شہر مرند کےکچھ طلاب اور فضلاء کی آیت اللہ شیخ محمد فاضل لنکرانی سے ملاقات

24 November 2024

01:21

۲,۰۱۵

خبر کا خلاصہ :
اس ملاقات میں شہر مرند کے طلاب کے نمائندہ، جناب حجۃ الاسلام صحرائی نے آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حضرت امام خمینی (رہ) اور آیت اللہ فاضل لنکرانی کی برسی کی مناسبت سے تسلیت پیش کی۔
آخرین رویداد ها

بسمہ تعالیٰ

اس ملاقات میں شہر مرند کے طلاب کے نمائندہ، جناب حجۃ الاسلام صحرائی نے آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حضرت امام خمینی (رہ) اور آیت اللہ فاضل لنکرانی کی برسی کی مناسبت سے تسلیت پیش کی۔

اس کے بعد آیت اللہ فاضل لنکرانی نے فرمایا: آپ کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اگر چہ علماء اور فضلا کے مجمع میں گفتگو مشکل ہے لیکن اس مجلس میں امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث کو پیش کر کے اسکی مختصر وضاحت کرتے ہیں:

امام صادق علیہ السلام نے حفص بن غیاث سے فرمایا: «من تعلم العلم وعمل به و علّم لله دعي في ملکوت السموات عظيماً، فقيل له: تعلم لله و علم لله و عمل لله».

اس حدیث شریف کو ہمیشہ ہم طلاب کے کاموں کا سرلوحہ ہونا چاہیے۔ ورنہ بے حد ضرر اور نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہم نے اس راستے کا انتخاب کیا ہے جس میں تعلیم، تعلم اور عمل سب اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔

ہم سب خوب جانتے ہیں یہ رنج و الم جو طلاب اٹھا رہے ہیں اپنے شہر سے اپنے ماںباپ سے دور ہوتے ہیں اور قم میں آتے ہیں اور علم حاصل کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں، چاہے گذشتہ زمانہ ہو یا عصر حاضر، دنیوی فائدہ کے لیے نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ شہریہ(وظیفہ) جو وہ لیتے ہیں انکے گھر کا کرایہ بھی اس سے پورا نہیں ہو پاتا۔ لہذا ہماری ساری توجہ خدا کی طرف ہونا چاہیے۔ آج  اگر چہ حوزہ کے پڑھنے والوں کی حکومت کے عہدوں میں ضرورت ہے اوراکثر طلاب کا اس طرف رجحان ہو گیا ہے لیکن ہمارا درس پڑھنے سے یہ مقصد اور ہدف بلکل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا مقصد صرف خدا ہونا چاہیے۔

امام امت (رہ) کا مبنیٰ یہ تھا کہ ہرکام کو اللہ کے لیے کریں۔ اور یہ دیکھیں کہ کس زمانے میں ان کی ذمہ داری کیا ہے۔ اس کے مطابق عمل کریں۔ آپ نے سنا ہے کہ ایک کتاب کشف الاسرار لکھنے کے کیے چھ مہینے اپنے درس کی چھٹی کر دیتے ہیں اس لیے کہ اس وقت اپنی ذمہ داری یہ سمجھ رہے تھے کہ ان شبہات کا جواب دیں۔

ہمیں چاہیے کہ بزرگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں۔ جیسے مرحوم آیت اللہ خوانساری (رہ) کہ جو قم میں مشغول تدریس تھے آیت اللہ بروجردی (قدس سرہ) آپ سے کہتے ہیں کہ تہران چلے جائیں تو آپ تدریس کو چھوڑ کر تہران چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر قم میں رہتے تو مشہور مراجع میں سے شمار ہوتے۔

آیت اللہ خوانساری اس کے باوجود کہ درس خارج کہہ رہے تھے ایک بار معالم کا درس کہنا شروع کیا بعض شاگردوں نے اعتراض کیا۔ آپ نے جواب میں فرمایا: چند افراد تم لوگوں سے پہلے آئے اور انہوں نے معالم کی تدریس کے لیے کہا ہے میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا۔

یہ بہت مہم ہے جو شخص اللہ کے لیے کام کرتا ہے درس خارج یا معالم کی تدریس اس کے لیے فرق نہیں کرتی۔

یہ حدیث شریف فرماتی ہے: وہ لوگ جو اللہ کے لیے درس پڑھتے اور پڑھاتے اور اس پر عمل کرتے ہیں ان کی عاقبت یہ ہوتی ہے کہ آسمانوں میں انہیں بزرگ اور عظیم پکارا جاتاہے۔ آپ دیکھیں امام امت نے ایک دن دیکھا اس ملک میں اسلام خطرے میں ہےلہذا منبر پر چڑھ کر یہ آواز دی : کئی دنوں سے مجھےنیند نہیں آرہی ہے ملک کی موجودہ حالت کو دیکھ کر۔ اس وقت اکثر علماء نے یہی کہا تھا کہ امام کی یہ آواز کوئی دم نہیں رکھتی۔ لہذا انہیں گرفتار کر لیا گیا اور اعدام کے نزدیک تک لے گئے۔ لیکن آپ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا اس لیے کہ تعلیم ، تعلم اور اس پر عمل صرف اللہ کے لیے تھا۔

وہ لوگ جو دنیا کی تلاش میں ہوتے ہیں جوں ہی دیکھتے ہیں کہ ان کی پوسٹ اور مقام کو کوئی خطرہ ہے فورا پیچھے بھاگتے ہیں لیکن جو اللہ کے لیے آگے بڑھے ہوتے ہیں ان کے لیے دھمکی اور لالچ بے معنی ہوتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ امام (رہ) کے افکار کا زیادہ مطالعہ کریں اور یہ جان لیں کہ آپ کا وصیت نامہ نہ صرف آپ کے افکارکا نتیجہ ہے بلکہ پوری تاریخ کے تمام شیعہ علماء کی مجاہدتوں کا نتیجہ ہےکہ جو آپ نے بیان کیا ہے۔

ہمیں کوشش کرناچاہیے کہ اپنی تقریروں کو بھی اللہ کے لیے کریں اگر کوئی مسئلہ بیان کرتےہیں تو وہ بھی اللہ کے لیے ہو۔ ہمارا درس و تدریس کرنا بھی اللہ کے لیے ہو۔ تاکہ ان میں کوئی تاثیرپیدا ہو ورنہ کوئی نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آج حوزہ علمیہ سے بہت زیادہ توقع پائی جاتی ہے۔ لوگوں کی طرف سے بھی نظام حکومت کی طرف سےبھی، درون ملک اور بیران ملک کی طرف سے بھی۔

والد مرحوم ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے: آج ایک روحانی کی ذمہ داری گذشتہ علماء سے قابل مقایسہ نہیں ہے۔ اس قدر لوگوں کےسوالات زیادہ ہیں کہ انسان جب انہیں دیکھتا ہے یہ سوچتا ہے کہ اس نے ابھی اسلام کو پڑھا ہی نہیں۔

اب گرمیوں کی چھٹیوں کےنزدیک ہیں کیا یہ ہو سکتا ہے ایک طالب علم اپنے آپ کو یہ اجازت دے کہ تین مہینے تک وہ علمی کام کرنے سے چھٹی کر دے؟ چھٹیوں کے لیے بھی ہمارے پاس پروگرام اور برنامہ ہونا چاہیے۔ ورنہ فرصت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

آپ امام(رہ) کی بہت ساری کتابوں کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نےگرمیوں کی چھٹیوں میں لکھی ہیں۔

اپنی زندگی کے ہر لمحہ سے انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر دین کے لیے ہمارا دل جلتا ہے تو اپنے وقت کی قدر کریں۔

انقلاب کے بعد جتنا حوزہ نے فقہی مسائل میں کام کیا ہے قبل از انقلاب کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے لیکن یہ کام حوزہ کی اقلیت نے کیا ہے ہمیں چاہیےکہ حوزہ کی اکثریت اس وادی میں قدم رکھے۔

والد مرحوم فرماتے تھے کہ مرحوم شہید مطہری حوزہ کے انقلاب سے پہلے کی پیداوار ہیں ہمیں چاہیے انقلاب کےبعد حوزہ سےدسیوں مطہری جیسوں کی تربیت کریں۔ لہذا طلاب کو اس انتطار میں نہیں رہنا چاہیے کہ حوزہ ان کے لیے برنامہ معین کرے انہیں چاہیے کہ خود اپنے لیے برنامہ معین کریں۔

آج پوری دنیا کی توجہ شیعت کے اوپر ہے اور شیعت کا دارو مدار حوزہ علمیہ قم پر ہے علماء اور مبلغین کو کمر کس کر رہنا چاہیے۔

والد مرحوم (رہ) نے ایک بار مسئولین کےایک گروہ سے کہا تھا کہ میں حجاب کے سلسلے میں خطرے کا احساس کر رہا ہوں۔ آج آپ دیکھ لیجیے بد حجابی کس قدر پھیل رہی ہے ہمیں چاہیےکہ ان حالات کو مد نظر رکھیں اور انکے لیے راہ حل کی تلاش کریں۔

سیاسی مسائل میںبھی ہمیں کھلونا نہیں بننا چاہیے ہمیں وہ روش اپنانا چاہیے جو امام راحل نے اپنائی اور اس دور میں رہبر عظیم الشان اپنا رہے ہیں۔ ان کے نقش قدم پر حرکت کرنا چاہیے۔ تاکہ ہماری عاقبت بخیر ہو۔

ایک دعا جو آئمہ معصومین (ع) نے ہمیں تعلیم دی ہے یہ ہے اللّهم إني أسئلک أن تختم لي بالسعادة ...».

انشاءاللہ خدا ہم سب کی عمروں میں اضافہ فرمائے۔ اور سماج کے لیے مفید قرار دے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔۔۔

برچسب ها :