درس بعد

فخر و مباہات

درس قبل

فخر و مباہات

درس بعد

درس قبل

موضوع: اخلاقی دروس


تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١٠/٢٥


شماره جلسه : ۴

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • اخلاقی برائیوں میں سے ایک ''عُجب '' ہے ''عجب''کا معنی یہ ہے کہ انسان جب کسی کام کو انجام دیتا ہے وہ اپنے لئے اس کام کو پسند کرے اور اپنے لئے تعجب آورہو ، اور وہ میاں میٹھو بن جائے ، پیغمبر اکرم(ص) ،امیر المؤمنین اور آئمہ معصومین (علیہم السلام) کے کلمات میں ''عجب' ' انسان کو نابود کرنے والی چیزوں میں سے ایک معرفی ہوا ہے

دیگر جلسات

بسم الله الرحمن الرحيم

 الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين


اخلاقی برائیوں میں سے ایک ''عُجب ''ہے ''عجب''کا معنی یہ ہے کہ انسان جب کسی کام کو انجام دیتا ہے وہ اپنے لئے اس کام کوسند کرے اور اپنے لئے تعجب آور ہو،اوروہ میاں میٹھو بن جائے ، مثلاً یہ بتائے کہ چالیس سال سے درس پڑھ رہاہوں ،ان تمام کتابوں کامطالعہ کیاہوں ، یاان تمام کتابوں کولکھا ہوں،میراعلم بہت زیادہ ہے،یغمبراکرمۖ ،امیرالمؤمنین  اورآئمہ معصومین  کے کلمات میں''عجب'' کو نابود کرنے والی چیزوں میں سے ایک قرار دیا ہے ، بری صفات کے چند اقسام ہیں ،بعض صفات انسان کو کچھ حد تک حقیقت سے دور کرتا ہے ، اور انسان اور حقیقت کے درمیان فاصلہ ڈالتا ہے ،لیکن انسان کو نابود نہیں کرتا، لیکن بعض دوسری صفات ہیں کہ واقعاً انسان کو نابود اور ہلاک کردیتا ہے ۔

اس نفسانی بری صفت (عجب)کا ایک اثریہ ہے کہ انسان کے رک جانے کا سبب ہوتا ہے ، کہتا ہے میری معلومات بہت زیادہ ہے ، میرا علم بہت زیادہ ہے ، میں نے بہت زیادہ عبادت کی ہے ، جب اس کی نظر میں بہت زیادہ آتی ہے ، اس کے ادامہ دینے سے رک جاتا ہے ، کہ میں پچاس سال سے نماز شب پڑھ رہا ہوں ،آج اگر نہیں پڑھا تو کیا ہوا نہیں پڑھوں گا !در حالیکہ خصوصاً عبادی کاموں میں کبھی اگر انسان کو کچھ ملنا ہو یا خاص عنایت ہونا ہوتو ممکن ہے اسی ایک رات میں عطا ہونا مقدر ہو جسے انسان نے ترک کیا ہے۔

روایات میں ''عجب''کی شدت سے نہی ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اولاً:انسان کو متوقف کرتا ہے، ثانیاً :گناہوں کے زیادہ سنگین ہونے کا سبب ہوتا ہے ،یعنی میں یہ بتادوں اب جبکہ میں یہ تمام عبادت انجام دی ہیں ، آج اگر کوئی گناہ کا مرتکب ہو جائے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ،یعنی ''عجب''کبھی بہت بڑی گناہ اور گناہ کبیرہ کو انسان کے سامنے چھوٹا کر کے پیش کرتا ہے ، یہ مسئلہ تمام کاموں میں ہے ، علمی مسائل میں کہتا ہے میں جب  فقہ اور اصول میں ماہر ہوں ، اگر فلان مطلب کو نہیں جانتا ہوں مہم نہیں ہے ،یہ انسان کو بے اعتنائی کی طرف لے جاتی ہے ، عبادات میں بھی اسی طرح ہے ،عرض کیا کہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ گناہ کبیرہ کو جو کہ اکبر الکبائر ہے انسان کے نظر میں اصغر الصغائر قرار دیتا ہے ، یہ ''عجب '' کے آثار میں سے ہے ۔

میں جب لوگو ں کی اتنی زیادہ خدمت کرتا ہوں تو ایک دو جگہوں پر ظلم ہو جائے تو اس میں کوئی بات نہیں ہے ،یہ اسلام کی منطق نہیں ہے ، میں اگر کسی عہدہ پر فائز ہوں کہ لوگوں کی خدمت کرتا ہوں ، ممکن ہے ایک ناحق تھپڑ جوکسی پر مارا ہے ،اگر اسے اہمیت نہ دے دیں کیا پتہ میری تمام خدمات ختم ہو جائے ، ''عجب''زیادہ ترخود انسان کے بارے میں ہے ، بر خلاف تکبر کے کہ یہ دوسروں کے نسبت سے ہے ، فخر ومباہات دوسروں کے لئے ہے ، لیکن ''عجب'' خود پسندی خودانسان کے لئے ہے ، کیا انسان ہمیشہ یہ بولتا رہے کہ مجھ میں کتنا علم ہے ، کتنا قرآن حفظ کیا ہے ، کتنی عبادت انجام دی ہے ، کس قدر نماز کو اول وقت میں انجام دیا ہے ، یہ چیزیں انسان کو نابود کر دیتی ہے ۔

یہاں پر جو نتیجہ لے سکتا ہے یہ ہے کہ ہم جتنا درس پڑھے ہمیں یقین ہو کہ ہماری  جہالت زیادہ ہے ، جتنا زیادہ عبادت انجام دیں یقین کرے (نہ کہ ظاہری طور پر بلکہ واقعاً یقین کرے )کہ خدا کی عبادت انجام دینے کی جو حق ہے اسے انجام نہیں دیا ہے ، پیغمبراکرمۖ اس عظمت کے باوجود فرماتے ہیں :''ما عبدنا ک حق عبادتک''اسے واقعی طور پر فرما رہے ہیں ،یہ صرف ہمیں سکھانے کے لئے نہیں ہے ،اگر واقعاً نوافل کے انجام لانے میں موفق ہوتو یہ بتایا جائے کہ یہ تو کوئی چیز نہیں ہے ، تا کہ انسان ''عجب''کو اپنے آپ سے دور کرے ، سب چیزوں کے بارے میں یہ بتانا چاہئے کہ یہ مجھ سے مربو ط نہیں ہے ، میں آج نماز شب کے لئے بیدار ہوا ہوں ، یہ مجھ سے کوئی مربوط نہیں ہے ، انسان کو چاہئے کہ اس بات پکے پر یقین کرے ، اگر کسی وقت اچھی حالت پیدا ہوگئی ،تو اس وقت یہ نہ کہا جائے کہ ہم کہاں اور دوسرے لوگ جو سو رہے ہیں وہ لوگ کہاں؟!!!انسان کو چاہئے کہ ان چیزوں کو اپنی طرف سے نہ جاننے اور یہ بتایا کریں کہ یہ کم ہے ، معنوی کاموں میں جتنا اسے ملا ہے وہ یہ بتائے ابھی اوربہت زیادہ ہے کہ جو میرے پاس نہیں ہے ، بہت سے حقایق ہیں کہ میں ان سے دور ہوں ۔

ایک روایت میں حضرت پیغمبر اکرم ۖ حضرت موسیٰ   سے ایک واقعہ کو نقل فرماتا ہے (کافی ج ٢،ص٣١٤)آپۖ فرماتے ہیں :''بینما موسیٰ جالسا اذا اقبلابلیس و علیہ برنس ذو الوان ،فلما دنی من موسیٰ  خلع البرنس و قام الی موسیٰ  فسلم علیہ، فقال لہ:من انت؟ فقال : انا ابلیس،قال: انت فلا قرب اللہ دارک ،قال : انی انما جئت لاسلم علیک لمکانک من اللہ، قال: فقال لہ موسیٰ   : فما ہذا البرنس؟ قال: بہ اختطف قلوب بنی آدم ، فقال موسیٰ: فاخبرنی بالذنب الذی اذا اذنبہ ابن آدم استحوذت علیہ؟ قال: اذا اعجبتہ نفسہ و استکثر عملہ و صغر فی عینہ ذنبہ ، و قال: و قال اللہ عزوجل لداود: یا داود! بشر المذنبین انی اقبل التوبة و اغفر عن الذنب ، و انذر الصدیقین الایعجبو بأعمالہم فانہ لیس عبد انصبہ للحساب الا ہلک ''ایک دن شیطان حضرت موسیٰ  پاس آیا اور اس کے سر پر مختلف رنگوں والی ایک ٹوپی تھی ،جب حضرت موسیٰ  کے پاس آیا تو ٹوپی کو اتارلیا ، کھڑے ہو کر سلام کیا ، حضرت موسیٰ   نے اس سے فرمایا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں ابلیس ہوں ،حضرت موسیٰ   نے فرمایا:''فلا قرب اللہ دارک''( یہ نفرین ہے یعنی )خدا تمہیں اپنے گھر تک نہ پہنچائے ، نابود ہو جائے ،شیطان نے کہا :خدا کی نظر میں آپ کے لئے جو مقام و منزلت ہے ، اس کی خاطر آپ کو سلام کرنے آیا ہوں ! آپ نے اس سے فرمایا : یہ تمہارے سر پر ٹوپی کیا ہے ؟ اس نے کہا : میں میری اسی ٹوپی کے ساتھ جس میں مختلف رنگ ہیں ، بنی آدم کے دلوں جذب کرتا ہوں اور اسی کے ذریعہ انہیں شکار کرتا ہوں ،حضرت موسیٰ   نے فرمایا : مجھے بتاؤوہ کونسا گناہ ہے جسے انجام دینے کے بعد تم اس پر مسلط ہوتا ہو (پھر اس کے بارے میں تم آسودہ خاطر ہو )؟شیطان نے کہا :اگرانسان ''فخر ''کرے ، اپنے اندر خود پسندی پیدا کرے ،اپنے عمل کو زیادہ دیکھے ، اور گناہ کو چھوٹا سمجھیں ،خود شیطان جو تمام گناہوں، برائیوںاور بدبختیوں کا منشاء ہے ،کہتا ہے اگر کسی میں فخرآئی ، خودپسندی پیداکی،میں اس پر مسلط ہوں ، واقعاً ہم میں سے بہت اس صفت اور ا س خطر میں گرفتار ہیں ، جب ایک نماز کو حضور و خشوع کے ساتھ پڑھتے ہیں ، نماز ختم ہونے کے بعد کہتے ہیں میں نے کتنی اچھی نماز پڑھ لی،یہی سبب ہوتا ہے کہ کہتا ہے تین رات پہلے ایک مفصل نماز شب پڑھ لی ،اگر آج رات نہ پڑھوں توکوئی بات نہیں ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ وہ نماز اس کے لئے بہت مہم تھی ،ان چیزوں کو بڑا نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہماری خود پسندی کا سبب بنے ،ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ ''ہذا من فضل ربی'' پڑھتے رہیں ، اگر آج آکر درس پڑھایا ، یا پڑھایا لکھا ،ظہر کے وقت جب گھر واپس جاتے ہیں توکہنا چاہئے ''ہذا من فضل ربی''ان سب چیزوں کو خدا کا فضل،لطف اور عنایت سمجھنا چاہئے ،نماز کے بعد شکر کرنے کی ایک علت یہی ہے کہ عجب اور فخر کو ختم کرے ، اتنے ساری نماز پڑھی ہیں ، طولانی سجدہ انجام دی ہے ، طولانی رکوع بجالایا ہے ، لیکن نماز کے بعدکیوں سجدہ شکر کرے؟ اسی لئے ہے ، یہ جو کہتے ہیں کہ نماز میں حمدسے پہلے اعوذ باللہ پڑھے ، اس کی ایک علت یہ ہے کہ عجب اور فخر کو روکیں ، انسان کہیں یہ نہ سوچیں کہ وہ خود معنویت ، عبادت اور مناجات کے بہت سے مراحل کو اپنے لئے فراہم کرتا ہے ، شیطان انسان کے پیچھے لگ جاتا ہے ، اسی نماز کے دوران ،نماز کے بعد، نماز سے پہلے انسان کے پیچھے لگ جاتا ہے ،نماز سے پہلے کوئی ایسا کام کر دیتا ہے کہ انسان نماز ہی نہ پڑھے ، یا نماز کو دیر سے پڑھے ، جب نماز پڑھنا شروع کرتا ہے ، کوئی ایسا کام کر دیتا ہے کہ حضور قلب نہ ہو ، اب اگر کسی نے ان تمام مراحل میں شیطان کے ساتھ مبارز کیا ہے اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھا ہے ، جب نماز ختم ہوتی ہے ، نماز ختم ہونے کے بعد اس کے دل میں یہ بات آتی ہے کہ میں نے کیا اچھی نماز پڑھ لی ،عجیب حالت پیدا کی تھی ،لہذا جلدی سے سجدہ شکر بجالانا چاہئے ،تا کہ یہ صفت اس کے اندر نہ آئے ۔

توجہ کریں؛ اگر واقعاً ہمارا علم زیادہ ہوتا ہے ، تو ہر روز ہماری تواضع اور فروتنی بھی زیادہ ہونی چاہئے ، یہ یقین پیدا کرلے کہ ہم کچھ بھی نہیں ہے ، نہ عبادت میں کچھ ہیں ، اگراپنے اندر اس یقین کو پیدا کر لیا ،انسان کہیں پہنچ سکتا ہے ، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اپنے اندر اس یقین کو پیدا کرے ،صرف زبانی نہ ہو ، ممکن ہے کوئی انسان زبان سے متوضع بن جائے ،عام طور پر جو لوگ زبان سے تواضع دیکھاتے ہیں ، متواضع انسان نہیں ہیں ، انسان کو چاہئے کہ ذاتاً اور واقعاً متواضع ہو ، میں اگر ذاتاً کسی کو خود سے برتر نہ سمجھوں ،حتیٰ کہ میں اگر یہاں پر بیٹھ کر در س دیتا ہوں ، خدا نہ کرے کہ ایک سکینڈ کے لئے میرے دل میں یہ خور کرے کہ کم از کم میں آپ سے بڑا ہوں ، یہی بات میری ہلاکت کے لئے کافی ہے ، یہ یقین ہونا چاہئے کہ آپ میں سے ہرایک کوئی علمی یا معنوی صفت رکھتے ہیں جو میرے اندر نہیں ہے ،انسان کو چاہئے کہ اپنے اندر یہ یقین پیدا کرے اگر ایسانہ کرے تو فخر اور عجب میں گرفتار ہو جائے گا ، وہ طلبہ جس میں علمی فخر ہو،وہ مطالعہ نہیں کرے گا ، وہ کسی بھی صورت میں کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہوگا ،جیسے ہی اس سے بتایا جائے فلان کتا ب کو دیکھا ہے ،وہ جلد سے بول لیتا ہے ہم نے تو اس کو کب کے ختم کی ہے ، یہ واقعاً ''عجب'' ہے ۔
اس میں کیا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایک اور دفعہ مطالعہ کریں،کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وقت نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے ،کسی محقق جس نے زحمت کیا تھا اور کتاب لکھی تھی اور اپنے نظریات کو بیان کیا تھا اسے بزرگان میں سے کسی ایک کے پاس لے گیا ان کے عمرکے آخری ایام تھے ،انہوں نے اس کتاب کو اٹھا کر پھینک دیا اور بتایا میں نے اصول کے فاتحہ کو پڑھ چکا ہوں اور اس کے تحقیقات کو ختم کرد یا ہوں یہ میرے لئے بہت ہی واضح ہے ، یہ کیا چیزیںہے جسے میرے سامنے لاتے ہو؟''عجب''اور فخر کے کوئی عمر نہیں ہے ،ہم جو ابھی اس عمر میں ہے ، ہم سے پہلے ، ہمارے بعد ، ممکن ہے ہم سب اس میں پھنس جائے ، ایسا نہیں ہے کہ ہم بتائیں جتنی عمر بڑھ جاتی ہے ، شاید ہماری فخر بھی زیادہ ہو جاتی ہے ، اس کا اقتضاء زیادہ ہو جاتی ہے ، اگر ابھی سے اسے مہار کر سکا ، تو کر سکا ، لیکن اگر وقت گزر جائے تو پھر بہت ہی مشکل ہے ۔

کبھی مخصوصاً اس وقت کے مسائل میں ، کوئی ایسا انسان ہے جو ہمارے ہم ردیف ہے ، اس نے کوئی کتاب لکھی ہے ، اور اس شخص کو یہ معلوم ہے کہ اس کتاب کو کسی اور نے لکھا ہے اور سب اسے پڑھ لیتے ہیں ، لیکن جب کہتے ہیں ،فلانی نے ایسی کتاب لکھی ہے ،تو کہتا ہے :تعجب ہے مجھے معلوم نہیں تھا ، در حالیکہ اس کتاب کو دیکھا ہے اور مطالعہ بھی کیا ہے ، یہ ''عجب ''کے آثار میں سے ہے ، یعنی انسان اس کے لئے بھی حاضر نہیں ہے کہ ایک طلبہ کا کتا ب پڑھیں جو آپ کا ہم ردیف ہے ۔

امام سے مرحوم آیت اللہ العظمیٰ آقا سید احمد خوانسای کی عدالت کے بارے میں سوال کیا ،تو امام نے فرمایاتھا ،مجھ سے ان کے عدالت کے بارے میں سوال نہیں کرو ، ان کی عصمت کے بارے میں سوال کرو ،بہت ہی عجیب انسان تھے واقعاً ان کے زندگینامہ کو مکرراً پڑھنا چاہئے ،آپ تہران میں ایک مسلم مرجع تقلید تھے اور واقعاً حتی کہ مرحوم آقای بروجردی کے رحلت کے بعد حوزہ کے بزرگان آپ کے اعلمیت کے قائل تھے ، لیکن درس دیتے وقت مرحوم آقا شیخ محمد تقی آملی کی کتاب مصباح الھدیٰ جو عروة کی شرح تھی کو ساتھ رکھتے تھے ، سب کہتے تھے کہ آقا شیخ محمد تقی آملی  اسی وقت فقہی لحاظ سے آپ سے کمتر تھے ،اتنامہذب تھے ،اور اس قدر نفس کی تہذیب شدہ تھے ، کہ ان کے لئے کوئی فرق نہیں کرتاتھا کہ کسی ایسے شخص کی کتاب کو پڑھے جو علم میں آپ سے کم ہے ،لیکن ہم ابھی حاضر نہیں ہے کسی ایسے شخص کے بارے میں جو ہمارے برابر ہے یہ بتائے اس نے فلان کتاب لکھی ہے ، یہ مہم نکات ہیں ان کے بارے میں غور و فکر کرنی چاہئے ،خداوند متعال ہم سب کو عجب اور فخر سے محفوظ رکھے ،

 آمین رب العالمین

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .