جو لوگ عزاداری کو بے بنیاد سمجھتے ہیں ان پر خدا کی عذاب ہے
24 December 2024
05:44
۶,۸۱۸
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
جو لوگ عزاداری کو بے بنیاد سمجھتے ہیں ان پر خدا کی عذاب ہے
آجکل سوشل میڈیا پر عزاداری سے متعلق کچھ شبہات اور اعتراضات کو بیان کرتے ہیں ، ایک اشکال جو قدیم زمانہ سے تھا اور ابھی تک ہے وہ یہ ہےکہ 1400 سال پہلے کچھ افراد شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے ، تو ابھی ان کے لئے عزاداری کرنے کی کیا ضرورت ہے !؟ یا بعض افراد بتاتے ہیں کہ اگر ہمارے لوگ امیر المومنین علیہ السلام کے لئے عزاداری کرتے ہیں ، تو کیوں دوسرے خلفاء کے لئے کیوں عزاداری نہیں کرتے ہیں جو مارے گئے ہیں ، امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری کرنے کا کیا مطلب ہے کہ سالوں سال سے ان کے لئے عزاداری کر رہے ہیں ؟
میں اس جملہ کے بارے میں تاکید کرتا ہوں کہ کربلا میں ایک انسان کامل جو فيض الہی کا واسطہ تھے وہ اپنے اصحاب کے ساتھ شہید ہوئے ، ایسا نہیں ہے کہ ایک عام انسان نے کسی زمانہ میں جھاد کیا ہے اور ہم ابھی ان کے لئے عزاداری کر رہے ہیں، ایک ایسی شخصیت شہید ہوئے ہیں جو ہمارے عقیدہ کے مطابق خداوند تبارک وتعالی کے فیض کا واسطہ تھے ، اور لوگوں پر خدا کی حجت تھے، اگر کوئی صرف اسی جملہ پر توجہ دیں کہ کسی زمانہ میں ہمارے جیسے ایک انسان نے ایک ایسا قیام کر لیا ، صرف اسی جملہ پر غور و فکر کرے، اور عزاداری کے بارے میں جو روایات ہیں ان کو دیکھے ہی نہیں ،پھر بھی وہ اس انسان کے بلند درجات کو جان جائيں گے ، اور سالوں سال تک اس پر گریہ و زاری کریں گے ۔
ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ انسان کامل صرف اپنی زندگی میں واسطہ فیض نہیں ہیں ، بلکہ وہ اس دنیا سے جانے کے بعد بھی واسطہ فیض ہیں ، زیارات کے بارے میں گفتگو میں جن ادلہ کو ہم نے ذکر کیا ہے وہ اسی بنیاد پر قائم ہے، کہ ایک دنیا طلب ، مقام پرست اور ہر لحاظ سے دنیوی زرق و برق کے فرفتہ افراد ایسی ہولناک جنایت کو انجام دئیے ہیں ، یہ مطلب کیا انسان کو نہیں بتاتا ہے کہ یہ ایک ایسی خیانت ہے جو قیامت تک کے بشریت کے ساتھ واقع ہوا ہے ؟ ! کیا یہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ یہ ایک ایسی جنایت ہے جو اس وقت کے لوگوں کے ساتھ ہوا اور تمام زمانوں کے لوگوں کے ساتھ ہواہے ، یعنی یزید نے صرف اپنے زمانہ کے لوگوں پر ظلم و ستم نہیں کیا ہے ، بلکہ ابھی بھی اس ظلم و ستم کے آثار باقی ہے ، لہذا عزاداری اس معنی میں ہے ، کبھی یہاں پر عرب اور عجم کی بات کرتے ہیں ، لیکن ہمارے جوان بہن اور بھائيوں جو تحقیق کرنا چاہتے ہیں ، وہ اس مطلب کی طرف توجہ دیں کہ ہماری عزاداری کا محور یہ ہے ۔
وہ شخص جو کہتا ہے علی ابن ابی طالب علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خلیفہ تھا ، اگر ان کی شہادت پر ہم عزاداری کرتے ہیں ، پس کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دوسرے دو خلیفہ جو مارے گئے ہیں ان کے لئے عزاداری نہیں کرتے ہیں ،انسان ایسی بات سن کر تعجب کرتے ہیں ، امیرالمومنین علیہ السلام کا مقام اور دوسرے انسانوں کا مقام! امیر المومنین علیہ السلام حجت خدا تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصی ، انسان کامل اور برکات خدا کے نازل ہونے کا واسطہ تھے ، کیسے اس انسان نے ایسا قیاس کیا ہے ؟ مخصوصا وہ شخص جو کسی زمانہ میں نہج البلاغہ کے شرح اور تفسیر بولنے کا دعویدار تھا ۔
ہم اپنے اعتقادات کی بنیاد پر بتاتے ہیں کہ ہمارے آئمہ علیہم السلام واسطہ فیض خداوند تبارک و تعالی ہیں ،اگر اس سے ایک مرحلہ نیچے آئيں تو یہ بات مسلم ہے کہ طول تاریخ میں نہ خود ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد ان جیسا کوئی نہیں تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ پوری انسانیت میں ایک شخص ایسا دیکھا دیں جو امیر المومنین علیہ السلام سے سو درجہ نیچے والا کوئی ہو ، یا آئمہ علیہ السلام کے علاوہ ان کے بعد کوئي ایک شخصیت ایسی دیکھا دیں ، ہمارے آئمہ علیہم السلام ایسی ہستیاں ہیں جن کا کوئي نظیر نہیں ہیں ، مسئلہ امامت کےعلاوہ ، ایسی شخصیت ہیں کہ سچائی ، امانت داری، لوگوں سے میل جول میں بشری تمام اچھی صفات ان میں متجلی تھے ، بشریت اگر قیامت تک ان کے عزاء میں روئے تو بھی کم ہے، ان سب کے علاوہ اعتقادات کا مسئلہ بھی ہے ، یہ بتا یا جائے کہ واسطہ فيض خدا ہیں ، ایک امام کو شہید کرنا ایک عام انسان کو مارنے کی طرح نہیں ہے ، لہذا خدا ثار اللہ اور ان کے خون کا منتقم ہوتا ہے ۔
اگر عرب و عجم، گذشتہ اور حال میں غور و فکر کریں تو اس نتیجہ تک پہنچتا ہے کہ ہر سال ہماری عزاداری زیادہ ہونا چاہئے ، کیونکہ بہت بڑا مسئلہ ہے اور ایک ایسی جنایت کا مرتکب ہوا ہے جس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ہے ، روایات میں بھی ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے برابر کوئي بھی واقعہ نہیں ہے ، اس مصیبت جیسا آسمان اور زمین میں کوئي مصیبت نہیں تھی اور نہ آيندہ ہو سکتا ہے ۔
فلسفہ عزاداری کو ان چند جملات میں خلاصہ کر سکتے ہیں :
1۔ عزاداری صرف آنسو اور رونا نہیں ہے ، عزاداری انسان کے تکامل کا سبب ہے ۔
یہ ایک مطلب ہے جس کے بارے میں ہم میں سے اکثر غافل ہیں ، انسان مجلس عزا میں جا کر اپنی روح کو کمال کے درجہ پر لے جاتا ہے ، ایک ایسی تکامل جو خود بخود وجود میں آتی ہے اگرچہ وہ خود اس بارے میں متوجہ بھی نہ ہو ، روایات میں ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:: «يا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّکَ أَنْ تَکُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَي مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَ افْرَحْ لِفَرَحِنَا» ،اگر انسان بہشت میں بلند درجات پر آئمہ علیہم السلام کے ساتھ واقع ہونا چاہتے ہیں تو اسے چاہئے کہ ان کے غم میں غمگین ہو جائے اور ان کے خوشی میں خوش ، یہ انسان کے تکامل کا راستہ ہے ، اور بہشت ایک ظاہری اثر ہے جو ہمیں بتایا جاتا ہے ۔
2۔ عزاداری آئمہ علیہم السلام کے امر کو زندہ کرنا ہے ، اس بارے میں بہت ساری روایات ہیں ، مثال کے طور پر ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام فضیل سے فرماتا ہے : «رَحِمَ اللّهُ مَن اَحْيا أمْرَنا»،عزاداری احیاء امر آئمہ ہے ۔
3۔عزاداری بڑے گناہوں کے بخشش کا سبب ہے ۔
4۔ عزاداری انسان کے لئے باطن میں ایک سکون پیدا کرتا ہے، ظاہر میں آنسو ہے ، لیکن باطن میں چونکہ کچھ حقایق سے متصل ہے تو یہ اسے سکون پیدا کرتا ہے ۔
5۔ یہ مطلب شاید مقررین سے ہم نے کم سنے ہیں ، روایات میں ہے کہ جس شخص کا ایک آنسو گرتا ہے ، امام حسین علیہ السلام اس کی طرف نظر کرتاہے ، اور اس کےلئے خدا سے استغفار طلب کرتا ہے ، نہ صرف خود امام حسین علیہ السلام استغفار کرتا ہے بلکہ اپنے بزرگ آباء سے بھی چاہتا ہے کہ جو شخص ان کے لئے روئے ان کے لئے خدا سے رحمت اور مغفرت طلب کرے ۔
جو لوگ ان عزاداریوں کی مخالفت کرتے ہیں، جو لوگ ان مجالس کو بے اہمیت کرنے کے درپے ہیں ، جو لوگ ان مجالس کو بے بنیاد سمجھتے ہیں ، اور یہ بولتے ہیں کہ یہ چیزیں پتھر کے زمانہ کی چیزیں ہیں ،جو لوگ ان مجالس کے بارے میں ایسے مطالب بیان کرتے ہیں ، ایک روایت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل ہے کہ یہ لوگ خدا کے غضب قرار پاتے ہیں، ہم میں سے کوئی بھی یہ نہ سوچے کہ اگر کوئی شخص باہر ملک میں بیٹھ کر ہماری ان مجالس کے بارے میں اگر کوئی ایسی بات کرتے ہیں اور یہ سوچے کہ اپنے ان باتوں کی وجہ سے شیعوں امام حسین علیہ السلام سے عشق و محبت کم ہو جائے گا ، ہرگز ایسا نہیں ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر سال پوری دنیا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ یہ محبت بڑھ رہی ہے ، اور ان افراد کو جان لینا چاہئے کہ وہ لوگ خدا کے عذاب کا مستحق قرار پائے ہیں ، ہم سے جو ہو سکتا ہے اس بارے میں ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے زمانہ کے لوگ بھی اور قیامت تک بھی ہر آنے والا انسان عزاداری کو زیادہ سے زیادہ کرے ۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : إِنَّ يوْمَ الْحُسَينِ أَقْرَحَ جُفُونَنَا وَ أَسْبَلَ دُمُوعَنَا؛ہمارے سینوں کو زخم کیا ہے ، ہماری آنسوں کو جاری کیا ہے وَ أَذَلَّ عَزِيزَنَا بِأَرْضِ کَرْبٍ وَ بَلَاءٍ وَ أَوْرَثَتْنَا الْکَرْبَ وَ الْبَلَاءَ إِلَى يوْمِ الاِنقِضَاءِ،امام ہشتم حقیقت میں یہ فرمایا رہا ہے کہ ہم قیامت تک عزادار ہیں ، اور قیامت تک ہمارے جد بزرگوار امام حسین علیہ السلام کے لئے آنسو بہائے، جب امام رضا علیہ السلام کہ امام ہے اور ایک انسان کامل ہے ایسے فرمایا رہا ہے ، تو ہم جیسے عام انسان کی کیا بات ہے ! لہذا ہمیں چاہئے کہ ہر سال اپنے عزاداری کو زیادہ کرے ، اگر ہم نے عزاداری نہیں بھی کیا تو آسمان اور زمین ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کا عزادار ہیں ؛ انہی عزاداری کے ذریعہ ہم اپنے آپ کو اس انسان کامل کے نزدیک کر سکتے ہیں۔
آجکل کچھ ایسی باتیں بھی سننے میں آتی ہے کہ بعض کہتے ہیں امام حسین علیہ السلام پر رونا ضروری نہیں ہے بلند آواز کے ساتھ ہو ، اور دوسرے طرف سے بعض کہتے ہیں کہ حضرت پر رونا بلند آواز سے ہونا چاہئے کیونکہ مصیبت بہت بڑی ہے ، اور کبھی یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ عزاداری کے وقت ان فریاد کا کیا مطلب ہے ؟
سب سے پہلا دلیل وہی مطلب ہے کہ بیان ہوا ؛ عاشورا میں جو جنایت ہوئی ، وہ ایسی جنایت ہے کہ نہ اس سے قبل ایسا ہوا اور نہ اس کے بعد ایسا ہوا ہے ، دوسری دلیل یہ ہے کہ روایات میں کچھ عناوین ذکر ہے جو افراد ان پر توجہ کرنا چاہتے ہیں وہ ان روایات کی طرف مراجعہ فرمائيں ، روایات میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے لئے نوحہ ، جزع اور فزع کریں ، عربی میں بہت زیادہ رونے کو صرخہ کہتے ہیں ، جزع اور صیحہ بلند آواز کے معنی میں ہے ، یعنی امام حسین علیہ السلام کے لئے انسان اتنا زیادہ زور سے روئے کہ سارے لوگ مرد ، عورت ، بڑے چھوٹے ، مسلمان غیر مسلمان سب بولیں کہ کیا خبر ہوئی ہے ۔ ہماری روایات میں ہے کہ جب قیامت ہو گی ، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے عرض ہوتا ہے کہ بہشت میں داخل ہو جائيں ، اس وقت آپ فرمائی گی: جب تک میرا حسین علیہ السلام نہیں آئے گا میں بہشت میں داخل نہیں ہوں گی ۔
روایات میں مختلف تعابیر ہے ، بعض روایات
میں ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اپنے
بیٹے کو بغیر کے سر کے دیکھے گی فَتَنْظُرُ اِلَي
الْحُسَينِ(ع) قائِماً لَيسَ عَلَيهِ رَأْس،اپنے بیٹے کی طرف دیکھ رہی ہے اور ان کے بدن پر سر نہیں ہے
، فَتَصْرخُ صَرْخَهً ،
اس وقت آپ سلام اللہ علیہا قیامت
اور محشر میں ایسی فریاد بلند کرے گی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
فرماتے ہیں : میں اور ملائکہ بھی ان کے ساتھ بلند آواز سے روئيں گے ؛فَيغْضَبُ
اللهُ عَزّ وَ جَلَّ لَها عِنْدَ ذلِکَ.
لہذا ان روایات
میں بھی امام حسین علیہ السلام کے لئے بہت بلند آواز سے رونے اور بہت زیادہ رونے
کی طرف اشارہ ہوا ہے ، پس یہ نہ کہا جائے
کہ انجمن والے اور عزاداران کیوں بلند بلند روتے ہیں اور آہستہ رونا چاہئے
، مگر ہمارے مقاتل کی کتابوں میں نہیں ہے کہ جب اہلبیت کے مخدرات نے امام حسین
علیہ السلام کے گھوڑے کو دیکھا تو؛ فَلَمَّا رَأَينَ
النِّسَاءُ جَوَادَکَ مَخْزِياً وَ أَبْصَرْنَ سَرْجَکَ مَلْوِياً بَرَزْنَ مِنَ
الْخُدُورِ لِلشُّعُورِ نَاشِرَاتٍ وَ لِلْخُدُودِ لَاطِمَاتٍ وَ لِلْوُجُوهِ سَافِرَاتٍ
وَ بِالْعَوِيلِ دَاعِيات
؛بلند بلند آواز
سے رونے لگے اور اپنے چہروں پر مار رہے تھے ، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ
تعابیر عزاداری کی کیفیت میں ہے ، البتہ کوئی اس سے یہ نتیجہ نہ لے کہ ہم عزاداری
کو انہیں چیزوں پر اکتفاء کرتے ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ چیزیں بھی عزاداری میں
ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ اچھے اشعار اور امام حسین علیہ السلام کے جو بنیادی
پیغامات تھے وہ بھی موجود ہوں، یہ نہ بولا جائے کہ صرف عاشورا کے بارے میں تقریر کرے اور رونے اور
گریہ کی ضرورت نہیں ہے ، ایسا کرنا صحیح نہیں ہے ۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : یقینا لوگ دنیا کے بندے ہیں اور دین ان کا لققہ زبان ہے جب تک دین سے ان کی زندگی میں فائدہ پہنچ رہا ہو وہ لوگ دیندار ہیں اور جب امتحان کا وقت آتا ہے تو دیندار بہت کم ہوتے ہیں " امام علیہ السلام کے اس فرمان کا کیا معنی ہے ، اور یہ آج کی دنیا کے لئے کیسے قابل تفسیر ہے ؟
واقعہ کربلا اور عاشورا کے بارے میں ایک کام جو انجام پانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اجتہادی نظر سے اسے دیکھنا چاہئے کہ افسوس کی بات ہے یہ کام ابھی تک نہیں ہوا ہے ۔
اجتھادی نظر سے مراد کیا نظر ہے ؟
اجتہادی نظر سے میرا مراد یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ امام علیہ السلام نے اس کلام کو کہاں پر اور کس وقت بیان فرمایا ہے اور کن کس قسم کے لوگوں کے سامنے بیان فرمایا ہے ،اگر ہم اس نظر سے دیکھیں ، تو امام حسین علیہ السلام کے کلمات کو تحلیل کرتے وقت ہمارے لئے ایک الگ معانی پیدا ہوتا ہے ، اما م علیہ السلام کا یہ کلام النّاسَ عَبيدُ الدُّنْيا؛ کس وقت میں تھا ؟ امام علیہ السلام 2 محرم سنہ 61 ہجری بروزجمعرات کو سرزمین کربلا پہنچے ، عبید اللہ بن زیاد کی طرف سے پیغام لے کر کوئی شخص آیا اور کہا : حسین ( علیہ السلام ) کو محاصرہ میں لے لو ، حر نے ان پیغام پر عمل کرتے ہوئے حضرت علیہ السلام کو کہیں جانے نہیں دیا ، وہی حر جو ایک دن پہلے تک تو خود اس کا لشکر امام علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، وہ حر جو جانتا تھا امام حسین علیہ السلام کون ہے ، لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنے حاکم وقت کا تابعدار ہوا ، اس وقت امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا : ہمیں چھوڑ دو ، اس نے کہا مجھے حاکم کی طرف سے حکم ہے کہ آپ کو کہیں جانے نہ دیا جائے ، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا :“النّاسَ عَبيدُ الدُّنْيا” ؛یہ جو عرض ہوا کہ اجتہادی نظر سے واقعہ عاشورا کی طرف دیکھنا چاہئے، یعنی یہ معلوم کرے کہ امام علیہ السلام نے اس کلام کو کس وقت بیان فرمایا ہے ، اگر ہم اس نظر سے نہ دیکھیں تو اس کی صحیح تحلیل نہیں کر سکتے ۔
امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں: اِنَّ النّاسَ عَبيدُ الدُّنْيا؛ لوگ دنیا کے بندے ہیں وَ الدِّينُ لَعْقٌ عَلى اَلْسِنَتِهِمْ ؛ دین ان کا لققہ لسانی ہے ، يحوطونَهُ ما دَرَّتْ مَعائِشُهُمْ فَاِذا مُحِّصوا بِالْبَلاءِ قَلَّ الدَّيانونَ ؛ امام علیہ السلام نے اس فرمان میں چند مہم مطالب کو بیان فرمایا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ دین بعض دیندار انسانوں کا لققہ لسانی ہے ، کون لوگ دین کو اپنا لققہ لسانی قرار دیتے ہیں ؟ اس موضوع میں مختلف ادیان اور اقوام میں فرق ہیں یا اس میں سب شامل ہیں ؟
بہت اچھا سوال ہے ؛ یہ جملہ تمام مسلمانوں سے خطاب ہے ، وہ لوگ جو اسلام کا دعویدار ہیں اور ظاہری لحاظ سے کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، حج پر جاتے ہیں ، اور دین کے ظواہر کی حفاظت کرتے ہیں لیکن امام علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کسی نے دین کی ظاہر کی حفاظت کر لی لیکن دین کی باطن جو کہ ولایت اور حجت خدا کی اتباع اور پیروی کرنا ہے اسے چھوڑ دے ، تو دین اس کا لققہ لسانی ہے ، اگر انسان یہ دیکھ لیں کہ دین خطرہ میں ہے ، لیکن اس کی زندگی میں کوئی تغير اور تبدیلی نہ آئے ، اگر انسان یہ دیکھ لیں کہ آج اسرائيل نے داعش کے نام پر ایک گروہ کو وجود میں لایا ہے ، جو دنیا میں اسلام ستیزی پھیلا رہا ہے ، اور یہ لوگ دین کو ختم کرنے کے درپے ہیں ، شام پر قبضہ کر لیا اور یہ لوگ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے حرم کو لینا چاہتے تھے اور اس کے بعد کربلا کو بھی اپنے تصرف میں لانا چاہتے تھے ، اگر انسان یہ بولے کہ اس سے میرا کیا ربط ہے ، ابھی تک تو ایران پر حملہ نہیں ہوا ہے ، یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ظاہر دین کو لے لیا ہے لیکن باطن دین کو چھوڑ ا ہے ۔
یہ جو عرض ہوا کہ اجتہادی نظر سے دیکھنا چاہئے ، اس وجہ سے ہے کہ اجتہاد کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ مجتہد سب سے پہلے یہ دیکھے کہ یہ کلام کہاں بیان ہوا ہے ، اس کلام میں اور امام حسین علیہ السلام کے دوسرے کلمات کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟
امام علیہ السلام مدینہ سے نکلتے ہوئے یا جب مکہ میں تھا اس وقت شیعہ اکابرین کے نام پر جو خط لکھا تھا، اس میں فرماتا ہے : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا :مَنْ رَاى سُلْطاناً جايراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ؛اگر کسی نے ایک ظالم حاکم کو دیکھا جو حرام کو حلال کر رہاہے ، خدا کے عہد کو توڑ رہا ہے اوررسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی مخالفت کر رہاہے ثمّ لم يغير بقول ولا فعل؛ ان سب کے باوجود اس انسان میں کوئي تغیر اور تبدیلی نہ آئے ، کَانَ حَقِيقاً عَلَى اللَّهِ أَنْ يدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ؛خدا وند متعالی اس شخص کو اسی جگہ پر پھیک دے گا جس جگہ پر اس حاکم کو پھینکا ہے ،امام علیہ السلام کا یہ فرمان ایک قانون ، دستور اور ایک بہت ہی بنیادی بات ہے ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور امام حسین علیہ السلام بھی اسے بیان فرما رہے ہیں ۔
میں چاہوں گا یہ نتیجہ لے لوں کہ اگر حتی کہ ولایت کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا ، متدین کے پہلا شاخصہ اپنے دین کی حفاظت ہے ، آپ کے پاس جب گھر بار ہے اور بیوی بچے ہیں ، تو آپ اس زندگی اور اپنے گھر بار سے محبت کرتے ہیں ، لیکن اپنی پوری وجود کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتے ہو ، اگر انسان کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ دین اس کی دنیا اور آخرت کو تغییر دیتا ہے ، اگر وہ یہ جان لیں کہ یہ دین اس کی نسل میں تبدیلی لاتا ہے ، تو وہ آرام سے نہیں بیٹھ سکتا ، دنیا کے ایک کونہ میں میانمار کے مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں ، کم سے کم اپنے اندر ہی غمگین ہونا چاہئے ، اور یہ بولے کہ خدایا مجھ سے کیا ہو سکتا ہے ، جو مجھ سے ہو سکتا ہے اسے میرے ذہن میں لے آو ، پس دین کا لققہ لسانی ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان دین کو اپنے کام کے لئے ظاہری کے طور پر استعمال کرے اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کا ہدف اس کے اندر رسوخ نہیں کیا ہے اور دین اس میں نفوذ نہیں ہوا ہے ۔
شہید حججی کا واقعہ بہت ہی عجیب ہے ، جو شخص اپنے ماں باپ کو مشہد لے جائے ، اور امام رضا علیہ السلام سے متوسل ہو جائے ، اور ان تمام مراحل کو طی کرے تا کہ اس مرتبہ پر پہنچ جائے ، معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لئے سب سے اصلی چیز دین تھا نہ کہ دنیاوی زندگی ؛ دنیا طلب لوگ اگرچہ ظاہری لحاظ سے ، نماز پڑھتا ہے ، روزہ رکھتا ہے ، لیکن ان کا اصلی ہدف دین نہیں ہے ، ہمارے لئے اصلی ہدف دین ہونا چاہئے ، امام حسین علیہ السلام اس جملہ میں فرماتے ہیں : یہ لوگ دین کو وہاں تک قبول کرتے ہیں جہاں تک ان کی زندگی چلتا رہے ، لیکن جب امتحان کا وقت آپہنچتا ہے ،فَاِذا مُحِّصوا بِالْبَلاءِ قَلَّ الدَّيانونَ؛ دیندار بہت کم ہوتے ہیں ، اور ایک ہاتھ کے انگلیوں کے برابر یا اس سے بھی کم ہوتے ہیں۔\
اس وقت دنیا میں وہ لوگ جو اپنے آپ کو دیندار بتاتے ہیں ان کی ذات میں کیا تبدیلی واقع ہوتے ہیں کہ دین ان کا لققہ لسانی ہوتا ہے ؟
میں شفقنا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ بہت اچھے سوالات بیان کيے میں بھی اپنی بضاعت کے مطابق جواب دوں گا ۔
جب انسان پر امتحان ہوتا ہے اس وقت وہ اپنے آپ کو پہچنواتا ہے ، جب کہا جائے کہ خدا نے فرمایا ہے پردہ کرنا چاہئے ، کہتے ہیں : مجھے سب کچھ قبول ہے لیکن پردہ واجب ہونا قبول نہیں ہے ، اس صورت میں وہ اس آیت کریمہ کا مصداق ہے : نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ؛ ایک اور تعبیر کے مطابق لقلقہ لسانی کے معیار اور ملاک میں سے ایک یہ ہے کہ دین کے بعض چیزیں مجھے پسند ہو اور اسے قبول کر لے ، دین یا خدا کا حکم ہے کہ جھوٹ مت بولو ، چوری مت کرو ، بولے یہ ٹھیک ہے ، لیکن جہاں پر میرے سلیقہ کے برخلا ف ہو ، اسے قبول نہ کرے ، حقیقی دیندار وہ جو یہ بولے ؛ جو کچھ قرآن اور سنت میں آئے ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ لے آیا ہے ان سب پر ایمان ہے ، یہ مطلب ایک بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم مسلمان اس بات کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں ، حتی کہ مسیحیت اور یہودیت بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں ، ہمارے اعتقادات کےمطابق ، مومن وہ ہے جو ان سب چیزوں پر ایمان لے آئے جنہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لے آئے ہیں ، اور ان سب پر بھی ایمان ہو جنہیں گذشتہ انبياء لے آئے ہیں ، یعنی میں اس وقت ایک حقیقی مومن ہوں جب جو کچھ عیسی میں حقیقی تورات کے ذریعہ لے آئے ہیں اور موسی نے اصلی انجیل میں لے آئے ہیں ان سب پر ایمان ہو ، یہ بات قرآن کریم کی متعدد آیات میں ذکر ہے ، یعنی ہم یہودی اور مسیحی سے کہتے ہیں کہ ہم اس وقت مسلمان ہیں جب ان سب پر اعتقاد ہو اور انہیں قبول کرتے ہوں جنہیں تمہارے پیغمبر لے آئے ہیں ، لیکن نہ ان چیزوں پر جنہیں تحریف کیا ہے ، پس یہ بھی ایک اچھا ملا ک اور معیار ہے ، اگر کسی کو یہ دیکھنا ہو کہ کون لقلقہ زبانی کرتا ہے تو اسے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ اس کے باطنی کیفیت کیسی ہے ، جو شخص یہ بتاتا ہے کہ مجھے تمام اسلام قبول ہے لیکن خمس ، جہاد اور فلان حکم قبول نہیں ہے یہ الدِّينُ لَعْقٌ عَلى اَلْسِنَتِهِمْ ہے ۔
جن لوگوں کا دین ان کا لقلقہ زبان ہو ، وہ معاشرہ کے ریاکار افراد ہیں ، یعنی اگر ریاکار افراد کو دیکھنا چاہئے تو ان افراد کی طرف دیکھنا چاہئے ، جن کے پاس دین نہیں ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی دین نہیں ہے ، ہمارا ظاہر اور باطن سب کچھ یہی ہے جو نظر دیکھ رہے ہو، لیکن وہ انسان جس کا دین لقلقہ زبان ہو وہ لوگوں کے سامنے کچھ کام انجام دیتا ہے اور جب خلوت میں ہو تو کچھ اور انجام دیتا ہے ، لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو بہت زیادہ متقی اور پرہیزگار دیکھتا ہے ، لیکن جب تنہا ہو تو اربوں میں کرپشن کر جاتا ہے ، لوگوں کے سامنے اَللّهُمَّ عَجِّل لِوَليکَ الفَرَج ،پڑھتا ہے ، لیکن باطن میں امام زمان علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا ہے اسے قبول نہیں کرتے ، امام زمان (عج) نے فرمایاہے کہ عصر غیبت میں مراجع اور فقہاء کی طرف رجوع کریں وہ ہمارے نائب ہیں ، لیکن اس طرح کے لوگ کہتے ہیں ہمیں مراجع اور فقہاء قبول نہیں ہے۔ یہ سب ریاکاری ہے ۔
عصر غیبت میں آگاہ ولی فقیہ کے پیچھے ہونا چاہئے کہ الحمد للہ آج ہمارے اس نظام میں انقلاب کی برکت سے ہم اس نعمت سے مستفیض ہیں ہمیں خود احساس نہیں ہے کہ یہ کتنی عظیم نعمت ہے اور ہم اس کی قدر و قیمت کو نہیں جانتے ۔
اگر یہ بتایا جائے کہ امام زمان (عج) نے فرمایا ہے کہ زمان غیبت میں فقہاء اور ولی فقیہ کی طرف مراجعہ کریں ، تو ہم بھی کہتے ہیں کہ دل و جان سے ہمیں یہ قبول ہے ، یہ دین واقعی ہے ،ہمارے معاشرے میں انقلاب سے پہلے اور بعد میں اور ابھی بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو مرجعیت اور فقہاء سے دشمنی کرتے ہیں ، ممکن ہے کہ اتنے زیادہ احادیث اور آیات قرآن کریم پڑھ لیں اور امام زمان علیہ السلام کے بارے میں بہت ہی خوبصورت تقریر کریں کہ انسان جذبہ میں آجائے ، لیکن اس کا کیا فائدہ جب ہم ان سب کو بتائيں لیکن اسی ایک بات کو قبول نہ کرے تو کچھ فائدہ نہیں ہے ، یہی ریاکاری ہے ، آج ہمارے معاشرہ میں کیوں جھوٹ بولنا عام ہے ؟ اس وجہ سے کہ دین لقلقہ زبانی ہے ، کیوں ایک افسر اپنے آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ لوگوں کے حقوق کو پایمال کرے ، اس وجہ سے کہ دین لقلقہ زبانی ہے ، جب دین لقلقہ زبانی ہو جائے ، اس وقت دین کی تمام ارزش و قیمت ختم ہو جاتی ہے ، فرق نہیں ہے کہ وہ افسر یا بڑا عہددار شخص عالم ہو یا غیر عالم ، یہ کسی ایک خاص طبقہ سے مخصوص نہیں ہے ۔
دین کا لقلقہ زبانی ہونے کے آثار میں سے ایک ، بدعت وجود میں لانا ہے ، یعنی اگر کسی شخص کے وجود میں حقیقی اور واقعی دین رسوخ نہ کر چکا ہو ، ممکن ہے وہ بدعت ایجاد کرے ، میں پہلے بھی بیان کر چکا ہو اور ابھی یہاں پر بھی عرض کرتا ہوں کہ اگر ہم نے یہ بولا کہ اسلام صرف ایک رحمت والا دین ہے ، اگر ہمارے جوانوں نے گناہ انجام دیا تو خداوند متعال بھی بہت زیادہ رحمت کرنے والاہے ، اس طرح سے جوانوں کے سامنے تقریر کرے کہ خداوند متعال کے پاس جہنم اور عذاب نامی کوئی چیز ہے ہی نہیں ہے ، یہ بھی ایک قسم کی بدعت ہے ، او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ دین اس کا لقلقہ زبانی ہے ، قرآن کریم میں فرماتا ہے : يعَذِّبُ مَنْ يشَاءُ وَيغْفِرُ لِمَنْ يشَاءُمیری رحمت بہت وسیع اور میرا عذاب بہت زیادہ دردناک ہے ، ان کو ایک ساتھ بیان کریں ؛ لہذا ریاکاری سبب ہوتا ہے کہ انسانی اور دینی اقدار پائمال ہو جائے ، میں ایک طلبہ ہوتے ہوئے دین میرا لقلقہ زبان ہو ، تو میں اپنے تقاریر اور اپنے رفتار اور کردار میں آہستہ آہستہ دینی اور انسانی اقدار کو نقصان پہنچاوں گا ۔
کہتے ہیں کہ کیوں آجکل مسلمان معاشرہ میں بہت زیادہ خرابی ہے ، اس کی علت یہ ہے کہ دین لقلقہ زبانی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے میڈیا نے دین کے تمام پہلووں کو بیان نہیں کیا ہے ، اور بدعت کو روکتے نہیں ہیں ، جن لوگوں کے ہاتھوں میں ابھی سوشل میڈیا ہے یا جو حکومتی میڈیا پر حاکم ہیں ان کو چاہئے کہ جب معاشرہ میں بدعت ایجاد ہو رہے ہیں ان کو روک لیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان بدعتوں کو روکتے نہیں ہیں ،ہمارے ملک میں ان آخری چند سالوں میں مہدویت کے دعویدار کتنے پیدا ہوئے ؟ کتنے جعلی ادیان وجود میں آئے ، جعلی اور جھوٹے معرفت اور معنویت وجود میں آئے ہیں ، البتہ قومی میڈیا سے یہ چیزین بیان ہوئی ہیں ، لیکن اس بارے میں بہت زیادہ کمی بھی محسوس کرتے ہیں ، ان کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔
میری نظرمیں امام حسین علیہ السلام کے اس فرمان کو ہر دیندار اپنے زندگی میں عملی بنائے ، اور محرم و صفر میں مقرر حضرات لوگوں کو بتا دیں کہ ان جملات کو اپنے عملی زندگی میں لے جائے ، جیسے یہ جملہ: اِنَّ النّاسَ عَبيدُ الدُّنْيا؛لوگ دنیا کے غلام ہیں ، حر ایک دن پہلے تو امام علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا ، لیکن آج چونکہ اس کا حاکم کہہ رہا ہے کہ امام علیہ السلام کو روک لو ، تو اس کے بعد یہ نہیں دیکھتا ہے کہ خدا راضی ہے یا نہیں ہے ، دنیا کا بندہ ہو جاتا ہے اور دین اس کا لقلقہ زبانی ہوتا ہے ، دین انسان کو آزاد کرتا ہے ، دین انسان کو صرف خدا کا بندہ بنا دیتا ہے ، لیکن اگر یہ دین صرف ظاہری ہو صرف شکل و صورت باقی رہ جائے اور دین کی باطن کو جو کہ ولایت ہے اسے دین سے جدا کرے ، اس کے بعد دین لقلقہ زبانی ہوتا ہے ، اس کے بعد امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امتحان کے وقت لوگ بہت ہی کم رہ جاتے ہیں ۔
ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے وقت ہمارے لوگوں نے امتحان میں بہت اچھا کامیاب ہوئے ، لیکن میری نظر میں مدافع حرم کے شہداء ، دفاع مقدس کے شہداء سے زیادہ کامیاب ہیں ، اب جب امتحان کا وقت آپہنچتا ہے تو دیکھ لینا چاہئے کہ میدان میں کیسے اترتے ہیں ۔
دین کا لقلقہ زبانی ہونے سے اس کا معاشرہ میں کیا اثرات ہوتے ہیں ، اور اس سے نکل جانے کا راستہ کیا ہے ؟
دین لقلقہ زبانی ہونے کا اثر یہ ہے کہ معاشرہ میں ریا، فساد اور بدعت وجود میں آتے ہیں ، جس کے بعد تمام اقدار ختم ہو جاتی ہیں ، اگر دین لقلقہ زبانی ہو جائے ، اسی ظاہری دین کے پردہ میں شیطان جو کچھ چاہتا ہے اسے انجام دیتا ہے ، اگر جس کے پاس دین نہ ہو اور وہ اپنے غلط فکر کے ذریعہ کچھ کام کرنا چاہئے لیکن اگر کوئی دین کے پردہ میں غلط کام کرنا چاہئے تو وہ بہت زیادہ دھوکہ دے سکتا ہے اور وہ زیادہ بشریت اور معاشرہ کے لئے نقصان پہنچا سکتا ہے ، لہذا روایات میں ہے کہ اگر کوئی عالم فاسد ہو جائے ، وہ ایک دنیا کو فاسد کرا دیتا ہے ، بدعتوں کو ایجاد کرتا ہے اور اچھے کاموں کے جگہ پر برے کام لے لیتا ہے ۔
دین لقلقہ زبان نہ ہونے اور دین کو اپنے فائدہ کے لئے وسیلہ کے طور پر استعمال نہ ہونے دینے کےلئے علماء کی کیا ذمہ داری ہے ؟
آیا آپ کی نظر میں کوئی خاص افراد یا ادارہ اس کام کو انجام دے رہے کہ دین لقلقہ زبانی ہو جائے ، یا نہیں بلکہ کچھ افراد اپنے شخصی فائدہ کےلئے دین کو استعمال کرتے ہیں اور اسے لقلقہ زبانی کے طور پر اپناتے ہیں ؟
ایک مطلب یہ ہے کہ ہمیں چاہئے کہ کبھی بھی دین کو اپنے فائدہ کے لئے وسیلہ کے طور پر استعمال نہ کریں ، ہمارے زمانہ میں افسوس کی بات ہے کہ مختلف مناسبتوں میں ، دین کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، امام خمینی (رہ) نے ہم ایران کے لوگوں کے لئے دین کو ایک وظیفہ شناس بنانے کے عنوان سے قرار دیا ہے ، یعنی اگر لوگ آکر طاغوت اور ظالم حکومت کے سامنے کھڑے ہو جائے ، اس وقت لوگوں سے پوچھیں کہ کیوں قیام کرتے ہو؟ تو کہتے ہیں کہ ہمارے دین نے ہمیں یہ حکم دیا ہے ، حقیقت میں امام خمینی (رہ) نے لوگوں کو ذمہ دار بنایا ہے ، ان کے اندر ذمہ دار ہونے کا احساس دلایا ہے ، جس کی وجہ سے انقلاب کامیاب ہوا ، لیکن آج ایک ذمہ دار شخص دین کو اپنی دنیا کے لئے وسیلہ قرار دیں ، کوئی ملک کا صدر بننا چاہتا ہے اور وہ اپنے کام کےلئے دین اور ظواہر دین سے استفادہ کرے ، اس صورت میں دین لقلقہ زبانی ہے ، یعنی جب دین لقلقہ زبانی ہو جائے ، یہ دین کو فقط ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے ، وہ دین اب ایک وظیفہ ساز دین نہیں ہے ، وہ دین انسان کو رشد و نمو کرنے والا دین نہیں ہے ،ایک ایسا دین ہے باقی اسباب قدرت کی طرح ایک قدرت ہے اور انسان اسے اپنی قدرت اور منصب کی حفاظت کے لئے استفادہ کرتے ہیں ، ہمارے ذمہ داران ، علماء ، حوزات علمیہ ، دانشمندان اور دانشوران کو چاہئے کہ ہمیشہ دین کی حقیقت کو معاشرہ میں پہنچائے ، اگر ہم نے معاشرہ میں دین کی حقیقت کو پہنچا دیا اس کے بعد سیاست اور اقتصاد میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گا ، وہ حکومتی ذمہ دار شخص جو اربوں پیسہ کرپشن کرتے ہیں اور ملک سے باہر فرار کر جاتا ہے ، اس کے وجود میں ہی دین نہیں تھا ، لیکن دین کی ظاہر کو دوسرے بہت ساروں سے بہتر رکھتا تھا ۔
میں چند دن پہلے طلاب اور فضلاء کے لئے تقریر کر رہاتھا وہاں میں نے بتا دیا کہ علماء کرام ، لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ ہماری زبان ، زبان دین ہے ، اگر لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ میں کسی ایک پارٹی کے حق میں یا اس کو کمزور کرنے کے لئے بات کرتا ہوں ، اس کے بعد لوگ پھر میری زبان کو دین کا زبان نہیں سمجھيں گے ، کیا دین یہ بتاتا ہے کہ اگر کسی کے پاس سیاست نہیں ہے تو اس کے پاس دین نہیں ہے ، کہیں پر بھی ہمارا دین ایسی بات نہیں کرتا ۔
میں بہت تاکید کے ساتھ یہ بات بتا رہا ہوں کہ جو شخص سیاسی کاموں میں نہیں آیا ہے ، اس نے دین کامل کو درک ہی نہیں کیا ہے ، وہ جامع دین جس کے لئے امام حسین علیہ السلام شہيد ہوئے اسے درک نہیں کیا ہے ، میں اس بات کو قبول کرتا ہوں ، لیکن ایسا شخص بھی ہے جس میں سیاسی مسائل کی گنجائش نہیں ہوتے ہیں ، یہ شخص نماز پڑھ لیتا ہے ، روزہ رکھ لیتا ہے ، اور جہاں تک اس کا عقل قبول کرے ولایت کو بھی قبول کر لیتا ہے ، لیکن سیاسی مسائل کو وہ نہیں سمجھ سکتا ، تو میں کیا اسے بے دین بولوں؟ یہ بہت ہی غلط بات ہے ، بلکہ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کادین کامل نہیں ہے ، دین کامل سیاست کے ساتھ ہوتا ہے ۔
مجھے تعجب ہوتا ہے ان افراد پر جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ، اور وہ خود اپنے آپ کو مخاطبین کو جاننے والا بھی سمجھتا ہے ، لوگوں کو بتا دینا چاہئے کہ وہ سیاست جو ہمارے دین کے ساتھ ہے ، وہ یہ سیاست ہے جو دینی بنیاد پر قائم ہو ،نہ سیاست جسے ہم آج اقتضای زمان سے سمجھتے ہیں ؛ لوگ سیاست سے قدرت طلب ہونے ، اور جنگ و جدال کو سمجھتے ہیں ، اس کلمہ کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں کو آشنا کرنا چاہئے ، لہذا آج علماء کی ذمہ داری ہے کہ دین کو جس طرح وہ خود سمجھ لیا ہے ایک کلمہ کے کم یا زیادہ کے لوگوں تک پہنچا دیں ، خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا : اگر میرے دین سے ایک کلمہ کم یا زیادہ ہوا تو میں تمہارے گردن پر ماروں گا ، لہذا ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ دین سے کچھ کم یا زیادہ کرے ، بلکہ دین جو کچھ ہے اسے دلیل کے ساتھ لوگوں کے بیان کرنا چاہئے ۔
اربعین کے ایام نزدیک آرہے ہیں ، چند سالوں سے نجف سے کربلا تک بہت ہی عظیم پیدل چلنے کا سلسلے شروع ہوا ہے ، اور یہ دنیا میں شیعہ کی عظمت اور اقتدار کا سبب بنا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے ، دنیا میں کہاں دو کڑوڑ افراد جمع ہوتے ہیں ، سب کے سب خلوص کے ساتھ، انگیزہ اور محبت کے ساتھ ، میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو بھی پیدل کربلا چلا جاتا ہے وہ امام حسین علیہ السلام کو دیکھ لیتا ہے ، اسی طرح یہ اعتقاد بھی ہے کہ امام حسین علیہ السلام بھی اسے دیکھتا ہے ۔
اس کے لئے کتنے اجر و ثواب اور دنیا میں اس کے آثار ہیں ، لیکن یہ جو کہا جاتا ہےکہ یہ ظہور کے نشانیوں میں سے ایک ہے ، یہ بات کہاں سے آئی ہے ؟!کیوں اس چیز کو اضافہ کرتے ہیں ، اور جس کے بارےمیں ہمیں کچھ علم بھی نہیں ہے ، ظہور کے بارے میں لا يعْلَمُ إِلَّا اللَّهُ حتی خود امام زمان بھی ظہور کے وقت کو نہیں جانتے ہیں ، روایات میں اسے قیامت سے تشبیہ دی گئی ہے ، کچھ علوم ایسے ہیں جنہیں خدا کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا ہے ؛ قیامت کب ہو گی ، خدا کے علاوہ کوئی بھی اسے نہیں جانتا حتی پیغمبران الہی اور آل پیغمبر بھی نہیں جانتے ہیں ، ظہور کب ہو گا خدا کے علاوہ کوئی بھی اسے نہیں جانتا ہے ، یہ مطالب ہماری کتابوں میں موجود ہیں اور ہمارے مسلم مسائل میں سے ہیں ۔
علماء ، طلاب ،دانشمندوں اور اساتید کو چاہئے کہ جو چیز ہماری دینی کتابوں میں موجود ہیں انہیں بیان کرے ، کسی کو اس میں کم یا زیادہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ، اگر میں دین کو بیان کرنے میں کم یا زیادہ کرے تو دین لوگوں کا لقلقہ زبانی ہو گا ، یعنی قیامت کے دن لوگ ہمارے سامنے کھڑے ہونگے اور یہ کہیں گے کہ تم نے ہمیں دین اسطرح سیکھا تھا ، تم نے کہا تھا دو دن بعد یا ایک سال بعد امام زمان ظہور کرے گا ، اور ظہور نہیں ہوا تو ہم دین سے بیزار ہوئے ، اس بارے میں ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور یہ تمام علماء اور دانشوران کی ذمہ داری ہے ۔
واقعہ کربلا میں بہت سارے جگہوں پر آزادی اور اختیار کی بات آتی ہے ، ایک جگہ پر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :"میں نے تم سب کے گردنوں سے بیعت کو واپس لے لیا، جو بھی جس راستہ سے آئے ہیں اسی سے واپس چلے جاو" حضرت امام حسین علیہ السلام کی نظر میں انسان کی آزادی اور اختیار کی کیا حیثت تھی ، کیوں امام حسین علیہ السلام نے انسان کی انسانیت اور ان کی حق اختیار کو اتنے زیادہ اہمیت دی ہیں؟
واقعہ عاشورا کے بہت ہی دلچسپ حالات میں سے ایک یہ چند مطالب ہیں جسے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ہے ، یہاں بھی اسی بنیاد سے دیکھنا چاہئے جو بیان ہوا کہ اجتھادی نظر سے واقعہ عاشورا کی طرف دیکھنا چاہئے ، یہ دیکھا جانا چاہئے کہ امام حسین علیہ السلام نے ان کلمات کو کس وقت فرمایا ہے ، آپ علیہ السلام نے مدینہ ، مکہ اور ان خطوط میں جسے آپ علیہ السلام نے کوفہ کے لوگوں کو لکھا تھا ، اس میں فرماتے ہیں : مَنْ رَأی سُلْطاناً جايراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ؛ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، اور امام حسین علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرما رہے ہیں کہ اگر کسی نے ایسے ظالم حاکم کو دیکھا اور اس سے مقابلہ نہ کرے ، تو قیامت میں یہ شخص اسی جگہ پر ہو گا جس جگہ پر وہ حاکم ہو گا ، یا جب امام علیہ السلام نے کچھ لوگوں سے نصرت طلب کر لی کہ میرے مدد کو آئے ، اور انہوں نے معذرت کر لی اور کچھ بہانہ بنا کر نہ آئے ، اس وقت آپ علیہ السلام نے فرمایا :پس تم لوگ اتنے دور چلے جاو کہ میری آواز تمہاری کانوں تک نہ پہنچے ، اگر کسی نے بھی میری آواز کو سن لیا اور میری مدد کو نہ آئے ، تو خدا وند متعال اس کے ساتھ کیا کرے گا ، لیکن کیسے امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے یہ فرمایا کہ یہ لوگ میرے خون کے درپے ہیں ، اگر یہ مجھے قتل کر لے تو اس کے بعد تم سے کوئی کام نہیں ہے ، ابھی رات کا وقت ہے ، ہر کوئی اپنے دوست کے ہاتھ کو تھام لو اور یہاں سے نکل جاو، اور اس رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاو۔
جب ہم کہتے کہ اجتھادی بینش اور نظر سے دیکھنا چاہئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ معلوم کرے کہ امام علیہ السلام نے ان جملات کو کس وقت بیان فرمایا ہے ،یہاں پر امام علیہ السلام اپنے اصحاب کو چلے جانے کی بات ان جملات کے بعد فرمایا ہے :اني لَا أَعْلَمُ أَصْحَابًا أَوْفَي وَلَا خَيرًا مِنْ أَصْحَابِي، وَلَاأَهْلَ بَيتٍ أَبَرَّ وَلَا أَوْصَلَ مِنْ أَهْلِ بَيتِي؛یعنی درحقیت امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب اور اہل بیت علیہم السلام کی ایک تعریف اور کامل تائيد فرماتا ہے ، اور فرماتا ہے کہ تم نے اپنا امتحان دے دیا ہے جَزَاکمُ اللَهُ عَنِّي خَيرَ اس کے بعد فرماتا ہے : أَلَا وَإنِّي قَدْ أَذِنْتُ لَکمْ، فَانْطَلِقُوا جَمِيعًا فِي حِلٍّ؛ لَيسَ عَلَيکمْ مِنِّي ذِمَامٌ. هَذَا اللَيلُ قَدْ غَشِيکمْ فَاتَّخِذُوهُ جَمَلًا؛ اس بارے میں نقل مختلف ہیں ۔