذُكِرَ
عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع) الْبَلَاءُ وَ مَا يَخُصُّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ
بِهِ الْمُؤْمِنَ فَقَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ أَشَدُّ النَّاسِ بَلَاءً
فِي الدُّنْيَا فَقَالَ النَّبِيُّونَ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ وَ
يُبْتَلَى الْمُؤْمِنُ بَعْدُ عَلَى قَدْرِ إِيمَانِهِ وَ حُسْنِ أَعْمَالِهِ
فَمَنْ صَحَّ إِيمَانُهُ وَ حَسُنَ عَمَلُهُ اشْتَدَّ بَلاؤُهُ وَ مَنْ سَخُفَ
إِيمَانُهُ وَ ضَعُفَ عَمَلُهُ قَلَّ بَلَاؤُهُ»؛ «، عبد الرحمن ابن حجاج کہتا ہے
: میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں
شرفیاب ہواتھا ان کے حضور میں سختیوں اور خدا کا مومن بندوں کے امتحان کرنے کی بات
ہوئی ، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے
پوچھا گیا :دنیا میں کس کا امتحان زیادہ سخت ہے ؟ فرمایا:پیغمبروں کا ، ان کے بعد
ہر وہ جو ان کے جیسے ہیں (اوصیاء) اور ان کے بعد مومن کا اس کے ایمان کے اندازہ سے اور کردار کے اچھے
ہونے کے لحاظ سے بلاوں میں گرفتار ہوتے ہیں ، پس جس کا بھی ایمان صحیح ہو اور
کردار نیک ہو اسی اندازہ سے اس کا امتحان سخت ہوتا ہے اور جس کا ایمان ضعیف ہو اس
کی گرفتاری اور امتحان کم ہو گا "ایک اور روایت میں ہے :«عَنْ أَبِي عَبْدِ
اللَّهِ ع قَالَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُ بِمَنْزِلَةِ كِفَّةِ الْمِيزَانِ كُلَّمَا
زِيدَ فِي إِيمَانِهِ زِيدَ فِي بَلَائِه»؛امام
صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں :مومن مومن ترازو کے دو پلڑوں کے
مانندہے جتنا ایمان میں اضافہ ہو گا اتنا بلا و مصیبت میں بھی اضافہ ہو گا"امام
صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند متعال اپنے اچھے بندوں کو بلا اور مصیبت میں
گرفتار کرتا ہے تا کہ اس طرح سے وہ بغیر کسی گناہ کے اجر اور ثواب عنایت فرمائے ،
ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یوں نقل ہے : «إِنَّ الرَّجُلَ
لَيَكُونُ لَهُ الدَّرَجَةُ عِنْدَ اللَّهِ لَا يَبْلُغُهَا بِعَمَلِهِ يُبْتَلَى
بِبَلَاءٍ فِي جِسْمِهِ فَيَبْلُغُهَا بِذَلِكَ»؛انسان
کے لئے خداوند متعال کے نزدیک درجہ اور مقام ہے کہ انسان اپنے عمل کے ذریعہ اس
درجہ تک فائز نہیں ہو سکتا ( اس کا عمل کم ہے) لہذا خداوند اس کے بدن کو مصائب اور
امراض میں گرفتار کرتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے "اسی
طرح کی ایک اور روایت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں :«عَنْ أَبِي عَبْدِ
اللَّهِ(عليه السلا م) قَالَ إِنَّ فِي
الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَا يَبْلُغُهَا عَبْدٌ إِلَّا بِالِابْتِلَاءِ فِي
جَسَدِهِ».
اب جو مطالب بیان ہوئے ان کے مطابق آپ خود خدا کے نزدیک
اچھے اور باعزت شخصیات جیسے پیغمبران اور آئمہ اور سارے مومن بندوں کے بارے میں
غور و فکر کریں؛ جو مشکلات اور پریشانیاں دنیا میں ان کے لئے پیش آئے ہیں اگر کسی
اور کے لئے ہوتے تو ان کے لئے ان کو تحمل کرنا اور برداشت کرنا بہت ہی سخت تھا ،
آئمہ علیہم السلام کی زندگی پر توجہ دیں کہ ان کے لئے کتنی پریشانیاں تھیں ، خصوصا
کربلا کے واقعہ کی طرف توجہ دیں کتنے مصائب اس خاندان پر آئے ، لیکن ان تمام مصائب
کے باوجود کربلا کے صبر کے قہرمان یعنی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے نہ صرف کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ فرمایا:«ما رأيت إلا جميلا»؛« میں نے خدا سے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے »حتی گیارہ محرم کو بھی تمام بھائيوں اور عزیزوں کے شہادت کے بعد بھی نماز
تہجد کو ترک نہیں کیا ،اب آپ خود سوچیں کہ آپ کی پریشانیاں شاید امتحان الہی ہو ،
یا اس میں کچھ دوسرے جہات ہوں، اور بعض روایات کے مطابق ، خداوند متعال کبھی اپنے
بندہ کی اچھائی کو اسی میں دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں بلا و گرفتاری میں رہے اس صورت میں اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے
امتحان میں ڈال دیں ،ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ اس بہن سے بتا دیں :مومن کبھی بھی
خدا کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتا ہے ، اور کبھی بھی زندگی کو اپنے لئے سخت نہیں
دیکھتا ہے ، بلکہ خدا کی رضایت پر راضی ہوتا ہے ، دنیا ، امتحان کی جگہ ہے اور اس
میں پیش آنے والی پریشانیاں اور مشکلات مومن کے گناہوں کو بخشنے کا یا بلند درجات
تک فائز ہونے کا وسیلہ ہے ، اس بہن کو بھی ناامید نہیں ہونا چاہئے ،بے صبری کو
اپنے آپ سے دور کریں ، تمام کاموں کو خدا کے سپرد کرے اور خدا پر توکل کریں اور
خدا کو محور قرار دیتے ہوئے اپنے مشکلات کو ختم کرنے کے لئے کوشش کریں ، زیادہ سے
زیادہ دعا پڑھیں، قرآن کی تلاوت کرے ، واجبات کو بجا لائے اور محرمات کو ترک کرے ،
دوسروں کو اذیت پہنچانے اور حرام مال کھانے سے اجتناب کرے ، ان شاء اللہ خداوند ان
کی مشکلات کو رفع کرے گا اور سب کو صحیح ہو جائے گا ۔
عدالت خداوندی اور انسانوں کی آزمائش اور آسایش
05 October 2024 ٹائم 09:13
عرصہ سے میرے ذہن میں ایک سوال کھٹک رہا ہے ، کہ خدا کیسے عادل ہے در حالیکہ ایک شخص کسی ایسے گھرانے میں بڑا ہوتا ہے جس کا باپ زنا کار ہے ، اور ایک شخص ایک بہت ہی اچھے گھرانے میں بڑا ہوتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ میرا ایک دوست ہے اسے روحی لحاظ سے بہت مایوسی ہوئی ہے ، وہ عشق میں ناکام ہوا ہے ،میرا دوست ایک بہت ہی اچھی اور مذہبی لڑکی ہے ، وہ ایک ایسے گھرانے میں پلی بڑھی ہے کہ اس کا باپ زناکار ہے ،اس کے بھائی نے بیوی کو طلاق دی ہے ، اس کی بہن کو اس کا شوہر مارتا رہتا ہے اور بہت تنگ کرتاہے ، اور خود اس سے بڑی ایک بہن ہے جس کی عمر 27 سال ہے اور ابھی تک شادی نہیں ہوئی ہے ، اس کے بہت سارے منگیتر ہے لیکن جب خاندان کے بارے میں تحقیقات کرتے ہیں تو اس کی باپ کے کرتوت کو دیکھ کر سب چلے جاتے ہیں ،میرا دوست جب ان سب چیزوں کو دیکھتی ہے تو کہتی ہے کہ خدا عادل نہیں ہے ،خدا نے ہمیں يوں ہی چھوڑ دیا ہے ،اسی طرح کی دوسری باتیں ،اس کی حالت بہت بری ہے ، اسے جتنا بھی بولیں کہ یہ سب خداکے امتحانات ہیں، قبول نہیں کرتی ، خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ خدا پر شک کرتی ہے ، بہت ہی غمگین ہے اور کہتی ہے کہ مجھے خدا سے کوئی امید نہیں ہے ، میرا مستقبل تاریک ہے ، میں بڑے بڑے گناہ کو انجام دے چکی ہوں اور وہ خدا سے ناامید ہونا ہے ،آپ کے خیال میں ، میں اس کی کیسے راہنمائی کروں؟میں اسے کیا بتاوں کہ خدا کی عدالت کیا ہے کہ اس کے لئے یہ پریشانیاں پیش آئی ہے؟اس کا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے باپ کا نتیجہ ابھی ان کو مل رہا ہے ، وہ کہتی ہے کہ ہمیں اپنے باپ کےکاموں کے نتیجہ کو تحمل کرنا پڑ رہا ہے ،خدا بہت ہی بے عدالت ہے ۔۔۔۔۔ میں اسے کیسے سمجھاوں؟
پاسخ :
جواب : کسی کا گناہکار ہونا اور اس گھر میں کسی بچہ کی پیدایش خداوند متعال کی عدالت سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے ، خداوند متعالی نے اپنے تمام بندوں کو اچھے اور برے دونوں راستے کو دیکھا دیا ہے اور انسانوں کی راہنمائی کے لئے پیغمبروں کو بھیجا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ان کے بر حق جانشینوں اور زمان غیبت میں مراجع عظام اور علماء معصومین علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے اچھے اور برے کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں ، اس کے علاوہ خود خدا نے بھی انسان کے اندر عقل کو قرار دیا ہے کہ جس کی مدد سے انسان اچھے اور برے کی خود تمیز کر سکتا ہے ، اور خداوند متعال نے بشر کی ہدایت کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ، اب اگر کوئی انسان ان تمام ہدایت اور سعادت کے راستوں کو چھوڑ دیں اور روشن اور مستقیم راستہ سے بھٹک جائے اور انحراف اور گمراہی کی طرف چلا جائے ،تاریکی اور اپنی ہلاکت کی طرف چلا جائے تو ایسے گھرانہ میں کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو یہ خدا کے عدالت سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے ؟خداوند متعال نے ہدایت کے اسباب کو سب کے اختیار میں قرار دیا ہے ، اب ایک انسان اس سے استفادہ کرتا ہے اور خود کو اپنی فطرت کی راہ پر قرار دیتا ہے ، اور ایک نفر گمراہی پر چلا جاتا ہے ،ہر کوئی اپنی اختیار سے جسے خدا نے اسے قرار دیا ہے چلتاہے ، ضمنا اس طرح کے گھرانوں میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اپنی سرنوشت کو خود بدل سکتا ہے اور پاکیزہ گی اور سعادت کی طرف آسکتاہے ۔
بہر حال اس بہن کے مشکل کے بارے میں آپ کو جو ہم بتا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ :
دنیا میں صرف یہ نہیں ہے جو مشکلات میں ہو ، بلکہ اس دنیا میں ہر کوئی اپنے حساب سے مشکل اور پریشانی میں مبتلاء ہیں ، ان پریشانیوں کی وجہ کیا ہے ؟ قرآن کریم کی آيات اور اہل بیت عصمت علیہم السلام کی روایات کے مطابق مومنین کے لئے جو پریشانیاں آتی ہے وہ یا خود ان کے جہالت اور اس کام کے عواقب سے بے خبری کی وجہ سے ہے ، یا یہ خدا کا امتحان ہے ، یا اس کے معنوی درجات کو اوپر لے جانے کے لئے ہے ،ان میں سے ہر ایک کی مختصر تشریح یہ ہے :
الف:کبھی انسان کچھ خطا اور غلط کاموں کا مرتکب ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا کی زندگی میں اسے پریشانیاں پیدا ہوتی ہے ، ہر گناہ کے اپنے خاص اثر اور نتائج ہے ، کچھ گناہوں کی وجہ سے انسان فقیر ہوتا ہے ، اسی طرح دوسرے گناہوں کے اپنے اپنے خاص برے نتائج ہیں ، جیسا کہ امام علی علیہ السلام دعا کمیل میں فرماتا ہے :«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَهْتِكُ الْعِصَمَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَيِّرُ النِّعَمِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ الدُّعَاءَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلَاءَ»؛خدایا میرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ہیں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہیں۔ ا ن گناہوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغیر کر دیا کرتےہیں ۔ان گناہوں کو بخش دے جو دعاوٴں کو تیری بارگاہ تک پھنچنے سے روک دیتے ہیں ان گناہوں کو بخش دے جو امیدوں کو منقطع کر دیتے ہیں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ہوتے ہیں۔اور یہ سب پریشانیاں بھی اس لئے ہے تا کہ اس کے گناہوں کا کیفر ہو ، چونکہ خداوند متعال اپنے مومن بندہ کو پسندکرتا ہے تو بعض گناہوں کے سلسلے میں اسے گرفتار کرتا ہے تا کہ اس کے گناہ کا سزا اسے اسی دنیا میں ملے ،اور آخرت میں اس کا بوجھ کم ہو ، اور یہ خود خدا کا اپنے مومن بندہ کے لئے لطف اور رحمت ہے ، لیکن جو شخص مورد غضب قرار پاتا ہے وہ اکثر و بیشتر کسی مصیبت میں مبتلاء ہونے کے بجائے اس کی نعمت کو زیادہ کیا جاتا ہے تا کہ آخرت میں اسے دردناک عذاب میں مبتلاء کرے ۔
ب۔ کچھ پریشانی کبھی خدا کی طرف سے امتحان اور آزمائش کے لئے ہے،خدا کے ثابت قوانین میں سے ایک یہ ہے کہ مومنین کو آزمائش میں ڈال دیتے ہیں ، جیسا کہ قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، نمونہ کے طور پر سورہ آل عمران کی آیت 186 ملاحظہ فرمائيں:«لَتُبْلَوُنَّ في أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ»؛"یقیناً تم اپنے اموال اور نفوس کے ذریعہ آزمائے جاؤ گے اور جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور جو مشرک ہو گئے ہیں سب کی طرف سے بہت اذیت ناک باتیں سنو گے – اب اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو یہی امور میں استحکام کا سبب ہے"۔سورہ بقرہ آیت 155 میں فرماتا ہے:«و لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الاَمْوالِ وَالأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ»؛"اور ہم یقیناً تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال و نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں"۔سورہ عنکبوت آیت 2 اور 3میں فرماتا ہے :«أحسب الناس أن يتركوا أن يقولوا آمنا و هم لا يفتنون»۔کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہےکہ و ہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دے جائيں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے ، اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزماچکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہر حال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں "۔پس یقینا خدا وند متعال مسلمانوں کو بھی آزمائے گا،اور اس وقت معلوم ہو گا کہ کون سچے ایماندار ہیں اور کون جھوٹا ایمان کا دعویدار ہے ، البتہ خدا کے آزمائش کا کوئی خاص چارچوب نہیں ہے بلکہ ہر کسی کا اس کے روحی حالات کے مطابق آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور اس کا امتحان ہوتا ہے ، لہذا ایک اور آیت میں فرماتا ہے :«وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ فِتْنَةً وَ إِلَيْنا تُرْجَعُونَ»(انبياء: 35)، اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں اور تم پلٹ کر ہماری ہی طرف آو گے"۔
خداکے امتحان اور آزمائش کی حکمت کیا ہے ؟ اگرچہ خداوند متعال تمام کاموں سے آگاہ ہے، لہذا بندوں سے جو امتحان لیا جاتا ہے وہ ان چیزوں کے بارے میں جہالت کو ختم کرنے کے لئے نہیں ہے ، لیکن خالص مومنوں کے شایستگی اور لیاقت کو ظاہر کرکے دوسروں کو دیکھانے اور ان کے اندورنی استعداد کو ظاہر کرنے کے لئے ان کا امتحان لیا جاتا ہے ۔
مومن انسان کو خالص کرنا اور اس کے ایمان کا جوہرہ آشکار ہونا خدا کے امتحان اور آزمائش کے حکمتوں میں سے ایک ہے ۔جس طرح سنہار سونے کو آگ میں ڈال دیتا ہے تا کہ اس کے کچرے آگ میں ختم ہو جائے اور خالص سونا مل جائے ، خداوند متعال بھی مومن انسانوں کو غم و اندوہ اور گرفتاریوں میں ڈال کر اس کے ایمان کو خالص کرا لیتا ہے ، اسی طرح سچے مومن اور صرف مومن ہونے کے دعویدار انسانوں کو الگ الگ کرنا بھی خدا کے امتحان اور آزمائش کی حکمتوں میں سے ایک ہے ، جیسا کہ حضرت علی فرماتے ہیں :«لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَنْ يُمَحَّصُوا وَ يُمَيَّزُوا وَ يُغَرْبَلُوا وَ يُسْتَخْرَجُ فِي الْغِرْبَالِ خَلْق»؛، "لوگ خالص ہونا چاہئے اور ان کا امتحان ہونا چاہئے اور اچھے اور برے الگ ہونا چاہئے " لہذا مومنین ان کے ایمان کے مرتبہ اور روحی حالت کے مطابق خدا کے سخت امتحانات واقع ہوتا ہے اور کوئی یہ نہ سوچے کہ ایمان کا راستہ ہمیشہ سرسبز باغوں سے گزرتا ہے اور با ایمان افراد اس طولانی سفر میں صرف پھولوں کے پتوں پر قدم رکھتے ہیں یہ فکر اور سوچ ایمان اور دین کی ماہیت سے بے خبری کی علامت ہے ، شاید یہی سوچ اور فکر تھی کہ مکہ میں بعض مسلمانوں کے افکار میں رخنہ ڈالا تھا کہ ہم کب تک خدا واحد پر ایمان رکھنے کے جرم میں ظلم و ستم میں پستے رہیں ؟خداوند متعال نے ان کے ذہنوں سے اس فکر کو ختم کرنے کے لئے ذیل کی ان آیات کو نازل فرمایا:«أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذينَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبينَ»(عنكبوت/2-3)؛ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہےکہ و ہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دے جائيں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے ، اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزماچکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہر حال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں "۔
گویا یہی غلط افکار کہ ایمان لانے کے بعد پھر کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے ، مدینہ میں بھی مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی پیدا ہوئے تھے کہ خداوند متعال نے ان کے اس غلط اور عقیدہ کو باطل قرار دینے کے لئے یوں فرمایا :«أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْساءُ وَ الضَّرَّاءُ وَ زُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَريب»(بقره: 214)؛ کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟(انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔
جنگ احد کے بعد جس میں مسلمانوں کے بہت سارے نقصانات ہوئے اور زخمی بھی ہوئے اور 70 بہت ہی اچھے جنگنجو اور فوج کے سپہ سالار شہید ہوئے (ایسے حالت میں ، یہ بیان کرنے کے لئے کہ ایمان اور دینداری میں مشکلات ہے ) خداوند متعال نے اس آیت کریمہ کو نازل فرمایا :«أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذينَ جاهَدُوا مِنْكُمْ وَ يَعْلَمَ الصَّابِرينَ»(آل عمران:142)؛کیا تم (لوگ) یہ سمجھتے ہیں کہ جنت میں یونہی چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیںکہ تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون ہیں؟بہر حال خدا کے آزمایش کا باب ایک مفصل باب ہے اور اس کی حکمتیں بھی بہت زیادہ ہیں اور خدا ہر بندہ کو ایک خاص انداز سے آزمايش میں قرار دیتا ہے ، چنانچہ پیغمبران الہی سخت امتحان اور آزمایش میں واقع ہوتے تھے ۔
ج- اجر کوزیادہ کرنا اور روحانی انعام:کبھی پریشانیاں اور امتحانات الہی اس لئے ہے کہ خداوند مومن انسانوں کو امتحان میں ڈال دیتا ہے تا کہ وہ ان پر صبر کرے اور اس کے روحانی درجات کو بلند کرے ، اس بارے میں عبد الرحمن سے ایک روایت نقل ہے جس میں فرماتے ہیں :«عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ قَالَ ذُكِرَ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع) الْبَلَاءُ وَ مَا يَخُصُّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِهِ الْمُؤْمِنَ فَقَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ أَشَدُّ النَّاسِ بَلَاءً فِي الدُّنْيَا فَقَالَ النَّبِيُّونَ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ وَ يُبْتَلَى الْمُؤْمِنُ بَعْدُ عَلَى قَدْرِ إِيمَانِهِ وَ حُسْنِ أَعْمَالِهِ فَمَنْ صَحَّ إِيمَانُهُ وَ حَسُنَ عَمَلُهُ اشْتَدَّ بَلاؤُهُ وَ مَنْ سَخُفَ إِيمَانُهُ وَ ضَعُفَ عَمَلُهُ قَلَّ بَلَاؤُهُ»؛ «، عبد الرحمن ابن حجاج کہتا ہے : میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہواتھا ان کے حضور میں سختیوں اور خدا کا مومن بندوں کے امتحان کرنے کی بات ہوئی ، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا :دنیا میں کس کا امتحان زیادہ سخت ہے ؟ فرمایا:پیغمبروں کا ، ان کے بعد ہر وہ جو ان کے جیسے ہیں (اوصیاء) اور ان کے بعد مومن کا اس کے ایمان کے اندازہ سے اور کردار کے اچھے ہونے کے لحاظ سے بلاوں میں گرفتار ہوتے ہیں ، پس جس کا بھی ایمان صحیح ہو اور کردار نیک ہو اسی اندازہ سے اس کا امتحان سخت ہوتا ہے اور جس کا ایمان ضعیف ہو اس کی گرفتاری اور امتحان کم ہو گا "ایک اور روایت میں ہے :«عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُ بِمَنْزِلَةِ كِفَّةِ الْمِيزَانِ كُلَّمَا زِيدَ فِي إِيمَانِهِ زِيدَ فِي بَلَائِه»؛امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں :مومن مومن ترازو کے دو پلڑوں کے مانندہے جتنا ایمان میں اضافہ ہو گا اتنا بلا و مصیبت میں بھی اضافہ ہو گا"امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند متعال اپنے اچھے بندوں کو بلا اور مصیبت میں گرفتار کرتا ہے تا کہ اس طرح سے وہ بغیر کسی گناہ کے اجر اور ثواب عنایت فرمائے ، ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یوں نقل ہے : «إِنَّ الرَّجُلَ لَيَكُونُ لَهُ الدَّرَجَةُ عِنْدَ اللَّهِ لَا يَبْلُغُهَا بِعَمَلِهِ يُبْتَلَى بِبَلَاءٍ فِي جِسْمِهِ فَيَبْلُغُهَا بِذَلِكَ»؛انسان کے لئے خداوند متعال کے نزدیک درجہ اور مقام ہے کہ انسان اپنے عمل کے ذریعہ اس درجہ تک فائز نہیں ہو سکتا ( اس کا عمل کم ہے) لہذا خداوند اس کے بدن کو مصائب اور امراض میں گرفتار کرتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے "اسی طرح کی ایک اور روایت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں :«عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(عليه السلا م) قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَا يَبْلُغُهَا عَبْدٌ إِلَّا بِالِابْتِلَاءِ فِي جَسَدِهِ».
اب جو مطالب بیان ہوئے ان کے مطابق آپ خود خدا کے نزدیک اچھے اور باعزت شخصیات جیسے پیغمبران اور آئمہ اور سارے مومن بندوں کے بارے میں غور و فکر کریں؛ جو مشکلات اور پریشانیاں دنیا میں ان کے لئے پیش آئے ہیں اگر کسی اور کے لئے ہوتے تو ان کے لئے ان کو تحمل کرنا اور برداشت کرنا بہت ہی سخت تھا ، آئمہ علیہم السلام کی زندگی پر توجہ دیں کہ ان کے لئے کتنی پریشانیاں تھیں ، خصوصا کربلا کے واقعہ کی طرف توجہ دیں کتنے مصائب اس خاندان پر آئے ، لیکن ان تمام مصائب کے باوجود کربلا کے صبر کے قہرمان یعنی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے نہ صرف کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ فرمایا:«ما رأيت إلا جميلا»؛« میں نے خدا سے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے »حتی گیارہ محرم کو بھی تمام بھائيوں اور عزیزوں کے شہادت کے بعد بھی نماز تہجد کو ترک نہیں کیا ،اب آپ خود سوچیں کہ آپ کی پریشانیاں شاید امتحان الہی ہو ، یا اس میں کچھ دوسرے جہات ہوں، اور بعض روایات کے مطابق ، خداوند متعال کبھی اپنے بندہ کی اچھائی کو اسی میں دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں بلا و گرفتاری میں رہے اس صورت میں اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے امتحان میں ڈال دیں ،ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ اس بہن سے بتا دیں :مومن کبھی بھی خدا کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتا ہے ، اور کبھی بھی زندگی کو اپنے لئے سخت نہیں دیکھتا ہے ، بلکہ خدا کی رضایت پر راضی ہوتا ہے ، دنیا ، امتحان کی جگہ ہے اور اس میں پیش آنے والی پریشانیاں اور مشکلات مومن کے گناہوں کو بخشنے کا یا بلند درجات تک فائز ہونے کا وسیلہ ہے ، اس بہن کو بھی ناامید نہیں ہونا چاہئے ،بے صبری کو اپنے آپ سے دور کریں ، تمام کاموں کو خدا کے سپرد کرے اور خدا پر توکل کریں اور خدا کو محور قرار دیتے ہوئے اپنے مشکلات کو ختم کرنے کے لئے کوشش کریں ، زیادہ سے زیادہ دعا پڑھیں، قرآن کی تلاوت کرے ، واجبات کو بجا لائے اور محرمات کو ترک کرے ، دوسروں کو اذیت پہنچانے اور حرام مال کھانے سے اجتناب کرے ، ان شاء اللہ خداوند ان کی مشکلات کو رفع کرے گا اور سب کو صحیح ہو جائے گا ۔
کلمات کلیدی :
۶,۰۰۸