جبهه خط امام و رهبري کے کارکنوں سے خطاب
24 November 2024
03:31
۲,۲۴۲
خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
بسم الله الرحمن الرحيم
میں سب سے پہلے آپ علماء کرام کہ ہر ایک قم کے بزرگ شخصیات میں سے ہیں تشکر اور قدردانی کرتا ہوں ابتداء میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام کے سلسلے میں ایک روایت کو آپ حضرات کے خدمت میں عرض کروں گا.
بارہ (١٢) سے زیادہ کتابوں میں یہ روایت نقل ہے ، امیرالمومنین علیہ السلام نقل فرماتا ہے «قال لي رسول الله يا علي لقد عاتبني رجالٌ من قريش في أمر فاطمة» خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا :اے علی ! قریش کے کچھ لوگ مجھ سے فاطمہ (س) کے بارے میں سوال کرتا ہے اور مجھے ملامت کرتے ہیں کہ کیوں فاطمہ (س) کی شادی علی(ع) سے کرد ی ، ہم سب نے ان کی خواستگاری کی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں دیا!آنحضرت (ص) نے جواب میں فرمایا «فقلت لهم والله ما أنا منعتكم»میں نے ان سے یہ کہا :خدا کی قسم میں نے تمہیں منع نہیں کیا ہے «بل الله تعالي منعكم وزوّجه» خدا نے علی (س) کے علاوہ کسی اور شادی کی اجازت نہیں دی ،فاطمہ(س) کی شادی کا اختیار خدا کے ہاتھ میں تھا «فهبط عليّ جبرئيل فقال»جبرئیل نازل ہوئے اورعرض کیا : «إنّ الله جلّ جلاله يقول لو لم أخلق علياً لما كان لفاطمة إبنتك كفوٌ علي وجه الأرض آدم فمن دونه»خدا نے فرمایا اے ہمارے رسول(ص) اگر میں علی (ع) کو خلق نہ کرتا تو حضرت آدم سے لے کر ابھی تک اور آخر تک فاطمہ (س) کا کوئی کفو نہیں تھا ،یعنی ان سے یہ بتائیں کہ نہ صرف اس ظاہری زمانہ میں جس میں یہ لوگ زندگی کر رہے ہیں علی (ع) کے علاوہ کوئی اورکفو نہیں تھا بلکہ روئے زمین پر اول خلقت سے لے کر بشریت کے عالی مراتب جو کہ پیغمبران الہی ہیں بشر کی انتہا تک ان کا کوئی کفو نہیں تھا۔
اس روایت میں بہت زیادہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ،جس کفو کو خداوند متعالی بیان فرما رہا ہے فقہاء کے فقہ میں بیان کردہ کفو سے الگ ہے ،فقہاء ومجتہدین کتاب نکاح میں شوہراوربیوی کے درمیان کفو کے مسئلہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ دونوں شأن و مقام ،مال و دولت اور ظاہری تناسبات میں ایک جیسے ہونی چاہیئے ، لیکن جس کفو کو خدا وند متعالی بیان کر رہا ہے ، فقہی کفو سے قابل مقایسہ نہیں ہے یعنی خدا کی معرفت میں ہم کفو ، عبادت میں کفو، خلق خدا پر توجہ کرنے میں کفو اور تمام معنوی امور میں ہم کفو تھے ، یہ سب حضرت زہراء (س) کی عظمت کو بیان کرتا ہے ،اس روایت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر واقعاً وہ مصائب اور مظالم بھی نہ ہوتے تب بھی نہ صرف شیعہ اورمسلمان بلکہ بشریت کو چاہیئے کہ حضرت زہرا(س) کی شناخت کے لئے قدم اٹھائے ،لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آپ کوابهی تک آپ کے پیروانوںنے بھی نہیں پہچانا ہے ، ابھی بھی کبھی کبھار ایسے جاہلانہ جملات سننے میں آتا ہے کہ ان مجالس کو برپا کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ان ایام میں ایسے اقدام کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہمارے والد مرحوم رضوان اللہ علیہ نے اس بارے میں ایک تعبیر فرمایا تھا جس وقت انہوں نے اوردوسرے بعض مراجع عظام نے یہ فرمایا تھا کہ ٣جمادی الثانی کو عاشورا دوم کے طور پر منانا چاہیئے ،اس وقت بعض دوستوں اور حکومتی عہدہ داروں سے یہ سننے میں آیا کہ کیا یہ تعبیر کچھ حد تک واقع سے دور نہیں ہے ؟ عاشورا کہاں او رحضرت زہراء(س) کا واقعہ کہاں؟
اگر انسان اسی ظاہری حد تک مطالعہ کریں کریں تو عاشورا کا واقعہ جیسا نہ اس سے پہلے ہوا ہے اور نہ اس کے بعد ! لیکن انسان کو دیکھنا چاہیئے کہ حقیقت میں کیا ظلم ہوا ہے اور یہ ظلم کس پر ہوا ہے ؟اس شخصیت پر ہوئی ہے جن کے بارے میں اتنی ساری روایات اور حدیث قدسی ہیں ، اگر انسان اس کی طرف توجہ کرے تو بھی ایسے مطالب بیان نہیں کرسکتا ،حضرت زہراء(س) کے بارے میں ہماری معرفت زیادہ ہونا چاہیئے ، آپ (س) کے بارے میں کچھ ایسی روایات نقل ہیں کہ ابھی تک اہل معرفت او ربزرگ ہستیاں ان کو بیان کرنے سے عاجز ہیں ۔
روایات میں ہے کہ جس نے حضرت فاطمہ (س) کی زیارت کی گویا اس نے پیغمبر اکرم کی ہے ، خدا کے زیارت کی ہے ،ان کے علاوہ خود زیارت میں کچھ جملات ہیں کہ انسان ان جملات کے معانی اور اس کے تہ تک نہیں پہنچ پاتا ، اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ لیلة القدر ہونے کا کوئی معنی نہ ہوتا ! لیکن جہاں تک ممکن ہے کوشش کرنی چاہیئے ۔
اگرچہ میں خواب اورخواب سے مستند واقعات کو بیان کرنے کی حق میں نہیں ہوں لیکن ابھی آپ کے خدمت میں ایک واقعہ کو عرض کرتا ہوں کہ ایک موثق شخص نے مرحوم آیت اللہ العظمی میلانی رضوان اللہ تعالی علیہ کے رشتہ داروں میں سے کسی سے نقل کرتا ہے ؛ ہمارے دادا( مرحوم آقای فاضل قفقازی) جب مشہد مقدس مشرف ہوتے تو آیت اللہ میلانی کی خدمت میں جاتے تھے ،ایک دفعہ مرحوم آقای فاضل نے ان کے لئے ا س خواب کو نقل کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں او رآیت اللہ العظمی بروجردی حضرت زہراء (س) کی خدمت میں شرفیاب ہوے ہیں ، اس وقت ہمارے دادا کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ آقای بروجردی سید ہے او رحضرت کے اولاد میں سے ہے ، میں یہاں سے اٹھ جاؤں گا تاکہ آقای بروجردی آپ (س) کے ساتھ رہے ،خواب کی عالم میں جیسی ہی یہ بات میرے ذہن میں آئی حضرت زہراء (س) نے فرمایا تم بھی ماں کی طر ف سے ہم میں سے ہو، اس کے بعد آقای بروجردی سے مخاطب ہو کر فرمایا:میرا بیٹا سید حسن ہمارے بارے میں جو مصائب آپ کے لئے نقل ہوئی ہے وہ سب صحیح ہے ،اگر آپ نے یہ سنا ہے کہ مجھے دروازہ اور دیوار کے درمیان میں زخمی کیا ہے تو یہ صحیح ہے ، اگر یہ سنا ہے کہ میرے دروازہ پر آگ لگا دی ہے تو یہ صحیح ہے ، اگر یہ سنا ہے کہ میرے محسن کو سقط کیا ہے تو یہ سب صحیح ہے مجھ پر یہ سب ظلم ہوئی ہے ! یہ وہ خواب ہے جس تاریخ کے قطعی مستندات تأیید کرتی ہے ،الحمدللہ انقلابی ہونے کی اس افتخار کو ہم نے اما م خمینی اور شہداء کی برکت سے حاصل کی ہے ، آج اس عنوان کے باقی رہنے کا ضامن خو دکو زیادہ سے زیادہ حقیقی معارف سے نزدیک کرنا ہے ، ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اہلبیت عصمت و طہارت کی وجہ سے ہے ، ہمارا یہ انقلاب اہلبیت عصمت و طہارت سے اس محکم وابستگی کی وجہ سے ہے ، اگر مجھ ایک طلبہ سے یہ سوال کرے کہ اس آخری سو سالوں میں حقیقت ولایت سے سب سے زیادہ آشنا فرد کون ہے ؟ تو میں پوری اطمینان کے ساتھ یہ عرض کروں گا وہ شخصیت امام خمینی رضوان اللہ علیہ ہے ، ولایت سے نزدیک اور ولایت کو سمجھنے میں امام خمینی جیسا آج تک مجھے کوئی دوسرا معلوم نہیں ہے ۔
کتاب ''مصباح الہدایہ'' کو انہوں نے تقریباً ٤٠ سال کی عمر میں لکھا ہے ، اس میں ولایت او رامامت کے بارے میں اتنے عمیق مطالب موجود ہے کہ ہمارے زمان کے عارفان اس کو بیان کرنے سے عاجز ہیں ،بعض مطالب کے حق مطلب کسی سے بھی اداء نہیں ہو سکتا ،کتاب اسرار الصلاة میں ولایت کے بارے میں کچھ ایسے مطالب درج ہیں کہ ان کے سامنے سب زانو ٹیکتے ہیں ، امام خمینی نے ولایت کی صحیح تشخیص دی ہے ،او ر اس بارے میں سوئی کے نوک کے برابر بھی ان میں شک و تردید نہیں تھا ، تردد، شک ، توقف ، انکار ، اشکال ان افراد کے لئے پیش آتا ہے جنہوں نے صحیح طرح ولایت کو نہیں سمجھا ہے !لیکن جس نے ولایت کو صحیح طر ح سمجھا ہو وہ ایسا عظیم انقلاب لا سکتا ہے اور آخری گھڑیوں تک ان کی فکر میں کوئی تغییر نہیں آتا ، ہمیں بھی چاہیئے کہ سب سے پہلے صحیح طر ح ولایت کو سمجھے ، اور اس کے بعد معاشرہ میں لوگوں کو اس سے آشنا کرائے
والسلام علیکم ورحمة اللہ برکاتہ
بارہ (١٢) سے زیادہ کتابوں میں یہ روایت نقل ہے ، امیرالمومنین علیہ السلام نقل فرماتا ہے «قال لي رسول الله يا علي لقد عاتبني رجالٌ من قريش في أمر فاطمة» خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا :اے علی ! قریش کے کچھ لوگ مجھ سے فاطمہ (س) کے بارے میں سوال کرتا ہے اور مجھے ملامت کرتے ہیں کہ کیوں فاطمہ (س) کی شادی علی(ع) سے کرد ی ، ہم سب نے ان کی خواستگاری کی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں دیا!آنحضرت (ص) نے جواب میں فرمایا «فقلت لهم والله ما أنا منعتكم»میں نے ان سے یہ کہا :خدا کی قسم میں نے تمہیں منع نہیں کیا ہے «بل الله تعالي منعكم وزوّجه» خدا نے علی (س) کے علاوہ کسی اور شادی کی اجازت نہیں دی ،فاطمہ(س) کی شادی کا اختیار خدا کے ہاتھ میں تھا «فهبط عليّ جبرئيل فقال»جبرئیل نازل ہوئے اورعرض کیا : «إنّ الله جلّ جلاله يقول لو لم أخلق علياً لما كان لفاطمة إبنتك كفوٌ علي وجه الأرض آدم فمن دونه»خدا نے فرمایا اے ہمارے رسول(ص) اگر میں علی (ع) کو خلق نہ کرتا تو حضرت آدم سے لے کر ابھی تک اور آخر تک فاطمہ (س) کا کوئی کفو نہیں تھا ،یعنی ان سے یہ بتائیں کہ نہ صرف اس ظاہری زمانہ میں جس میں یہ لوگ زندگی کر رہے ہیں علی (ع) کے علاوہ کوئی اورکفو نہیں تھا بلکہ روئے زمین پر اول خلقت سے لے کر بشریت کے عالی مراتب جو کہ پیغمبران الہی ہیں بشر کی انتہا تک ان کا کوئی کفو نہیں تھا۔
اس روایت میں بہت زیادہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ،جس کفو کو خداوند متعالی بیان فرما رہا ہے فقہاء کے فقہ میں بیان کردہ کفو سے الگ ہے ،فقہاء ومجتہدین کتاب نکاح میں شوہراوربیوی کے درمیان کفو کے مسئلہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ دونوں شأن و مقام ،مال و دولت اور ظاہری تناسبات میں ایک جیسے ہونی چاہیئے ، لیکن جس کفو کو خدا وند متعالی بیان کر رہا ہے ، فقہی کفو سے قابل مقایسہ نہیں ہے یعنی خدا کی معرفت میں ہم کفو ، عبادت میں کفو، خلق خدا پر توجہ کرنے میں کفو اور تمام معنوی امور میں ہم کفو تھے ، یہ سب حضرت زہراء (س) کی عظمت کو بیان کرتا ہے ،اس روایت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر واقعاً وہ مصائب اور مظالم بھی نہ ہوتے تب بھی نہ صرف شیعہ اورمسلمان بلکہ بشریت کو چاہیئے کہ حضرت زہرا(س) کی شناخت کے لئے قدم اٹھائے ،لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آپ کوابهی تک آپ کے پیروانوںنے بھی نہیں پہچانا ہے ، ابھی بھی کبھی کبھار ایسے جاہلانہ جملات سننے میں آتا ہے کہ ان مجالس کو برپا کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ان ایام میں ایسے اقدام کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہمارے والد مرحوم رضوان اللہ علیہ نے اس بارے میں ایک تعبیر فرمایا تھا جس وقت انہوں نے اوردوسرے بعض مراجع عظام نے یہ فرمایا تھا کہ ٣جمادی الثانی کو عاشورا دوم کے طور پر منانا چاہیئے ،اس وقت بعض دوستوں اور حکومتی عہدہ داروں سے یہ سننے میں آیا کہ کیا یہ تعبیر کچھ حد تک واقع سے دور نہیں ہے ؟ عاشورا کہاں او رحضرت زہراء(س) کا واقعہ کہاں؟
اگر انسان اسی ظاہری حد تک مطالعہ کریں کریں تو عاشورا کا واقعہ جیسا نہ اس سے پہلے ہوا ہے اور نہ اس کے بعد ! لیکن انسان کو دیکھنا چاہیئے کہ حقیقت میں کیا ظلم ہوا ہے اور یہ ظلم کس پر ہوا ہے ؟اس شخصیت پر ہوئی ہے جن کے بارے میں اتنی ساری روایات اور حدیث قدسی ہیں ، اگر انسان اس کی طرف توجہ کرے تو بھی ایسے مطالب بیان نہیں کرسکتا ،حضرت زہراء(س) کے بارے میں ہماری معرفت زیادہ ہونا چاہیئے ، آپ (س) کے بارے میں کچھ ایسی روایات نقل ہیں کہ ابھی تک اہل معرفت او ربزرگ ہستیاں ان کو بیان کرنے سے عاجز ہیں ۔
روایات میں ہے کہ جس نے حضرت فاطمہ (س) کی زیارت کی گویا اس نے پیغمبر اکرم کی ہے ، خدا کے زیارت کی ہے ،ان کے علاوہ خود زیارت میں کچھ جملات ہیں کہ انسان ان جملات کے معانی اور اس کے تہ تک نہیں پہنچ پاتا ، اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ لیلة القدر ہونے کا کوئی معنی نہ ہوتا ! لیکن جہاں تک ممکن ہے کوشش کرنی چاہیئے ۔
اگرچہ میں خواب اورخواب سے مستند واقعات کو بیان کرنے کی حق میں نہیں ہوں لیکن ابھی آپ کے خدمت میں ایک واقعہ کو عرض کرتا ہوں کہ ایک موثق شخص نے مرحوم آیت اللہ العظمی میلانی رضوان اللہ تعالی علیہ کے رشتہ داروں میں سے کسی سے نقل کرتا ہے ؛ ہمارے دادا( مرحوم آقای فاضل قفقازی) جب مشہد مقدس مشرف ہوتے تو آیت اللہ میلانی کی خدمت میں جاتے تھے ،ایک دفعہ مرحوم آقای فاضل نے ان کے لئے ا س خواب کو نقل کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں او رآیت اللہ العظمی بروجردی حضرت زہراء (س) کی خدمت میں شرفیاب ہوے ہیں ، اس وقت ہمارے دادا کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ آقای بروجردی سید ہے او رحضرت کے اولاد میں سے ہے ، میں یہاں سے اٹھ جاؤں گا تاکہ آقای بروجردی آپ (س) کے ساتھ رہے ،خواب کی عالم میں جیسی ہی یہ بات میرے ذہن میں آئی حضرت زہراء (س) نے فرمایا تم بھی ماں کی طر ف سے ہم میں سے ہو، اس کے بعد آقای بروجردی سے مخاطب ہو کر فرمایا:میرا بیٹا سید حسن ہمارے بارے میں جو مصائب آپ کے لئے نقل ہوئی ہے وہ سب صحیح ہے ،اگر آپ نے یہ سنا ہے کہ مجھے دروازہ اور دیوار کے درمیان میں زخمی کیا ہے تو یہ صحیح ہے ، اگر یہ سنا ہے کہ میرے دروازہ پر آگ لگا دی ہے تو یہ صحیح ہے ، اگر یہ سنا ہے کہ میرے محسن کو سقط کیا ہے تو یہ سب صحیح ہے مجھ پر یہ سب ظلم ہوئی ہے ! یہ وہ خواب ہے جس تاریخ کے قطعی مستندات تأیید کرتی ہے ،الحمدللہ انقلابی ہونے کی اس افتخار کو ہم نے اما م خمینی اور شہداء کی برکت سے حاصل کی ہے ، آج اس عنوان کے باقی رہنے کا ضامن خو دکو زیادہ سے زیادہ حقیقی معارف سے نزدیک کرنا ہے ، ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اہلبیت عصمت و طہارت کی وجہ سے ہے ، ہمارا یہ انقلاب اہلبیت عصمت و طہارت سے اس محکم وابستگی کی وجہ سے ہے ، اگر مجھ ایک طلبہ سے یہ سوال کرے کہ اس آخری سو سالوں میں حقیقت ولایت سے سب سے زیادہ آشنا فرد کون ہے ؟ تو میں پوری اطمینان کے ساتھ یہ عرض کروں گا وہ شخصیت امام خمینی رضوان اللہ علیہ ہے ، ولایت سے نزدیک اور ولایت کو سمجھنے میں امام خمینی جیسا آج تک مجھے کوئی دوسرا معلوم نہیں ہے ۔
کتاب ''مصباح الہدایہ'' کو انہوں نے تقریباً ٤٠ سال کی عمر میں لکھا ہے ، اس میں ولایت او رامامت کے بارے میں اتنے عمیق مطالب موجود ہے کہ ہمارے زمان کے عارفان اس کو بیان کرنے سے عاجز ہیں ،بعض مطالب کے حق مطلب کسی سے بھی اداء نہیں ہو سکتا ،کتاب اسرار الصلاة میں ولایت کے بارے میں کچھ ایسے مطالب درج ہیں کہ ان کے سامنے سب زانو ٹیکتے ہیں ، امام خمینی نے ولایت کی صحیح تشخیص دی ہے ،او ر اس بارے میں سوئی کے نوک کے برابر بھی ان میں شک و تردید نہیں تھا ، تردد، شک ، توقف ، انکار ، اشکال ان افراد کے لئے پیش آتا ہے جنہوں نے صحیح طرح ولایت کو نہیں سمجھا ہے !لیکن جس نے ولایت کو صحیح طر ح سمجھا ہو وہ ایسا عظیم انقلاب لا سکتا ہے اور آخری گھڑیوں تک ان کی فکر میں کوئی تغییر نہیں آتا ، ہمیں بھی چاہیئے کہ سب سے پہلے صحیح طر ح ولایت کو سمجھے ، اور اس کے بعد معاشرہ میں لوگوں کو اس سے آشنا کرائے
والسلام علیکم ورحمة اللہ برکاتہ