حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بشریت کی جہل اور جہالت کو ختم کرنے والی

19 April 2024

22:57

۲,۳۲۳

خبر کا خلاصہ :
حضرت آیت الله محمدجواد فاضل لنکرانی(دامت برکاته) نے سوگوارہ محبوبہ خدا کے نام سے برگزار محفل میں حضرت زہرا سلام الله علیها کی علمی ، اخلاقی ، الہی اور بے نظیر شخصیت کو بیان کرے پر زور دیا (یکم جمادی الثانی 1438 )
آخرین رویداد ها

بسم الله الرحمن الرحیم الحمدلله رب العالمین و الصلاة و السّلام علی سیدنا و نبینا أبی القاسم محمد و علی آله الطیبین الطاهرین المعصومین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین

حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیها  کی شہادت کے ایام کو تمام دنیا کی ولی  نعمت  حضرت حجت (عج) کی خدمت میں تسلیت عرض کرتا ہوں۔

خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ چند سال سے قم کے شعراء کی کوششوں سے یہ پررونق مجلس اس مرکز میں جو کہ آئمہ اطہار  علیہم السلام کے نام سے مزین ہے برگزار ہو رہی ہے ، یہ بہت اچھا اقدام ہے اور بہت بڑی توفیق ہے کہ اس مجلس کے ذریعہ اس عظیم خاتون کی نا قابل شناخت ہستی سے تقرب پیدا کر سکتے ہیں ، ہم اسی مختصر کام کے ذریعہ اس عظیم ہستی کی معرفت کی ایک کنارے تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔

الحمد للہ آج رات جو اشعار پڑھے گئے بہت اچھے مطالب پر مشتمل  تھے کہ ہماری جان اور روح میں ایک انقلاب پیدا کیا ،میں اس روایت کو امام باقر علیہ السلام سے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ فرماتے ہیں: «لمّا ولدت فاطمة أوحى الله إلى ملك فأنطق به لسان محمد(صلى الله عليه و آله و سلم) فسماها فاطمة» جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا پیدا ہوئی تو خداوند تبارک و تعالی نے ایک فرشتہ کو یہ حکم دیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زبان مبارک کو الہام الہی سے  نوازف اور اس نومولود کے نام کو فاطمہ رکھے۔

اس حدیث کے اس جملہ سے پہلا مطلب جو استفادہ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ فاطمہ سلام الله علیها  کی نام گزاری خدا کی طرف سے الہام سے تھا  اس مطلب میں شعراء کے لئے بہت سارے مطالب پوشیدہ ہے ، خدا کیوں اس مولود کے نام کو خود رکھنا چاہتا ہے ؟ اور اس وجہ سے  اس نومولود کے لئے کیا خصوصیت پیدا ہوتی ہے؟ کیا اس کا معنی اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ «الاسماء تنزل من السماء»اس نومولود کا نام رکھنا اس کے خالق کے لئے ہی سزاوار ہے جو اس کے خلقی اور نوری تمام جوانب سے باخبر ہے۔

یہ خدا وند متعال کی جانب سے حضرت فاطمہ سلام الله علیها  اور رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے صرف ایک خاص شرافت یا احترام اور اکرام نہیں ہے کہ خدا یہ فرمائے کہ میں احترام اور تکریم کے لئے اس فرزند کا نام خود رکھتا ہوں ، ہمارے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو عام طور پر خاندان کے بڑے یا کسی عالم دین سے نام رکھواتے ہیں ، یہ صرف احترام ہے اور کچھ نہیں ہے ، لیکن حضرت زہرا سلام الله علیها  کا نام رکھنا اکرام اور احترام سے بالاتر ہے ۔

یہ نام اس نومولود کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے ہے ، اب دیکھا جائے کہ وہ حقیقت کیا ہے ؟ جب خداوند متعال نے اس مولود کا نام فاطمہ رکھا «ثم قال إنی فطمتک بالعلم و فطمتک من الطمث»فرمایا: میں نے تجھے علم کے ذریعہ ہر قسم کی جہل اور نادانی سے دور کیا ہے ، یعنی یہ نومولود پیدا ہوتے وقت ہی خداوند تبارک و تعالی کی طرف سے علم لدنی کے ساتھ تھے، فاطمہ سلام الله علیها  ایک ایسی ہستی ہے ۔

ایک دن ایک خاتون آپ سلام الله علیها  کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور عرض کیا ، میری ماں مریض ہے اور وہ خود آپ سلام الله علیها  کی خدمت میں نہیں آسکتی تھی لہذا مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تا کہ کچھ فقہی مسائل پوچھ لوں ، اس کے بعد جو بھی سوال وہ پوچھتی تھی حضرت نے اس کا جواب فرماتی،فاطمہ  سلام الله علیها  نے کس مدرسہ یا اسکول میں  علم حاصل کی تھیں، کیا تاریخ میں کوئی ایسی چیز ملتی ہے ؟ خدا نے انہیں تعلیم دی اور فرمایا :«فطمتک بالعلم»  میں نے ہمیشہ کے لئے آپ اور جہل کے درمیان جدائی ڈالا ہے ، ایک اور احتمال یہ ہے کہ اگر فعل «فطم» تفعیل کے باب سے پڑھا جائے (فطّمتک) ،تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ لوگ حضرت فاطمہ سلام الله علیها  سے رابطہ پیدا کر کے جہل اور نادانی سے نجات پا سکتے ہیں ، یعنی«جعلتک قاطعةً لجهل الناس»یہ اور اس طرح کے کچھ دوسرے تعابیر حضرت زہرا سلام الله علیها  کے بارے میں نقل ہوئی ہیں ۔

ہم اگر یہ بتاتے ہیں کہ فاطمیہ کو زندہ کرنا چاہئے ، اگر مراجع عظام تقلید 20 سال سے زیادہ ہے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ فاطمیہ زندہ ہونا چاہئے ، تو یہ صرف اس لئے نہیں ہے کہ ہم صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی  بیٹی  کی یاد کرے، ان حضرت پر جو مصائب ڈھائے گئے ہیں اس پر سب مل بیٹھ کر روئے، نہیں ایسا نہیں ہے!فاطمیہ کو زندہ کرنا ، بشریت کے لئے حضرت کی معرفی کرنے کے لئے ہے، یہ  بیان کرنے کے لئے کہ کیا کیا مصائب اور پریشانیاں ایک ایسی شریف ہستی کے لئے درپیش  کی ہیں !اس لئے ہے کہ ہم سب اپنے نفوس اور جان کو حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیها  پاکیزہ کرے ، حضرت زہرا سلام الله علیها  کے بارے میں جو تعابیر نقل ہوئے ہیں ان کے بارے میں غور کریں ، ایک روایت میں امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: «إنَّ فَاطِمَةَ صِدِّیقَةًٌ شَهِیدَةٌ»، «صِدِّیقَة»، اس سے کیا مراد ہے ؟

مرحوم علامہ مجلسی (رضوان الله تعالی علیه) ، اپنی بے نظیر کتاب مرآۃ العقول میں فرماتا ہے :«صدیقه» ، یعنی«کثیر التصدیق »پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے بار ےمیں ۔

اس سے کیا مراد ہے ؟ہم میں سے اکثر عام طور پر شناخت نہ ہونے کی وجہ سے صدیقہ کو سچا معنی کرتے ہیں ،ولی صدیقہ سے مراد ہے  احکام اور معارف  جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئے تھے سب کو سمجھ گئے اور کسی میں بھی کوئی شک و تردید نہیں نہیں کیا اور سب کے سب کی تائيد کی ۔

ان سب سے اہم مطلب یہ ہے کہ صدیقہ یعنی ایک ایسی ہستی جس کا فعل اورعمل اس کے باتوں کی تصدیق کرے،یعنی جس کی بات اور کام ایک ہو، اگر یہ بتا دیں کہ میں گناہ نہیں کرتا ہوں تو گناہ نہیں کرتا ہے ، اگر کہتی ہےخدا سے ڈرتی ہوں تو ایسی عبادت کرتی ہے کہ پاوں میں ورم آجاتی ہے ، یہاں سے ان کی عصمت کو سمجھ سکتے ہیں ، یہ روایت اہل سنت کی بھی چند کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ عليہ و آلہ وسلم سے نقل ہے کہ آپ فرماتے ہیں : «إن الله یرضی لرضي فاطمة و یغضب لغضب فاطمة».
 ہم  اہل سنت کے بزرگ علماء سے یہ سوال کرتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے کہ خدا کسی انسان کے غضب ناک ہونے سے غضب ناک ہوجاتا ہے؟ اور اس کے خشنودی سے خشنود ہوتا ہے ؟ یہ کیا عصمت  کے علاوہ کسی اور چیز کو بیان کرتی ہے؟ کیا اس فاطمہ سلام الله علیها  سے جو عصمت کی مقام پر فائز ہے وہ اگر یہ بولیں  کہ فدک میرے باپ کا ہے اور انہوں نے مجھے بخشا ہے تو مسجد میں دوسرے لوگوں کے حضور میں اس سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا گواہ کدھر ہے ؟یہ مطلب اہل سنت کی تفسیروں میں آيہ شریفہ «و آت ذا القربی حقّه» کے ذیل میں بیان ہوا ہے ۔

کیسے ان مطالب کو اپنی کتابوں میں دیکھتے ہیں ؟ اور اس کے بعد اس کی توجیہ کرتے ہیں ؟ ہم ایام فاطمیہ کو زندہ کر کے ایک ایسے معصوم کی یاد کو زندہ کرتے ہیں جس کا مقام انبیاء کے مقام کے برابر ہے ، لہذا ہر سال فاطمیہ باشکوہ طریقہ سے ہونا چاہئے ، اگر ہم ایسا کرے تو ہم رشد کر سکیں گے، اگر ہم میں یہ قدرت اور طاقت ہو کہ اپنے نفس کو پاکیزہ کرے تو ہم فاطمہ زہرا سلام الله علیها  کے لئے عزادری کریں اور ہر سال ایسا ہی کرنا چاہئے۔

شعراء اور علم و ادب کے اساتید کو چاہئے کہ ہر سال  شعرفاطمی کے سینکڑوں اشعار کے مجموعے بشریت کے لئے پیش کرے ، اور اس جیسے اجتماع سے  بحمد للہ ایسے کام کی امید بھی ہے ۔

حضرت فاطمہ سلام الله علیها  کے مسجد میں تشریف لانا اور وہ واقعہ جس کے جزئیات کو آپ نے سنا ہے ، جب فاطمہ زہرا سلام الله علیها  اپنے حق کے بارے میں مسجد میں تشریف لائی اور بات کی ، لیکن ان کی بات کو قبول نہیں کیا گیا ، ان سلام الله علیها  سے کہا گیا کہ آپ کا گواہ کہاں ہے ؟

ام ايمن آئی اور خلیفہ اول سے اقرار لیا ، اس نے کہا کہ کیا تم نے سنا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ام ايمن بہشتی عورتوں میں سے ایک ہے ؟ کہا : جی ہاں سنا ہے ، کہا: پس جان لو کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ فدک حضرت زہرا سلام الله علیها  کا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے بھی گواہی دی لیکن کسی نے بھی اسے قبول نہیں کیا ۔

اس وقت حضرت زہرا سلام الله علیها  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبر کے پاس کچھ اشعار پڑھتی ہیں ، ظاہرا یہ اشعار خود آپ سلام الله علیها  کی ہے ، میرے خیال میں اگر کوئی شخص حضرت زہرا سلام الله علیها  کی مصائب کو پڑھنا چاہتا ہے تو انہیں اشعار کو توجہ کے ساتھ پڑھیں  اسی سے حضرت کی مصائب کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے :

قَدْ کانَ بَعْدَکَ اَنْباءٌ وَ هَنْبَثَةٌ *** لَوْ کُنْتَ شاهِدَها لَمْ تَکْثُرِ الْخَطْبُ

اِنّا فَقَدْناکَ فَقْدَ الْاَرْضِ وابِلَها***وَاخْتَلَّ قَوْمُکَ فَاشْهَدَهُمْ وَ لا تَغِبُ

وَ کُلُّ اَهْلٍ لَهُ قُرْبی وَ مَنْزِلَة***عِنْدَ الْاِلهِ عَلَی الاَدْنِین مُقْتَرَبُ

اَبْدَتْ رِجالٌ لَنا نَجْوی صُدُورِهُمْ***لَمَّا مَضَیْتَ وَ حالَتْ دُونَکَ التُّرَبُ

تَجَهَّمَتْنا رِجالٌ وَاسْتُخِفَّ بِنا***اِذْ عِبْتَ عَنّا فَنَحْنُ الْیَوْمُ نُعْتَضَبُ

وَ کُنْتَ نُوراً وَ بَدْراً یُسْتَضاءُ بِهِ***عَلَیْکَ تَنْزِلُ مِنْ ذِی العِزَّةِ الْکُتُبُ

وَ کانَ جِبْریِلُ بالْآیاتِ یُونِسُنا***فَقَدْ فَقَدْتَ وَ کُلُّ الْخَیْرِ مُحْتَجَبُ

فَلَیْتَ قَبْلَکَ کانَ الْمَوْتُ حَلَّ بِنا***اَما اُناسٌ فَفازُوا بِالّدِی طَلَبُوا

اِنَّا رُزِینا بِما لَمْ یُرزَنْ ذُوشُجُنِ***مِنَ الْبَرِیَّةِ لا عَجَمٌ وَ لا عَرَبُ


 آپ کے بعد بہت سے فتنے بر پا ہوئے اور مختلف قسم  کی آوازیں بلند ہوئی، اگر آپ زندہ ہوتے تو یہ سارے اختلاف نہ ہوتے۔

آپ ہمارے درمیان سے کوچ کر گئے اور ہماری حالت اس زمین کی طرح  ہوگئي جس سے مفید بارش  ختم ہوئی ہو، اور آپ کے قوم نے نظم و نسق کو ختم کر دیا ، پس آپ گواہ رہیں اور ان کے کاموں پر نظر رکھیں۔

ہر پیغمبر یا ان بزرگوں کا جس کا خدا کے ہاں قرب اور مقام تھا ان کے اہل خانہ  کا دوسروں کے ہاں احترام اور عزت تھی ۔

لیکن صرف ہمارے ساتھ ایسانہیں ہوا کہ سینہ میں کینہ اور حسد رکھنے والے بعض افراد اپنے اس حسد کو آشکار کیے،آپ جب ہمارے درمیان سے چلے گئے ۔

تو کچھ لوگوں نے ہماری طرف میلی آنکھوں سے دیکھنے لگے، اور جب آپ ہمارے درمیان سے چلے گئے تو ہمیں بہت چھوٹا سمجھنے لگے ، ہم آج ہر لحاظ سے مجبور ہیں ۔

آپ نور تابان تھے کہ اس نور سے سب فائدہ اٹھاتے تھے، آپ ایک ایسی بزرگ ہستی تھے کہ آسمان سے آپ پر کتاب نازل ہوئی۔

اور جبرئيل جب آپ پر آیات کو نازل کرتے تھے تو ہمیشہ ہمارے لئے مونس تھے ، آپ چلے گئے ،جب آپ گئے تو تمام دروازہ ہمارے لئے بند ہو گئے ۔

اے کاش! آپ کے جانے سے پہلے ، موت واقع ہوتی ،آپ چلے گئے اور بعض لوگ اپنے باطل مراد اور مقصود تک پہنچ گئے ۔

آپ کے جانے پر ہم اتنے زیادہ مصیبت زدہ ہوگئے کہ عرب اور عجم  اور پوری دنیا میں کوئی بھی ایسی عظیم  مصیبت میں مبتلاء نہیں ہوئے ہیں "۔

حضرت زہرا سلام الله علیها  نے انہی ابتدائي ایام میں اپنے اس پیغام کو دے دی  کہ جب تک میں زندہ ہوں روتی رہوں گی اور ایسا ہی کرتی رہیں۔

زہرا سلام الله علیها  جان ! ہم بھی آپ سے یہی عرض کرتے ہیں : ہم بھی جب تک زندہ ہیں آپ پر روتے رہیں گے ، ان  آنکھوں سے ہم یہی چاہئيں گے کہ آپ کی مصیبت پر آنسو کے بدلے خون بہائے۔


فسوف نبکیک ما عشنا و ما بقیت*** منا العیون بتهمال لها سکب


جب تک ہماری یہ آنکھیں ہیں، باران کی طرح ہمیشہ آنسو بہائيں  گے۔

خدایا ! حضرت زہرا سلام الله علیها  اور ان کے اولاد طاہرین کو دنیا اور آخرت میں ہمارامددگار قرار دیں۔

یہ  خدمات اور ان چند جملات  کو اپنے درگاہ میں احسن وجہ سے قبول فرما۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته

برچسب ها :

محبوبه خدا فاضل لنکراني گريه صديقه حضرت فاطمه سلام الله علیها حضرت زهرا کی شخصيت شهيدة