اپنا سوال پوچھیں

13 October 2024 ٹائم 04:17

وہ کونسے اعمال ہیں جن کی وجہ سے انسان کی رزق و روزی کم ہو جاتی ہے؟

پاسخ :

بسمہ تعالی

رزق وروزی کم کرنے کے اسباب درج ذیل ہیں :

١لف: طبیعی اسباب:

١۔ سستی اوربیکاری،اگر کوئی شخص سست ہواورکسی کسب وکارکے پیچھے نہیں جاتا ہو تو ممکن ہے اس کی زندگی بہت سخت  ہوجائے ۔

٢۔اسراف:اگرکوئی خداوند متعالی کی نعمتوں کو اسراف کر کے ضایع کر دے توممکن ہے وہ فقیر ہو جائے ۔

٣۔ زندگی میں نظم نہ ہونا:زندگی کے تمام کاموں میں نظم و انضباط ضروری ہے ،اس لحاظ سے خرچ و مخارج بھی منظم ہونا ضروری ہے اگر کوئی اپنے آمدی سے زیادہ خرچ کرے تو وہ تنگدستی میں مبتلاء ہو سکتا ہے ۔

٤۔لوگوں سے اچھی تعلقات اوربااخلاق ہونا: اچھے اخلاق کا معنوی اثر کے علاوہ ؛ طبیعی  لحاظ سے بھی رزق و روزی کے زیادہ ہونے میں اثر انداز ہے کیونکہ جس انسان کا اخلاق اچھا ہو اور متواضع ہو تو سب اسے پسند کرتے ہیں اورا س کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اس طرح اس شخص کے لئے کام کرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں ،اس کے علاوہ اچھا اخلاق معنوی لحاظ سے بھی رزق میں برکت کا سبب ہے ۔

ب) معنوی اسباب

رزق و روزی کم ہونے کے کچھ معنوی اسباب بھی ہیں جو درج ذیل ہیں :

١۔ غیرخدا پر توکل :

یقیناً تمام مخلوقات کی رزق وروزی خالق رازق کے ہاتھ میں ہے،اگرچہ طبیعی عوامل بھی اس میں موثر ہیں لیکن اصل خداوندمتعال ہے اور طبیعی اسباب بھی اسی کے حکم کے مطابق ہے ، اس لحاظ سے جو افراد اپنے رزق و روزی کو رزق کے مبداء اور سر چشمہ سے طلب کرے اسے یہ حاصل ہو جاتی ہے ،لیکن جو شخص اسے مخلوقات کے ہاتھوں میں تلاش کرے تو اسے وہ حاصل ہونا ممکن نہیں ہے وہ کبھی بھی اس رزق تک نہیں پہنچ سکتا جسے وہ طلب کر رہا ہو ،اسی لحاظ سے خدا پر توکل کرنا رزق و روزی میں اضافہ کا سبب ہے اورمخلوق خدا پر توکل روزی کے کم ہونے کا سبب ہے ۔

اس سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتا ہے :

خداوند متعالی فرماتا ہے : جو شخص بھی میرے مخلوق پر بھروسہ کرے اور مجھ سے طلب نہ کرے میں آسمان اور زمین کے اسباب کو اس کے لئے قطع کر دیتا ہوں ،اس کے بعد اگر مجھ سے کوئی چیز طلب کرے تو میں اسے نہیں دیتا ہوں اور اگر مجھے پکارے تو میں اسے جواب نہیں دوں گا،لیکن اگر کوئی میرے بندہ پر نہیں بلکہ خود مجھ پر بھروسہ کرے ،تو میں آسمان اور زمین کو اس کی رزق و روزی کا سہارا قرار دوں گا،اوروہ اگرمجھے پکارے تو میں اس کا جواب دوں گا اوراگرمجھ سے کوئی چیز طلب کرے تو میں اسے عطا کروں گا اوراگر مجھ سے طلب بخشش کرے تو میں اسے عفو کروں گا[1]اس لحاظ سے اگر کوئی اپنے کاموں میں خدا پر توکل کرے ، تو اس کے کاموں کے اسباب و علل فراہم ہوتا ہے ، لیکن اگر کوئی اسباب کے خالق کے بدلے مستقل طور پر خود اسباب سے لپٹ جائے تو وہ ان اسباب اورعوامل کو کام میں لانے سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔

البتہ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان خدا پر کامل طورپرتوکل کر کے گھرپربیٹھا رہے اورکوئی کام کاج نہ کرے یہ توتوکل کے برخلاف ہے بلکہ خداپرتوکل کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ طبیعی راستوں سے تلاش اورکوشش کو خدا کے تابعداراسباب قراردیں اورخداپرکامل توکل کر کے طبیعی راستوں سے تلاش اورکوشش بھی کرے ، لیکن انہیں اسباب پراعتماد کر کے نہ بیٹھیں ۔

٢۔دعا نہ کرنا

دعا یا دوسرے الفاظ میں خدا سے درخواست کرنا رحمت الہی کے خزانوں کی کنجی ہے،کہ دعا کے ذریعہ خداوند عالم کی نعمتوں کے خزانہ کو اپنے لیے کھول سکتا ہے ، اور اس کے مقابلہ میں خدا کے بدلے لوگوں سے مانگنا اور ان سے درخواست کرنا ہے کہ یہ خدا کے نعمتوں کے خزانوں کے کنجی کو اپنے لئے بند کرنے اور اس کی نعمتوں سے محروم ہونے کا سبب ہے ، جو شخص دعا کے ذریعہ رحمت کے دروازہ کو اپنے لئے نہ کھولیں ،تنگدستی اور زندگی کی مشکلات اسے مخلوق کے دروازوں پر دستک دینے ہر ایک سے مانگنے پر مجبور کرتا ہے ،یہ پیغمبر اکرم(ص) کا فرمان ہے کہ فرماتا ہے: «من فتح علي نفسه بابا من المسئله، فتح الله عليه باباً من الفقر»[2]جو شخص اپنے لئے لوگوں سے مانگنے کا دروزاہ کھول لیتا ہے ،خداوند متعالی فقر کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول لیتا ہے ۔

امام صادق(ع) اس بارے فرماتے ہیں :[2]جو شخص اپنے لئے لوگوں سے مانگنے کا دروزاہ کھول لیتا ہے ،خداوند متعالی فقر کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول لیتا ہے ۔

٣۔ قطع رحم :رزق وروزی کم ہونے اورفقروفاقہ میں مبتلاء ہونے کے عوامل واسباب میں سے ایک رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ہے ، جس طرح انسان کے جلدی مرجانے میں قطع رحم مؤثر ہے اسی طرح فقر وفاقہ میں بھی مؤثر ہے اور صلہ رحم رزق وروزی میں اضافہ اورآباد ہونے کا سبب ہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہے :صُلَةُ الاْرْحامِ تُزَکِّى الاْعْمالَ وَ تُنْمِى الاْمْوالَ؛صلہ رحم انسان کے اعمال کو پاکیزہ اوراس کے مال ودولت میں برکت پیدا کرتا ہے،اوراس کے مقابلہ میں رشتہ داروں سے قطع تعلق زندگی کو تاریک اور روزی میں کمی کا سبب ہے ۔

٤۔ صدقہ نہ دینا: صدقہ دینا بھی رزق وروزی میں اضافہ کا سبب ہے ؛ امام علیہ السلام فرماتا ہے : اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ»[4] صدقہ کے ذریعہ روزی کو اپنے اوپر نازل کراؤ۔

امام صادق (ع) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: أَما عَلِمْتَ أنَّ لِکُلِّ شَیء مِفْتاحاً وَمِفْتاحُ الرِّزْقِ الصَّدَقَةُ»کیا آپ کومعلوم نہیں کہ ہر چیز کی ایک چابی ہے اور رزق وروزی کی چابی صدقہ دینا ہے ۔

٥۔ توبہ و استغفار نہ کرنا:توبہ اورااستغفار کرنا وسعت رزق و روزی کا سبب ہے جیسا کہ قرآن میں حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہا ہے : «فقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إنهُ كَانَ غَفَّاراً* يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَاراً* وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهاراً»[5]. اور کہا :اپنے پروردگار سے معافی مانگو ،وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے بارشیں برسائے گا ،وہ اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا''

اور توبہ و استغفار نہ کرنا روزی میں کمی کا سبب ہے ؛امیر المومنین علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا: إذا أبْطَئَتِ الاْرْزاقُ عَلَیکَ فَاسْتَغْفِرِ اللهَ یوَسِّعْ عَلَیکَ فیها" جب تم پر سختی ہو جائے تو اپنے گناہوں سے توبہ کرو ،خداوند متعالی تمہاری روزی میں برکت دے گا ۔

٦۔زنا کرنا:زنا(نعوذ باللہ )کے بہت سارے برے اثرات ہیں ؛عمرمیں کمی ،مشکلات اورپریشانیاں آنا،رزق وروزی کم ہونا زنا کے اثرات میں سے ہے ،اوراگرپورے معاشرے میں زنا عام ہو جائے تو وہاں پھر قحطی ،خشک سالی اور زلزلہ وغیرہ اس کے اثرات میں سے ہے اوراس طرح زلزلہ سے آبادیاں اجھڑ جائے گی اورمال و دولت سب ختم ہو جاتی ہے اور رزق و روزی میں کمی آتی ہے ۔

٧۔ نماز صبح کے بعد سورج کے نکلنے تک سونا:روزی کے کم کرنے کے اسباب میں سے ایک طلوع صبح سے لے کر طلوع سورج تک سونا ہے ،اس کے مقابلہ میں اگراس وقت میں عبادت میں مصروف ہو جائے یا کام کاج کر کے رزق و روزی کے پیچھے جائے تو اس کی اپنی خاص برکات ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: سحرخیزی مبارک ہے ،یہ تمام نعمتوں خصوصاً روزی میں اضافہ کا سبب ہے ۔

اسی طرح یہ بھی فرماتا ہے :صبح سویرے اپنے کاموں پر نکل جاؤ ؛کیونکہ اس وقت یہ بہت آسان طریقہ سے انجام پاتا ہے ۔

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: صبح سویرے رزق و روزی کے لئے نکلنا روزی میں اضافہ کا سبب ہے ۔

اسی طرح یہ بھی فرماتا ہے :جو بھی ہمیشہ جاوید رہنا چاہتا ہے (اگرچہ جاودانگی نہیں ہے ) تو اسے سحرخیز ہونا چاہئے ؛اوریہ بھی فرماتا ہے : خدا کے راہ میں کسی بھی سحر خیزکی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی اس سحر خیز کی ہے جو اپنے اہل وعیال کے معاش کے لئے سحرخیزی کرتا ہے ۔

امام صادق (ع) فرماتا ہے : ہمیشہ تلاش اور کوشش کیا کرو !جب بھی نماز صبح سے فارغ ہو کر واپس آجائے تو اسی وقت صبح سویرے روزی اور حلال کمائی کے لئے نکل جاؤ، تا کہ خدا تمہیں رزق و روزی دے دیں اور تمہاری مدد کرے.

اسی طرح آپ(ع) یہ بھی فرماتا ہے : امام سجاد (ع) صبح کے وقت رزق وروزی کے لئے باہر جاتے تھے ،تو ان سے پوچھا گیا : اے فرزند رسول(ص) ! اس وقت آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں ؟

فرمایا: اپنے اہل وعیال کے لئے صدقہ لینے جا رہا ہوں ؛ عرض ہوا :کیا آپ اپنے اہل و عیال کے لئے صدقہ قبول کرتے ہیں ؟

فرمایا: جو بھی حلال کمائی کرے اورخدا سے اپنے اہل وعیال کی رزق وروزی کو طلب کرے ان کو مل جاتا هے ۔



[1] - اعلام الدین فی صفات المومنین ؛ص٢١٣

[2] - بحارالانوار، ج 103، ص 20

[3] - بحارالانوار، ج76، ص 316

[4] - مصادر نهج البلاغه،ج 4، ص 121

[5] - نوح/١٠ الی١٣

کلمات کلیدی :


۱۲,۸۵۲