سب سے زیادہ صحیح نظام ، نظام ولایت فقیہ ہے

20 April 2024

11:14

۲,۰۰۲

خبر کا خلاصہ :
حضرت آيت الله حاج شيخ محمدجواد فاضل لنكراني(دامت بركاته)نے اصول کے درس خارج کے آخر میں ان آخری پرتشدد تظاہرات کے بارے میں کچھ اہم بیانات بیان فرمائے (96/10/13)
آخرین رویداد ها

بسم الله الرّحمن الرّحيم

الحمدلله رب العالمين و صلى الله على سيدنا محمد و آله الطاهرين

قال علي(عليه السلام:«ثَلاثٌ‏ مَنْ‏ حَافَظَ عَلَيْهَا سَعِدَ إِذَا ظَهَرَتْ عَلَيْكَ نِعْمَةٌ فَاحْمَدِ اللهَ وَ إِذَا أَبْطَأَ عَنْكَ الرِّزْقُ فَاسْتَغْفِرِ اللهَ وَ إِذَا أَصَابَتْكَ شِدَّةٌ فَأَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِاللَّهِ».

ملک میں ان آخری چند دنوں میں جو اہم حوادث پیش آئے اس کے بارے میں کچھ مطالب عرض کرنا چاہتا ہوں ، حقیقت ولایت فقیہ اور حکومت اسلامی ، حکومت اہل بیت علیہم السلام ہے ، البتہ ایک نیچلے سطح کی ۔

یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ عصر حاضر میں خدا نے ملت ایران  اور حوزات علمیہ اور شیعیان اور مسلمانان جہان کو نصیب فرمایاہے،اور امیر المومنین علیہ السلام کی روایت کے مطابق ہم سب کو اس بڑی نعمت کی قدر شناس ہونا چاہئے ۔

البتہ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ حکومت صرف مسلمانوں کے لئے نعمت ہے ، نہیں ! حکومت اسلامی تمام لوگوں اور ہر مذہب کے پیراواوں کے لئے  نعمت ہے ، ہمارے دینی قوانین اور ضوابط کے مطابق تمام اقلیتی افراد اس حکومت کے زیرسایہ احترام کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں ، اور اپنی عادی اور متعارف زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔

اس لحاظ سے حکومت اسلامی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ خدا نے ہمارے لوگوں کو عنایت فرمایا ہے ، اس بات کی اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب ہم انقلاب سے پہلے کی حالت کا جائزہ لے لیں  کہ اس وقت کیا تھا ؟ انقلاب سے پہلے صرف اسلام کا ایک نام تھا اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا ! اور آہستہ آہستہ اسی نام کو بھی ختم کر رہے تھے ۔

لوگ کہتے ہیں کہ ابھی بھی معاشرہ میں اخلاقی اور اقتصادی مشکلات بہت زیادہ ہیں ، صحیح بات ہے لیکن اس پر بھی توجہ دیں کہ اگر وہ طاغوتی حکومت  جو استکبار جہانی کے زیر سلطہ میں ہوتے تو ابھی کیا حالت ہوتی ؟ یقینا اگر وہی حالت باقی ہوتے تو آج  اس ملک میں نہ دینداری کا کوئی نام و نشان  ہوتا اور نہ  قومی وسائل کہ وہ بھی پورے کا پورا غیر ملکی والے لوٹ رہے ہوتے ، ہمیں چاہئے کہ انقلاب سے پہلے کی حالات کا ملاحظہ کریں تا کہ معلوم ہو جائے کہ اس انقلاب سے کیا کیا فائدے حاصل ہوئے ہیں ۔

جب سے انقلاب اسلامی آیا ہے اسرائیل جو کہ ایک اسلامی دنیا  اور بشریت کے لئے کینسر ہے زمین پر گر پڑا ہے ، آپ یہ تصور کریں کہ اگر انقلاب اسلامی نہ  ہوتے تو آج اسرائیل کس حد تک جا چکا ہوتا ؟ کیا اس وقت ہمارے لئے مکہ ، مدینہ ، عراق کے مقدس مقامات اور جہان اسلام باقی ہوتا ؟ غیر ممکن ہے ۔

ایک طلبہ ہونے کے ناطے میرا تجزیہ وتحلیل یہ ہے کہ اگر انقلاب اسلامی نہ ہوتے تو اسرائیل بہت ہی طاقتور ہوتا جاتا ، اس کے بعد جہان  اسلام کے نام سے کوئی چيز باقی نہ رہتی ، صرف ایران یا شیعہ محو ہونے کی بات نہیں ہے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اسلامی ممالک کے حکام یا اس مطلب کو سمجھنے سے قاصر ہے یا اپنے اپنے دنیا طلبی میں مشغول ہیں اور اپنے منافع کو اسرائیل سے رابطہ رکھنے میں سمجھتے ہیں ۔

اگر انقلاب اسلامی نہ ہوتے تو آج آمریکا کی قدرت و طاقت ایک سپر طاقت کے عنوان سے اس کے سو برابر ہوتے ، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ یمن جیسے ملک میں آمریکا اور مغربی ممالک اپنے تمام پر دفاعی ساز و سامان کو سعودی عرب کے لئے بھیج دیتے ہیں اس کے باوجود عاجز ہیں ، چند سال پہلے شام کے بارے میں بہت سارے سیاستمدار یہ کہتے تھے کہ آمریکا چند دنوں میں شام کو ختم کر لے گا ، ایران وہاں پر کیا کر سکتا ہے ؟ لیکن خدا کے لطف و کرم اور مدافع حرم ان جوانوں کے اخلاص کی وجہ سے آج شام آمریکا اور اسرائيل کے چنگال سے نکل چکا ہے ، اسی طرح عراق بھی محفوظ ہو گیا ، یہ سب خدا کی نعمت اور اس انقلاب اسلامی کے آثار میں سے ہے ۔

ہمارے مرحوم والدمحترم (رضوان اللہ علیہ ) فرماتے تھے : انقلاب اسلامی کی برکات میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کی ایک نئی آواز پیدا ہو گئی ، دنیا میں شیعہ کی پہچان بن گئی ، انقلاب اسلامی سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں کیسے یہ بیان کر سکتے تھے کہ شیعہ کیا ہے ؟ لیکن آج  کرملین کے محل میں جو کہ انقلاب سے پہلے مارکسیسم اور کموینسٹ کا مرکز تھا ، شیعہ کو ایک منطقی ، معقول ، ہر لحاظ سے مضبوط بنیادوں پر قائم مذہب سمجھتے ہیں ، وائٹ ہاوس اور دوسرے تمام مراکز میں یہی بات ہے ، ہم انقلاب سے پہلے کیسے اس قدر شیعہ مذہب کی تشریح کر سکتے تھے ؟

تجزیہ و تحلیل کے وقت اس کے کلی واقعیت کو مد نظر رکھنا چاہئے نہ کہ بعض جزئی چیزوں کو تا کہ حساب و کتاب میں غلطی نہ کر جائے ، طبیعی بات ہے کہ ملک میں کچھ مشکلات ضرور ہے لیکن اس انقلاب کے بہت بڑی برکات کے مقابلہ میں وہ  گنتی میں نہیں آتی ہے ، اس کی بہترین گواہی یہ ہے کہ دشمن  اس انقلاب سے ہاتھ نہیں اٹھاتے ہیں اور ہر روز ایک نئی  سازش کرتے ہیں ۔

داعش کو اتنے زیادہ پیسوں اور ان تمام خوفناک جرائم کے ساتھ وجود میں لائے ، اب اس بری طرح سے جو شکست ہوئی ہے اس کے بعد آمریکا اور اسرائیل آرام سے بیٹھيں گے ؟ میرا یہ نظریہ ہے کہ ان آخری واقعات میں باہر سے ہاتھ ہونے کی واضح نشانیاں موجود ہے ،  جس رات  موصل کو داعش نے اپنے تحت کنٹرول میں لیا کیسے اس کے اگلے دن ہی  وہاں کے اسکولوں میں ان کی نصاب کی تدریس شروع ہو گئی؟یہ کتابیں کہاں لکھی گئی تھی اور اسے کس وقت تیار کر لیا تھا ؟ خود اسی ابوبکر بغدادی کو کہاں پر تربیت دی تھی، اس بارے میں بہت ساری باتیں ہیں ، اس کے لئے سینکڑوں گھنٹوں کی ضرورت ہے تا کہ اسلام اور انقلاب کو ختم کرنے کے لئے دشمن نے جو سازشين کی ہیں اسے بیان کرے ، ان تمام سازشوں کو دیکھ کر انسان کا عقل دنگ رہ جاتا ہے  ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان آخری واقعات میں دشمن کی سازش سب سے پہلے ہی ظاہر تھی، عوام کو مشکلات ہے یہ اپنی جگہ صحیح ہے ، لیکن کیا اس سے پہلے کے حکومتوں میں مشکلات نہیں تھے ؟ کیا اس سے پہلے والی حکومتوں میں افراط زر 40 فیصد تک نیچے نہیں آیا تھا ؟ جی ہاں ! مشکلات ہے ، لیکن یہ الگ بات ہے ، حکومت کے اعلی عہدہ داران کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ، تا کہ لوگوں کی مشکلات کو  ختم کرے ، لیکن آپ  ملاحظہ کریں کہ جب پارلمینٹ میں بجٹ پیش ہوتی ہے اور اس کے ساتھ پیٹرول کی قیمت بڑھانے اور ٹیکس کی بات ہوتی ہے تو دشمن دیکھتا ہے ابھی زمینہ ہموار ہے ، لہذا جو پروگرام پہلے سے بنایا ہوا ہے اسے اجراء کرتے ہیں ۔

صحیح بات ہے کہ بیکاری ہے ، اور ان آخری چند سالوں میں اسے ختم کرنے کے لئے کچھ حد تک کام بھی ہوا ہے ، لیکن ابھی تک جوانوں کے لئے  نوکریاں نہیں دے سکا ہے ، اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے ، لوگوں کی درددل کو سنيں ، عوام کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ خوردبرد جو ہو رہا ہے یہ کیا ہے ؟ کہاں چلے گئے؟ کیوں بیت المال کے پیسہ واپس قومی خزانہ میں نہيں آئے ؟ اگر قومی خزانہ میں آئے ہیں تو عوام کے لئے بیان کرے ، عوام اس بارے میں  پریشان ہے اور ان کی یہ پریشانی بھی بے جا نہیں ہے ۔

امام خمینی (رضوان الله تعالي عليه)؛ کے فرمان کے مطابق اس انقلاب کے اصلی مالک عوام ہے ، ابھی اس انقلاب کے اصلی مالک کے کچھ مطالبات ہیں ، ان کے کچھ سوالات ہیں ، کچھ ضروریات ہیں، لہذا انہیں جواب دیا جانا چاہئے ، لیکن میرا عرض یہ ہے کہ دشمن نے اس وقت اپنے برے عزائم پر عمل در آمد  کرنا چاہتے ہیں ۔

دشمن اس بارے میں اسپیشلسٹ ہے اور وہ زمان شناسی کرتے ہیں ، لوگوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہیں ، معاشرہ کے بارے میں جستجو کرتے ہیں ، کہ کہاں اور کس شہر میں کونسا نعرہ لگایا جائے ؟ قم میں نعرہ لگاتا ہے (ہمیں نہ اسلام چاہئے اور نہ قرآن) کہ انسان یہ خواب بھی نہیں دیکھتا کہ ایک قمی ایسا نعرہ لگائے ،انسان یہ تصور بھی نہیں کر سکتا حتی کہ جو شخص کسی مذہب کا  پیروکار بھی نہ ہو ایسا نعرہ لگائے ۔

واضح ہے  اس طرح کے نعرہ کہاں سے آیا ہے اور کون اس کے پیچھے ہے؟ البتہ ممکن ہے بعض جوانوں کو دھوکہ بھی دے اور انہیں لالچ دلائے ، یہ سب واضح ہونے کی ضرورت ہے ، میرے خیال میں ایک دو مہینہ بعد  تک ان تمام واقعات کی اصلی حقائق سامنے آجائے گي ، اور سب کو معلوم ہو گا کہ دشمن  کیا کرنا چاہتے تھے ، انقلاب اسلامی پہلے دن سے ہی اس قسم کے دشمنیوں کے ساتھ تھے ، اور آئندہ بھی ایسی دشمنیاں کرتے رہیں گے ، رہبر معظم انقلاب اسلامی کے فرمان کے مطابق ان کی اصلی بات یہ ہے کہ اسلام کیوں اور انقلاب کیوں ؟ وہ لوگ خود اس نظام کے ہی مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نظام ہی ختم ہونا چاہئے ۔

میں یہاں پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج دنیا کے منصفانہ تجزیہ نگار قطع نظر اس کے کہ ہمارے پاس ولایت فقیہ پر دلیل ہے  یا نہیں ، اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ سب سے زیادہ  صحیح و سالم اور درست نظام  ، نظام ولایت فقیہ ہے ، دو سال قبل ماسکو کے کچھ اندیشمندان جو پوٹین کے   مشاورین میں سے تھے مرکز فقہی میں آئے تھے ، جس میں کچھ عمر رسیدہ بھی تھے اورجو  بہت مذہبی والے  اور کارڈینلزتھے ،وہ لوگ بول رہے تھے ، ہم سالوں سوچتے ہیں اور آخر میں نتیجہ کو پوٹین کے سامنے رکھتے ہیں ، جس کے بعد ہم نے مختلف قسم کے حکومتوں کے بارے میں تحقیقات کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ وہ حکومت جو واقعا ایک صحیح منطق اور بنیاد پر استوار ہے وہ یہی ولایت فقیہ والا نظام ہے ۔

یہ وہ بات ہے جس کا اعتراف دوسرے لوگ کر رہے ہیں، مقدس نما اور انقلابی نما  لوگ جو  مقدس عناوین سے غلط فائدہ لے کر بیت المال سے چوری کرتے ہیں  اور اس پر  ڈھاکہ ڈالتے ہیں جس کے بعد انقلاب اور ولایت فقیہ کی حمایت کرنے والی اپنے اوپر ڈھال  بنا کر چھپ جاتے ہیں ،کیا یہ صرف موجودہ حکومت میں ہے ؟ اس طرح کے لوگ تو ہمارے آئمہ علیہم السلام کے دور میں بھی تھے۔

ہمیں اس بارے میں اچھی طرح سوچنا ہو گا ، سب سے پہلے ہم خود یقین کرے کہ یہ نظام جو ولایت فقیہ پر پایہ گزاری ہوئی ہے حق ہے ، اب اس کے بارے میں جو روایات ہے وہ اپنی جگہ پر ، ہمارے مرحوم والد ( رضوان اللہ عليہ) فرماتے تھے : یہ مطلب کسی استدلال کا محتاج نہیں ہے یہ واضحات میں سے ہے ، یہ نظام دوسرے نظاموں سے قابل قیاس ہی نہیں ہے ، اس نظام کی حفاظت اور اسے مضبوط کرنا ہم سب پر واجب ہے ،یہ سب لوگوں کے لئے بھی بیان ہونی چاہئے ، البتہ ہمارے غیور عوام نے آٹھ سالہ جنگ میں جرائت سے کام لیا ہے اور کسی پریشانی کا اظہار تک نہیں کیا ہے ، ہم ہو یا نہ ہو، یہ غیور عوام اس نظام اور انقلاب کو جو ہزاروں شہیدوں کے خون سے حاصل ہوا ہے حفظ کريں گے ، لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ زیادہ توجہ دیں اور اس انقلاب کو دشمنوں کے مکر وحیلہ سے بچا کر رکھیں ۔

خدا کا لاکھ لا کھ شکر کرتے ہیں کہ آج ہمارے حوزات علمیہ میں انقلابی فکر حاکم ہے ، وہی فکر جو انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے ابتدائی ایام میں موجود تھے ، ہمارا حوزہ ہمیشہ صف اول میں ہے ، اور بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ دشمنوں کے حیلوں سے مراقبت کرتے ہیں ، امید  خداوندی ہے کہ بہت ہی جلد یہ  مشکلات برطرف ہوں گے اور اس کے اصلی مسببین کے آشکار ہونا لوگوں کے اور زیادہ بیدار ہونے کا سبب بنے گا ۔

انقلاب کے اول سے لے کر اب تک ملک میں جو بھی مشکلات ایجاد کی ہے وہ سب ہمارے عوام کے  پہلے سے زیادہ بیدار ہونے کا سبب بنا ہے اور دشمن اور پہلے سے زیادہ شرمسار کیا ہے ، یہ احمق ٹرامپ جو ایک صدر ہونے کا دعوا کرتا ہے اتنا بھی عقل نہیں ہے کہ ایران کے عوام کو سمجھ لیں ، ایران کے عوام کو کچھ دھوکہ کھانے والے جوانوں کو قرار دیا ہے ، یا کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے مشکلات کو اس طرح سے  اعلی عہدہ داروں تک پہنچانا چاہتے ہیں ، ان کو ایران کے غیور عوام سمجھتا ہے ، کہ بعد میں ان لوگوں کی حالت بھی معلوم ہو جائے گا ۔

اس ملک کے کونسے  دیندار عوام ایسے نعرہ لگانے کے لئے تیار ہے کہ وہ  نہ قرآن اور نہ اسلام کا نعرہ بلند کرے ؟!

اس وقت مسیحی اور یہودی بھی ایسے نعرہ لگانے کے لئے تیار نہیں ہے ، اس میں کوئی شک نہ کرے کہ یہ نعرہ باہر سے لگایا گیا ہے ، ان شاء اللہ ہمارے مقتدر رہبر کہ خداوندمتعالی کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے جو ہمیں ولایت فقیہ کی شکل میں عنایت ہوئی ہے ، اور ان مشکلات میں ہم سب کے  امید کی کرن ہے ، ضرور اپنی بصیرت اور درایت و فراست سے  اس ملک کو اس مشکل سے بھی نجات دلائيں گے ۔

شاید آپ نے بھی سنا ہو گا کہ آیت اللہ العظمی سیستانی نے بتایا تھا : میں 5 سال سے گھر سے باہر نہیں نکلا ہوں یہ میرے لئے زیادہ پریشانی کا سبب نہیں ہے ، لیکن ایران سے جو خبریں آرہی ہے یہ مجھے بہت پریشان کرتا ہے ، آپ  ایک شیعہ بزرگ مرجع ہونے کے ناطے میں او ر آپ سے زیادہ اس ضرورت کا زیادہ احساس کرتے ہیں کہ  اس نظام  کو محفوظ رہنا چاہئے  ،اور  کوئی باد سموم اس نظام پر نہ لگے ، ہمیں بھی اس بارے میں کوشش کرنی چاہئے کہ ان شاء اللہ یہ مشکلات حل ہو جائے ، خداوند مراجع عظام اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ، اور اس انقلاب کو ہر قسم کی آفات  سے مصون و محفوظ رکھے  ان شاء اللہ

والسلام عليكم و رحمة الله و بركاته

اهم مطالب:

1۔ حقیقت ولایت فقیہ اور حکومت اسلامی ، حکومت اہل بیت علیہم السلام ہے ، البتہ ایک نیچلے سطح کی ۔

2۔ حکومت اسلامی تمام لوگوں اور ہر مذہب کے پیراواوں کے لئے  نعمت ہے ، ہمارے دینی قوانین اور ضوابط کے مطابق تمام اقلیتی افراد اس حکومت کے زیرسایہ احترام کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں ، اور اپنی عادی اور متعارف زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔

3۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان آخری واقعات میں دشمن کی سازش سب سے پہلے ہی ظاہر تھی۔

4۔ عوام اس بارے میں  پریشان ہے اور ان کی یہ پریشانی بھی بے جا نہیں ہے ۔

امام خمینی (رضوان الله تعالي عليه)؛ کے فرمان کے مطابق اس انقلاب کے اصلی مالک عوام ہے ، ابھی اس انقلاب کے اصلی مالک کے کچھ مطالبات ہیں ، ان کے کچھ سوالات ہیں ، کچھ ضروریات ہیں، لہذا انہیں جواب دیا جانا چاہئے ۔

5ـ عوام کو مشکلات ہے یہ اپنی جگہ صحیح ہے ، لیکن کیا اس سے پہلے کے حکومتوں میں مشکلات نہیں تھے ؟ کیا اس سے پہلے والی حکومتوں میں افراط زر 40 فیصد تک نیچے نہیں آیا تھا ؟ جی ہاں ! مشکلات ہے ، لیکن یہ الگ بات ہے ، حکومت کے اعلی عہدہ داران کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ، تا کہ لوگوں کی مشکلات کو  ختم کرے۔

6۔ آج دنیا کے منصفانہ تجزیہ نگار قطع نظر اس کے کہ ہمارے پاس ولایت فقیہ پر دلیل ہے  یا نہیں ، اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ سب سے زیادہ  صحیح و سالم اور درست نظام  ، نظام ولایت فقیہ ہے۔

 

7ـ مقدس نما اور انقلابی نما  لوگ جو  مقدس عناوین سے غلط فائدہ لے کر بیت المال سے چوری کرتے ہیں  اور اس پر  ڈھاکہ ڈالتے ہیں جس کے بعد انقلاب اور ولایت فقیہ کی حمایت کرنے والے اپنے اوپر ڈھال بنا کر چھپ جاتے ہیں ،کیا یہ صرف موجودہ حکومت میں ہے ؟ اس طرح کے لوگ تو ہمارے آئمہ علیہم السلام کے دور میں بھی تھے۔

8- ہمارے غیور عوام نے آٹھ سالہ جنگ میں جرائت سے کام لیا ہے اور کسی پریشانی کا اظہار تک نہیں کیا ہے ، ہم ہو یا نہ ہو، یہ غیور عوام اس نظام اور انقلاب کو جو ہزاروں شہیدوں کے خون سے حاصل ہوا ہے حفظ کريں گے ، لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ زیادہ توجہ دیں اور اس انقلاب کو دشمنوں کے مکر وحیلہ سے بچا کر رکھیں ۔

9ـ اس ملک کے کونسے  دیندار عوام ایسے نعرہ لگانے کے لئے تیار ہے کہ وہ  نہ قرآن اور نہ اسلام کا نعرہ بلند کرے ؟!

اس وقت مسیحی اور یہودی بھی ایسے نعرہ لگانے کے لئے تیار نہیں ہے ، اس میں کوئی شک نہ کرے کہ یہ نعرہ باہر سے لگایا گیا ہے ۔

10ـ ان شاء اللہ ہمارے مقتدر رہبر جو خداوندمتعالی کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور  ہمیں ولایت فقیہ کی شکل میں عطا ہوئی ہے ، اور ان مشکلات میں ہم سب کے  امید کی کرن ہے ، ضرور اپنی بصیرت اور درایت و فراست سے  اس ملک کو اس مشکل سے بھی نجات دلائيں گے ۔

 

برچسب ها :