بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے

18 May 2024

19:54

۹

آخرین رویداد ها

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحيمْ
الْحَمْدُ للّه رَبِّ الْعَالَمِينْ وَصَلَى الله عَلَىٰ سَيِّدَنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِينْ

 

کل   بزرگ علامہ مرحوم مطہری (رضوان الله تعالی علیه) کی شہادت کا دن ہے اور اس دن کو روز معلم ( ٹیچر ڈے) کے طور پر منایا جاتا ہے ، اسی مناسبت سے چند جملہ عرض کرتا ہوں :

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس عظیم شہید کا یاد ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید  رہنا چاہئے ، مرحوم مطہری کی  قدر و قیمت اس میں تھا کہ انحرافات  ، بدعتوں اور لوگوں کے اعتقادات  پر جو حملہ  ہوتے تھے انہیں وقت پر ہی تشخیص دیتے تھے اور ان سے مقابلہ کرتے تھے ، یہ ایک اچھے استاد  کی خصوصیت ہے ۔

انسان کا حقیقی معلم جس کا کوئی نظیر اور مثال نہیں ہے خداوند متعالی ہے ، یہ عنوان «علّم آدم الاسماء‌« اسماء کا علم جسے خداوند متعالی نے آدم کو تعلیم دی ، صرف یہ نہیں تھا کہ کچھ اسماء اور حقايق  آدم کو دیکھایا ہو ، بلکہ سعادت اور شقاوت اور ان کے اسباب و علل کو بھی دیکھایا ہے ، قرآن کریم میں  سعادت اور خوشبختی اسی طرح خسران حتی کہ خسران مبین کے اسباب و علل کو بھی دیکھ سکتے ہیں ، یہ سب چیزیں  قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں ۔

ایک حقیقی استاد کو بھی اس مرحلہ تک پہنچ جانا چاہئے اور ہم سب کا بھی  تلاش اور ہمت یہی ہونا چاہئے ، اسی وقت ہم جزئی طور پر استاد کہنے کے لائق ہو سکتے ہیں ۔

اگر آج ہم اگر صدی کے آيڈیل استاد کو دیکھنا چاہئے تو امام خمینی (رہ) کا نام لینا چاہئے کہ  کیسے انہوں نے انسانیت کو اس صدی کے خطرات سے متوجہ کرايا ۔

امام نے صرف ایران کے طاغوت سے مقابلہ نہیں کیا ہے ، امام نے صرف ایران میں  شاہ کے خطرات کو تشخيص دے کر اس سے مقابلہ نہیں کیا ہے ، بلکہ امام نے بشریت کو استکبار جہانی کے خطرات سے آگاہ کیا ہے ، اور اسے سے مقابلہ کرنے کے راستہ کو بھی بیان کیا ہے ، امام نے اسرائيل اور صہیونیزم کے خطرات کو تمام ادیان کے لئے بیان کیا ، اسرائیل نہ صرف اسلام کا بلکہ تمام ادیان اور تمام  اسلامی ممالک کے لئے خطرناک ہے ، امام نے تمام انسانوں  اور تمام مذاہب کے علماء اور دانشوروں کو اسرائیل سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی  اور یہ ایک استاد کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔

میں یہ  بات بتانا چاہوں گا کہ ہم سب کو مخصوصا اس وقت ، لوگوں کے دین اور اعتقادات کو بدعتوں ، انحرافات اور شبہات  سے  حفاظت کرنی چاہئے ،حوزہ کے ایک استاد اور مدرس کو اس مہم مسئلہ کے بارے میں متوجہ رہنا چاہئے ، اس وقت وہ حقیقی استاد ہو سکتا ہے ، ہم سب کو اس سمت میں حرکت کرنا چاہئے ، انسان کبھی خلوت میں خود اپنا محاسبہ کرتا ہے کہ کہاں اس نے اپنی ذمہ داری  کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اور کہاں اپنے وظیفہ کو انجام نہیں دیا ہے ؟ اسے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے جگہوں پر اس سے کوتاہی ہوئی ہے ، اسے چاہئے کہ ہمیشہ انحرافات سے نبرد آزما رہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ٹی وی سے ماہ مبارک رمضان کے 30 دنوں میں کچھ ایسے مطالب بیان ہوتے رہے کہ ان میں سے اکثر بے بنیاد باتیں تھیں ، میں یہاں پر ان سب کے بارے میں تفصيلی طور پر کچھ بیان نہیں کروں گا ۔

ان باتوں  کے جواب دینا کس کی ذمہ داری ہے ، کہ آخر میں رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم ) کے بارے میں بہت ہی اہانت آمیز بات ہوئی ، انسان ایسی جہالت اور اس طرح کی اہانت سے  مر جائے تو بے جا نہیں ہے ، لیکن بہت ہی افسوس کی بات ہےکہ ٹی وی چینل پر یہ باتیں نشر ہو گئی ، اگر کوئی اس مقرر کی باتوں کو غور سے سنیں اور توجہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ دین کسی بھی زمانہ میں لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں  ہے ، اور اولیاء دین لوگوں کو دین کی طرف جذب نہیں کر سکتے ، کیا ایسی باتیں دین کی حقیقت سے سازگار ہے ؟ کیا یہ انحراف نہیں ہے ؟

 

قومی ٹی وی چینل ان   علمی اشکالات کے جواب کو حوزہ علمیہ سے حاصل کرناچاہئے ، اور کچھ  علماء جو اجتہاد کے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان کو بلا کر لے جائے تا کہ ان اشکالات کے بارے میں اظہار نظر کرے ، اس ٹی وی پروگرام میں جو باتیں بتایا گیا ہے ان میں بہت سارے علمی اشکالا اور انحراف اور تفسیر بالرای ہے ، انسان اس درد کو کہاں جا کر بیان کرے ؟ قرآن کریم میں «‌هُدًى لِلْمُتَّقِينَ»  کو بعد والی آیات میں  « الَّذِينَ يؤْمِنُونَ بِالْغَيبِ...» معنی کیا ہے، لیکن یہ شخص اسے معنی کیا ہے کہ وہ لوگ جو حسد نہیں کرتے  ہیں ،کیوں ہم اپنی جیب سے قرآن کریم کی آیات اور روایات  کا من پسند معنی کریں اور کیوں معاشرہ کے جوانوں کے ذہنوں کو خراب کرتے ہیں ؟۔

علم اصول اور تفسير کے قواعد میں یہ بات  واضح ہے کہ ہر وہ حدیث جو لفظی لحاظ سے کسی آیت سے مشابہت رکھتا ہے اسے اس آیت کا تفسیر قرار نہیں دیا جا سکتا ، بنیادی طور پر حدیث کا علم اصول کے قوانین کے مطابق تفسیر کرنا چاہئے ، لیکن ٹی وی کے اس پروگرام میں ان مطالب کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔

حوزات علمیہ کو اس بارے میں آگاہ رہنے کی ضرورت ہے ۔ہم سب انقلابی ہیں ہمارے گوشت اور خون اور رگوں میں انقلاب کوٹ کوٹ کر ہے لیکن اس انقلاب کو ہمیں اسلام اور مکتب امام صادق (علیہ السلام) کے احیاء کے لئے چاہئے ، مجھ طلبہ کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی ایسا مطلب بیان کروں جو سب کے سب من گھڑت ہو جس کا کوئی دلیل نہ ہو ، یہ وہ مشکل ہے جو اس وقت ہمارے معاشرہ میں پایا جاتا ہے ۔

استاد ڈے نہ صرف علامہ مطہری کی تجلیل کا دن ہے بلکہ تمام  حاضر اور گذشتہ اساتید اور فقہاء و حکماء اور مفسروں  کی تجلیل ہونی چاہئے ، ایک استاد کا کام یقینا ایک ڈاکٹر کے کام سے بہت زیادہ مہم اور بڑا ہے ، کیا روایت «ابٌ علّمک» صرف  کچھ اصطلاحات اور اقوال کے جاننے والے جو آپ کو یہ اصطلاحات سیکھائے منطبق آسکتا  ہے ؟  یا «ابٌ علّمک» وہ  ہے جو خطرات کو سمجھ لیتا ہے ،اور اسے دوسروں کو سیکھا دیتا ہے ؟ جب انسان علماء پر توجہ کریں تو وہ صنف جو انحراف اور بدعتوں کو تشخیص دے سکتا ہے صرف فقہاء ہیں ،اسی لئے «‌الفقهاء حصون الاسلام» حکماء اور مفسروں کو نہیں بتایا ہے ! اس روایت میں فقہ کا معنی عام معنی نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد وہ افراد ہیں جو دین کے احکام اور حلال اور حرام  کو جانتے ہیں ، اس کے قواعد و ضوابط سے آشنا ہیں ، یہی لوگ اسلام کی حفاظت کر سکتا ہے ، یہی افراد اسلام کا محافظ بن سکتے ہیں ، ہم سب کو چاہئےکہ اس راستہ کو انتخاب کریں اور اسی راستہ پر چلیں ۔

 

خداوند متعالی سے دعا ہے کہ علمی بڑے آفاق کو ہمارے لئے کھول دیں ، کبھی یہ سوچتے ہیں کہ ہماری عمر تو ختم ہو گئی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا ؟  ہمارے بارے میں جو باتيں کی جاتی ہیں اور جو تعریف ہوتے ہیں ، ان کے فریب میں نہیں آنا چاہئے ، یہ سب کے سب خيال ہے ، لیکن حقیقت اور واقعیت یہ  ہے کہ ہم دعا اور تضرع اور نماز شب اور آئمہ اطہار (ع) سے توسل کرے کے خدا سے طلب کریں کہ جب ہم اس دنیا سے جارہے ہوں تو ہمارے ہاتھ علم سے بھرے ہوں، انسان کا علم جتنا زیادہ ہو گا قیامت کے دن اس کا رتبہ زیادہ ہو گا اور خدا سے اس کا قرب بھی  بلند ہو گا ، یہ جو کہا جاتا ہے قیامت کے دن عالم کا شان اور مقام شہید سے اونچا ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہے ، خدا سے دعا ہے کہ ہم سب کو یہ مراتب نصیب فرمائے ۔

برچسب ها :