جو شخص یہ بتا تا ہے کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام میں حکومت اسلامی کے نام سے کوئی چیز ہے ہی نہیں اس نے ولایت کو ہی سمجھا نہیں ہے ۔

29 March 2024

09:44

۲,۴۲۹

خبر کا خلاصہ :
بصیرت کی بنیاد آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو سمجھنا ہے ، اگر انسان آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو اچھی طرج سمجھ لیں تو یقیناً اس کے پاس بصیرت ہے ، اور جو شخص یہ بتا تا ہے کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام میں حکومت اسلامی کوئی چیز نہیں ہے اس نے ولایت کو سمجھا ہی نہیں ہے ۔
آخرین رویداد ها

 حضرت آیت الله حاج شیخ محمدجواد فاضل لنکرانی(دامت برکاته) نے آبادان کے طلاب سے ملاقات میں انہیں تحصیل علم، تہذیب نفس اور بصیرت کے بارے میں اہتمام  کی تلقین کی 95/10/14

بسم الله الرحمن الرحیم الحمدلله رب العالمین و صلی الله علی سیدنا محمد و آله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین من الآن إلی قیام یوم الدین

، میں یہاں سب سے پہلے حوزہ علمیہ آبادان کے بڑے علماء اور جنہوں نے بڑے بڑے خدمات انجام دی ہیں خصوصا دفاع مقدس میں جنہوں نے علماء کے لئے کم نظیر افتخارات کسب کی ہیں ان یاد کرتا ہوں ، مرحوم آیت اللہ جمی ، آیت اللہ دہدشتی، آیت اللہ مکی اور دوسرے بزرگوں کی اس بارے میں خدمات جلیلہ ہیں ، امید ہے کہ جو افراد ابھی ان کاموں میں مشغول ہیں وہ پہلے سے بہتر اس حوزہ کو رونق بخشیں گے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ حوزہ علمیہ آبادان میں بہت ہی پایہ کے طلاب اور بڑے بڑے علماء موجود ہیں ۔

میں یہاں پر بہت ہی مختصر کے ساتھ ایک دو مطالب بیان کرنے پر اکتفاء کروں گا ۔

پہلا مطلب:یہ ہے کہ زمانہ جتنا گزر رہا ہے اور انقلاب اسلامی کی عمر میں جتنا اضافہ ہو رہا ہے ،قدرت و طاقت اور گہرا درس پڑھنے کی ضرورت کا احساس زیادہ ہوتا جاتا ہے، اگر انقلاب کے ابتدائی سالوں  میں ہمارے بزرگان اس چیز کی طرف توج فرمائے ہیں تو آج حوزہ کی ایک اور شکل ہے ہے اس وقت جنگ اور دفاع مقدس کے ایام تھے اور انقلابی تنظمیں جدید تھے اور اس وقت نظام اسلامی کی دفاع میں اگلے مورچوں میں علماء کا ہونا ضروری تھا ، لیکن ان سب کے باوجود اسی وقت بھی حوزہ کو منظم کرنے میں کچھ کردار ادا کرسکے ۔

ہمارے مرحوم والد محترم فرماتے تھے ؛ انقلاب کے ابتدائی ایام میں میں جماران گیا تھا ، وہاں پر آقای بہشتی نے مجھ سے شکایت کی ،کہ آقای فاضل آپ قم میں بیٹھ کر درس  و دوروس میں مشغول ہو ، کیوں ہماری مدد کرنے تہران نہیں آتے ہو،ہمیں آج آپ کی بہت زیادہ ضرورت ہے ، تو میں نے ان سے کہا لیکن آپ بھی ایک چیز سے غفلت کر رہے ہیں اور وہ حوزہ کا مستقبل ہے ،اگر ہمارے حوزہ میں انقلابی اور گہرے سوچ رکھنے والے طلاب نہ ہوں تو انقلاب کن لوگوں کے  پاس چلا جائے گا ؟!

آج کا زمانہ وہ ہے کہ ایک طلبہ کو چاہئے کہ ایسا ٹائم ٹیبل بنائے کہ اپنی عمر کے ہر سکینڈ  کو علمی، فقہی، اصولی ، تفسیری اور اعتقادی مسائل سے آگاہ ہونے کے لئے استفادہ کرے ،پہلی بات تو یہ ہے کہ تمام طلاب جو حوزہ علمیہ کے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان سے یہی گزارش ہے کہ مدرسہ کے قوانین کو رعایت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو صرف مدرسہ کے دوروس میں محصور نہ کرے ، صبح اور شام میں مدرسہ میں جو درس ہوتے ہیں ان میں شرکت کریں اور اس کے علاوہ باقی اوقات جو اپنے اختیار میں ان میں مطالعات میں گزراے۔

اس عمر میں آپ کم از کم 20 گھنٹے علمی کام انجام دینا چاہئے ،اور روایت سے تمسک کر کے یہ نہ بتایا جائے کہ جی امام علیہ السلام نے فرمایا ہے اپنی زندگی کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کریں ، اور 8 گھنٹے کو پڑھنے میں لگائے اور باقی اوقات کو دوسرے کاموں میں گزارے ، یہ روایت اپنی جگہ صحیح ہے ، لیکن آج اسلام اور مکتب تشیع کے لئے بہت ہی قوی علماء ، فقہاء ، مفسرین ، متکلمان  اور فلافسر کی ضرورت ہے تا کہ تمام دین سے دفاع کر سکے۔

آپ ملاحظہ کریں کہ آجکل سوشل میڈیا پر قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کون ان اعتراضات کا جواب دے گا ؟ وہی شخص جواب دے سکتا ہے جس نے عربی ادیبات کو صحیح طرح پڑھا ہو ، جو فقہ میں عالم ہو، جو اصول فقہ کو صحیح طرح سے پڑھ لیا ہو، کچھ طلاب جو ابھی رسائل اور مکاسب کو ختم کیے ہیں کہتا ہے میں تفسیر میں کام کروں گا ، تفسیر کے پیچھے چلا جاتا ہے اور فقہ اور اصول کے درس خارج میں بھی شرکت نہیں کرتا ہے ،یہ غلطی کر رہا ہے ، ہمیشہ یہ بتا بتاتا رہتا ہوں جس شخص اصول میں قوی نہ ہو وہ قرآن کی تفسیر نہیں کرسکتا ۔

لہذا آپ بہت ہی اچھے طریقہ سے درس پڑھ لیں ، رہبر معظم انقلاب (دام ظلہ) کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے جو حوزہ میں تبدیلی کے بارے میں فرمایا ہے ؟اس کا ایک واضح معنی بہت گہرے طریقہ سے درس پڑھنا ہے ، اگر اچھی طریقہ سے درس نہ پڑھے تو کیسے ہم حوزہ میں تبدیلی لا سکتے ہیں  اور اعتراضات کا کیسے جواب دے سکیں گے ؟اگر ہم صحیح طریقہ سے درس نہ پڑھیں تو کیسے امت اسلامی کی تہذیب کو بیان کر سکتے ہیں اور اس کے بارے میں پروگرام تشکیل دے سکيں گے ۔

یہ ایام حوزہ اور یونیورسٹی کے وحدت کے ایام بھی ہے، اگر ہم صحیح طرح سے درس نہ پڑہیں تو یونیورسٹی سے ارتباط پیدا نہیں کر سکتے ،اس وقت جس تیزی سے علم میں پیشرفت ہو رہی ہے اور یونیورسٹی بھی اسی کے ساتھ ساتھ آگے جارہا ہے کون ان علمی محافل اور یونیورسٹیوں سے ارتباط قائم رکھ سکتاہے؟ وہی شخص جو صحیح طرح سے درس پڑھے۔

ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ ہم کیسے درس کے گہرائی میں جائيں ؟ ایسا بھی ہے کہ 20 ، 30 سال حوزہ میں گزارے ہیں لیکن صحیح طرح سے مطالعہ کرنے کے طریقہ کو بھی نہیں جانتا ! کیسے مطالعہ کریں ، کن کتابوں کا مطالعہ کریں ؟ کس طرح کی کتابوں کو پہلے قرار دیں ، ان سب چیزوں کو حوزہ کے اساتید اوراپنے مدرسہ کے مدیر سے جان لینا چاہئے اور ایک اچھے ٹائم ٹیبل کے ساتھ آگے چلے۔

دوسرا مطلب:یہ مطلب اخلاقی مسائل اور تہذیب نفس کے بارے میں ہے ، ایک طلبہ اگرچہ علمی لحاظ سے بہت اوپر کے درجہ پر فائزہو ، تمام کتابوں کو حفظ کیا ہو، فقہ اور فلسفہ میں اپنا نظر رکھتا ہو اور۔۔۔۔لیکن اخلاق اور تہذیب نفس کے لحاظ سے کوئی کام نہیں کیا ہو تو ایسا طلبہ دین اور معاشرہ کے کام نہیں آتا ، واشگاف الفاظ میں بیان کروں ؛ ہمارے زمانہ میں تہذیب کے برخلاف چیزیں بہت زیادہ ہیں ، یہ ٹی وی جو آپ کے اور ہمارے گھر میں ہے اور موبائل اور مختلف قسم نشست و برخاست اور بے فائدہ روابط، یہ سب انسان کو غیر تہذیبی کاموں کی طرف لے جاتا ہے ، لہذا ہمیں اپنے نفس کی مراقبت کرنی چاہئے ، قرآن اورمستحبات سے ہمارا رابطہ زیادہ ہونا چاہئے۔

البتہ قدیم زمانہ کے بعض علماء فرماتے تھے طلبہ کو مستحبات کے جگہ پر علم حاصل کرنا چاہئے، «تَفَکُّرُ سَاعَةٍ خَیرٌ مِن عِبَادَةِ سَبعِینَ سَنَة»،اگرچہ ان روایات کا اپنی جگہ پر صحیح معنی کیے ہیں ، ان روایات میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ مستحبات اور نوافل کو چھوڑ دو اور پانچ منٹ دین کے بارے میں غور وفکر کرو، بلکہ یہ روایت مستحبات اور غور وفکر کے فضلیت میں مقابلہ کو بیان کر رہا ہے وہ غور وفکر جو انسان کو معنویات کی طرف لے جاتا ہے اور اسے خدا سے نزدیک کرتا ہے، یقینا یہ مستحبات، قرآن کریم سے انس حاصل کرنا ، زبان کی مراقبت، اپنے رفتار اور کردار کی مراقبت بہت ہی ضروری ہے ۔

لہذا تہذیب نفس اور اخلاق بہت ہی مہم ہے ، ابھی آپ  اپنی عمر کے ایسے مرحلہ میں ہے کہ بہترین طریقہ سے اپنے نفس کو پاک و پاکیزہ اور صاف و شفاف رکھ سکتا ہے ، تا کہ خدا کی طرف سے آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو جائے ؛«‌العِلمُ نُورٌ يَقْذِفُهُ اللهُ فِي قَلْبِ مَن یَشَاءُ»؛ ہماا قلب «مَن یَشَاء»  کا مصداق ہونا چاہئے ، خدا کی مشیت آلودہ قلب سے تعلق نہیں ہوتا ہے ، وہ قلب جو خود طلبی اور دنیا طلبی سے بھرا ہوا ہو ، جو کسی مقام و منصب پر پہنچنے کے لئے درس پڑھنا چاہتا ہو ، ایسا قلب تو من یشاء نہیں ہو سکتا ،  پاکیزہ اور خدا کے سامنے تواضع سے بھرا ہوا قلب اور جس میں دل میں خدا کے بندوں خصوصا بزرگوں کی عزت واحترام ہو وہی فیوضات الہی کا قابل ہو سکتا ہے ۔

ایک چیز جو آہستہ آہستہ ہمارے حوزات میں فراموش ہو رہا ہے وہ بزرگوں کی احترام اور تکریم ہے ، آپ امام سجاد علیہ السلام کے رسالہ حقوقیہ میں جو روایات ہیں ان کو دیکھیں ، فرماتے ہیں عالم کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے مجلس کی تعظیم اور تکریم کرے ، یا اگر کوئی استاد سے سوال کرے تو ان سے پہلے کوئی جواب نہ دیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ چیزیں ہمارے زمانہ میں کم ہوتا جا رہا ہے ، ایک طلبہ جو ابھی حوزہ میں داخل ہوا ہے وہ اپنے آپ کو یہ جرات دیتا ہے کہ کہتا ہے اس مرجع تقلید نے غلطی کی ہے ، اس مرجع تقلید کو سمجھ میں نہیں آیا ہے ، شیخ انصاری یا ملا صدرا کو سمجھ نہیں آیا ہے ، اب اس طرح کی باتوں کے کیا کیا برے اثرات ہوتے ہیں ان کو میں یہاں بیان نہیں کرتا ہوں کہ اس بارے میں بہت سی چیزیں میرے دل میں ہے ، تہذیب نفس کا ایک پہلو ، طول تاریخ کے فقہاء اور حوزات علمیہ کے بزرگان کی تکریم ہے ، ان سب کا ہمارے گردن پر حق ہیں لہذا ان سب کی عزت و احترام کرنی چاہئے ، جب ہم کتاب لمعہ کر پڑھتے ہیں تو شہید سے پہلے اور شہید کے بعد کے تمام علماء کا حق ہمارے گردن آئے گا ، کہ ان سب کی رعایت کرنی چاہئے ۔

تیسرا مطلب:اس وقت دشمنان اسلام کا ایک اہم کام یہ ہے کہ لوگوں کو علماء سے دور کرے، مختلف قسم کی کوششيں کرتے ہیں تا کہ لوگوں اور علماء کے درمیان فاصلہ ایجاد کرے ، اقتصاد، سیاست ،اخلاقی حتی کہ جعلی اور پروپکنڈہ کے ذریعہ عوام کو علماء سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، لہذا اس بارے میں بہت ہی آگاہ رہنا چاہئے ۔

آج ایک طلبہ کا معاشرہ  اور لوگوں کے درمیان اٹھنا بیٹھنا  اچھا ہونا چاہئے ، وہ جو تقریر کرتا ہے وہ بھی سنجیدہ ہو ، البتہ خدا ان کو یہ مہلت تو نہیں دیتا ہے اور ان کو اپنے ان برے عزائم تک پہنچنے کی فرصت نہیں دے گا ، لیکن ان کے برے عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے درمیان ارتباط کو مضبوط کرے ۔

لوگ ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟ لوگ ہم سے جو امید رکھتے ہیں سب سے پہلے دین کے بارے میں ہماری صداقت ہے ، وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جان جائے کہ خدانے کیا کہا ہے ،کہاں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی ایسے مطلب کو  خدا کے نام پر بیان کرے جسے خدا نے نہیں فرمایا ہے ،ہم کسی چیز کو بیان کرے اور لوگ بھی یہ سوچے کہ دین میں یہ مطلب بیان ہوا ہے اور بعد میں معلوم ہو جائے کہ اس عالم نے لوگوں کے درمیان اپنا مقام بنانے کے لئے یہ بات بتایا ہے اور حقیقت میں ایسا نہیں ہے ، ہم اپنے گذشتہ علماء اور بزرگوں کو خاطر میں لائیں کہ لوگ علماء کو دیکھ کر خدا اور آخرت  ياد آتے تھے ، ہمیں بھی چاہئے کہ ایسا ہی چہرہ لوگوں کے لئے پیش کرے ،البتہ یہ دیکھاوے کے طور پر نہ ہو ،ہمیشہ اپنے رفتار اور گفتار میں خدا سے پناہ مانگيں اور واقعا جو خدا چاہتا ہے اسی کو لوگوں کے لئے بیان کرے۔

اگر دو گھرانوں میں اختلاف ہوا اور ان کے درمیان میں ایک عالم دین آجائے تو خدا نے جو کچھ فرمایا ہے اس سے ایک کلمہ بھی کم یا زیاد نہ کرے ، اور اگر معاشرہ میں اور ایک قومی مسائل میں اختلاف ہو تو وہاں خدا کے فرمان کے علاوہ کسی اور چیز کے بیان کرنے کا کوئی ارادہ بھی نہ کرے ۔

لوگوں کا علماء سے دور ہونے کے اسباب میں سے ایک یہی ہے کہ دنیا طلبی   یا اپنے مقام و منصب کو بچانے کے لئے کسی گروہ یا افراد کی حمایت کرے ،یہ نہ سوچیں کہ یہ مسائل لوگوں کو سمجھ نہیں آتے  ہیں،وہ بہت ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ کون اپنی دنیا کے لئے بات کرتا ہے اور کون خدا کے لئے بات کرتا ہے ، ہمیں ان چیزوں کا بہت خیال رکھنا چاہئے ۔

ہمارا رہنا سہنا ہمیشہ لوگوں کے ساتھ ہے ، انقلاب سے پہلے بھی ایسا تھا اور انقلا ب کے بعد ہزار درجہ ایسا ہوا ہے ، لوگوں کے بارے میں ہماری ذمہ داری ہے ، اگر ہم درس پڑھتے ہیں ، پڑھاتے ہیں اور اپنی تہذیب کرتے ہیں ، یہ سب صرف اپنے لئے نہیں ہے ، بلکہ اس لئے ہے کہ معاشرہ میں ایک اثر گزار فرد بن جائے ، تا کہ معاشرہ میں جو دینی اور ثقافتی یلغار ہیں اور جو مشکلات ہیں ان سب کو ختم کر سکے ۔

ہمارا معاشرہ   اس وقت دینی بحران کا شکارہے ، مسیحیت کی انتھک کوشش ہے کہ ہمارے جوانوں کو اسلام کی دامن سے چھڑا کر اپنی طرف لے جائے ، اسی طرح بہائیت ، وہابیت اور جدید پیداہونے والے انحرافی فرقے بھی اسی طرح کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ، اس وقت ہم اخلاقی اور ثقافتی کشمشک میں مبتلاء ہیں ، لہذا حوزات علمیہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ فعال اور طاقت و قدرت کے ساتھ میدان میں ہونا چاہئے تا کہ انشاء اللہ خدا نے جو ذمہ داری ہمارے اوپر عائد کیا ہوا ہے اسے صحیح طرح انجام دے سکے۔  

چوتھا مطلب:نظام اسلامی اور انقلاب کی حفاظت کرنا ہے :آپ تو آبادان میں رہتے ہیں اسی طرح دوسرے افراد جو باڈر پر رہتے ہیں چاہئے وہ جنوب میں ہو یا مغرب میں ،انقلاب کے بارے میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ،  یہ علاقہ دفاع مقدس کے ایام میں ضد انقلاب افراد کے توطئہ میں قرار پائے ہیں اور ابتدائی نقصانات آپ کے شہروں پر وارد کیے ،  انقلاب اور اسلام کے لئے بہت سارے شہداء پیش کیے، اس انقلاب کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے اور یہ نہ اس لئے کہ اس حکومت میں سب سے اوپر ایک عالم دین ہے ، بلکہ اس لحاظ سے کہ آج اسلام اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی بات ہے ۔

اس وجہ سے ہماری ذمہ داری زیادہ ہو جاتی ہے ، جو چیز اسلا م اور انقلاب کے لئے نقصان دہ ان سے اجتناب کرنا چاہئے ،اور جو چیز اس نظام اور انقلاب کی تقویت کا سبب ہے اس کی رعایت کرنی چاہئے، یہی بصیرت کا معنی ہے ، پہلے بھی بیان کر چکا ہوں«وَ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْري فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنْكا»،اس آیت کریمہ کے ذیل میں ایک معتبر روایت نقل ہے «يَعْنِي بِهِ وَلَايَةَ أَمِيرِالْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام " یعنی امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت خدا کا ذکر ہے ،اور جو بھی حضرت علی علیہ السلام کی ولایت سے منہ موڑے وہ معیشت کے لحاظ سے گرفتاری میں مبتلاء ہو جائے گا ۔

لہذا بصیرت کی بنیاد آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو سمجھنا  ہے ، اگر انسان آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو اچھی طرج سمجھ لیں تو یقیناً اس کے پاس بصیرت ہے ، اور جو شخص یہ بتا تا ہے کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام میں حکومت اسلامی کوئی چیز نہیں ہے اس نے ولایت کو سمجھا ہی نہیں ہے ۔

امام خمینی (رضوان الله تعالی علیه)، نے اپنے ایک بہت ہی اہم تقریر میں غدیر کی حققیت کوبیان کیا ہے فرماتے ہیں: غدیر کی حقیقت صرف یہ نہیں تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمائے کہ میرے بعد میرا جانشین کون ہے ، بلکہ غدیر میں ولایت اور حکومت کا مسئلہ بیان ہوا ہے ۔

امیر المومنین علیہ السلام جامعہ اسلامی کا ولی اور سرپرست کے طور پر تعارف ہوا ہے ، امام خمینی کا یہ فرمان غدیر کی ایک جدید اور گہری تفسیر ہے ،کہ سینکڑوں دلیل سے  یہ فرمان ثابت ہے ، انسان جتنی زیادہ آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو بہتر سمجھیں گے اس کی بصیرت اسی لحاظ سے زیادہ ہو گا ، آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو گہرے انداز میں سمجھنے سے ہی ہم ولایت فقیہ کے مسئلہ کو سمجھ سکتے ہیں ۔

یہی بصیرت ہمیں دشمنوں کے سازشوں سے آگاہ کرتا ہے ، دشمن کی ان سازشوں میں سے ایک عوام کو علماء سے دور اور جدا کرنا ہے ، یہ یقین کرے کہ دشمن اس نظام کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، جو شخص یہ بتا تا ہے کہ اس ملک کا کوئی دشمن نہیں ہے ، کوئی اس نظام کوختم کرنے کے درپے نہیں ہیں ، بلکہ وہ اپنے منافع کو زیادہ کرنا چاہتے ہیں ، ایسے افراد کے پاس بصیرت نہیں ہے ۔

اس نظام کے دشمنان بہت ہی واضح ہیں، بلکہ کبھی کبھار خود اپنی زبان سے بول بھی دیتے ہیں  کہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں،بصیرت صرف نعرہ لگا کر نہیں آتی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ بصیرت کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن بصیرت کے برخلاف کام کرتے ہیں،ہمیں یقین کرنا چاہئے کہ دشمنان اہلبیت اس نظام کو ختم کرنے کے درپے ہیں ،بصیرت یہ ہے کہ انسان اس بات کی طرف متوجہ رہے کہ دشمن کن اہداف کے بارے میں سوچ رہے ہیں ، اور اپنے ان اہداف تک کس طرح پہنچنا چاہتے ہیں ، اقتصادی لحاظ سے ، اخلاقی لحاظ سے ، ثقافتی لحاظ سے ۔۔۔۔۔اس وقت ہم ان سے مقابلہ کرنے کے راستہ کو صحیح طرح پیدا کر سکیں گے ۔

امید ہے کہ ان شہداء کی خون اور ہمارے انقلابی بزرگوں کی کوشش کی برکت سے خداوند ہمیں دین کی حقیقت کو سمجھنے اور مکتب اہل بیت علیہم السلام سے دفاع کرنے اور نظام اور انقلاب کی حمایت کرنے کی  زیادہ سے زیادہ توفیق عنایت فرمائے ۔

خداوند ان حوزات علمیہ کو روز افزون رونق ، علمی ، قوی فرمائے ۔

برچسب ها :