رہبر عظیم الشان حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی قم تشریف آوری کے موقع پر آیت اللہ شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان

25 December 2024

09:21

۲,۴۰۱

خبر کا خلاصہ :
الحمد للہ رہبر عظیم الشان کی قم تشریف آوری سے مشرف ہو رہے ہیں اس سلسلے میں بھی حوزہ علمیہ کے ہر طالب علم کو توجہ کرنا چاہیے اور عمیق نگاہوں سے دیکھنا چاہیے ۔ ہمارا حوزہ ایک بہت حساس شرائط میں واقع ہے۔ ہمارے حوزہ میں الحمد للہ انقلاب کی برکت سے ظرفیتیں فراہم ہو چکی ہیں زمینہ ہموار ہے لیکن دوسری طرف سے کمزوریاں نقائص بھی بڑھتے جا رہے ہیں
آخرین رویداد ها

رہبر عظیم الشان حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی قم تشریف آوری کے موقع پر آیت اللہ شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا درس خارج کے دوران بیان

مرحوم شیخ صدوق کی کتاب امالی میں وسائل الشیعہ جلد ۱۷ ص ۱۹۳ کے نقل کے مطابق محمد بن علی محمد بن حسن نے سلسلہ سند کے ساتھ زید شحام سے روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: من تولّي أمراً من أمور الناس فعدل و فَتَحَ بابَه و رفع ستره و نظر في امور الناس كان حقّاً علي الله عن يؤمن روعته يوم القيامة و يدخله الجنة.

یہ روایت نہایت پر معنی ہے اور اہم نکتہ جو اس روایت سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ امام نے فرمایا: جو شخص لوگوں کے امور کا عہدہ دار ہے " من تولی من امور الناس" یہ جملہ عمومیت رکھتا ہے ایک معمولی ذمہ داری سے لیکر ایک ملک کی ذمہ داری کو سنبھالنے تک کو شامل ہے " فعدل" اور اس ذمہ داری کو نبھانے میں عدالت سے کام لے " وفتح بابہ" اور اپنے دروازوں کو لوگوں پر کھول دے " و رفع سترہ" اور اپنے اور لوگوں کے درمیان سے پردے ہٹا دے " و نظر فی امور الناس" اور لوگوں کے امور کو گہرائی سے دیکھے کہ کہاں کون مشکل میں گرفتار ہے تاکہ اس کی مشکل کو حل کرے چاہے مشکلات دنیوی ہوں یا اخروی اس لیے کہ روایت مطلق ہے ان تمام مسائل کو شامل ہے لوگوں کے معیشتی مسائل، اجتماعی اور سماجی مسائل، سیاسی مسائل، تربیتی اور اخلاقی مسائل، ان تمام کو روایت شامل ہے۔ امام (ع) فرماتے ہیں: جو شخص ان امور کا عہدہ دار ہو گا : کان حقا علی اللہ" خدا پر اس کا حق یہ ہے کہ خدا وند عالم روز قیامت اس کو اس ہولناک منظر سے محفوظ رکھے گا" و یدخلہ الجنۃ" اور آرام و سکون کے ساتھ وارد بہشت کرے گا۔

میں نے اس لیے اس روایت کو بیان کیا ہے کہ علماء کے امور کی ابتدا ہی اسی بنیاد پر ہوتی ہے حوزہ ھائے علمیہ کی تاسیس کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ انسان دین کو سمجھے احکام خدا کو سمجھے کتاب خدا کو سمجھے اس کے بعد لوگوں اور سماج میں داخل ہو اور اپنی ظرفیت کے مطابق سماج کی مشکلات کو حل کرے ان کی دینی دنیوی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے ۔ علماء کی سماج سے کنارہ کشی ایسی چیز ہے جو صد در صد ہمارے دینی متون کے مخالف ہے کتاب و سنت کے مخالف ہے سماج میں کیا ہو رہا ہے معاشرہ کن مشکلات سے دوچار ہے لوگوں کو کس چیز کی ضرورت ہے ان کی توقعات کیا ہیں ان چیزوں کی طرف توجہ نہ کرنا بالکل صحیح نہیں ہے اور ہمارے مذہب کے خلاف ہے۔

اسی حوزہ کی برکتوں سے انقلاب وجود میں آیا اور اسی دینی علوم سے  ہمارے بزرگوں، علماء اورامام رضوان اللہ علیہ کو احساس ذمہ داری ہوا اور یہ انقلاب کامیاب ہوا آج کوئی اس میں شک نہیں کرتا کہ انقلاب حوزہ علمیہ کی دین ہے اور وہ گروہ جو پہلے درجہ پر انقلاب کی تمام مراحل میں حمایت ، حفاظت اور ہدایت کرنے کا حقدار ہے اور اس کے ضعف و نقص کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے علماء ہیں۔ علماء کو چاہیے کہ انقلاب کے تمام مراحل میں پوری قوت و توانائی کے ساتھ اس کی ہمراہی کریں اس کی ضروریات کو سمجھیں۔ دیکھیں جو سازشیں اور پروپگنڈے انقلاب کے سلسلے میں کئے جا رہے ہیں کیا ہیں؟ خلاصہ کلام یہ کہ آج انقلاب کی حفاظت دوسرے لوگوں سے زیادہ علماء پر واجب ہے۔ گزشتہ زمانے سے زیادہ اس وقت انقلاب کے خلاف میڈیا سے ٹیلیویزن سے انٹرنٹ سے لوگوں کے عقائد خراب کرنے اور ان کی سیاسی سوجھ بوجھ ختم کرنے کوشش کی جا رہی ہے علماء کو اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔

الحمد للہ رہبر عظیم الشان کی قم تشریف آوری سے مشرف ہو رہے ہیں اس سلسلے میں بھی حوزہ علمیہ کے ہر طالب علم کو توجہ کرنا چاہیے اور عمیق نگاہوں سے دیکھنا چاہیے ۔ ہمارا حوزہ ایک بہت حساس شرائط میں واقع ہے۔ ہمارے حوزہ میں الحمد للہ انقلاب کی برکت سے ظرفیتیں فراہم ہو چکی ہیں زمینہ ہموار ہے لیکن دوسری طرف سے کمزوریاں نقائص بھی بڑھتے جا رہے ہیں آج اگر کوئی حوزہ کا کوئی دل سوز شخص سوال کرے کہ آج کتنے ہم نے واقعی معنی میں علماء تربیت کئےہیں؟  ہمارے حوزہ کو آج انقلاب سے۳۰ سال گزرنے کے بعد ہر میدان میں بہت سارے افراد کو پیش کرنا چاہیے سینکڑوں بہترین مفسر حوزہ میں ہونا چاہیے سینکڑوں فقیہ اور موجودہ زمانے کے مسائل سے آگاہ مجتہد حوزہ میں ہونا چاہیے سینکڑوں فلسفی ہونا چاہیے لیکن افسوس سے یہ آرزو پوری نہیں ہو پائی۔ ہمیں اس بات پر اعتراف کرنا چاہیے۔ علمی مشکلات پائی جاتی ہیں سیاسی دغدغہ پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ملک کے باہر سے پوری تلاش و کوشش میں لگے ہیں کہ قم کے حوزہ علمیہ کا چراغ گل کیا جائےکچھ  لوگ ملک کے اندر بھی اس لالچ میں ہیں کہ حوزہ علمیہ سے اس کے مقاصد کو چھینا جائے پس حوزہ کو ان شرائط میں کیسا ہونا چاہیے؟ یہ اس وقت سب کا دغدغہ ہے۔ اور میری نظر میں اس وقت بغیر کسی مبالغہ آرائی کے جو شخص واقعا حوزہ کا دلسوز ہے اور موجودہ شرائط میں تمام اطلاعات سے با خبر ہے اور پورے تامل اور دقت کے ساتھ حوزہ کے مستقبل کی برنامہ ریزی کر رہا ہے وہ رہبر عظیم الشان حضرت آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی ہیں اور اس سفر میں انشاء اللہ ان جہات کی طرف توجہ کی جانی چاہیے حوزہ کی مثبت نقاط کو تقویت ملنا چاہیے مراجع عظام اور اساتید کی فرمائشات بیان ہونا چاہیے اور حوزہ کی سربلندی اس سفر سے مرقوم ہونا چاہیے انشاء اللہ یہ سفر حوزہ علمیہ کے مستقبل کے لیے ایک امید کی کرن ہو گی۔

ہم امید وار ہیں کہ جیسا کہ گزشتہ سفروں میں بھی اہل قم کے لیے فراواں آثار و برکات نمایاں ہوتے رہے ہیں خاص کر کے حوزہ کے لیے اس بار بھی یہی امید ہے کہ اس سفر میں بھی یہ آثار و برکات ظاہر ہوں تمام طلاب و اساتید اس سفر میں مکمل طریقے سے حاضر ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

برچسب ها :