دزفل شہر کے ایک بسیجی گروہ کی آیت اللہ شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) سے ملاقات
25 December 2024
09:19
۲,۱۴۸
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
۱۳ جون ۲۰۱۰ بروز اتوار ایران کے ایک شہر دزفل کے ایک بسیجی گروہ نے آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آیت اللہ فاضل نے شہر دزفل کے شجاع اور بہادر افراد کے دفاع مقدس کے دوران دشمن کے میزائلوں کے مقابلہ میں شدید مقاوت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایا: شہردزفل بزرگ علماء شیخ انصاری جیسوں کی تربیت کرنے میں بے مثال ہے۔ انہوں نے ماہ رجب کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ماہ رجب اور شعبان اس اعتبار سے کہ ماہ مبارک میں داخل ہونے کے لیے مقدمہ ہیں ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی وجہ سے احادیث میں وارد ہوا ہے کہ ان مہینوں کے اعمال کا ثواب دوبرابر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان مہینوں سے خدا کی اطاعت اور بندگی کی راہ میں نہایت درجہ فائدہ اٹھائیں۔ اور خدا سے چاہیں کہ دین، انقلاب اور اسلامی نظام کی نسبت جیسا خدا چاہتا ہے اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔ آج بزرگوں ، علماء اور مخصوصا امام امت (رہ) کی قربانیوں کے طفیل ایمان لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوا ہے اور ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے ایمان کے درجات کو بلند کریں اور اپنے کاموں کو اخلاص اور رضائے خداکی خاطر انجام دیں۔ ایک اہم نکتہ جو امام راحل کی برکت سے سماج میں وجود پایا اور حوزہ اور لوگوں نے اس کی طرف توجہ کی یہ تھا کہ اسلام ناب محمدی(ص) ملک کو چلانے کی طاقت رکھتا ہے۔ امام نے ایک عمر تلاش اور مجاہدت کرنے کے بعد دنیا والوں کو یہ باور کرا دیا کہ دین اسلام یعنی وہ دین جس کا متن قرآن اور سنت پیغمبر اور آئمہ طاھرین علھیم السلام ہے، ملک پر حکومت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور ولایت فقیہ اس کا اساسی رکن ہے۔ افسوس سے آج ان لوگوں کے منہ سے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم امام کے راستے پر ہیں سنتے ہیں کہ یہ دین چودہ سو سال پرانا ہے اس سے اس دور میں حکومت نہیں قائم کی جا سکتی۔ یقیناً ان افراد کا امام سے لگاؤ کا دعوی بے بنیاد اور ریا کاری ہے اس لیے کہ یہ باتیں امام کی گفتار اور رفتار سے میل نہیں کھاتیں۔ وہ لوگ جو معتقد ہیں دین ملک کو نہیں چلا سکتا وہ امریکی اسلام کے معتقد ہیں انہیں اپنے آپ کو امام کا پیرو اور ولایت فقیہ کا معتقد نہیں سمجھنا چاہیے۔ دین کے اندر ملک کو چلانے کی صلاحیت کا عقیدہ ولایت فقیہ پر عقیدہ کا لازمہ ہے۔ یہ ایک آشکارا تناقض ہے کہ انسان اپنے آپ کو ولایت فقیہ کا پیرو مانے اور دین کے ملک کو چلانے کی صلاحیت کا منکر ہو جائے۔ جیسا کہ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ دین تو ملک پر حکومت کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ولی فقیہ کی ضرورت نہیں ہے۔ رہبر معظم کے بقول انقلاب کا ائڈیل امام ہیں اورامام کی بنیادی فرمایشات یہ تھیں کہ دین تن تنھا ملک بلکہ پوری دنیا کو چلا سکتا ہے۔ دین اسلام کے متعدد ابعاد اور پہلو ہیں اور یہ تمام پہلو سماج میں جاری ہونا چاہیے اور خدا کے لطف و کرم سے گذشتہ تیس سال کے عرصہ میں یہ چیز دھیرے دھیرے سامنے آئی۔ آٹھ سال دفاع مقدس کے دوران یہ دین ہی تھا جس نے کس طریقے سے جنگی امور کی تدبیر کی اور مٹھی بر خاک اپنے وطن کی دشمن کے ہاتھ نہیں لگنے دی۔ ہمیں چاہیے کہ دین کو مزید پہچانیں جو شخص دین میں زیادہ دقت کرے گا وہ انقلاب اور امام کی عظمت کا زیادہ معترف ہو گا۔ ایک اور چیز جس کی امام ہمیشہ تاکید کرتے تھے خدا پر ایمان، آپس میں ہمدردی اور بھائی چارگی ہے آپ شدید طریقے سے سماج میں اختلاف پیدا ہونے کے مخالف تھے وہ لوگ جو امام کے پیروکار ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے پابند ہیں کبھی بھی اجازت نہ دیں کہ سماج کے اندر اختلاف پیدا ہو۔ افسوس سے چودہ خرداد کو جو حرم امام میں امام کے چاہنے والوں نے کیا قطعا اچھا نہیں تھا کیوں انہوں نے امام کے لیے عزاداری نہیں کی؟ امام کی رحلت کا دن ہو اور امام کے لیے مجلس نہ ہو افسوس ہے!۔ دشمن اس چیز سے خوش ہوا ہو گا۔ ہمارے لوگ امام کی نسبت حساسیت رکھتے ہیں پروگرام طے کرنے والوں کا یہ کام امام کی شان میں گستاخی اور ھتک حرمت ہے۔ جنہوں نے اس پروگرام کو مرتب کیا یاد رکھیں انہوں نے دشمن کے اھداف کو عملی جامہ پہنایاہے۔
خدا وند عالم سے دعا ہے کہ ہمیں عبادت، بندگی اور اسلام کو صحیح سمھجنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔۔۔