شہر رشت میں امام خمینی(رہ ) کی چوبیسوں برسی کی مناسبت سے حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ ) کے تقریر کا خلاصہ

04 May 2024

16:03

۴,۴۶۷

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

امام خمینی(رہ) کی چوبیسوں برسی کی مناسبت سے ایک مجلس برسی کمیٹی اور رشت کے نمایندہ ولی فقیہ اور امام جمعہ کی طرف سے 4جون 2013 بروز منگل کو شہر رشت کے مصلا میں منعقد ہوئی۔

اس مجلس میں قدرشناس اور وفادار لوگوں کے علاوہ علماء و فضلا اور مختلف ادارجات کے مسولین نے شرکت کی تھی حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) نے اپنے خطاب میں فرمایا:

میں اپنے عرایض میں چند پہلوؤں پر گفتگو کرنا چاہتاہوں، آج اس عظیم شخصیت کی بررسی ہے جس کے ہم سب کےگردن پربہت بڑاحق ہے ،کل حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے کہ امام خمینی(رض) کا افتخار یہ تھا کہ آپ اسی امام معصوم سے منسوب تھے ، اسی طرح ١٥ خرداد کے قیام کا دن بھی ہے کہ یہ امام (رض) کے قیام کا سر آغاز تھا ، اسی طرح امام (رض) کے ارتحال کے بعد مجلس خبرگان رہبری کی طرف سے مقام معظم رہبری کے رہبر کے انتخاب ہونے کا دن بھی ہے ۔

سنہ ١٣٤٢ ہجری شمسی سے پہلے امام(رض) کا سب سے پہلا کتبی پیغام یہ آیہ شریفہ ہے «قل انما اعظکم بواحده ان تقوموا لله مثنی وفرادی»امام خمینی کے کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز ان کا قرآن کریم سے بہت گہرا ارتباط ہے ۔

کتاب ''اسرار الصلوۃ'' اور ''آداب الصلوۃ'' کو امام نے اپنی جوانی میں لکھا ہے کہ نماز کے اسرار کے بارے میں اس کتاب کے مطالب ہمارے عرفان اور اخلاق کے بزرگ ہستیوں کے کتابوں سے بہت زیادہ عمیق اور گہرا ہے ،اس کتاب میں قرآن کریم سے ایک مطلب کو بیان کرتا ہے کہ ممکن نہیں کوئی اور یہ جملہ کہہ بیٹھے مگر اس شخص سے جو قرآن کریم سے کامل طور پر آشنا ہو، اس پیغام میں بھی امام اس آیہ شریفہ کو لکھا ہے کہ خداوند متعالی تمام بشریت کو نصیحت کرتا ہے ایک نصیحت اور وہ یہ ہے کہ خدا کے لئے قیام کرے ۔

امام نے اس نصیحت کو اچھی طرح سمجھ لیا اور اسی کے مطابق عمل بھی کیا اور اپنے تمام کاموں کو صرف خدا کے لئے قراردیا اورخدا و قرآن اور اہلبیت (ع) کے علاوہ کسی اور سے کچھ نہیں بولا ' اپنے وصیت نامہ میں بھی فرمایا ہے : «انی تارک فیلکم الثقلین کتاب الله وعترتی» ہم جو اپنے آپ کو امام کے پیروکار بتاتے ہیں اور ان کی اقدار پرعمل کرنے کی بات کرتے ہیں ہمیں بھی چاہئے کہ صرف خدا 'قرآن اور اہل بیت (ع) سے بولیں ،امام کی پوری کوشش اسلام کو بیان کرنا تھا ، اگر عدالت 'سیاست اور اقتصاد۔۔۔۔۔۔کے بارے میں باتیں کرتے تھے تو ان سب کو اسلام کے سایہ میں بات کرتے تھے وگرنہ اسلام کے بغیر عدالت 'آزادی اور استقلال ۔۔۔۔۔۔ کی کیا قیمت ہے ؟اسلام خدا کی ایک امانت ہے اور اس کے لئے بہت سارے خون بہائے گے ہیں۔

50.jpg

امام کی خصوصیات میں سے ایک ان کا اخلاق مدارہونا تھا، لہذا اپنی سیاسی ، اجتماعی اور شخصی زندگی میں کبھی بھی اخلاق کے مدار سے خارج نہیں ہوئے ، آج امام کے تمام پیروکاروں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ اپنی زندگی میں اخلاق کے بارے میں کس حد تک توجہ کرتے ہیں اوراسے اپنی زندگی کس حد تک شامل کیا ہے ، بہت سارے لوگ اور پارٹیاں حتی کہ جو دین اسلام سے خارج ہیں وہ بھی ممکن ہے اخلاقیات پرتوجہ دیں،لیکن وہ اخلاق خدا سے لیا ہو اخلاق نہیں ہے بلکہ وہ اپنے درمیان آداب زندگی کی رعایت کے لئے ہے ،لیکن وہ اخلاق جو خدا سے نزدیک ہونے کا سبب بنتا ہے وہ اخلاق ہے جو خدا کے لئے ہو ۔

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امام علم اورسیاست کے اس اونچے درجہ پر فائز تھے لیکن اس کے باوجود جزئی احکام اور آداب اسلامی کے اّخری درجہ سے بھی غفلت نہیں کرتے تھے ، کہیں بھی امام اپنی طرف بلاتے ہوئے نظر نہیں آتے ، اسلام کے مد نظر لوگوں کی خدمت کرنے اورغربی دنیا کے مطابق لوگوں کی خدمت کرنے میں میلوں کا فاصلہ ہے ، وہ لوگ اگر لوگوں کی بات کرتے ہیں تو صرف اس لئے ہے تاکہ ان کی قدرت و طاقت باقی رہ جائے اسی لئے ہزاروں قسم کے مکرو فریب ہوتا ہے ۔

لیکن امام کی نظر میں لوگوں کی خدمت کرنا حق کی خدمت ہے لہذا یہ خدا کی خدمت ہے اور فرماتا ہے: چونکہ پروردگار عالم کے شکر کرنے سے عاجز ہوں لوگوں کی خدمت کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ خدا کے مخلوق اور لوگوں کی خدمت کرنا ' ان کی خالق کی خدمت کرنا ہے ۔

چونکہ امام کی پوری توجہ خدا پر ہے اسی لئے جب انہیں گرفتار کر کے تھران لے جاتا ہے تو فرماتا ہے مجھے کسی قسم کی خوف وہراس نہیں ہے ،تو لہذا آج کیوں امام کے فرمایشات ہمارا نصب العین قرار نہ پائے ؟

آج ہم سب کو خدا کی طرف توجہ کرنا چاہئے اور پارٹی بازی سے اجتناب کرنا چاہئے ،آج ہمیں ایک ایسے صدر کی ضرورت ہے جو امام کے دستورات پر عمل کرے ،جو شخص کلچر پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہو وہ امام کے راستہ پر نہیں ہے ،الحمد للہ نعمت ولایت فقیہ کی وجہ سے آج امت میں وحدت ہے ۔

اب اگر لوگ بڑھ چڑھ کر الیکشن میں حصہ لیں اور جیساکہ مقام معظم رہبری نے فرمایا ہے لوگ اگر حماسہ سیاسی وجود میں لائے ،تودنیا کے سامنے انقلاب کی شان وشوکت اور عظمت بڑھ جائے گی ،اوراگرآج کوء شخص الیکشن مےں حصہ لینے کے بارے میں بی تفاوت ہو تو اس کے پاس انقلاب کے شہداء کے سامنے دینے کا کوئی جواب نہیں ہو گا ،لہذا ہم سب کا فرض ہے کہ اس لیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

یہ مکتب اسلام ہے کہ خلق کو عیال اللہ (خدا کا گھر والا) بتاتے ہیں،اور لوگوں کی خدمت کی ترغیب دلانے والی سینکڑوں روایات موجود ہے اوراس شخص کو خداکے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بتاتے ہیں جو بہت زیادہ لوگوں کے کام آتا ہو۔

١٥ خرداد کو لوگوں نے وجود میں لایا ہے ،جب انہوں نے دیکھا کہ طاغوتی حمکراں اسلام کے احکام کو حذف کرنے کے درپے ہیں اور اسلام اور قرآن کے نام کے علاوہ کچھ اور باقی نہیں رہا ہے ،اسی وجہ سے امام نے فرمایا: لوگوں کو چاہئے کہ وہ ١٥ خرداد کو پہچان لیں اور اسے ہمیشہ کے لئے یاد رکھیں،امام نے ہمیں پہچانوایا ہے اگر امام اور انقلاب نہ ہوتا،آج ہمیں اسلام اوراہل بیت (ع) کے معارف کے بارے میں کیا معلومات ہوتیں؟ وہ طاغوتی حکمران ان سب کوختم کر چکے ہوتے۔

ہم سب کا وظیفہ ہے کہ اپنی اس پہچان کی حفاظت کریں ' اور کسی کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ کچھ افراد آکر دوسرے عناوین کو ہمارے سامنے رکھے کہ کچھ لوگ ابھی اسی کوشش میں ہے ۔

جن اہم چیزوں میں سے ایک جسے امام نے ہمارے لئے چھوڑا ہے وہ ولایت فقیہ ہے،کہ ہمیں ان کی حمایت اور پشتیبانی کرنا چاہئے،اور روایات کے مطابق فقیہ وہ شخص ہے جس سے کوئی چھوٹا سا گناہ بھی سرزدنہ ہو۔

دنیامیں کس کے رہبر ایسی شخصیت کے حامل ہے جس کی تمام تر توجہ خدا پرہواور اپنی پوری وقت کو لوگوں کی خدمت میں گزارے؟ہمیں اس نعمت کی قدرکرنی چاہئے اور ان تمام مشکلات کے باوجود ہمیشہ انقلاب کی حمایت میں جوق درجوق شرکت کرنا چاہئے ۔

خداوند متعال اس انقلاب کو محفوظ رکھے ۔




 

 

 

برچسب ها :