روزعرفہ کے بارے میں حضرت آيت الله فاضل لنكراني(دامت بركاته )کے بیانات
08 December 2024
04:32
۶,۳۶۴
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمين وصلي الله علي سيدنا محمدو آله الطاهرين
روز عرفہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بعد والے دن عید قربان ہونے کے علاوہ خودیہ ایک بڑی عید ہے ،یہ اس وجہ سے کہ خداوند متعالی نے عرفہ کی رات اور اس دن میں اپنے بندوں پر ایک خاص توجہ کی ہے اوران پر رحمت نازل فرمایا ہے ، ان لوگوں پرجو دعا اور مناجات مےں مشغول ہوتے ہیں ، اس رات میں جو مستحبات ذکر ہے ان سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ یہ رات ایک بڑی رات ہے اور خدا وند متعالی اس رات میں اپنے بندوں سے دعا و مناجات اور استغفار کو پسند کرتا ہے ۔
لہذا ہمیں اس رات اوردن کے اعمال اور مستحبات کے بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے ،حتی کہ اس دن کے ایک اہم مستحب روزہ رکھنا ہے البتہ اگر روزہ رکھنا دعا اور مناجات میں ضغف کا سبب نہ ہو ۔
دعا عرفہ کے بارے میں دو مطلب کو یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں؛ایک اس دعا کے ذیل کے بارے میں کچھ بیان کرنا ہے کہ کبھی کچھ افراد اس بارے میں خصوصی توجہ دیتے ہیں ۔
اس بارے میں یہ بحث و گفتگو ہوتی ہے کہ کیا یہ ذیل امام (ع) سے مربوط ہے اور دعا کے جزء میں سے ہے یا امام (ع) سے کوئی مربوط نہیں ہے ؟!! کفعمی نے کتاب '' بلد الامین '' میں اور مجلسی نے '' زاد المعاد'' جو کہ گزشتہ زمانہ میں مفاتیح کی جگہ پر تھی اور دعا کی ایک اچھی کتاب ہے ، ان دونوں نے اس ذیل کو ذکر نہیں کیا ہے ، مرحوم مجلسی نے بحار الانوار کے جلد ٩٨ میں لکھا ہے : «قد أورد الكفعمي أيضاً هذا الدعا في البلد الأمين و إبن طاووس في مصباح الزائر» «كما سبق ذكرهما ولكن ليس في آخره فيهما بقدر ورقٍ تقريباً»مجلسی لکھتا ہے :یہ عبارت «أنا الفقير في غناي فكيف لا أكون فقيراً في فقري» نہ سید ابن طاووس کی کتاب مصباح الزائر میں ذکر ہے اور نہ ہی کفعمی کی کتاب بلد الامین میں۔
کتاب'' اقبال'' کے بعض نسخوں میں ہے: «وكذا لم يوجد هذه الورقة في بعضٍ نسخ العتيقة من الإقبال»اوراس کتاب کے بعض نسخوں میں یہ جملہ ذکر نہیں ہے ! اس کے بعد مرحوم مجلسی نے فرمایا ہے کہ اس اضافی عبارات میں جو الفاظ اور تعابیر ذکر ہے وہ معصومین علیہم السلام کے وہ دعاجو دعا کی کتابوں میں ذکر ہے ان سے نہیں ملتا ہے «و إنما هي علي وفق مزاق الصوفية»بلکہ یہ صوفیہ کے مزاج کے مطابق ہے «ولذلك قال بعض الأفاضل أنّ كون هذه الورقة» يا «ذهب بعض الأفاضل إلي كون هذه الورقة من مزيدات بعض مشايخ الصوفية و من إلحاقاته و إدخالاته» بعد میں صوفی مشایخ نے ان جملات کو اضافہ کیا ہے ۔
انسان اگران عبارات پر توجہ دیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حقیقتا ً مرحوم مجلسی کی بات صحیح ہے ، اس میں ایسے الفاظ اورعبارات ہیں جو آئمہ علیہم السلام کے کلام کے سیاق اور سباق سے نہیں ملتا ،آپ اگر صحیفہ سجادیہ کو اس کے ابتداء سے آخر تک مطالعہ کریں تو مجھے یاد نہیں ہے کہ اس میں کوئی ایسا جملہ ذکر ہوا ہو ، یا یہ عبارت«الهي طهّرني من شكّي و شركي قبل حلول رمصي» میں نے اس بارے میں بہت سوچا(البتہ کامل طور پر تحقیق نہیں کیا ) اور یہ دیکھنا چاہا کہ دعا ابو حمزہ ثمالی یا صحیفہ سجادیہ اور دوسری دعاوں میں یہ دیکھوں کہ امام معصوم نے یہ فرمایا ہو : الهي طهّرني من شكّي و شركي ممکن ہے یہ تعبیرذکر «أعوذ بك من الشكّ و الشرك» یعنی میں شک اورشرک کے داخل ہونے سے پناہ لیتا ہوں لیکن یہ تعبیر«الهي طهّرني من شكّي و شركي قبل حلول رمصي» یعنی میرے مرنے اورقبر میں داخل ہونے سے پہلے مجھ پاک کریں ، یہ تعبیر کہیں بھی ذکر نہیں ہے ۔
اس میں ایک اورتعبیریہ ہے «الهي حقّقني بحقايق أهل القرب واسلك بي مسلك أهل الجذب»یہ''اہل جذب'' اور'' اہل قرب'' عرفا اور صوفیوں کے اصطلاحات میں سے ہے ، مقربین قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے «السّابقون السّابقون اولئك المقرّبون» لیکن اہل قرب ذکر نہیں ہوا ہے ، یا ایک اور تعبیر یہ ہے : «الهي علمت باختلاف الآثار و تنقّلات الأطوار أنّ مرادك منّي عن تتعرف إليّ في كلّ شيءٍ حتّي لا أجهلك في شيء» یہ تعابیر ایسے ہیں کہ واقعاً یہ آئمہ علیہم السلام کے کلمات اور ادعیہ کے سیاق سے مناسب نہیں ،اس لحاظ سے انسان کو یقین کی حد تک گمان پیدا ہوتا ہے کہ دعا عرفہ کا یہ ذیل امام علیہ السلام کے دعامیں سے نہیں ہے.
اب اگر کوئی رجاء کی نیت سے یا احتمال کے عنوان سے پڑھنا چاہئے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ،لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ اس کلام کوامام حسین علیہ السلام نے فرمایا ہے ، خصوصاً وہ جملہ''یا رب، یارب'' جو کہ اس آخری حصہ سے پہلے ذکر ہے ، نقل ہے کہ امام علیہ السلام اور آپ کی اہلبیت اور آپ کے اصحاب اس قدر روئے اوریا رب یار ب کو دہرایا کہ سورج غروب ہوئے اور آخر میں سب نے آمین بولے ،اور دعا ختم ہوئی اور مشعر کی طرف عازم هوئے۔
بعض نے نقل کیا ہے کہ آٹھویں صدی یا اس کے آخری ایام میں ابن عطای اسکندرانی کے نام سے ایک عارف اور صوفی تھا جس کی '' الحکم العطائیۃ'' نامی ایک کتاب تھی ، کسی نے بتایا کہ ان تمام مضامین کو میں نے اس کتاب میں دیکھا ہے ، لہذا ممکن ہے کہ بعد میں اسے آہستہ آہستہ اس دعا میں شامل کیا ہو اور اسے دعا کے آخر میں لایا گیا ہو ، یہ پہلا مطلب.
دوسرا مطلب :دعا عرفہ کے مضامین پر توجہ دینا ہے یعنی اس دعا عرفہ میں کچھ ایسے مضامین ہیں جو انسان کو بہت ہی جلد خدا سے ملا دیتا ہے ، اگرچہ تمام عاوؤں کے مضامین خدا سے تقرب پیدا کرنے اور دنیا اوردنیاکی قمقموں سے دل کوقطع تعلق کرنےکے لئے ہے ، لیکن دعا عرفہ میں کچھ ایسے تعابیر ہیں کہ جو بہت ہی اہم ہے ۔
ہم یہاں پردعا عرفہ کے ان مضامین کو بیان کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عرفہ کے دن جن چیزوں کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے ان میں سے ایک خدا کی تسبیح اورتہلیل کرنا ہے ، مستحب ہے کہ سید اقبال نے جو تسبیحات عشری نقل کیا ہے اسے جتنا ہو سکے تکرار کرے ،«سبحان الذي في السماء عرشه» یہ تسبیحات اس لئے ہے کہ ہمارا ناقص اور کمزور ذہن کبھی کبھی خداوند متعالی کو بھلا دیتا ہے.
خدا تو پاک ومنزہ ہی ہے لیکن ہمیں چاہئے کہ اپنے آپ کو خدا کا تمام نقایص سے پاک اور منزہ ہونے کا یقین کروائے، یہ تسبیحات ،ذہن کو پاک ، نفس کو روشن ، قلب کو نورانی اور روح کو خدا سے نزدیک کرتا ہے ، لہذا انسان جتنا ان تسبیحات کودہرائے اس کے لئے اچھا ہے ، یہ تسبیحات انسان کے ذہن کو آلودگیوں سے پاک کرتا ہے ، اگر آسمان ہے تو یہ خدا کا عرش ہے اور اگر زمین ہے تو یہ خدا کے حکم سے ہے ،اگر قبر ہے تو یہ خدا کا قضاء ہے ، اگر جہنم ہے تو یہ خدا کی پادشاہی ہے ، اور اگر جنت ہے تو یہ خدا کی رحمت ہے ، اگر قیامت ہے تو یہ خدا کی عدل ہے ، تمام چیزیں خدا سے مربوط ہے ، دنیا اورآخرت،زمین اور آسمان ، دریا اورخشکی سب کے سب خدا سے مربوط ہے ۔
پس یہ تسبیحات ہونی چاہئے اور اس کے بارے میں تاکید بھی ہوئی ہے ، اور کچھ اذکار ایسے ہیں کہ انسان کو چاہئے عرفہ کے دن اسے ١٠٠ دفعہ تک پڑھیں ، اب آتے ہیں دعا عرفہ کی طرف کہ حضرت(ع) خدا سے عرض کرتا ہے :«و إن اعدّ نعمك و مننك و كرامك و منحك لا احصيها يا مولاي»انسان ان نعمتوں کو یاد کریں جنہیں خدا نے اسے عطا کیا ہے ،اور اس سے پہلے یہ اعتراف کرلیں کہ ہم نعمتوں کو حساب نہیں کر سکتے ، خدایا! ہم اگر آپ کے دیئے ہوئے نعمتوں کو گننا چاہئیں توان کی شمارش ممکن نہیں ۔
اس کے بعد آپ (ع) فرماتا ہے «أنت الذي مننت» انسان کو چاہئے کہ ہمیشہ ان دعاؤں کو پڑھیں یہ صرف عرفہ کے دن سے مخصوص نہیں ہے ، انسان جب خلوت کرتا ہے ، نماز شب پڑھتا ہے ، جب وہ تنہا ہے ، اس وقت ان اذکار کو پڑھا کریں ، تم نے مجھ پر منت رکھا ہے ،«انت الذي انعمت» تو نے مجھے نعمتیں عنایت کی ہے «أنت الذي أحسنت»تم نے میرے ساتھ اچھائی کی ہے «أنت الذي أجملت، أنت الذي أفضلت، أنت الذي أكملت، أنت الذي رزقت»
اگر مجھ میں کوئی خوبصورتی ہے ، اگر مجھ میں کوئی ظاہری اور معنوی زیبای ہے ، اگر مجھ میں کوئی علم ہے ، ان سب کو تم نے مجھے دیا ہے اور میرا تو کچھ بھی نہیں ہے ، اگر کوئی رزق و روزی ہے تو وہ بھی تم ہے ہی دیا ہے ، «أنت الذي اعطيت أنت الذي اغنيت» میں دوسروں سے بے نیاز ہوں،اوراگر ابھی میرا ہاتھ کسی دوسرے کے آگے نہیں پھیلتا ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ تو نے مجھے بے نیاز بنایا ہے ، تو نے مجھے پناہ دی ہے ، میرے لیے توہی کافی ہے ،تم نے میری ہدایت کی ہے ، تم نے مجھے خطرات سے بچا کر رکھا ہے، کبھی انسان مغرور ہوتا ہے ، کہتا ہے میں نے تو کوئی گناہ کبیرہ انجام نہیں دیا ہے ، انسان کا یہ کہنا خود گناہ ہے ، انسان کا یہ سوچنا ہی گناہ ہے ، خدا نے ہمیں ایسے مواقع سے بچایا ہے اورہماری حفاظت کی ہے «أنت الذي سترت أنت الذي غفرت أنت الذي أعنت».
خصوصاً ہم طلاب جب ان مادی اور معنوی ، علمی اور غیر علمی نعمتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، اٹھ کر دو رکعت نماز پڑھ لیتے ہیں اورکہتے ہیں : خدایا تم نے مجھے ان دو رکعت نماز پڑھنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے، آئمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کے لئے جاتے ہیں او ریہ کہتے ہےں کہ خدایا! تم نے یہ توفیق عنایت کی ہے ، اگر یہ توفیق نہ ہوتی تو میں یہ کام انجام نہیں دے سکتا ، اگر ہم یہ بولا کریں اور واقعاً اس پر یقین بھی کرے یہ نعمت سب کے سب اللہ کی طرف سے ہے، کہ اباعبد اللہ علیہ السلام فرماتا ہے : «ثم أنا يا الهي المعترف بذنوبي فاغفر حالي» میں سب سے پہلے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں ، میری گناہوں کو بخش دیں «أنا الذي عصيت أنا الذي الذي أخطأت أنا الذي جَهِلتُ»خدایا میں نے برا کیا ہے ، میں نے خطا کیا ہے ، میں نے جہالت اور نادانی کی ہے ، «أنا الذي غفلت» میں خود غافل ہوا ہوں ، غلطی خود مجھ سے ہے ۔
اس کے بعد عرض کرتا ہے «فبأي شيءٍ أستقبلك يا مولاي أبسمعي»بہت ہی عجیب عبارت ہے ! سب سے پہلے اعتراف کرتا ہے، میں کون ہوں؟ میں نے جہالت اور نادانی کی ہے ، میں نے غلطی کی ہے ،خدا سے عرض کرتا ہے کہ خدایا : کیا چیز لے کر تمہارے حضور آجاؤں؟ « استقبلك يا مولاي، أبسمعي أم ببصري، أم بلساني، أم بيدي، أم برجلي، أليس كلّها نعمك عندي» یہ سب تمہاری نعمتیں ہیں ان تمام نعمتوں کے باوجود کہ جومجھے عطا کی ہے میں نے تمہاری نافرمانی کی ہے ، «و بكلّها عصيتُك» تم میرے اوپرحجت رکھتا ہے ، یعنی مجھے جس چیز کا حکم کرے ، اور میرے بارے میں جو بھی فیصله کرے ، وہ صحیح ہے ،امام (ع) ان الفاظ کے ذریعہ اپنی معرفی فرما رہا ہے ، واقعاً ہم دعاعرفہ کے تمام مضامین کے اجمالی تفسیربھی بیان نہیں کر سکتے ، لیکن حقیقت میں یہ مضامین بہت ہی اہم ہے اور ہماری زندگی میں بہت زیادہ اثر انداز ہے ،ان دعاؤں کو پڑھیں اورذہن نشین بھی کرے ، مخصوصاًنمازکی قنوت میں اس دعاکے فقرات کو پڑھ لیں ،خوش نصیب ہے وہ شخص جو قنوت میں اس دعا کو پڑھ سکیں خدا اسے بهت سی چیزیں نصیب فرمائے گا ۔
خدا وند عالم نے عرفہ کے دن یہ وعدہ دیا ہے کہ اگر کوئی ماہ رمضان میں بخشا نہیں گیا ، تو وہ عرفہ کے دن پر امید رکھیں ، ہم عرض کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں امید ہے کہ اپنے اس وسیع اور بڑی رحمت کو ہمارا شامل حال فرماے گا انشاء اللہ ۔