اسلامی حکومت کی صفات اور خصوصیات

16 April 2024

14:26

۵,۷۷۷

خبر کا خلاصہ :
ایران کی ایک دینی تحقیقی ویب سائٹ نے ہفتہ حکومت اور شہید رجائی اور باہنر کی شہادتوں کی مناسبت سے آیت اللہ فاضل لنکرانی سے ایک انٹرویو میں بات چیت کی۔
آخرین رویداد ها

آیت اللہ شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا انٹرویو

ایران کی ایک دینی تحقیقی ویب سائٹ نے ہفتہ حکومت اور شہید رجائی اور باہنر کی شہادتوں کی مناسبت سے آیت اللہ فاضل لنکرانی سے ایک انٹرویو میں بات چیت کی۔

اس انٹرویومیں پوچھے گئے چند ایک سوالات:

سوال: اسلامی حکومت کو کن صفات اور خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے؟

جواب: مقدمہ کےطور پر شہید رجائی اور شہید باہنر کی شہادتوں کی سالگرہ کے موقع پر ایرانی عوام اور ان کے خاندان کی خدمت میں تبریک اور تسلیت پیش کرتے ہیں۔

اسلامی حکومت وہ حکومت ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہو اور  تلاش و کوشش  کرے کہ ان اسلامی احکام کو سماجی سطح پر بھی اجرا اور لاگو کرے۔ ہمارا دین ایک جامع اور ھمہ گیر دین ہے ہر میدان سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اخلاقی تربیتی،وغیرہ میں حرف آخر رکھتا ہے۔ اور اسلامی حکومت وہ حکومت ہے جو دین کی اس جامعیت کو مقام عمل میں لائے اور دنیا والوں کے سامنے آشکار کرے۔

اگر کوئی حکومت صرف دین کے کسی ایک پہلو مثلا سیاسی پہلو یا اقتصادی پہلو یا ثقافتی پہلو کو مد نظر رکھے اور دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کر دے اسے اسلامی حکومت نہیں کہا جاسکتا۔ اسلامی حکومت وہ ہے جو اسلام کے ہر پہلو اور جہت کو مد نظررکھ کر ان کے اجرا کرنے کے لیے دقیق پروگرامنگ کرے۔

اگرچہ تاریخ آئمہ اطہار علیھم السلام مخصوصا امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت میں اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ یتیموں ،مسکینوں اور پسماندہ افراد کی مدد کرنے کو اہمیت دیتے تھے لیکن ان  کا اصلی مقصد لوگوں کی ہدایت کرنا  اور ان میں دینداری پیدا کرنا تھا۔ پیغمبر  اکرم (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا: اگر ایک آدمی کی بھی تمہارے ہاتھوں سے ہدایت ہو گئی تو تمہارے لیے زمین و آسمان کی ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج چمکتا ہے۔

لہذا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کے تمام پہلوؤں کی طرف نظر رکھے اور  اگر ہم چاہتے ہیں کہ بعض موارد میں اولویت سے کام لیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو سب سے پہلے لوگوں کی ہدایت اور سماج میں اسلامی احکام کی ترویج کی طرف زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ کوشش کریں سماج کو آلودگیوں سے پاک کریں اور دینداروں کے لیے مناسب فضا فراہم کریں۔ اب اگر ان کے اندر سے یہ دغدغہ ختم ہو جائے اور کہیں کہ ہمارے لیے دیندار اور بے دین سب برابر ہیں ہم ایسی حکومت کو اسلامی حکومت نہیں کہہ سکتے۔

اسلامی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اسلام کی عظمت اور اس کے اقتدار کو سپر پاور طاقتوں کے سامنے ثابت کرے۔ اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی حیثیت رکھے۔ اور الحمد للہ اس وقت یہ چیز بخوبی نمایاں ہے۔

اس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی حکومت دین شناس افراد کے لیے ایک خاص امتیاز کی قائل ہو اور سماج میں دین شناسی کی لہر پیدا کرنے کی راہ میں ان کا تعاون کرے۔ اور ان کے لیے زمینہ فراھم کرے۔ حکومت کو صرف حقوقی مہفوم میں منحصر نہیں کرنا چاہیے۔ اسلامی حکومت قوانین کو اجراء کرنے کی راہ میں بھی موظف ہے اور لوگوں کو اسلامی احکام سے آشنا کرانے کی راہ میں بھی۔ لہذا ان کے لیے ایسے علمی مراکز قائم کئیے جائیں کہ جن میں جوانوں کو دین کی طرف جذب کیا جائے۔

سوال: اسلامی حکومت کی رفتار انتقاد کرنے والوں کے ساتھ کیسی ہونا چاہیے؟

جواب:ایک اہم مسئلہ جس کی طرف ہمارے آئمہ معصومین (ع) نے لوگوں کو تشویق دلائی، یہ تھا کہ مومنین ایک دوسرے کے اشکالات اور عیوب کو ہدیہ کے طور پر ایک دوسرے کی خدمت میں پیش کریں۔ جیسا کہ روایت میں ہے: احب اخوانی الیّ من اھدی الی عیوبی۔ یہ ایک نہایت با معنی تعبیر ہے۔ بہترین دوست وہ ہے جو میرے عیوب سے  مجھے آگاہ کرے۔

طبیعی بات ہے کہ اسلامی حکومت میں بھی اشکالات اور نواقص پائے جاتےہیں۔ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے اور بخوبی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے تواسے دلسوز افراد کی تنقیدوں کو قبول کرنا چاہیے اور سعہ صدر کے ساتھ ان کے انتقادات کو صحت پر حمل کرے اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے۔

موجودہ حکومت میں بھی اشکالات پائے جاتے ہیں۔ اور اس بات کی انتظار ہے کہ مسؤلین ایسی فضا فراہم کریں تاکہ ان اشکالات کے جواب دیں اگرچہ مناظرہ اور گفتگو کی صورت میں ہی ہو۔ ایسا نہ ہو اگر تنقید کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے تو یہ کہہ کر ٹال دیں کہ یہ اشکالات اختلاف اور تخریب کی غرض سے ہیں۔ اسلامی حکومت اس قدر سعہ صدر رکھتی ہو کہ حتی اگر کوئی تخریب کی غرض سے بھی تنقید کرے اسے بھی مثبت نگاہ سے دیکھیں۔

اس بنا پر اولاً خود حکومت تنقید کے لیے زمینہ فراہم کرے اور بزرگ اور دانشور افراد سے درخواست کرے کہ وہ حکومت کی روش کے سلسلے میں اپنے نظریات کو بیان کریں۔ انہیں اصلاحی نظریات بیان کرنے پر تشویق دلائیں تاکہ حکومت کے اندر استحکام پیدا ہو۔

دوم یہ  کہ سعہ صدر کو اس حد تک وسعت دیں کہ نہ صرف تنقید کو تخریب پر حمل کریں بلکہ وہ انتقادات جو تخریب کی غرض سے بھی ہوں انہیں بھی اصلاح کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کے بھی مثبت جواب دیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

برچسب ها :