شہادت امام حسین (ع) میں عقلانیت ، بندگی اور شکوہ وعظمت

08 December 2024

13:41

۶,۲۴۵

خبر کا خلاصہ :
یہ بات جو مشہور ہے کہ واقعہ عاشورا میں عقل عاجز ہے ، یہاں عقل کی بات نہیں ہے ،واقعہ عاشورا میں عقلی توجہیات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے بلکہ یہاں پر عشق اور آثار عشق کے بارے میں بات کرنی چاہئے ،یہ ایک غلط بات ہے
آخرین رویداد ها

عزاداران امام حسین علیہ السلام سے حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ ) کا خطاب

بسم الله الرحمن الرحيم الحمدلله رب العالمين
و الصلاة و السلام علی سيدنا و نبينا ابی القاسم محمد و آله الطيبين الطاهرين المعصومين
و لعنة الله علی اعدائهم اجمعين من الآن إلی قيام يوم الدين

«وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ»

یہ ایام سالاران شہیدان حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے عزاداری اور آپ کی شہادت کا شب ہفتم اور اہلبیت عصمت و طہارت کے اسیر ی کے ایام ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ  واقعه عاشورا کے بارے میں عقلی اور عقلانیت کے لحاظ سے تحقیق کرنا  اچھا کام ہے یا نہیں ؟
یہ بات جو مشہور ہے کہ واقعہ عاشورا میں عقل عاجز ہے ، یہاں عقل کی بات نہیں ہے ،واقعہ عاشورا میں عقلی توجہیات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے بلکہ یہاں پر عشق اور آثار عشق کے بارے میں بات کرنی چاہئے ، کیا یہ بات صحیح ہے؟ کیا یہ ہمارے دینی معارف سے مناسب  بات ہے ؟

میں یہاں یہ عرض کرنا چا ہوں گا کہ یہ مشہور بات غلط ہے اگرچہ اس مختصر وقت میں اس بارے میں تمام مطالب کو کامل طور پر بیان نہیں کر سکوں گا لیکن یہ ایک بہت ہی اہم مطلب ہے ، عاشورا کے ماننے والوں کو جان لینا چاہئے کہ یہ عاشورا کے رموز میں سے ایک ہے ، کہ معاشرتی، انفرادی اور اجتماعی مسائل میں عقل انتہائی اہمیت کا حامل ہے قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر خداوند متعالی نے اپنی نشانیوں کو بیان فرمایا ہے جن کے بعد فرماتا ہے :''أفلا تعقلون'' لوگوں کی سرزنش کرتا ہے کہ کیوں تعقل اور غور وفکر نہیں کرتے  ؟! واقعاً بہت ہی عجیب ہے کہ بہت سارے لوگ دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن خدا نے جس عظیم نعمت (عقل) کو عطا فرمایا ہے اس کے بارے میں سوچتے نہیں ، اور جو انسان اس عظیم نعمت سے غافل ہےاس نے  حیات انسانی کو درک ہی نہیں کیا ہے اور زندگی کی اصلی مفہوم کو سمجھا  هی نہیں ہے ۔

ہم جب آیات اور روایات کی طرف مراجعہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان میں عقل کے بارے میں بہت سارے مطالب بیان ہوئے ہیں ،عقل کیا ہے ؟ عقل کے تکامل  کے اسباب کیا ہیں ؟عقل کے رشد نہ ہونے اورعقل کے فاسد ہونے کے اسباب و عوامل کیا ہیں ؟ عقل کے اجزاء کیا ہیں ؟ یہ وہ مطالب ہیں جن کے بارے میں ہمیں توجہ کرنا چاہئے اور اس میں توجہ کرنے کا راستہ یہی آیات اور روایات ہیں۔

مرحوم کلینی (رہ)نے اصول کافی میں توحید اور اعتقادی مباحث کو شروع کرنے سے پہلے " کتاب عقل" کوبیان کیا ہے ، اور اس کتاب میں عقل کے بارے میں بہت اچھی روایات  نقل ہیں ، آپ امیر المؤمنین (ع) کے کلمات قصار میں عقل کے بارے میں جستجو کریں ، میں نے اجمالی طور پر ایک حساب لگایا تھا تو تقریباً ٢٥٨ کلمات کو امیر المؤمنین (ع) نے عقل کے بارے میں فرمایا ہے ، ان میں سے ہر کے بارے میں گھنٹوں بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ، افسوس ہے کہ ہم جو دین کے راستہ پر ہے اور یہ میدان خالی ہمارے ہاتھ میں ہے ، ہم ان سے استفادہ نہ کریں ،آیات اور روایات کو آپس میں ربط دینے کی ضرورت ہے اور ان کے مفاہیم کو صحیح طرح سمجھنے کی ضرورت ہے ، تا کہ ہم اپنی زندگی کو ایک عقلانی زندگی کے راستہ پر لگا سکے ۔

آجکل"طرز زندگی "کے نام سے جو سیمناراور اجلاس برگزار کرتے ہیں ہم اگر آیات اور روایات کی طرف مراجعہ کریں تو دینی طرز زندگی کا سب سے پہلا اور اہم معیار اور ملاک عقلی بنیاد پر زندگی کو استوار کرناہے ، اگر ہماری زندگی عقلی بنیاد پر نہ ہو تو یہ زندگی ایک دینی زندگی نہیں ہے ، اس کے بعد اس زندگی کے لئے آپ جو بھی نام رکھنا چاہئے رکھ سکتے ہیں ۔

ایک صحیح روایت میں امام باقر(ع) فرماتا ہے : «لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْعَقْلَ اسْتَنْطَقَهُ» خداوند متعالی نے جب عقل کو خلق کیا ( ان روایات میں عقل سے مراد وہ قوت ہے جس کے ذریعہ اچھے کو برے سے تشخیص دے سکتا ہے ) اچھے کو برے سے ، حق کو باطل سے تشخیص دے سکے ، انسان جب سوال کرتا ہے کہ کیا ہوا واقعہ عاشورا رونما ہوا ؟ اس کی تمام برگشت اس طر ف ہے کہ اس وقت کے لوگوں نے اپنے عقل کو ڈھنانپے رکھا تھا ، وہ لوگ حق اور باطل کے درمیان تشخیص کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے تھے ! عقل وہ قوت ہے جس کے ذریعہ انسان حق اورباطل  کے درمیاں فرق کو بیان کر سکتا ہے ، خدا وندمتعالی نے جب عقل کو خلق کیا، تو اسےبات کرنے کا قابل بنایا، اور اسے بات کرنے کی قوت عطا کیا، «ثُمَّ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ»  اسے فرمایا ؛ آجاؤ تو آگیا اور جب اسے فرمایا چلے جاؤ تو وہ چلا گیا، یہاں پر اقبال اور ادبار کے بارے میں گفتگو بہت طویل ہے ۔

اس کا خلاصہ یہی ہے کہ روایات میں ہے کہ جو انسان خدا کی اطاعت کرتا ہے وہ انسان عاقل ہے اور جو انسان گنہکار ہے وہ  عاقل نہیں ہے ، یعنی اگر انسان اپنی زندگی میں عقل کو ملاک اور معیار قرار دیں تو عقل یہی کہتا ہے کہ خدا کی طرف آجاؤ، خدا کی اطاعت کی طرف آجاؤ ، لیکن اگر عقل کو کنارہ پر لگالیاتوپھر اسےشہوات نفسانی، فساد اورافراط وتفریط اور جنگ اور خونریزی کی طرف لے جاتا ہے ۔

یہ جو فرمایا ہے کہ جب خدا نے آگے بلایا تو وہ آگیا اور جب اسے کہا کہ پچھلے چلے جاؤ تو وہ چلا گیا یہ کنایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عقل ایک ایسی قوت ہے جس کے ذریعہ خدا کی اطاعت ہوتی ہے ، ا س کے بعد فرمایا ہے : «ثُمَّ قَالَ وَعِزَّتِي وَجَلَالِي مَاخَلَقْتُ خَلْقاًهُوَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْكَ»عقل سے فرماتا ہے کہ میں نے جتنے مخلوقات خلق کیے ہیں مثلا فرشتے جو ہمیشہ خدا کی عبادت کرتے ہیں ، دنیا ، مجردات، مادیات ....... میرے نزدیک ان سب میں تم زیادہ عزیز ہو ، یہ خدا کے نزدیک عقل کی اہمیت کو بیان کرتا ہے اس کے بعد ایک اوراہم جملہ میں فرماتا ہے : «وَلَا أَكْمَلْتُكَ إِلَّا فِيمَنْ أُحِبُّ» میں اپنے بندوں میں سے جس کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہو تجھے میں اس میں کامل طور پر قرار دیتا ہوں کیونکہ جتنا عقل کامل ہوتا ہے اتنا ہی انسان کا خدا سے تقرب بڑھتا ہے اور زیادہ  اطاعت گزارہوتا ہے ۔

اسی طرح روایات سے یہ بھی استفادہ ہوتا ہے کہ اگر انسان میں عقل ہو تو اس میں تمام پسندیدہ صفات پائی جاتی ہیں ، لیکن اگر عقل نہ ہو تو شرم وحیا بھی نہیں ہوتی ، عفت اور پاکدامنی بھی چلی جاتی ہے ، غیرت اور مردانگی بھی نہیں ہوتی، ظلم کے لئے راستہ ہموار ہوتا ہے ، اس بارے میں ہمارے پاس ایک روایت بھی ہے کہ اصبغ بن نباتہ امیر المؤمنین (ع) سے نقل کرتا ہے کہ حضرت (ع) نے فرمایا: جبرئیل حضرت آدم پر نازل ہوا اور کہا : «هَبَطَ جَبْرَئِيلُ عَلَى آدَمَ(ع) فَقَالَ يَا آدَمُ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أُخَيِّرَكَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ فَاخْتَرْهَا وَ دَعِ اثْنَتَيْنِ»  اے آدم! مجھے حکم ہوا ہے کہ تمہیں تین چیز وں میں سے ایک چیز کو اپنانے اور دو کو چھوڑ دینے کا اختیار دوں ، حضرت آدم نے فرمایا: وہ تین چیزیں کیا ہے؟ ۔

«فَقَالَ لَهُ آدَمُ يَا جَبْرَئِيلُ وَ مَا الثَّلَاثُ فَقَالَ الْعَقْلُ وَ الْحَيَاءُ وَ الدِّينُ» فرمایا:یا عقل کو انتخاب کرو یا حیاء کو یا دین کو ! «فَقَالَ آدَمُ إِنِّي قَدِاخْتَرْتُ الْعَقْلَ»حضرت آدم نے کہا :میں عقل کو انتخاب کرتا ہو ں ، «فَقَالَ جَبْرَئِيلُ لِلْحَيَاءِ وَ الدِّينِ انْصَرِفَا وَدَعَاهُ» جبرئیل نے حیاء اور دین سے کہا :آدم نے عقل کو انتخاب کیا ہے تم دونوں چلے جاؤ، اس وقت ان دونوں نے جبرئیل سے کہا: «فقالا يَاجَبْرَئِيلُ إِنَّاأُمِرْنَاأَنْ نَكُونَ مَعَ الْعَقْلِ» خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ جہاں پر بھی عقل ہو وہاں تم دونوں ساتھ رہنا ، جبرئیل نے کہا:ٹھیک ہے اگر ایسا حکم ہے تو اس پر عمل کرو، یعنی جب عقل ہے تو دین ہے ، حدیث من لا عقل له لادين له '' اسی روایت کے مطابق ہے ، جب عقل ہے تو حیاء بھی ہے '' من لا عقل له لا حياء له'' جس کے پاس عقل نہیں ہے اس کے پاس حیاء بھی نہیں ہے ۔

پس عقل خدا وندمتعالی کا محبوب ترین مخلوق ہے ، خدا جس کو بہت زیادہ پسند کرتا ہے ا س کے عقل کو کامل کرتا ہے ، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عقل کی کمال کس چیز میں ہے ؟ جہاں پر عقل ہو وہاں پر انسانی تمام پسندیدہ صفات ہیں ، بعض روایات میں ہے کہ عاقل انسان قانع ہوتا ہے ، جو انسان لالچی ہوتا ہے اس نے اپنے عقل کو خیرباد کہا ہے ، یہ چیزیں آجکل کے بقول انسانیت کی شناخت کے کوڈ ہیں ، ہم خود اپنی زندگی میں دیکھیں کیا قناعت ہماری زندگی میں ہے یا نہیں ؟ اگر قناعت نہیں ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے عقل کو استعمال نہیں کررہے ہیں !

جو شخص عاقل ہو وہ ہمیشہ خدا کا شکر بجا لاتا ہے ، روایات میں ہے کہ اولیاء خدا جن اہم صفات کے درپے ہوتے ہیں ان میں سے ایک یقین ہے ، روایات میں ہے جو انسان اپنے عقل کو استعمال کرتا ہے وہ یقین کے درجہ پر پہنچتا ہے ، اور جو اپنے عقل کو استعمال نہیں کرتا وہ یقین کے درجہ پر فائز نہیں ہوتا، عقل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان یقین اور تسلیم الی اللہ کے درجہ پر فائز ہو جائے ، خدا کی اطاعت کمال عقل کے آثار میں سے ہے ، آج رات جن اہم مطالب کو بیان کرنا ہے ان میں سے ایک یہی ہے کہ امام حسین (ع) نے فرمایا: «ولايکمل العقل إلا باتباع الحق» عقل صرف اور صرف حق کی پیروی کرنے سے کامل ہوتا ہے ، یعنی جو انسان حق کی پیروی کرتا ہے وہ عاقل افراد ہوتے ہیں ، جو افراد اپنی جانوں کو میدان شہادت میں لے آتے ہیں وہ سب سے زیادہ عاقل انسان ہیں ، امام حسین علیہ السلام سب سے زیادہ عاقل انسانوں میں سے ہے ، اسی طرح ہمارے شہداء بھی۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کے زمانہ  میں کچھ افراد جنگ میں شہید ہوتے تھے ، دوسرے کچھ لوگ کہتے تھے یہ لوگ فضول میں جا کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، ان کے پاس عقل نہیں تھے اور یہ لوگ خود زندہ رہ کر اپنی دنیوی زندگی گزار نے میں مشغول رہتے ،یہ نظریہ دینی نظریہ اور امام حسین علیہ السلام کے نظریہ کے برخلاف ہے ،یہ بہت  اہم مطلب ہے ، ہم یہ نہ بولیں کہ امام حسین علیہ السلام کو خدا کے عشق نے میدان کربلا میں لے آئے ، اگر صرف عشق کی بات ہے تو کیا ضروری ہے کہ ہم ان کی اتباع کریں؟ ، عشق کسی چیز کو کسی پر واجب نہیں کرتا اور نہ ہی یہ انسان پر کسی حکم کو لاگو کرتا ہے اور نہ انسان کو ذمہ دار بناتا ہے ، انسان معنوی درجات میں بہت درجات طے کر جاتے ہیں اور اپنے معشوق (خداوند متعالی ) سے عشق کرتا ہے ، یہ ایک ایسی چیز ہے جو حاصل کرنے سے  حاصل  نہیں ہوتی ہے !لوگ واقعہ عاشورا میں عشق کے عنوان  کو اٹھاتے ہیں جس کے بعد اس پر ہزاروں قسم کے سوالات اٹھاتے ہیں ،پھربہت ساری خرافات 'بدعتوں اور من گھڑت چیزوں کو اس عظیم واقعہ میں داخل کرلیتے ہیں ، اسی نظریہ کے مطابق بتاتے ہیں کہ چونکہ یہاں پر عشق کی بات ہے لہذا جو بھی کرنا چاہئے کر سکتے ہیں ، یہاں پر دین کو کنارے پر رکھ کر ، عقل کو کنارے لگا کر اپنی عشق کے مطابق جو بھی کرنا چاہئے کر سکتے ہیں ، یہاں پر پھر عشق کے تابع ہوتے ہیں اور اسی کے حکم کے منتظر رہتے ہیں!!!

یہ ایک خرافاتی اور انحرافی بات ہے جس کی وجہ سے اس عظیم واقعہ پر اشکالات وارد کرتے ہیں ، ہم اگر آج واقعہ عاشورا کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیں ، تو اس کی عقلانی پہلو کو اجاگر کرنا چاہئے ، یہ بتائیں کہ امام حسین (ع) کا یہ کام اپنی شہادت سے لے کر اس شیر خواربچہ تک اسی مسلّم عقلی مسائل پر مبتنی ہے ، ہمارے دینی ثقافت میں خدا کی اطاعت انسان کے عقل کامل ہونے کا سبب ہے ، جوشخص گھر میں بیٹھا ہوا ہے اور اس بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں ہے کہ آج دین پر کیا مشکلات پیش آرہی ہے ، کیا دشمن دین پرحملہ کر رہا ہے یا نہیں ؟ ! ایسا انسان عاقل انسان ہی نہیں ہے ، عاقل انسان وہ ہے جو میدان میں رہ کر دین کی دفاع کریں ، اور جہاں پر لازم ہو اپنی جان کو بھی قربان کر لے ۔

شہادت امام حسین (ع) میں عقلانیت ، بندگی اور شکوہ وعظمت

امام حسین (ع) نے معاویہ سے فرمایا :"و لايکمل العقل الا باتباع الحق" اے انسانو! اگریہ چاہتے ہو کہ دنیا میں تمہاری عقل کمال تک پہنچ جا‏ئے، تو جانوروں اور تمہارے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہونا چاہئے ، ہم نے اپنے آپ کو خوش کیا ہوا ہے کہ ہمارے اور حیوانوں میں فرق یہ ہے کہ ہمارے پاس عقل ہے اور ان کے پاس عقل نہیں ہے ، ہم اگر اپنے عقل سے کام نہ لیں تو جانوروں اور ہم میں کیا فرق ہے ؟رات کی تاریکی ہے اور ایک آدمی کے پاس ٹارچ ہے اور دوسرے کے پاس نہیں ہے اگر جس کے پاس ٹارچ ہے وہ اسےاستعمال میں نہ لائے، تو اس کے پاس ٹارچ ہونے کا کیا فائدہ ہے ؟عقل کو تکامل پیدا کرنا چاہئے ، ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہرروز یہ دیکھیں کہ پچھلے روز کی نسبت کتنا عقلی رشد پیدا کیا ہے ، یہ اس کی حیات اور عزت کا سبب ہے ، اس کی ترقی کا سبب ہے ، لايکمل العقل إلا باتباع الحق ۔

امام صادق (ع) نے فرمایا: ليس بين الإيمان والکفر إلا قلة العقل، یعنی جو چیز انسان کو ایمان کے کنارے سے کفر تک پہنچا دیتا ہے وہ اس کی کم عقلی ہے ، یعنی اگر انسان اپنے عقل سے صحیح طرح فائدہ نہ اٹھائے اور اسے استعمال نہ کرے تو منحرف ہو جاتا ہے ، اگر عقل کو چھوڑ کر خواہشات نفسانی کے پچھلے چلا  جائے تو وہ کفر کے میدان میں گر پڑتا ہے ،جو چیز انسان کو ایمان کے میدان میں باقی رکھتا ہے وہ اس کا عقل ہے ۔

آجکل طرززندگی کے بارے میں زیادہ باتیں ہوتی ہیں کہ ہمارے معاشرہ کے لئے اس بارے میں گفتگو کرنے کی بہت ہی ضرورت ہے اس گفتگو میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگرچہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے اور ایک انقلابی معاشرہ ہے لیکن دینی طرز زندگی سے ہم بہت ہی دور ہیں ، ہمیں عقل کو محور اور مرکز قرار دینا چاہئے ، یہ مطلب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے بہت دفعہ نقل ہوا ہے کہ ان کے حضور میں کسی آدمی کا بہت تعریف اور تمجید ہوا کہ ماشاء اللہ کتنا اچھا آدمی ہے ، یہ کبھی نماز شب ترک نہیں کرتا ، ہر سال حج پر جاتا ہے ، ہمیشہ روزہ رکھتا ہے ......رسول خدا (ص) نے پوچھا : کيف عقله ، اس کا عقل کیسا ہے ؟ بہت ہی عجیب سوال ہے ، عقل کو محور قرار دیتا ہے،کیا یہ اپنی زندگی میں عقل سے کام لیتا ہے ؟اگر انسان  زندگی میں عقل سے کام لیں عقل اسے خدا سے ارتباط کرنے کا طریقہ سيکھاتا ہے ، اس کا عقل کہتا ہے دوسروں کو آزار اور اذیت پہنچانا صحیح نہیں ہے ۔

ایک مہم روایت میں امام باقر(ع) پیغمبر اکرم(ص) سے نقل فرماتا ہے :«لَمْ يُعْبَدِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِشَيْ‏ءٍ أَفْضَلَ مِنَ الْعَقْلِ»عقل سے زیاده کسی چیز سے خدا کی عبادت نہیں ہوتی '' اس کا کیا مطلب ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ انسان جتنا اپنے عقل کو استعمال کرے  گا  ،یہ خود عبادت ہے ،انسان جتنا زیادہ اپنے عقل کو استعمال کرے ، مختلف میدانوں میں ، (انفرادی میدان میں ،اجتماعی میدان میں اور سیاسی میدان میں.......) یہ خود عبادت ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے : «وَ لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ عَاقِلًا حَتَّى تَجْتَمِعَ فِيهِ عَشْرُ خِصَالٍ»اگر کوئی مومن عاقل ہونا چاہتا ہے تو اس میں یہ دس خصلتیں ہونی چاہئے ،«الْخَيْرُ مِنْهُ مَأْمُولٌ» اس سے ہمیشہ اچھائی کی امید رکھے ، ہمیشہ اچھے کاموں کے پچھے ہوتا ہے ، اس کی آرزو یہ  ہوتی ہے کہ اچھے امور انجام پائے ، اس کی تمام خواہش یہی ہے کہ کونسا اچھا کام مجھ سے ہو سکتا ہے ۔

٢۔«وَالشَّرُّ مِنْهُ مَأْمُونٌ»اس سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے ،دوسروں کو نقصان پہنچانے کی فکر میں نہ ہو«يَسْتَكْثِرُ قَلِيلَ الْخَيْرِ مِنْ غَيْرِهِ»اگر کوئی  شخص چھوٹا سا کام کرتا ہے تو عاقل انسان اسے بہت بڑاکر کے پیش کرتا ہے ،آپ نے کیا بڑا کام انجام دیا ؟مثلاً مجلس میں چائے پلایا ہے  ، وہاں پر یہ نہیں کہتا کہ یہ بھی کوئی کام ہے جو تم نے انجام دیا  ؟ یہ تو کوئی کام ہی نہیں ہے ، عاقل انسان وہ ہے جو دوسروں کے کام اگرچہ کتنا چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اسے بڑا پیش کر ے ، اور اس کے برعکس اپنے اچھے کاموں کو اگرچہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اسے ناچیز تصور کرتا ہے ، یہ کہتا ہے میں اگرچہ پچاس سال سے نماز شب پڑھ رہا ہوں لیکن یہ کوئی چیز نہیں ہے ! کہتا ہے میں اگرچہ تیس سال سے انقلاب کی حمایت کر رہا ہوں لیکن یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے ۔

امام خمینی (رضوا ن اللہ تعالی علیہ) علمی زحمتوں کے علاوہ ایرانی لوگوں بلکہ بشریت کے لئے جو زحمتیں اٹھائے ، یہ عظیم انقلاب جو لایا، لیکن ان تمام کے باوجود آخر میں یہ کہتا ہے خدایا !اگر مجھ سے کوئی تقصیر ہوا ہے تو مجھ معاف کرنا میں معافی مانگتا ہوں تمہارے حضور۔

اعتراف کرتا ہے ! یعنی یہی کہتا ہے کہ میں نے کوئی کام انجام نہیں دیا ہے، یہ ہے عقل،لیکن جو شخص کوئی چھوٹا سا کام کرے وہ ہمیشہ اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے پیش کرے ، یہ بتائے کہ میں نے یہ کام انجام دیا ہے ، میں نے اس مجلس کو برپا کیا ہے ، ! اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی نے اپنے عقل کو کنارے پر لگایا ہے «يَسْتَقِلُّ كَثِيرَ الْخَيْرِ مِنْ نَفْسِهِ».

 «وَلَايَسْأَمُ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ طُولَ عُمُرِهِ»اپنی طول عمر میں علم حاصل کرنے کے درپے ہیں اور علم حاصل کرنے سے تھکتا نہیں ہے ، میں یہاں ایک مطلب بیان کرنا چاہتا ہوں :گھر کے تمام افراد خصوصاً ماں  باپ کو زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کے بارے میں اہمیت دینا چاہئے ، ہمارے گھروں کے علمی سطح اونچی ہونی چاہئے ، طرز زندگی میں ایک چیز جو ہونی چاہئے وہ یہی علم حاصل کرنا ہے ، ہمیں چاہئے کہ اپنے دینی معارف ، احکام ، عقاید کو صحیح طرح سیکھ لیں ، یہاں یہ بتانا پڑھتا ہے کہ ہمیں آج اپنے دینی معاشرہ سے جس چیز کی امید ہے وہ پورا نہیں ہو رہا ہے ، عاقل انسان وہ ہے جو صبح جب اٹھتا ہے تو یہ سوچتا ہے کہ میں آج کیا سیکھ لوں ؟ کس آیت یا حدیث یا اخلاقی مطلب کو سیکھ جاؤں؟

«الذُّلُّ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ الْعِزِّ»حقیقی عزت کو خدا کے پاس سے تلاش کرتا ہے ، لہذا اگر دنیوی ظاہری عزت اسے حاصل نہ ہو بلکہ دنیا میں اگر اس کی طرف زیادہ توجہ نہ ہو جائے ، تو یہ اسے بہت پسندہوتا ہے ۔«وَالْفَقْرُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْغِنَى»فقیر ہونا ثروتمندی سے زیادہ پسند ہوتا ہے ۔

اور آخر میں فرماتا ہے : «وَالْعَاشِرَةُ لَا يَلْقَى أَحَداً إِلَّا قَالَ هُوَخَيْرٌمِنِّي وَأَتْقَى» سب کو اپنے آپ سے بہتر اور متقی سمجھتا ہے اس جملہ کی وضاحت میں فرماتا ہے کہ خود  اس شخص کے علاوہ دوسرے لوگوں کے دو گروہ ہیں ایک گروہ ایسے افراد کے ہیں جو واقعاً اس سے بہت زیادہ متقی ہیں تو ان کے مقابل میں خضوع ہی کرنا چاہئے ، یہ کہیں : خدایا ! مجھے بھی ان جیسا قرار دیں ، دوسرا گروہ وہ افراد ہیں کہ ظاہری طور پر تو فاسق ہیں ، لیکن عاقل انسان کو چاہئے کہ اس فاسق شخص کو بھی اپنے سے بہتر سمجھے ،کیوں ؟روایت میں ہے کہ ممکن ہے اس فاسق انسان کی عاقبت بھی اچھی ہو جائے ، اوروہ خود  کی عاقبت اچھی نہ ہو ! یہ عقل کی وجہ سے ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے عاقبت کے بارے میں فکر مند رہتا ہے اور یہی سبب ہوتا ہے کہ ہمیشہ دوسروں کو اپنے سے بہتر اور اچھا سمجھتا ہے ۔

عرض ہوا کہ کلمات قصار میں امیر المومنین علیہ السلام سے ٢٥٨ کلمات عقل کے بارے میں ہے ، بہت ہی مناسب ہے کہ انسان ہر روز ان میں سے ایک فرمان کوپڑھے اور اس کے بارے میں غور و فکر کریں ، فرماتا ہے : «سبب فساد العقل حبّ الدنيا» جو چیز انسان کے عقل کو برباد کرتی ہے وہ دنیا کی محبت ہے ، آپ ملاحظہ فرمائیں کہ واقعہ عاشورا اسی دنیا کی محبت ، ری کی حکومت کی آرزو اور سونا چاندی کی لالچ کی وجہ سے رونما ہوا  ، ان افراد کو یقین تھا کہ امام حسین (ع) حق پر ہے ،اور یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ آپ فرزند رسول خدا(ص) ہے ، لیکن انہوں نے اپنے عقل کو کنارہ پر لگایا ہوا تھا ، دنیا کی محبت نے انہیں بیچارہ کیا ہوا تھا ، لیکن اس کے مد مقابل میں امام حسین علیہ السلام  اوج عقل، اوج فہم میں باطل اور حق کے درمیان تشخیص دے چکے تھے ، جیسا کہ علی اکبر(ع) نے اپنے پدر بزرگوار سے فرمایا: «يَا أَبَتِ لَا أَرَاكَ اللهُ سُوءاًأَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ.قَالَ:بَلَى وَالَّذِي إِلَيْهِ مَرْجِعُ الْعِبَادِ. قَالَ: فَإِنَّنَا إِذاً لَا نُبَالِي أَنْ نَمُوتَ مُحِقِّين‏» جب یہ دیکھا کہ خدا کی دین کی حفاظت کے لئے شہادت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ، یہ دیکھا کہ اپنے آپ اور فرزندوں اور اصحاب کو اس راستہ میں شہید ہونا چاہئے ، اور ان کی اہلبیت (ع) اسیر ہو جائے تو دین بچ سکتا ہے ورنہ نہیں ، لہذا کامل طور پر آگاہی اور علم کے ساتھ میدان میں آئے اور اس بارے میں ان کے ارادہ میں کوئی تزلزل نہیں تھا۔

لايکمل العقل إلا بإتّباع الحق ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حق کیا ہے ؟ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے عقل کامل ہو جائے تو ہر زمانہ اور ہر حالات میں حق کی پیروی کرنا چاہئے ، اسی روایت میں  ہے کہ جب امام حسین (ع) نے معاویہ سے ان کلمات کو فرمایا، تو معاویہ نے اعتراف کیا اور کہا:آپ لوگ ایسے افراد ہیں کہ حق کے علاوہ آپ لوگوں کے وجود میں کوئی چیز ہے ہی نہیں ہے ۔

عقل، تکامل عقل، عقل کے کمال کے اسباب، عقل کے موانع، اور عقل کے خراب ہونے کے بارے میں بہت ساری آیات اور روایات موجود ہیں ،کہ خداوندمتعالی فرماتا ہے میں نے عقل سے زیادہ اچھی مخلوق خلق ہی نہیں کیا ہے ! یا فرماتا ہے میں جس کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں اس کا عقل کامل کرتا ہوں ، کیا میں ان تمام دینی مطالب اور اصل دینی معارف کے باوجود یہ کہہ سکتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام میں عقل کا کوئی کردار نہیں ہے، بلکہ آپ(ع) صرف عشق کی بنیاد پر اس میدان میں کود پڑے تھے ، یہ غلط بات ہے میری نظر میں عاشورا کی تحریفات میں سے ایک بدترین تحریف یہی ہے کہ ہم اس واقعہ اور حسین بن علی (علیہما السلام ) کے اس عظیم قربانی کی بنیاد کو کوئی ایسی چیز بتائیں کہ اگر اس کو بنیاد بنایا جائے تو اس سے کسی کے اوپر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے ، لیکن اگر ہم اس واقعہ کی بنیاد کو عقل قرار دیں تو اس سے دوسروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، امام حسین علیہ السلام نے حتی کہ حضرت علی اصغر کو بھی خدا کے راہ میں دیا ہے تو یہ عقلانیت کی بنیاد پر ہے ، نہ کہ عشق کی بنیاد پر، لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض شعراء کے اشعار میں کبھی ایسی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ لوگ امام حسین (ع) کی اس واقعہ کو عقلانیت سے بالکل باہر نکال لیتے ہیں ،میری نظر میں یہ بدترین تحریف ہے ، ہمیں چاہئے کہ لوگوں کو یہ سمجھائیں امام حسین(ع) کا قیام عقل کے بنیاد پر تھا ، عقل انسان کو خدا کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے ، عقل ہے جو انسان کو میدان جنگ میں جا کر شہید ہونے پر تیار کرتا ہے ، عرض ہوا کہ ہمارے شہداء بھی اسی دینی اور عقلی بنیاد پر اپنی جان کو اسلام پر فدا کیے ہیں ، انسانوں میں سب سے زیادہ عاقل شہداء ہیں کیونکہ یہ عقل کے انتہائی کمال کے درجہ پر پہنچ چکے ہوتے ہیں ۔

ہم جو میدان جہاد سے رہ گئے ہیں ہماری عقل نے ہمیں میدان جنگ میں نہیں پہنچایا جس کا مطلب ہے ہم نے اپنے عقل کو صحیح استعمال نہیں کیا ہے ، ہماری عقلانیت اپنے عروج پر نہیں پہنچے ہیں ،اگر ہم اپنے صحیح اور سالم عقل کو آگے رکھیں تو وہ ہمیں بہت ساری بدعتوں اور انحرافات سے محفوظ رکھتا ہے ۔

یہ ایام اہلبیت (ع) کے اسیری کے ایام ہیں ، انسان جب واقعہ عاشورا پر نظر ڈالتا ہے تو یہی نظر آتا ہے کہ اس کی ہر مصیبت کی اپنی ایک خاص درد ہے ، علی اصغر(ع) کی مصیبت انسان کی ذہن کو پریشان اور دل کو سوزان کرتا ہے ، علی اکبر(ع) کی مصیبت کا اپنا ایک خاص انداز ہے اور اہلبیت کی اسیر ی کی اپنی ایک الگ درد اور سوز ہے ۔

ان پریشان مخدرات عصمت و طہارت اور بچوں کو جنہوں نے ایک ہی دن میں اتنے سارے مصائب جھیلے  تھے ، قتل گاہ کے کنارے سے شہداء کے اجساد مطہر کے سامنے سے لے گئے کہ یہ خود اپنی جگہ ایک عظیم مصیبت ہے ، تاریخ میں نقل ہے کہ دو دن ہوا تھا کہ حضرت زینت (س) نے حضرت امام حسین (ع) کو نہیں دیکھا تھا ، جب کوفہ کے دروازہ پر پہنچی ، تو آپ کی نظر نیزہ کی نوک پر پڑی ، کیا دیکھتی ہے ابا عبد اللہ الحسین (ع) کا سر مقدس نوک نیزہ پرہے تو اس وقت آپ نے ایک جانسوز آواز میں فرمایا

يَا هِلَالًا لَمَّا اسْتَتَمَّ كَمَالًا             غَالَهُ خَسْفُهُ فَأَبْدَا غُرُوبَا

مَا تَوَهَّمْتُ يَا شَقِيقَ فُؤَادِي             كَانَ هَذَا مُقَدَّراً مَكْتُوبَا

يَا أَخِي فَاطِمَ الصَّغِيرَةَ كَلِّمْهَا             فَقَدْ كَادَ قَلَبُهَا أَنْ يَذُوبَا

يَا أَخِي قَلْبُكَ الشَّفِيقُ عَلَيْنَا             مَا لَهُ قَدْ قَسَى وَ صَارَ صَلِيبَا

يَا أَخِي لَوْ تَرَى عَلِيّاً لَدَى الْأَسْرِ             مَعَ الْيُتْمِ لَا يُطِيقُ وُجُوبَا

كُلَّمَا أَوْجَعُوهُ بِالضَّرْبِ نَادَاكَ             بِذُلٍّ يَغِيضُ دَمْعاً سَكُوبَا

يَا أَخِي ضُمَّهُ إِلَيْكَ وَ قَرِّبْهُ             وَ سَكِّنْ فُؤَادَهُ الْمَرْعُوبَا

مَا أَذَلَّ الْيَتِيمَ حِينَ يُنَادِي             بِأَبِيهِ وَ لَا يَرَاهُ مُجِيبَا

پروردگارا ! ہم سب کی زندگی کو حسینی زندگی قرار دیں

ہماری ان عزاداری کو اپنی درگاہ میں قبول فرما۔

ہم سب کی عاقبت بخیر کرے

نظام اسلامی اور رہبر معظم اور تمام خدمت گزراوں کی توفیقات میں اضافہ فرما

خدایا ہماری زندگی میں عقل کو حاکم قرار دیں

ہمیں قرآن اور معارف اہلبیت سے آشنا فرما

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته

30/8/1392
برچسب ها :