دین مبین اسلام، عورت کے لئے بہترین اور اعلی ترین قدر و قیمت کے قايل ہے
23 November 2024
19:31
۵۵۸
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
حقیقت یہ ہے کہ خواتین سے متعلق امور ایک پیچیدگی آئي ہے ، اور یہ مسئلہ انقلاب کے 40 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک حل نہیں ہوا ہے بلکہ مشاہدات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی ہلکا پنی سے یہ مسائل طے کر رہا ہے جو انقلاب کے اہداف سے سازگار نہیں ہے ۔
میری بات یہ ہے کہ کیوں ایسا ہے ، اس پورے مدت میں تمام حکومتوں میں خواتین سے متعلق الگ نائب بناتا رہا ہے ، یہ بتایا جائے کہ ان میں سے بعض کے افکار صحیح اور شرع کے مطابق نہیں تھے کہ واقعا ایسا ہی تھا ، اور بعض کامیاب نہیں ہو سکے ، اب جیسا بھی ہو انقلاب اس دوسرے مرحلہ اور قدم میں اس بارے میں بنیادی سوچ و بچار اور اس مسئلہ کے حل کے لئے صحیح اقدام اٹھانے چاہئے ۔
ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ دین اسلام خواتین کے لئے بہترین اور اعلی ترین قدر و قیمت کا قائل ہے ، یہ ایک حقیقت ہے جو ہمارے دین میں موجود ہے ، جو کچھ دین اسلام اور مکتب اہل بیت (ع) نے خواتین اور خاندانی امور کے بارے میں بیان کیا ہے ، اگر بین الاقوامین تمام قانوندان جمع ہو جائے تب بھی اس باریک بینی اور دقت نظر کے ساتھ بیان نہیں کر سکتے ۔
البتہ وہ لوگ جو دین سے مقابلہ کے لئے کھڑے ہیں انہوں نے دین سے نامناسب نسبتیں دی ہیں ، جیسا کہ کہا جاتا ہے دین خواتین کے لئے کسی ارزش کا قائل نہیں ہے ، یا کہتے ہیں اسلام نے خواتین کو دوسرے درجہ کا انسان اور مرد کو پہلے درجہ کا انسان قرار دیا ہے ، یا وہ احکام جو عالم تشریع اور اعتبار سے مربوط ہے اور عورت کی تکوین سے کوئی مربوط بھی نہیں ہے انہیں آپس میں ملا دیتے ہیں اور اسے اسلام سے نسبت دیتے ہیں تا کہ اپنے کچھ خاص اہداف تک پہنچ جائے۔
میرا پہلا مطلب یہ ہے کہ خواتین کے بارے میں ہمارے دین اور فقہ میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا صحیح اور منطقی جواب نہ دیا گیا ہو ، بات صرف یہ ہے کہ ان میں سے بہت سارے جوابات صرف کتابوں کی حد تک رہ گیا ہے ان سے نکالا نہیں گیا ہے ، مثلا باب احکام میں عدالت جنسیتی کے بارے میں چندیں سال پہلے کچھ فاضلہ خواتین کے ساتھ مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) میں ایک پروگرام رکھا گیا تھا ، ہمارے معاشرہ میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ احکام اسلام عدالت کی بنیاد پر ہے ا س کے بعد کہتے ہیں اگر عدالت کی بنیاد پر ہے تو کیوں عورت کو مرد کا حصہ کا نصف ارث ملتا ہے ؟ کیوں دو خواتین کی گواہی ایک مرد کے گواہی کے برابر ہے ؟ ہم نے ان اعتراضات کو اس جواب کے ساتھ حل کیا اور بتایا گیا کہ یہ ایک غلط سوچ ہے ، احکام ، کے کچھ دوسری معیارات بھی ہیں ، اور 5 ملاک اور معیار کو دلیل کے ساتھ ذکر کیا ، صرف احتمال نہیں بلکہ دلیل کے ساتھ ہے ، اور یہ واضح کر دیا کہ عورت کو مرد کا ادھا ارث ملتا ہے یہ قانون عدالت سے مربوط نہیں ہے ، اسی طرح قضاوت اور دوسرے بہت سارے احکام میں جو خواتین سے مربوط ہے ۔
میرا یہی تقاضا ہے اور آپ کر بھی سکتے ہیں اور امید ہے کہ اس دور حکومت میں اس فکر کو بدل سکتے ہیں ، یونیورسٹیوں اور خود پارلیمنٹ اور مختلف وزاتخانوں میں اس مسئلہ کے بارے میں علمی گفتگو کے محافل برگزار کرائیں ، تا کہ تمام خواتین کے ذہن میں یہ جو غلط سوچ ہے اس کی اصلاح ہو جائے ، اس نظریہ کی بنیاد پر بہت سارے شبہات جو خواتین کے لئے پیش آتے ہیں جن کی جواب دینے کی قدرت بھی نہیں رکھتے وہ سب حل ہو جائے گا ، چونکہ اس بات کی بنیاد پر کہ تمام احکام خداوند ، عدالت کی بنیاد پر ہے بہت سارے بغیر جواب کے رہ جاتے ہیں ۔
اسلام ہمیں عدالت کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے : «اعدلوا هو اقرب للتقوی»؛ یہ حکم فرمایا ہے کہ حاکم اور قاضی کے پاس عدالت ہونا چاہئے ، اور عدالت قائم کرنے کے درپے ہونا چاہئے ، اور لوگوں کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش آئے ، لیکن بہت سارے احکام ایسے بھی ہیں کہ جو عدالت سے کوئی ربط نہیں رکھتا ، مثلا اسلام یہ کہتا ہے اگر کوئی شک کرے کہ کوئی جگہ پاک ہے یا نجس ، تو اسے پاک بتا دو ۔یہ کس بنیاد پر ہے ؟ کیا یہ عدالت کی بنیاد پر ہے ؟ اگر بتا دیتے نجس ہے تو یہ عدالت نہیں تھا ؟ خواتین سے مربوط احکام میں بھی ملاک اور معیار عدالت نہیں ہے ، کہ ہم یہ بتانا شروع کرے کہ یہ عدالت کے مطابق ہے یا نہیں ہے ، یا اسے بدل دے ، مثلا عورت کے بالغ ہونے کے بارے میں ۔
عورت کے بالغ ہونے کے بارے میں کچھ دوسرے ملاکات ہیں جن کا عدالت سے کوئی ربط نہیں ہے ،خواتین کے بارے میں کچھ معیارات اور ملاکات ہیں جیسے کرامت ، اسلام نے عورت کے لئے بہت زیادہ کرامت کا قائل ہوا ہے ، بعض موارد میں عورت کے لئے مرد سے بہت زیادہ کرامت اور عزت کا قائل ہوا ہے ، مردوں پر جہاد کو واجب کیا ہے لیکن عورت سے بتاتا ہے کہ تمہاری کرامت کا تقاضا یہ ہے کہ تم جہاد میں مت جاو! قضاوت کی ذمہ داری کو عورت کے ذمہ رکھا ہے ، چونکہ اس میں خطرہ ، اضطراب اور بے سکونی ہے ، لیکن کی سکون اور اس کی کرامت محفوظ ہونا چاہئے ، یہ عورت میں کسی چیز کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے ، کہ بتایا جائے یہاں پر عورت پر ظلم ہوا ہے ، ہمیں چاہئے کہ اس غلط سوچ کی اصلاح کرے تا کہ خواتین کے لئے جو سواالات اور اعتراضات درپیش ہیں ان میں سے 95 فیصد کا آسانی کے ساتھ جواب مل جائے ۔
آئيں ان اعتراضات کے جوابات کو بیان کریں ، اور یہ دیکھا جائے کہ ہمارے سیلبس کی کتابوں میں پردے کے بارے میں موجود قرآن کریم کی آیات کو بیان کریں ، ابھی مجھے نہیں معلوم کہ یہ آیات ان کتابوں میں ذکر ہے یا نہیں ، لڑکیوں کی سلیبس کی کتابیں لڑکوں کے کتابوں سے مختلف ہونا چاہئے ، لڑکیوں کے ذہنوں میں کچھ سوالات ہیں ان کا جواب ضرور ان کی سلیبس کی کتابوں میں ذکر ہونا چاہئے ، جیسے بالغ ہونے یا پردہ کے بارے میں کہ مہم مسائل میں سے ہے ، اسی طرح نکاح سے متعلق مختلف مسائل موجود ہے ۔
البتہ ہم نے مرکز فقہی میں پردہ اور خواتین سے متعلق کچھ دوسرے شبہات کے بارے میں کچھ تحقیقاتی کتابیں منتشر کی ہیں، کہ الحمد للہ اس کا اثر بھی اچھا دیکھا گیا ہے ، لیکن یہ کام خود حکومت میں بھی ہونا چاہئے ، سال میں صرف ایک ہفتہ کو حجاب اور پردہ کا ہفتہ منا کر اس میں صرف گوہر شاد کے واقعہ کو بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے ، یہ کام سال بھر ہونا چاہئے اور حکومت کو چاہئے کہ اس بارے میں اسکولوں ، یونیورسٹیوں اور ریڈیو ٹیلی ویژن پر فوکس رہے ۔
میں کبھی کبھار یہ تشبیہ دیتا ہوں کہ روایات میں ذکر ہے کہ اگر کوئی جھوٹا ہو تو اس سے ہر قسم کے کام سرزد ہو گا، کیونکہ جھوٹ تمام گناہوں کی چابی ہے ، اسی طرح اگر کسی عورت نے اپنے پردہ کو چھوڑ دیا تو یہ نہیں بتاوں گا کہ اس کا لازمہ ایسا ہے لیکن عام طور پر وہ عورت ہر قسم کی گناہ انجام دینے کی آمادگی پیدا کر لیتی ہے اور گناہوں کے انجام دینے کا زمینہ اس کے اندر پیدا ہو جاتا ہے ۔
اس اہم مطلب کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ انقلاب اسلامی کے اہم ترین خصوصیات میں سے ایک خواتین کو ان کا مقام عطا کرنا ہے ، ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ ہمارے خواتین میں بھی صلاحتیں مردوں سے کم نہیں ہے ، شاید بعض موارد میں ہمارے خواتین ، مردوں سے بھی آگے ہیں ، امام خمینی (رہ) کے زمانہ میں ہمارے مرحوم والد رضوان اللہ علیہ جامعہ الزہرا(س) کے کسی عہدہ پر فائز تھے ، تو اس وقت فرماتے تھے ، وہاں پر کچھ ایسے خواتین موجود ہیں جو اجتہادی اور علمی مسائل کو مردوں سے بہت بہتر طریقہ سے سمجھتی ہیں ، یہ ہمارا اعتقاد ہے اس پر دلیل کی ضرورت نہیں ہے ، روز مرہ جو نظر آتے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں ، آج ایک خاتون ریاضی میں دنیا کے بہترین ریاضی دانوں میں شمار ہو سکتی ہے ، اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی ۔
انقلاب اسلامی ایران نے خواتین کے علمی اور سیاسی لحاظ سے تکامل اور رشد پیدا کرنے کے زمینہ کو فراہم کیا ، الحمد للہ بہتر طریقہ سے میدان میں آئی ہیں ، لیکن ہم آج کیوں یہ احساس کرے کہ دینی لحاظ سے خواتین نے کوئی ترقی نہیں کی ہے،خدا نہ کرے پیچھے کی طرف پلٹ نہ رہے ہوں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس بارے میں بنیادی طور پر کچھ کام نہیں ہوا ہے ، حوزہ کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئے ، اور حکومت اور دوسرے ثقافتی ادارے بھی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے ، سازمان تبلیغات اور دوسرے ادارے جنہیں حکومت کی طرف سے ثقافتی امور کو چلانے کے لئے بڑے بڑے بجٹ مل جاتے ہیں وہ بھی اس بارے میں متوجہ رہے ، اور انگیزہ کے ساتھ سب کو ساتھ لے جانے والا کوئی اقدام کرے ، تا کہ ہم اپنے خواتین کی حفاظت ہم خود کر سکے ، اگر خواتین ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے تو ایک لحاظ سے یہ انقلاب کے لئے بہت بڑا نقصان ہے ، امام خمینی (رہ) انقلاب کے اسی ابتداء دور میں فرماتے تھے ، ہمارے اس انقلاب کے کامیاب ہونے میں خواتین ، مردوں سے زیادہ موثر تھے ۔ابھی بھی اسی معیار کے مطابق اگر اس صنف کو ہاتھ سے کھو بیٹھے اور ہم انہیں خود ان کے واقعی اور حقیقی شناخت کو ثابت نہ کرسکے تو اس کا بڑا نقصان ،انقلاب کو پہنچے گا ۔
لہذا اس بارے میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہم اس لحاظ سے ہر کام کے لئے تیار بھی ہیں ، اسی مرکز فقہی میں اس بارے میں جو کام ہماری طاقت و قدرت میں تھے ہم نے اس بارےکوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ، لیکن اس بارے میں خود حکومت اور وزاتخانوں میں بنیادی کام ہونا چاہئے ، ابھی وزاتخانوں میں خواتین کو چادر کے ساتھ آنے کو لازمی قرار دیتے ہیں میں اس کا موافق نہیں ہوں ، چونکہ یہ خاتون اگر دفتر آتے وقت چادر کے ساتھ آئے لیکن جب دفتر سے باہر ہو تو بغیر چادر کے اور بغیر حجاب کے ہو ، یہ پردہ کی بے احترامی ہے ، اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا ، بلکہ اس بارے میں ایک بنیادی کام کرنا چاہئے تا کہ اپنی چاہت کے مطابق سب جگہوں پر اپنے اور اپنے گھر والوں کے پردہ کی حفاظت کرے ۔
آپ حوزہ علمیہ سے درخواست کریں ، ہمارے پاس کچھ افراد ہیں جنہیں بھیج کر ان اعتراضات کا جواب دے سکتے ہیں ، اس بارے میں علمی تحقیقات میں کوئی کمی نہیں ہے ، بہت ہی واضح اور مضبوط دلائل ہیں جن سے انہیں قانع کر سکتے ہیں ، کہ انہیں یقین کی حد تک پہنچا دیں کہ اگر اپنے آپ کو محفوظ ررکھنا چاہتی ہے اور روحی اور معنوی لحاظ سے ترقی کے منازل طے کرنا چاہتی ہیں تو اس کی ضروریات میں سے ایک چیز پردہ ہے ، یہ جو بتایا جاتا ہے کہ پردہ کرنا ہماری ثقافت ہے ، یہ کوئی دلیل نہیں ہے ، چونکہ اس کے جواب میں یہ بتایا جا سکتا ہے کہ یہ اس وقت کی ثقافت تھی ابھی زمانہ بدل چکا ہے ،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خواتین کے مسائل دین اور انقلاب کے دلسوز افراد کے لئے ایک بہت اہمیت کے حامل مسئلہ ہے لہذا ہمارا یہی تقاضا ہے کہ اس اہم مسئلہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ اور غور وفکر کریں ، تا کہ خدا بھی ہماری مدد کرے ، اور کچھ اچھے نتائج حاصل ہو جائے ، ان شاء اللہ
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته