مسجد امام حسن عسکری (ع) میں شب برات کے پروگرام برگزار کرنے والوں سے حضرت آیت اللہ استاد محمد جواد فاضل لنکرانی(دامت برکاته) کا خطاب
08 December 2024
03:31
۵,۱۷۳
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
١٥ شعبان ،حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (عجل الله تعالي فرجه الشريف) کا روز ولادت ، اورانسانیت کی سب سے بڑی عیدهے.
اس عید کے مناسب سے آپ حضرات ،تمام شیعیان او رآپ (عج) کے محبین کی خدمت میں عرض تبریک و تہنت پیش کرتا ہوں.
اس اچھی سنت کے قائم کرنے پر آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں الحمد للہ روز بروز یه سنت لوگوں کے درمیاں پهیل رہا ہے.
میں یهاں١٥ شعبان کی رات کے حوالہ سے چند قابل توجہ مطالب کو آپ حضرات کی خدمت میں عرض کروں گا:
١۔ قدیم الایام سے یہ اچھی سنت شیعوں کے درمیان رائج تھی کہ لوگ بڑے ذوق و شوق سے اعتقاد کے ساتھ پیسہ خرچ کر کے یہ جشن مناتے ہیں اور اپنے گلی او کوچوں کو سجھاتے ہیں ہمیں چاہئیے کہ لوگوں کے اندر اس جذبه کو اور بڑھائے ۔
ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مہدوی ثقافت سے آشنا ہو جائے اور انشاء اللہ یہ کام حکومت مہدوی کی طرف ایک قدم ہو ، تو ہمیں چاہئے کہ لوگوں آپ (عج) کے ظہور کے مسألہ کے بارے میں خصوصی توجہ دلائیں ، اورہر سال یہ جشن اور چراغانی پہلے سے بہتر طریقہ سے انجام پائے ۔
جوشخص یہ کہتا ہے کہ چراغانی مت کرو یہ اسراف ہے ، ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے ، ہمیں چاہئے کہ معاشرے کے تمام لوگوں کو اس کام کی طرف شوق دلائے کیونکہ زمان غیبت میں حضرت حجت(عج) کے مسألہ سے حساس کوئی او رمسئلہ نہیں ہے ، گذشتہ زمانہ میں لوگ شعبان کی پہلی تاریخ سے اپنے گلی کوچوں کو سجانا شروع کرتے تھے ،لیکن افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان آخری چند سالوں میں یہ کچھ حد تک کم ہوا ہے ۔
٢۔روایات میں ہے «إنتظار الفرج أفضل العبادات» انتظار امام زمان کو دیگر مستحبات کی طرح ایک مستحب کام نہیں سمجھنا چاہئے،یہ روایت اور انتظار کے باب میں موجود دوسری روایات اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت سے استفادہ ہوتا ہے کہ انتظار کے بغیر ایمان ، ایک ناقص ایمان ہے ۔
تمام انبیاء حتی کہ خود پیغمبر اکرم (ص) اور آئمہ اطہار( علیہم السلام ) بھی منتظرین میں سے تھے ، اور انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو یہ وعدہ دیا ہوا تھا کہ ہمارا اصلی ہدف آخر الزمان میں وقوع پذیر ہوگا ہمارا یہ سب کام اس کے لئے مقدمہ ہے ، لہذا مسئلہ انتظار کو زمان غیبت اور ایک خاص معین افراد سے محدود نہیں کرنی چاہئے ، اور اسے ایک ابتدائی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔
انتظار ؛ یعنی خدا وند متعالی اور تمام انبیاء اور اوصیاء کے اہداف کا محقق ہونا ، یعنی بشر اپنی انتہائی تکامل تک پہنچ جانا ۔
٣۔ انتظار صحیح کے مظاہر میں سے ایک ، ١٥ شعبان کی رات کو عبادت اور دعا کرتے ہوئے جاگے رہنا ہے ،جو شخص اس رات کو احیاء نہ کرے اسے منتظر واقعی نہیں کہا جا سکتا ۔
انتظار کے کچھ مراتب اور درجے ہیں ، اگر کوئی انتظار کے سب سے پہلے درجہ پر فائز ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ہر رات کو عبادت اور راز ونیاز میں گزارے ، اس رات کی تو بات ہی کچھ او رہے ، احتمال ہے کہ یہ رات شب قدر بھی ہو ۔
توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اس رات کو جاگے رہنا صرف ایک شب زندہ داری نہیں ہے ، جیسے اعتکاف کہ عام طو رپر اس کا ایک شخصی اثر ہے کہ بندہ کا خداسے رابطہ برقرار ہونا ہے ، لیکن ١٥ شعبان کی رات کو جاگے رہنا ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک شخصی عبادت ہو ؛ نہیں ! بلکہ اس میں شخصی پہلو کے علاوہ ، اجتماعی اور سیاسی پہلو بھی پایا جاتا ہے ۔
منتظر وہ ہے جو حضرت بقیۃ اللہ الاعظم(عج) کے ظہور کے زمانہ کے پہنچنے کے انتظار میں ہو اور حضرت کے لئے دعا کرے اور آپ (عج) کے ظہور کے لئے میدان ہموار کرنے کے فکر میں ہو ۔
آخر میں ان کاموں کے سلسلے میں آپ تمام کا شکر گزار ہوں ، امید ہے کہ خداوند متعالی ہم سب کوآپ (عج)کے حقیقی منتظرین میں سے قرار دیں ۔(آمین)
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ