نور وز کے بارے میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی (دام ظلہ ) کے بیانات
26 December 2024
20:48
۴,۸۰۰
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
اسلام اورتشیع میں نوروز کی اہمیت (شہداء کے خانوادہ اورجانبازوں اور آزاد ہونے اسراء سے خطاب)
آپ شہیدوں کے معزز اہل خانہ ،اوراس مجلس میں موجود علماء کرام کی خدمت میں نوروز کی مناسبت سے تبریک پیش کرتا ہوں،میں سال کی ابتدائی ساعات ميں خدا کے اس گھر میں جو کہ امیر المومنین علیہ السلام کے مبارک نام سے موسوم ہے اوراس معنوی مجلس میں شرکت کو ایک بڑی توفیق سمجھتا ہوں ۔
شہداء کے گھروالے ایسے مومنین ہيں جنہوں نے انقلاب کی تمام بوجھ اپنے کندھے پراٹھائے ہوئےتھے اورابھی بھی ہے اوراس انقلاب کا باقی رہنا بھی آپ مومنین کی ہمہ وقت تیار رہنے اور مومنین کی فداکاری کی وجہ سے ہے انشاء اللہ ۔
میں یہاں پر ان ایام کے بارے میں چند کلمات عرض کرتا ہوں
پہلا مطلب
پہلا مطلب نوروز کے بارے میں ہے ، قدیم زمانہ سے ابھی تک بعض متدین اوردیندارافرادیہ سوال کرتے آئے ہیں کہ نوروز کے بارے میں اسلام کا کیا نظریہ ہے ؟
کیا نوروز صرف ایک قومی عید ہے اور یہ صرف موسم کے بدلنے سے مربوط ہے یا نہیں ! بلکہ اس بارے میں اسلام کا بھی کوئی خاص نظریہ ہے ؟
میں خلاصۃ یہ عرض کرتا ہوں کہ جو کلمات روایات میں متعدد بارذکر ہوا ہے ان میں سے ایک کلمہ ''نوروز'' ہے ۔
جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں
کو توڑا روایات میں اس دن کو نوروز کہا گیا ہے[1]
یا جس دن جبرئیل امین حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرنازل ہوا اور آپ
(ص) کو رسالت پر مبعوث فرمایا اس دن کو نوروز کہا گیا ہے ۔
جس دن پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں کو بلند کرانہیں اپنا ولی اوروصی کے طورپرلوگوں کودیکھا یااوریہ فرمایا: «من کنت مولاه فهذا علي مولاه»اس دن کو بھی روایات میں نوروز کہا گیا ہے۔
جس دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی (ع) کو جنات کے ایک گروہ کی طرف بیھجا تھا تا کہ انہیں اسلام کی دعوت دیں ، اس دن کو بھی نوروز کہا گیا ہے ۔
جس دن حضرت امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر اکرم(ص) کے کاندھوں پرسوارہوکربتوں کو توڑا تھا اور کعبہ کو مشرکین کے نجس بتوں سے پاک کیا تھا اس دن کوبھی نوروز کہا گیا ہے ۔
اسی طرح جس دن حضرت قائم آل محمد (ص) قیام اورظہور فرمائیں گے اس دن کو نوروز کہا گیا ہے، اور جس دن حضرت امام زمانہ(عج) کے مبارک ہاتھوں سے دجال مارا جائے گا اس دن کو بھی نوروز کہا گیا ہے [2]۔
ہم جب نوروز کے بارے میں موجود روایات پرنظر ڈالتے ہيں تو ان مصادیق کو اس کے لئے ذکر کیا ہواملتا ہے ، اس سے ہم یہ کہہ سکتے ہيں کہ ہم ایرانی قوم روایات ميں ذکر مصادیق کے مطابق جو دن لوگوں کےلئے نئی زندگی کا دن ہو ،طبیعت کے کھلنے کا دن ، دین کی حیات کا دن ، ایک انسان کی نئی زندگی ،ایک معاشرہ کے زندہ ہونے کا دن ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب کو نوروز کہہ سکتے ہیں ۔
اسلام اورمذہب تشیع کی ثقافت میں ''نوروز'' ایک معین او رمشخص دن نہیں ہے جس کے خاص گھنٹہ ،منٹ اورسکینڈ معین ہو،بلکہ ہر وہ دن جس میں زندہ ہونے کا مصداق آتا ہو وہ نوروز ہے ، وہ چاہئے کسی معاشرہ کے زندہ ہونے کا دن ہو یا کسی انسان کا ،یا دین اور دین کی ارکان کا وہ دن نوروز ہے ۔
اس لحاظ سے ہم انقلاب اسلامی کے کامیاب ہونے والے دن کو نوروز کہہ سکتے ہيں ، جس دن آپ کے فرزندان عراق کے ساتھ جنگ ميں فتح یاب ہوئے اس دن کوبھی نوروز کہہ سکتے ہیں ' نوروز کا اصلی معنی یہ ہے ۔
روایات ميں بھی ہے ایک دن حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں کوئی میٹھا لایا گیا ' آپ (ع) نے فرمایا : یہ مٹھائی کس مناسبت سے لایا گیا ہے ؟ عرض کیا : آج نوروز ہے ، آپ نے فرمایا: «فَنُورزوا اِن قَدَرتُم کُلَّ يَومٍ»؛ ہردن کو اپنے لئے نیا دن قرار دے دو[3]۔
انسان کو چاہئے کہ ہر دن اپنے آپ کو خدا سے نزدیک کرے اور اپنے علم اور دانش میں اضافہ کرے اوراپنے اندراخلاقی صفات کو زندہ کرے ،اپنے باطن کو ظاہرکی طرح پاک اور صاف کرے ۔
روایات میں بھی ہے کہ بہترین اورپاک ترین لباس کو پہن لو ، جس دن انسان اپنے جہل کو کم کرے ، برے اخلاق کو اپنے سے دور کرے،معاشرہ میں کردار ادا ء کرے اور بصیرت کے ساتھ معاشرہ میں پیدا ہونے والے فتنوں پر توجہ رکھے اور شہداء نے ہمارے کاندھوں پر جو وظیفہ امانت چھوڑ کر گئے ہیں ان کو جان لیں اور ان کی حفاظت کرے ، جن دنوں میں یہ کام انجام پائے وہ سب نوروز ہے ۔
ہماری دینی لغت اور ثقافت میں نوروز کا معنی یہی ہے ۔
دوسرے الفاظ میں ہمارے دینی ثقافت میں نوروز کا ایک عام مفہوم ہے جس کے بعض مصادیق واقع ہوئے ہیں اوربعض آیندہ آنے والے زمانوں میں واقع ہوگا ،روایات میں نقل ہے کہ ہمارے آئمہ طاہرین علیہم السلام نے فرمائے ہیں : ''عجم والوں نے نوروز کی محافظت کی ہے '' شایدمراد یہی ہو کہ اس کے مصادیق میں سے ایک یہی موسم بہار کا شروع ہونا ہو کہ اسے نوروز قرار دیا ہے ۔
دوسرا مطلب
آج سال کے پہلے دن میں آپ تمام اس مقدس جگہ پر شہداء کی تجلیل اورتکریم اور ان کی فداکاروں اور جن زحمتوں کو انہوں نے برداشت کیا ہے ان کی یاد منانے یہاں پر جمع ہوئے ہیں ، یہ اس لئے ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اگرآج اس ملک میں امنیت ہے اورہماری یہ حکومت قائم ہے تو انہیں شہداء کی خون کے بدولت ہے ۔
جوافراد بابصیرت ہوں اورسوچ بچاررکھنے والے ہیں وہ بابانگ دہل کہتے ہیں ہمارے شہیدوں کی ایک قطرہ خون بھی ضائع نہیں ہوا ہے ، اور بنیادی طور پر قانون خدا بھی یہی ہے کہ شہداء کے خون کا ایک قطرہ بھی رائیگان نہیں جاتا ۔
اب ممکن ہے میں اور آپ اس کے آثار کو دیکھیں اور سمجھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ خدا نہ کرے ہم ان سے دور ہو جائے ، لیکن ہمارے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے فرق نہیں پڑتا، شہیدوں کے خون ہمیشہ رنگ لاتے ہیں ۔
آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ٣٢ سال گزرنے کے بعد اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری آگئی ہے ، کہ ایک مصری جوان کہتا ہے : مجھے چاہئے کہ ایرانی ١٣ سالہ جوان کو اپنے لئے آئیڈیل قرار دوں ، دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہی ہے ۔
اگر لوگوںنے کربلا کے واقعہ کے وقت یا اس کے بعد کے قریبی ایام میں ان کے خون کے آثار کو نہیں دیکھا ہے ، لیکن ہم آج یہی کہیں گے کہ ہمارا یہ انقلاب ایک ہزاراور کچھ سالوں کے بعد انہیں شہداء کے خون کا نتیجہ ہے ، ان شہیدوں کے خون کی وجہ سے ہے جوعاشور کے روز کربلا کے زمین پر بہایا گیا ، یہ بیداری ،یہ انقلاب اور یہ سارے جوش وخروش انہیں شہیدوں کے خون کی وجہ سے ہے ۔
ایران کے شہیدوں نے چونکہ اپنے خون کو اسلام کے لئے بہایاہے ،اس لئے اس کے آثار اور برکات نہ صرف ان کے خاندان یا ان کے علاقہ اور معاشرہ میں بلکہ یہ پوری بشریت میں ظاہر ہو گا ، شہید تمام بشریت کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔
شہیدوں کے گھر والوں کو اگرچہ یہ افتخار حاصل ہے کہ وہ ان شہیدوں کے نزدیک تھے ، کہ ہمارے مرحوم والد گرامی (رضوان اللہ تعالی علیہ ) کی خدمت میں جب شہیدوں کے خانوادہ آتے تھے تو فرماتے تھے :''میں قرآن کریم سے یہ استفادہ کرتا ہوں کہ نہ صرف شہید بہشت میں جائیں گے ( کیونکہ تمام مومن اورپرہیزگاران بہشت میں جائیں گے )بلکہ میں آیہ کریمہ "اِنَ اللهَ اشتَري مِنَ المومنينَ اَنفسهم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَهَ" سے یہ استفادہ کرتا ہوں کہ خداوند متعالی بہشت کی اختیارات کوشہید کے ہاتھ میں دیتا ہے ، اب جس شہید کے ہاتھ میں بہشت ہو کیا وہ اپنے ماں ،باپ ، گھر والوں ،رشتہ داروں اور اپنے دوستوں کو بہشت میں نہیں لے جائیں گے ؟ یقینا ً ایسا کریں گے ، کتنے خوش نصیب ہیں آپ شہیدوں کے گھر والے ۔
میں یہاں ایک مطلب کو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ شہید تمام بشریت کے لئے ہے ، ہم آج اسے دیکھ رہے ہیں ،ایران کے شہداء صرف ایران کے لئے نہیں ہے ،بلکہ پوری بشریت ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔
تیسرا مطلب
اس سال ہماری عید ایک کامل عیدنہیں ہے ،چونکہ بڑے مصائب کے ساتھ ہے ،یہاں مسلمانوں اور شیعوں خصوصاً ہمارے انقلابی قوم کواس بارے میں بیداری دکھانے کی ضرورت ہے ، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت نے بحرین کے مظلوم عوام پر کیسے وحشیانہ طور پر حملہ کررہا ہے اور انہیں خاک و خون میں نہلا کر اسرائیل کو بھی پیچھے چھوڑا ہے ۔
عالم اسلام چاہئے وہ شیعہ ہو یا سنی ان پر جو مصائب اور مشکلات آتے ہیں ہم ان کے برابر شریک ہیں ،کوئی خدانخواستہ ایسا نہ سوچیں کہ ہمیں اس سے کیا ربط ہے ،یہ الگ گروہ ہیں ان کے اپنے الگ الگ مقاصد ہیں ،آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے قلع قمع کرنے کے لئے دنیا کے سپرپاور طاقتیں کیسے متحد ہوئے ہیں تا کہ جیساکہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان کی یہ اتحاد ان آنے والے انقلاب کو اپنے کریڈٹ میں کرنے کے لئے ہے ،اور ان کو اپنے فائدہ کی طرف لے جانے کے لئے ہے ۔
چوتھا مطلب
ان مجالس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے لوگ صرف اسلام کے ساتھ ہے ، ہم نے مکتب اسلام اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ نہ کسی اور مکتب کا سنا ہے اور نہ سننا چاہتے ہیں ، ہم اسلامی اقدار کے عملی ہونے کے درپے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ کے لئے باقی و جاری رہے ، ہماری پرانی روایتیں جو تھے اور ایران قدیم میں تھے اور ہماری حکومتوں نے اسے انجام دیا ہے ان کے زندہ کرنے کے درپے ہیں ۔
ہمارے حکام اعلی جنہوں نے اسلام خواہی کے نعرے لگائے ہیں ان کو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ ہماری ملت سال کے ابتدا کو ان مساجد اور مقدس مقامات پر آنے سے ان کے معنوی اور دینی شعور کے علاوہ اور کیا پیغام مل سکتا ہے؟ہمارے شہداء اسلام کی سربلندی کے لئے جنگ میں گئے ہیں ،کونسے شہید کے کلام میں ہمیں مکتب ایرانی کی کوئی بات دیکھنے کو ملتا ہے ؟ کس شہید کے کلام میں ہمیں اسلام سے ہٹ کر کسی اورچیز کے بارے میں نظر آتا ہے ؟
امام خمینی (رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی صرف یہی فرماتے تھے اور فرماتے ہیں انقلاب اسلامی ، اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ،ہمارے پاس کوئی اور چیز نہیں ہے ، اور نہ کوئیاور چیز معلوم ہے ، ہم صرف مکتب اسلام اور مکتب اہل بیت (ع) کے درپے ہیں ،اور ملک کے اعلی حکام سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ کوئی ایسا عنوان اور مطلب بیان نہ کیا جائے جس سے ہمارے شہداء کے خانوادہ کو رنجیدہ ہو جائے ، اس طرح کے فکر اور نظریہ انقلاب سے قبل کی جاہلیت کی طرف پلٹنا ہے ۔
اس طرح کے طرز فکر جو غیر اسلام کے ارزش اور قدر و قیمت کا قائل ہو ں مہدویت کے تبلیغ اور امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے پیرو ہونے کے ساتھ سازگار نہیں اور جو افراد صحیح مہدویت کی حقیقت سے واقف ہیں وہ لوگ اس بات سے بخوبی آشنا ہیں ۔
کوشش کریں انقلاب میں جو نعرے لگائے ہیں اور جن چیزوں کے بارے میں ہمارے شہداء نے تاکید کی ہیںجو زیادہ سے زیادہ لوگوں کواسلام اورانقلاب کے بارے میں امیدوار کراتے تھے ان پر گامزن رہنے کی کوشش کریں ۔
میں آخر میں ایک بار پھر آپ تما م کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے بھی آپ کے اس اجتماع میں آنے کا موقع حاصل ہوا ، امید ہے کہ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے اپنے ہر دن کو نوروز قراردیں گے ۔
خداوندمتعالی ہمارے ہرسیکنڈکوحقیقی نوروز
قرار دیں اورہرلحظہ ہمیں خود سے نزدیک کرائے
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سلام علیکم ورحمة الله
[1] --يوم النيروز هو اليوم الذي كسر فيه إبراهيم(ع) أصنام قومه
[2] -- الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ عَنِ الصَّادِقِ(ع) أَنَّ يَوْمَ النَّيْرُوزِ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي أَخَذَ فِيهِ النَّبِيُّ(ص) لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ(ع) الْعَهْدَ بِغَدِيرِ خُمٍّ فَأَقَرُّوا لَهُ بِالْوَلَايَةِ فَطُوبَى لِمَنْ ثَبَتَ عَلَيْهَا وَ الْوَيْلُ لِمَنْ نَكَثَهَا وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي وَجَّهَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيّاً إِلَى وَادِي الْجِنِّ وَ أَخَذَ عَلَيْهِمُ الْعُهُودَ وَ الْمَوَاثِيقَ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي ظَفِرَ فِيهِ بِأَهْلِ النَّهْرَوَانِ وَ قَتَلَ ذِي الثَّدْيَةِ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي فِيهِ يَظْهَرُ قَائِمُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ وُلَاةَ الْأَمْرِ وَ يُظْفِرُهُ اللَّهُ بِالدَّجَّالِ فَيَصْلِبُهُ عَلَى كُنَاسَةِ الْكُوفَةِ وَ مَا مِنْ يَوْمِ نَيْرُوزٍ إِلَّا وَ نَحْنُ نَتَوَقَّعُ فِيهِ الْفَرَجَ لِأَنَّهُ مِنْ أَيَّامِنَا حَفِظَهُ الْفُرْسُ وَ ضَيَّعْتُمُوهُ ثُمَّ إِنَّ نَبِيّاً مِنْ أَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ سَأَلَ رَبَّهُ أَنْ يُحْيِيَ الْقَوْمَ الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ هُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَأَمَاتَهُمُ اللَّهُ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ صُبَّ عَلَيْهِمُ الْمَاءَ فِي مَضَاجِعِهِمْ فَصَبَّ عَلَيْهِمُ الْمَاءَ فِي هَذَا الْيَوْمِ فَعَاشُوا وَ هُمْ ثَلَاثُونَ أَلْفاً فَصَارَ صَبُّ الْمَاءِ فِي يَوْمِ النَّيْرُوزِ سُنَّةً مَاضِيَةً لَا يَعْرِفُ سَبَبَهَا إِلَّا الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ وَ هُوَ أَوَّلُ يَوْمٍ مِنْ سَنَةِ الْفُرْسِ قَالَ الْمُعَلَّى وَ أَمْلَى عَلَيَّ ذَلِكَ فَكَتَبْتُ مِنْ إِمْلَائِهِ الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ عَنِ الصَّادِقِ ع أَنَّ يَوْمَ النَّيْرُوزِ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي أَخَذَ فِيهِ النَّبِيُّ ص لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع الْعَهْدَ بِغَدِيرِ خُمٍّ فَأَقَرُّوا لَهُ بِالْوَلَايَةِ فَطُوبَى لِمَنْ ثَبَتَ عَلَيْهَا وَ الْوَيْلُ لِمَنْ نَكَثَهَا وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي وَجَّهَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيّاً إِلَى وَادِي الْجِنِّ وَ أَخَذَ عَلَيْهِمُ الْعُهُودَ وَ الْمَوَاثِيقَ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي ظَفِرَ فِيهِ بِأَهْلِ النَّهْرَوَانِ وَ قَتَلَ ذِي الثَّدْيَةِ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي فِيهِ يَظْهَرُ قَائِمُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ وُلَاةَ الْأَمْرِ وَ يُظْفِرُهُ اللَّهُ بِالدَّجَّالِ فَيَصْلِبُهُ عَلَى كُنَاسَةِ الْكُوفَةِ وَ مَا مِنْ يَوْمِ نَيْرُوزٍ إِلَّا وَ نَحْنُ نَتَوَقَّعُ فِيهِ الْفَرَجَ لِأَنَّهُ مِنْ أَيَّامِنَا حَفِظَهُ الْفُرْسُ وَ ضَيَّعْتُمُوهُ ثُمَّ إِنَّ نَبِيّاً مِنْ أَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ سَأَلَ رَبَّهُ أَنْ يُحْيِيَ الْقَوْمَ الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ هُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَأَمَاتَهُمُ اللَّهُ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ صُبَّ عَلَيْهِمُ الْمَاءَ فِي مَضَاجِعِهِمْ فَصَبَّ عَلَيْهِمُ الْمَاءَ فِي هَذَا الْيَوْمِ فَعَاشُوا وَ هُمْ ثَلَاثُونَ أَلْفاً فَصَارَ صَبُّ الْمَاءِ فِي يَوْمِ النَّيْرُوزِ سُنَّةً مَاضِيَةً لَا يَعْرِفُ سَبَبَهَا إِلَّا الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ وَ هُوَ أَوَّلُ يَوْمٍ مِنْ سَنَةِ الْفُرْسِ قَالَ الْمُعَلَّى وَ أَمْلَى عَلَيَّ ذَلِكَ فَكَتَبْتُ مِنْ إِمْلَائِهِ.
[3] -عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ(ع) أَنَّهُ أُهْدِيَ إِلَيْهِ فَالُوذَجٌ فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا يَوْمُ نَيْرُوزٍ قَالَ فَنَوْرِزُوا إِنْ قَدَرْتُمْ كُلَّ يَوْمٍ.