خداوند متعالی کا رسولوں کے بھیجنے کا اصلی مقصد ، حکومت ہے
08 December 2024
03:15
۳۸۷
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
بسم الله الرحمن الرحیم
پاکستان کے بزرگ علماء اور علمی ، ثقافتی ، ادبی اور میڈیا اور مذہبی شخصیات جو قم میں تشریف لائے ہیں خوش آمدید عرض کرتا ہوں ۔
میں یہاں اپنی بات کو سورہ مبارکہ شوری کی آیت 13 -15 سے شروع کرتا ہوں ۔
«شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي
أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ
أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا
تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ
مَنْ يُنِيبُ وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ
بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلَى أَجَلٍ
مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ
بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا
أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ
مِنْ كِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ
لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا
وَبَيْنَكُمُ اللهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ»."اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر
کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبر تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس
کی نصیحت ابراہیم علیھ السّلام, موسٰی علیھ السّلام اور عیسٰی علیھ السّلام کو بھی
کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے پائے مشرکین کو وہ بات سخت
گراں گزرتی ہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کے لئے
چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے (۱۳) اور ان لوگوں نے آپس میں تفرقہ اسی وقت پیدا کیا ہے جب ان کے پاس
علم آچکا تھا اور یہ صرف آپس کی دشمنی کی بنا پر تھا اور اگر پروردگار کی طرف سے ایک
بات پہلے سے ایک مدّت کے لئے طے نہ ہوگئی ہوتی تو اب تک ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا
اور بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا ہے وہ اس کی طرف سے سخت شک
میں پڑے ہوئے ہیں (۱۴) لہٰذا آپ اسی کے لئے دعوت دیں اور اس طرح
استقامت سے کام لیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ا ن کی خواہشات کا اتباع نہ کریں
اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا
ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں اللہ ہمارا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے ہمارے
اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے - ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث
نہیں ہے اللہ ہم سب کو ایک دن جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہے (۱۵)"
میری نظر میں تمام اہل سنت اور اہل
تشیع علماء ، حتی کہ دوسرے تمام سماوی ادیا ن ، حضرت عیسی اور حضرت موسی کے
پیروکاروں کو بھی ان آیات کو تمام ادیان کے وجہ مشترک کے طور پر توجہ دینا چاہئے ۔
خداوند متعالی فرماتا ہے :جسے ہم نے نوح کے لئے مقرر کیا ہے «شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا» اور جس کی وحی پیغمبر تمہاری طرف بھی کی ہے«وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ» اور جس کی نصیحت ابراہیم علیہ السّلام, موسٰی علیہ السّلام اور عیسٰی علیہ السّلام کو بھی کی ہے ؛ وہ دو چیز ہے «أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ»،دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے پائے، ہمیں چاہئے کہ ان دونوں کے بارے میں بہت زیادہ غور و فکر کریں ، دین کو قائم کرنے اور اس میں تفرقہ پیدا نہ کرنے سے کیا مراد ہے ؟
یہ واضح ہے کہ «اقامة الدین» مضاف اور مضافٌ إلیه ہے ، ہمارا ایک دین ہے اور ایک اس دین کو اقامہ کرنا ہے ، خداوند متعالی فرماتا ہے جس دین کو میں نے اپنے انبیاء کے ذریعہ انسانیت کے لئے بھیجا ہے ، اس میں صرف بشر تک پہنچانا میرا مقصود نہیں ہے ، تمہاری ذمہ داری صرف ابلاغ نہیں ہے ، بلکہ اس کا اقامہ کرنا اور اجراء کرنا بھی ہے ۔
لہذا «اقامه دين» تمام انبیاء پر واجب ایک کام ہے ، اور ان کے بعد تمام علماء کی بھی ذمہ داری ہے ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ دین کیا ہے ؟ کیا دین صرف انفرادی احکام تک محدود ہے ؟ جیسے نماز ، روزہ ، زکات اور حج؟ یا دین میں تمام انفرادی اور اجتماعی احکام شامل ہے ۔
قرآن کریم میں اجتماعی ذمہ داریوں اور مسلمانوں کے پورے معاشرہ سے مربوط احکام کے بارے میں بہت ساری آیات موجود ہیں ۔
دین کا سب سے مہم ترین اجتماعی مسالہ مسلمانوں پر حکومت کرنا ہے ، قرآن کریم سورہ مبارکہ مائدہ میں فرماتا ہے : «يا أَيهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِياءَ»، اس آیت کا معنی کیا ہے ؟ یعنی مسلمانوں حاکم اور بڑا کافر یا یہودی اور مسیحی نہیں ہونا چاہئے ! «وَمَنْ يتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ»، یہ بہت ہی بدترین تہدید ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر حکومت کے زیر سایہ چلا گیا تو اس پر بھی کفر کا حکم ہو گا ۔
انسان خدا سے یہی عرض کرتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارا حاکم نہیں ہو سکتا ہے تو ہمارا حاکم کس کو ہونا چاہئے ؟
آیہ ولایت جو کہ حصر پر دلات کرتی ہے فرماتا ہے : «إِنَّمَا وَلِيكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ»، مسلمانوں کو چاہئے کہ خدا کے حکومت میں رہیں اور جسے خدا نے معین کیا ہے ان کے حکومت میں رہے ، یعنی رسول خدا اور الذین آمنوا ( جنہوں نے ایمان لائے ہیں ) جن کے لئے بھی آیہ کریمہ میں کچھ شرائط بیان ہوئے ہیں ۔
یہ آیات بہت ہی قابل غور و فکر آیات ہیں ! یہ آیات اسلام کے اجتماعی آیات میں سے ہے ، یہ فرماتا ہے کہ مسلم کمیونٹی ، فرق نہیں وہ ایران کے مسلمان ہوں ، یا پاکستان یا ہندوستان یا افعانستان یا سعودی عرب ۔۔۔۔۔ کو اللہ کے حکمرانی میں ہونا چاہئے ، ایک اور آیت میں فرماتا ہے «إنه هو الولی»، ہمارا اصلی حاکم اور ولی خداوند تبارک و تعالی ہے ، افسوس کی بات ہے کہ آجکل بہت سارے مسلمان قرآن کریم کے اس بنیادی قانون سے غافل ہیں ۔
دوسری آیت میں فرماتاہے : «وَمَنْ يتَوَلَّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ»،یعنی وہ مسلمان جو دینی حکومت میں آتے ہیں حزب اللہ ہیں اور کامیابی انہیں کے لئے ہے ۔
آپ لوگ انقلاب اسلامی کے کامیابی کے سالگرہ کے ان ایام میں میں ایران تشریف لائے ہیں ، جان لیں امام خمینی ( رضوان اللہ تعالی عليہ) انہی آیات کی بنیاد پر ایران میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی ہے ، خدا کا دستور یہ ہے کہ مسلمان اسلام کے پرچم تلے اور قرآن اور سنت پیامبر اکرم (ص) کے تحت زندگی گزارے اور انہی کے تحت زندگی کا بھاگ دوڑ منظم کرے ۔
دوسرا اجتماعی حکم اور قانون جو قرآن کے حکومت کے دلائل میں ذکر ہوتا ہے ، وہ کافروں کا مسلمانوں کے جان اور مال پر تسلط پیدا نہ کر سکنا ہے « وَلَنْ يجْعَلَ اللهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا».
تیسرا قانون ، «وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ» ہے ، خداوند متعالی کا ارادہ یہ ہے کہ مسلمانان ہمیشہ فوجی
اور لشکری لحاظ سے ، اقتصادی ، علمی ، کلچر ، سیاست وغیرہ میں اعلی ترین درجہ پر
فائز ہو ، جس طرح خدا نے یہ بھی ارادہ کیا ہے کہ مسلمان عزیز ترین اور دنیا کے
برترین انسانوں میں سے ہونا چاہئے «وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ».
امام خمینی(قدسسره) اس ہدف کو پایہ
تکمیل تک پہنچانا چاہتےتھے ، کہ ہر مسلمان چاہئے شیعہ ہو یا سنی ، ایرانی ہو یا
غیر ایرانی ، مرد ہو یا عورت ، دنیا کے جس کونے میں بھی ہو عزت خدايي کو پیدا کرے
کہ کوئی بھی ظالم اور کافر اس پر مسلط نہ ہو ، کوئی بھی اس کے اموال کو غارت کر کے
نہ لے جائے ۔
آئمہ معصومین (علیہم السلام) اپنے زمانہ میں شیعیوں سے فرماتے تھے اہل سنت کے مساجد میں اور ان کے نماز جماعت میں ، تشییع جنازہ میں شرکت کریں ، ان کے بیماروں کی عیادت کریں ، ان کے ساتھ بھائی بھائی بن کر بیٹھے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ افراد نے اس کو سمجھا نہیں ہے لہذا کہتے کہ یہ منافقانہ کام ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن کا دستور ہے ، اور نفاق نہیں ہے ، فرماتا ہے :«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» جو بھی خدا اور رسول پر ایمان لے آئے : «من آمن بالله و رسوله» وہ آپس میں بھائی ہیں ، یہ تمام قواعد اسلامی معاشرہ میں جاری ہونا چاہئے ، یہ شیطان نے کیا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کیا ہے ۔
سورہ شوری کی اسی آیت میں فرماتا ہے : «أن أقیموا الدین»، یعنی جو کچھ قرآن اور آسمانی کتابوں میں ذکر ہوا ہے ، یہ ہے کہ پیغمبران اور علماء سب کو چاہئے کہ دین اقامہ کریں ،یعنی علماء کو چاہئے سب سے پہلے مسلمانوں کی استقلال ، عزت اور ان کی امنیت کے بارے میں اقدام کریں ، وہ بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کے بارے میں ، کوئی عالم صرف اپنے شہر کے افراد کے بارے میں سوچيں یہ قرآن کی منطق سے مطابقت نہیں رکھتا ، «اقیموا الدین» یعنی خدا کی حکومت ، دین کی حکومت۔
یہاں پر خداوند مومنین کی طرف توجہ دیتا ہے کہ: «كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ» البتہ آپ جس چیز کی طرف مشرکین کو دعوت دے رہے ہیں اسے قبول کر لینا بہت سخت ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا لا الہ الا اللہ بولنا یا نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا مشرکین کے لئے سخت ہے ؟ نہیں ! جو چیز مشرکین کے لئے سخت ہے وہ دینی حکومت کو قبول کرنا ان کے لئے سخت ہے ، قدرت اور طاقت دین کے ہاتھوں میں ہونا ، قدرت خدا کے ہاتھ میں ہونا ، الہی انسانوں کے ہاتھوں میں قدرت و طاقت ہونا ان کے لئے سخت ہے ۔
پس رسولوں کے بھیجنے کا اصلی مقصد حکومت ہے ، امام خمینی(رضوان الله علیه) کا ایک فرمان ہے ، صرف ان سے یہ سنا ہے میں نے کسی بھی شیعہ اور سنی عالم کے کتابوں میں ایسی عبارت کو نہیں دیکھا ہے ، وہ جملہ یہ ہے کہ «الاسلام هو الحکومة»، یعنی خدا وند متعالی نے اسلام کو بھیجا ہے تا کہ پہلے درجہ میں پیغمبر اکرم اور ان کے حقیقی جانشین لوگوں پر حکومت کرے ، پورا ہدف یہی تھا ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمان چاہئے شیعہ ہو یا سنی اس بات سے غافل ہیں ۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب اسلامی کے کامیاب ہونے کے 43 سال بعد بھی آج اس ملک اور ریاست کا افتخار یہ ہے کہ قرآن اور اسلام کے زیر سایہ حکومت کر رہی ہے ، آج اسلام اور انقلاب کے بدولت ایران دنیا میں کتنی طاقتور بن چکا ہے ؟
آج ہمارے دشمنوں آمریکا ، اسرائیل اور یورپ ممالک کی مخالفت صرف اس وجہ سے ہے کہ کیوں ایران میں اسلامی حکومت ہے ؟ اسی چیز کی طرف صدر اسلام میں قرآن میں فرمایا ہے : «كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيهِ»، ہمارے زمانہ میں بھی آمریکا اور اسرائیل کے لئے یہ بہت ہی ناگوار ہے کہ زمین کے کسی جگہ پر اسلامی حکومت قائم ہو ۔
سورہ شوری کی آیت 15 میں یہ فرمانے کے بعد کہ تمام انبياء کی ذمہ داری اقامہ دین ہے فرماتا ہے :«فَلِذَلِكَ فَادْعُ» یعنی لوگوں کو اسی اقامہ دین کی طرف دعوت دیں اور اس پر استقامت سے رہے ، «وَاسْتَقِمْ» خداوند استقامت دیکھانےکا جو حکم کر رہا ہے وہ اس لئے ہے کہ لوگوں پر دین کا اقامہ کرنا بہت مشکل کام ہے ورنہ نماز ، روزہ اور حج کے حکم کے لئے استقامت کی ضرورت نہیں ہے ! لیکن خدا کی حکومت ہو اور کفار اور مشرکین کو کنار سے لگائے رکھے اس کے لئے استقامت کی ضرورت ہے «واستقم كَمَا أُمِرْتَ».
ہمارے زمانہ میں شیعہ اور اہل سنت علماء کے لئے ضروری ہے کہ ایک بار پھر قرآن کی طرف آئيں ، تا کہ دیکھ لیں کہ اسلام کی حفاظت کے لئے قرآن کریم کی بنیادی دستورات کیا ہے ؟ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان احکامات کو قرآن کریم سے استنباط کریں ، اور مسلمانوں تک پہنچا دیں ، ہمارا یہ اتحاد اور وحدت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (ص) اور حجج الہی کے دستورات کے زیر سایہ ہونا چاہئے ، اسلام آکر 1400 سال گذر چکا ہے ،لیکن مسلمانوں کے درمیان حکومت اسلامی کوطاق نسیان میں رکھا ہواتھا ، یہ امام خمینی (رض) کی وہ عظیم شخصیت ہے کہ جنہوں نے اس اہم مسئلہ کو دوبارہ زندہ کیا اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے کتنے شہید اس راہ میں دیئے کہ الحمد للہ اس کا نتیجہ بھی مل گیا ۔
مجھے امید ہے کہ ایرا ن کی طرف اس سفر میں تشریف لائے ہیں فکری لحاظ سے اور علماء ، ذمہ دار شخصیتوں اور ایرانی عوام کے ساتھ رابطہ کو بڑھائیں گے ، خداوند آپ سب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے ، ان شاء اللہ تمام مذاہب اسلامی کے علماء کے درمیان اتحاد اور ہمفکری قائم ہو جائے تا کہ مسلمانوں کی عزت و قدرت میں اضافہ ہو ، آج دشمن کی کامیابی کا واحد راستہ مسلمانوں اور علماء کے درمیان اختلاف پیدا کرنے سے ہی ممکن ہے ، اور اسی کے لئے وہ دن رات کوشش بھی کر رہا ہے ، اور وہ ہم سب کے ہاتھوں سے قرآن کو چھیننا چاہتے ہیں ۔
امید ہے دشمن اس میدان میں ناکام اور نا مراد ہونگے ۔
حاضرین میں سے بعض کا سوال اور آیت اللہ فاضل لنکرانی کا جواب
سؤال: پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله) کے بعد مسلمانان اقامہ دین کی طرف متوجہ تھے اور حکومت قائم کیے، پہلے خلیفہ ، دوسرے خلیفہ اور تیسرے خلیفہ کے زمانہ تک کوئی مشکل پیش نہیں آيا ، حتی کہ خلیفہ چہارم کے زمانہ میں بھی کچھ مشکلات پیش آئی ، لیکن اس کے بعد اقامہ دین کامل طور پر متزلزل ہوئے ، اور حکومت کی بھاگ دوڑ ہم سے چھینا گیا اور کچھ دوسرے لوگوں نے حکومت کرنا شروع کیا ، اور ہم کامل طور پر دور چلے گئے یہاں تک کہ ان آخری سالوں میں حضرت امام خمینی (رہ) تشریف لائے اور اقامہ دین فرمایا ، اب جب کہ ایران میں اقامہ دین ہوا ہے اور حکومت اسلام قائم ہوا ہے ، کیا یہ امید بھی ہے کہ کل جہان میں اقامہ دین ہو اور اس بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے ؟
جواب : یہ بہت ہی اچھا مطلب ہے کہ آپ نے بیان فرمایا ، ہم شیعیوں کا یہ عقیدہ ہےکہ اس وقت حجت خدا حی اور زندہ حضرت مہدی (عج) ہے ، اگرچہ بعض اہل سنت کہتے ہیں ابھی تک متولد نہیں ہوئے ہیں ، ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے دینی حکومت کو نظام امامت کی بنیاد پر قیامت تک کے لئے بنا یا ہے اور اسی کے بارے میں ہمیں حکم بھی دیا ہے ، اور اس میں کوئی کمی بیشی بھی نہیں ہے ، اور اس دور میں جب آپ غیبت میں ہے تو فقیہ جامع الشرائط جیسے امام خمینی ، امام خامنہ ای ، بہت سخت شرائط کے تحت جنہیں ہمارے فقہ میں بیان کیا گیا ہے حکومت کے متصدی ہیں ۔
ہمارا آپ اہل سنت علماء سے ایک موضوع جس پر گفتگو ہونی چاہئے یہی سوال ہے کہ آپ کے پاس حکومت اسلامی کے لئے کیا پروگرام رکھتے ہیں ۔
ہمارا تو یہ عقیدہ ہے جسے آپ جانتے بھی ہیں کہ ، قرآن کریم نے حکومت کے مسئلہ کو بیان کیا ہے اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم ) نے بھی قیامت تک کے لئے حکومت کو بیان فرمایا ، لہذا ہمارے پاس علمی لحاظ سے کوئی کمی نہیں ہے اور اس بارے میں ہمارا جواب بھی حاضر ہے ، لیکن آپ اہل سنت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس زمانہ میں حکومت کے لئے آپ کے پاس کیا راستہ ہے ؟
سؤال: وہ ممالک جیسے پاکستان وہغیرہ جہاں پر حکومتی نظام جمہوریت یعنی ڈیموکراسی ہو اور حتی کہ ہمارے علماء بھی کچھ اس پارٹی کے ساتھ اور کچھ دوسرے پارٹی کے ساتھ ہوتے ہیں ، ایسے میں کبھی بھی دین کا اقامہ نہیں ہو گا ، کیا ہم مستقل طور پر اقامہ دین کر سکتے ہیں ؟ کیا اس کے لئے آپ کے پاس کوئی چارہ جوئی ہے ؟
جواب: شیعہ اور سنی فقہ میں یہ قانون موجود ہے کہ المیسور لا یترک بالمعسور. صحیح بات ہے کہ ابھی پاکستان یا ہندوستان یا افغانستان میں ایران کی طرح اقامہ دین نہیں ہوتا ہے ، لیکن ہر ایک کو اپنی قدرت کے مطابق سعی و کوشش کرنی چاہئے ، کم از کم قرآن کریم کی حقايق کو لوگوں کے لئے بیان کریں اور نسل جدید تک اسے پہنچا دیں ، کہ دیکھا جائے گا کہ آیندہ کیا ہو گا ، لعل الله یحدث بعد ذلک امرا.
سؤال:امیر کی اطاعت واجب ہے ، کیا ہم ان امراء (حکام) کی اطاعت کریں جو ابھی ان ممالک میں برسر اقتدار ہیں ؟
جواب: ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو اولی الامر ذکر ہوا ہے جس کی اطاعت کو واجب فرمایا ہے وہ معصوم ہونا چاہئے ، حتی کہ فخر رازی جو کہ آپ کے بہت بڑے مفسروں میں سے ہے ، وہ کہتا ہے ، یہ اولی الامر چونکہ اس کی اطاعت خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ بیان ہوا ہے ، تو جس طرح خدا اور رسول معصوم ہے اور ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتا ہے ، اولی الامر بھی معصوم ہونا چاہئے ، لہذا ہر کوئی اولی الامر نہیں ہو سکتا ، جو شخص لوگوں کی جان ، مال اور خون کے بارے میں لالچ رکھتا ہو وہ اولو الامر نہیں ہو سکتا ۔
اولو الامر وہ ہونا چاہئے جو دین کو جانتا ہو ، دین کے بارے میں متخصص ہو ، پوری قرآن کو اور جو کچھ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے اسے جانتا ہو ، اس وقت کس اسلامی ملک کے حاکم قرآن کریم کی ایک آیت کی تفسیر جانتے ہیں ؟
سؤال: «من مات و لم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية»، اس حدیث کے مطابق امام زمان کی معرفت کیسے پیدا ہو سکتی ہے ؟
جواب: امام زمان (علیہ السلام) کی معرفت اسی اولی الامر کی معرفت اور انہیں معیارات کے مطابق ہے جسے خود پیغمبر اکرم (ص) نف فرما یا ہے ، امام وہ ہونا چاہئے جو دین کے تمام پہلووں ، احکام ، اعتقادات ، اخلاق ۔۔۔۔ کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو ، اور مسلمانوں کے درمیان حکومت اور عدالت قائم کر سکتا ہو ، اور اس بارے میں اس سے کوئی غلطی یا گناہ حتی گناہ صغیرہ بھی سرزد نہ ہو ۔
شیعہ کا اعتقاد یہ ہے کہ اماموں کو پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم ) نے خدا کی طرف سے غدیر کے دن بیان فرمایا ہے اور حکومت کے خدوخال کو بھی اسی دن بیان فرمایا ہے ، امام زمان ہر زمانہ میں ایک سے زیادہ نہیں ہے ۔
سؤال:معرفت امام زمان کیسے ہوني چاہئے ؟ کیسے اس معرفت کو ہم اپنے اندر پیدا کریں؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ امام زمان (علیہ السلام) کو پیغمبر اکرم (ص) نے اسی حدیث غدیر میں اسماء گرامی اور خصوصیات کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، «الائمة بعدی اثنی عشر» ان اماموں کے کلمات تمام کے تمام موجود ہے ،مثلا امام صادق (علیہ السلام) سے تقریبا 40 ہزار احادیث موجود ہے ، کبھی بھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی نے امام صادق (ع) سے کوئی سوال پوچھا ہو اور آپ نے فرمایا ہو یہ مجھے معلوم نہیں ہے ، بلکہ جہاں بھی کوئی سوال ہوا ہے اسی وقت اس کا جواب دیا گیا ہے ، چاہئے وہ فقہ میں ہو یا اعتقادات میں ، حتی کہ فیزکس اور سائنس میں بھی ، اس سے بھی خوبصورت بات یہ ہے کہ اگر لوگ پوچھتے کہ آپ کا یہ جواب قرآن کریم کی کس آیت میں بیان ہوا ہے ، تو آپ قرآن کریم کی آیت کو بھی بیان فرماتے تھے ۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته