الازهر مصر کے عالم دین جناب شیخ تاج الدین الهلالی کا حضرت آیت الله فاضل لنکرانی سے ملاقات

19 May 2024

07:15

۲,۴۹۳

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

الازهر مصر کے عالم دین جناب شیخ تاج الدین الهلالی کا حضرت آیت الله فاضل لنکرانی سے ملاقات
الازهر مصر کے عالم دین جناب شیخ تاج الدین الهلالی نے مرکز فقہی آئمہ اطہار (علیہم السلام)قم میں حضرت آیت الله فاضل لنکرانی (دام عزہ) سے ملاقات کی 'اس ملاقات میں حوزہ علمیہ قم کے انٹرنشنل روابط کے سیکٹریری جناب حجة الاسلام و المسلمین آل‌ایّوب مترجم تھے انہوں نے ابتداء میں اس عالم دین کی مصروفیات کو مختصرا یوں بیان کیا:
جناب شیخ تاج الدین الهلالی الازہر مصر کے علماء میں سے ایک ہیں کہ آسٹریلیاکے مفتی عام کے فوت کے بعد آپ کو آسٹریلیا کا مفتی عام بنایا گیا ہے اور چند سال وہاں پر رہائش پذیر تھے ۔
آپ خاص طورپرجوانوں پر کام کر رہے ہیں اور خود ان کے بقول ابھی تک تقریباً ایک ہزار جوان ان کے ساتھ ہيں مخصوصاً صحرای سینا چونکہ اسرائیل کے نزدیک ہے لہذا بہت ہی حساس علاقہ ہے اور وہاں پر عام آبادی ایسے لوگوں کی ہیں جو ایک ہی قبیلہ کے ہیں اور آپس میں رشتہ دار ہیں ،آپ بخوبی واقف ہیں کہ اس وقت مصر میں جو حالات ہیں خاص کر مسلحانہ جو اقدمات ہیں وہ صحرای سینا ميں واقع ہے ، لیبیا سے جو اسلحہ مصر ميں لانے والے اکثر اسلحے سحرای سینا کی طرف سے آتے ہیں ، اس وقت مصر کی حکومت کے خلاف جو حالات پیدا ہورہے ہیں ان افراد کے لئے بھی چونکہ یہ لوگ قبائلی اورعشایری ہیں لہذا یہی لوگ ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔
جناب آقای الہلالی دوسرے ممالک جیسے عراق میں بھی کچھ کام انجام دیے ہیں ،جس وقت ''دگلاس''(ایک امریکائی باشندہ) کو عراق میں اغواء کیا گیا تھا ان کو آزاد کرانے کے لئے وہاں گئے تھے البتہ وہاں وہ خود اغواء ہو گئے ، وہاں پر جوانوں پر کام کیا اور سب کو متاثر کیا اور انہوں نے ہی ان کو چھڑا لیا ، چونکہ جب امریکی فوجیوں کو یہ پتہ چلا کہ یہ جوانوں کواپنی طرف کر لیا ہے تو انہیں قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا لہذا جن لوگوں نے انہیں اغواء کیا تھا خود انہیں لوگوں نے ان کو اردن بھیج دیا اور وہاں سے مصر آگئے۔
جناب آقای الہلالی کا مذہب اہل بیتعلیہم السلام کے بارے میں بہت اچھے بیانات ہیں ان کی ایک خاص امتیاز اعتدال پسندی ہے کہ اپنے تبلیغی دوروں میں پوری دنیا میں اسلامی مذاہب کے بارے میں ہمیشہ اعتدال اور حد وسط کی بات کرتے ہیں ، وہابیت اور تکفیریوں کے خلاف ان کےکچھ خاص بیانات اور بہت ساری لیٹیچر ہیں ۔
تکفیریوں سے مقابلہ اور مبارزات کرنے اور اصلاح جامعہ کے بارے میں پندرہ سولہ مقالات لکھے ہیں ، ان کے گھر والے ابھی تک آسٹریلیا میں ہیں لیکن مصر کی حالات کی وجہ سے یہ خود مصر ميں مقیم ہیں ،ایران بھی بہت دفعات آچکے ہیں سب سے پہلا سفر ١٩٨١ میں کیا تھا کہ امام خمینی (رہ) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے ، آپ آقای غزالی کے ہمراہ امام کی خدمت میں گئے تھے اورتین افراد پر مشتمل ایک خصوصی میٹینگ تھا ، اور اب بھی اس خصوصی میٹینگ کواپنے افتخارات میں سے بتاتا ہے ،نظام اورعملی طور پر کام کرنے کے حق میں ہے اور ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہمیں جہان اسلام میں کام اور کام ہی کرنا چاہئے ' کنفرانس اور سیمنارز تو اموات کے لئے ہے نہ کہ زندہ کرنے کے لئے، یہ چیزیں کسی کام کا نہیں ہے ہمیں اس بارے میں کوشش کرنا چاہئے کہ دنیا کو ایک مقتدر اسلام کی طرف لے جائیں اور تمام مذاہب چاہئے وہ شیعہ ہو یا اہلسنت سب اسی کے لئے کام کریں ۔
آیت اللہ فاضل نے فرمایا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سب سے پہلے جناب ڈاکٹر صاحب کو ایران اور شہرقم شہر علم و اجتہاد و دین میں خوش آمدید کہتا ہوں اورمرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) تشریف لا کر ہمیں ان کی زیارت کی توفیق حاصل ہوئی اس پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں،امید ہے کہ انشاء اللہ حوزہ علمیہ قم میں آپ کا حضور اور عصر حاضر میں حفظ اسلام کے بارے میں جو خطاب اور تقریر کریں گے وہ علماء کے لئے مؤثر واقع ہو جائیں۔
ان کی باتوں سے بہت خوشی حاصل ہوئی کہ الحمدللہ آج بھی اہلسنت کے بڑے علماء میں ایسے روشن فکر عالم موجود ہیں اور ہمارے لئے واقعاً بہت ہی امید کا مقام ہے کہ ایسے فکر اور اندیشہ کے ذریعہ انشاء اللہ ہم عصر حاضر میں جہان اسلام میں کچھ کام کر سکیں گے۔
وقت کے تقاضے کے مطابق میں چند محورپرمیں گفتگو کرنا چاہتا ہوں ، سب سے پہلا مطلب یہ ہے کہ روایات کے مطابق علماء وارثان انبیاء اور وارث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ ہیں ان کا پہلا وظیفہ یہ ہے کہ دین کی حقیقت کو کما ہو حقہ اور جوواقع ہے اسے موجودہ نسل کے لیے بیان کریں ، یہ اہم وظائف میں سے ایک ہے کہ علماء شیعہ کو بھی اس پر عمل کرنا چاہئے اور علماء اہل سنت کو بھی ،کہ خداوند متعالی نے قرآن کریم میں جو بیان فرمایا ہے اور سنت قطعیہ ی رسول خدا (ص) کے عنوان سے جو موجود ہیں انہیں جوانوں اور نسل آیندہ تک کاملاً پہنچایا جا‎‏ئے۔
علماء شیعہ اور علماء اہل سنت کے لئے ایک اہم مسئلہ حفظ قرآن کریم اور ان معارف کا حفظ کرنا ہے جو قرآن کریم میں بیان ہو اہے ، آپ بخوبی آگاہ ہے کہ وہابیوں نے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان افتراق ڈالنے کے لئے جو کام کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قدیم الایام سے شیعوں پر یہ تہمت لگاتا رہاہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں ، آج بھی جب ہم سعودی عرب یا کچھ دوسرے جگہوں پر جاتے ہیں تو وہابی علماء یہی تہمت لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں ، لیکن آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ پانچویں صدی سے یعنی شیخ طوسی کے زمانہ سے ہمارے ہاں تفسیر تبیان موجود ہے کہ یہ قرآن کریم کی تفسیر ہے اوراسی قرآن کی تفسیر ہے جو ابھی ہمارے پاس موجود ہے ، حتی کہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی کچھ تفاسیر لکھے گئے ہیں۔
الازهر مصر کے عالم دین جناب شیخ تاج الدین الهلالی کا حضرت آیت الله فاضل لنکرانی سے ملاقات
آپ جیسے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء سے ہماری یہی خواہش ہے کہ اپنے علمی مراکزاور یونیورسٹیوں میں وہابیوں کے ان باتوں کے لئے کوئی پذیرائی ملنے نہ دیں ، شیعہ بزرگان منجملہ ہمارے والد مرحوم کے مدخل التفسیر کے نام سے ا یک کتاب ہے کہ اس کتاب کی ایک مفصل بحث یہی عدم تحریف قرآن کے بارے میں ہے ، یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ تمام شیعہ علماء کا یہی اعتقاد ہے لہذا اب یہ بحث ختم ہونا چاہئے اور کسی کو ایسے گفتگو کرنے کی اجازت بھی نہ دی جائے ، لیکن افسو س کے ساتھ بتانا پڑتا ہے کہ عرب ممالک میں کتب میلہ میں بعض اہل سنت علماء( کہ ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ واقعی اہل سنت ہیں )کی ایسی کتابیں رکھی جاتی ہیں کہ ان کا نہ صرف اس پر اصرار ہے کہ شعیہ تحریف قرآن کے قائل ہیں بلکہ ایک انٹرنیشنل کتب میلہ میں ایسی کتاب بھی دیکھا گیا جس میں لکھا تھا قرآن میں تحریف کی بات شیعہ علماء کے ہاں اجماعی  ہے ، لیکن حقیقت اس کا برعکس ہے ،لہذا اہل سنت کے آپ جیسے بیدار علماء سے یہی توقع ہے کہ شیعوں کے بارے میں بتائے جانے والے اس جھوٹ کو ختم کرے چونکہ ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم اپنے موجودہ نسل کو اسی قرآن کے احکام کو بیان کریں اور اس میں جو احکام بیان ہوئے ہیں اسے ایک نہ ختم ہونے والے معجزہ کے طور پرسمجھایا جائے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں قرآن کریم امت اسلامی کی تشکیل پر زور لگاتے ہیں ، اس وقت ہمارے زمانہ میں اس امت اسلامی کی حفاظت اور اس کی اقتدار کا واحد طریقہ شیعہ اور سنی علماء کے درمیان اتحاد  ہے ، ہم آج امت اسلامی کی عظمت اور بلندی کے خواہاں ہیں کہ قرآن کریم میں اس کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے لہذا جس طرح آپ امت اسلامی کی عزت کے خواہاں ہیں ہم بھی اسی کے خواہاں ہيں اور اس مسئلہ کے بارے میں ہماری خاص توجہ ہے ۔
تیسرا مطلب یہی آپ کا اہلبیت علیہم السلام کی نسبت خاص توجہ کرنا ہے ، آج امت اسلامی کی عظمت کے لئے قرآن کریم کی اتباع کے علاوہ اس پر بھی خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی اہل بیت علیہم السلام نے اسلام ، معارف اسلام ، عقاید ، اخلاق ، سیاست اور اقتصاد کے بارے میں کیا فرمائے ہيں ، میرا مطلب یہ ہے کہ آپ کا محب اہل بیت (علیہم السلام) ہونا ہمارے لئے واضح ہے ، لیکن ہم خوداپنے بارے میں بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف یہی محب ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی محبت اور ولایت عملی ہونا چاہئے اور اپنی زندگی کے تمام مراحل چاہئے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ، سیاسی ہو یا علمی یا اخلاقی تمام جوانب زندگی میں ان کے فرمایشات عملی طور پر نمایاں ہونا چاہئے۔
اہل بیت علیہم السلام کے کلمات میں بہت سارے معارف موجود ہیں ، میں نے آج کسی ایک عالم سے سنا کہ بتا رہے تھے کہ احکام مسجد کے بارے میں کچھ ابواب ایسے ہیں کہ اہل سنت علماء ان میں صرف اہل بیت علیہم السلام کی روایات کو نقل کیے ہیں ، ہم نے اس مرکز فقہی میں بچوں کے احکام سے متعلق آٹھ جلدوں پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی ہیں جس میں بغیر کسی تعصب  کے مذہب اہل بیت (ع) اور اہل سنت کے چارمذاہب کے درمیان ایک مقایسہ ہوا ہے یعنی جس طرح احادیث اہل بیت (ع) کو نقل کیا ہے اسی طرح اہل سنت کے کلمات کو بھی نقل کیا ہے ، جیسا کہ آپ نے بھی ہمارے لائبریری میں دیکھا کہ تفسیر ، فقہ اور عقاید کی کتابوں میں اہل سنت کی کتابیں بھی موجود ہیں اور تمام طلاب ان سے بغیر کسی مشکل کے استفادہ کرتے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اہل سنت کی لائیبریوں میں ہماری اعتقادی اور تفسیری کتابیں موجود نہیں ہے ، ایسا کیوں ہے ؟
اس وقت ہمیں آپس میں علمی تعامل اور ہماہنگی کی ضرورت ہے ، مرکز فقہی ائمہ اطہار علیہم السلام تمام پہلو‎‎ؤں یعنی فقہ ، اخلاق، حدیث ، سیاست اور اعتقادات میں ہماہنگی کرنے کے لئے تیار ہے ،ہم آپ اور آپ جیسے دوسرے اہل سنت علماء سے کچھ علمی پہلے سے طے شدہ موضوعات پر گفتگو کرنے کے لئے تیار ہیں ،فخر رازی اپنی تفسیر کبیر میں مفاتیح  غیب میں آیہ شریفہ''یاایها الذین آمنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم '' کے ذیل میں لکھا ہے : «هو یدل علی اولی الامر منحصر بالمعصومین علیهم السلام و اصرّ علی ذلک» فخر رازی اولی الامر کے معنی میں تمام احتمالات کو رد کرنے کے بعد لکھتا ہے : یہ اولی الامر کو معصوم ہی ہونا چاہئے ، لیکن جیسا کہ امامیہ کہتے ہیں ایسے ہمارے لئے ایسا میسر نہیں ہے پس معصومین اہل حل و عقد کے مورد اجماع ہیں۔
یعنی آپ کے بزرگان میں سے ایک اور تفسیر کے ایک بڑے عالم دین نے اولی الامر کے معصوم ہونے کی تصریح کی ہے ، لہذا اس بارے میں اگر کوئی  پروگرام رکھاجائے تو مناسب ہے،ہم ابھی اعلان کرتے ہیں کہ اس کے لئے  ہم تیار ہیں اور جناب عالی کو بھی دعوت دیتے ہیں ،شورای مدیریت حوزہ علمیہ قم کے مسؤلین کہ الحمد للہ اس بارے میں بہت پیشرفت رکھتے ہیں شکریہ ادا کرتا ہوں ، اس علمی ارتباطات کو بقرار کرنے کے لئے ہم تیار ہیں ، جناب ڈاکٹر صاحب ! اس زمانہ میں ہم صرف بلندنعروں کے ذریعہ وحدت ایجاد نہیں کرسکتے ہمیں عملاً وحدت ایجاد کرنے کی ضرورت ہے ، ہم عمومی اعلان کریں کہ علماء شیعہ اور علماء اہل سنت سب اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی ہے ، اہل بیت علیہم السلام کی مرجعیت علمی کے بارے میں عمومی اعلان کریں ،ہم نے مرکز فقہی میں ''تمسک العترۃ الطاہرۃ بالقرآن الکریم'' تالیف کی ہے آپ ملاحظہ کریں کہ کونسے فرقے اور مذہب میں قرآن کریم سے استدلال کیے جاتے ہیں ۔
ایک اور مطلب یہ ہے کہ اگرچہ آپ خود بخوبی اس سے آگاہ ہے لیکن یاددہانی کے طور پر عرض کررہا ہوں تا کہ اس پر خاص توجہ دی جائے وہ بات یہ ہے کہ آج جو تکفیری گروہ وجود میں آئی ہے اس کا اصل ریشہ کہاں سے ہے ؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ یہ تکفیری آج اہل سنت کے بھی مخالف ہیں اور شیعہ کے بھی،ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ تکفیری لوگ خود اسلام کے بنیاد کے خلاف ہیں لہذا یہ لوگ اسلام سے خارج ہیں اس بارے میں شیعہ اور اہل سنت علماء کو عمومی اعلان کرنا چاہئے کہ تکفیری نہ صرف اسلام سے منسوب نہیں ہے بلکہ اسلام سے خارج ہیں ، اگر آج یہ کام واقع نہ ہو جائے تو آیندہ شیعہ اور اہل سنت دونوں کے لئے اس کے بہت خطرناک نتائج سامنے آئیں گے ، یہاں پر پہلا قدم یہ ہے کہ دیکھا جائے یہ تکفیری گروہ کہاں سے وجود میں آئے ؟
ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ ہمارے دشمنوں نے یہ دیکھ لیا کہ دین کی حقیقت اور مذہب اہل بیت علیہم السلام کی حقیقت سے اگر لوگ آشنا ہو جائے تو ان کے پاک اور صاف دل جلد اسے قبول کر لے گا چونکہ اہل بیت علیہم السلام کی منطق فطرت کے مطابق ہے ، عقل کے مطابق ہے ، ہمارے پاس اہل بیت علیہم السلام سے کوئی ایسا فقہی یا غیر فقہی حکم نہیں ہے جو عقل ، فطرت اور منطق کے مطابق نہ ہو ، خصوصاً ظلم اور ظالمین سے مقابلہ کے بارے میں ، کہ فرمایاہے ''لن یجعل الله للکافرین علی المؤمنین سبیلا'' حتی کہ ہمارے فقہ میں اس قدر اس پر تاکید ہے کہ اگر کوئی یہودی مرد کسی مسلمان عورت سے شادی کرنا چاہئے تو اس شادی کو باطل قرار دیتا ہے ، فقہ اہل بیت علیہم السلام میں کسی کو حاکم قرار دینے پر اس قدر توجہ ہوا ہے کہ کافر کو کسی مسلمان پر سلطنت اور حکمرانی کا حق نہیں ہے ۔
میرے خیال میں دشمنوں نے   مذہب اہل بیت علیہم السلام اور دین کی حقیقت کو جان چکا ہے لہذا پہلے درجہ پر انہوں نے شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف پیدا کیا شیعوں سے بتایا گیا کہ سنی مسلمان نہیں ہے اور سنیوں سے بتایا گیا کہ شیعہ مسلمان نہیں ہے ،اس طرح دونوں کے درمیان اختلاف ڈال دیا اور اس کے بعد دونوں سے مقابلہ کرنا شروع کیا ، تکفیریوں کی اصلی بنیاد محمد عبد الوہاب کے زمانہ سے ہے اور اس سے پہلے ابن تیمیہ سے جا ملتا ہے ۔
تکفیریوں سے مقابلہ کا طریقہ
یہاں پر بھی میرا خیال یہ ہے کہ وہابیوں نے کیوں شیعوں پر شرک کی تہمت لگانا شروع کیا؟ در حالیکہ شیعہ اور شیعوں کے رؤسای کہ آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں علی بن ابی طالب علیہ السلام اور دیگر آئمہ (ع )توحید کے اعلی درجہ پر فائز ہیں ، ان کے کلمات واقعاً واضح اور گویا ہے کہ واقعاً شیعہ توحید کے اعلی درجہ پر فائز ہیں ، کیا سیاست تھی کہ وہابی کے نام سے ایک گروہ کو پیدا کیا  اور ان سے کہا گیا کہ شیعوں پر شرک کا تہمت  لگاؤ؟تا کہ اس طرح   دنیا کے لوگوں کو شیعوں سے دور کرے ، البتہ اپنے باطل فکر کے مطابق! یہ بتانے لگے کہ مقدس مقامات کی زیارت شرک ہے ، زمین پر سجدہ کرنا شرک ہے ، اہل قبور کی زیارت شرک ہے ، شیعوں کے مراسم پر  شرک کا عنوان  لگا لیا اور اس طرح  مخالفت کرنے لگے ، لیکن ان کا اصلی ہدف اور مقصد لوگوں کو مکتب اہل بیت (ع) سے دور کرنا ہے ، جب یہ بتایا جائے کہ یہ مکتب ، مکتب شرک آمیز ہے ،اس کے بعد جوانان اس مکتب میں نہیں آتے ، یہیں سے ان لوگوں نے شروع کیا اور آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ تکفیری پوری بشریت کے لئے ایک مصیبت بنا ہے ،نہ صرف اسلام کے لئے ، بلکہ پوری بشریت کے لئے ایک مصیبت بنی ہے ۔
میرے خیال میں تکفیریوں سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ شیعہ اور اہل سنت علماء مکتب اہل بیت علیہم السلام میں ،ان سے نجات کے راستہ کو تلاش کریں ، یعنی ہمیں کوئی تعصب نہیں ہے ، ہم یہ ٹھونسا نہیں چاہتے ، بلکہ یہ بتانا چاہتے ہیں تکفیریوں کی شر سے اسلام اور مسلمانوں کو نجات ملنے کا مناسب ترین راستہ کیا ہے ؟ کیا اس کے لئے اہل بیت پیغمبر (ص) نے جو راستہ دیکھایا ہے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہو سکتا ہے ؟ خود پیغمبر اکرم (ص) نے حدیث ثقلین میں تمام چیزوں کو اپنی عترت سے لینے کا حکم کیا ہے ۔
 میرے خیال میں مسلمانوں کو آج تکفیریوں سے نجات ملنے کے لئے تنہا راستہ یہی راستہ ہے ، یعنی ہم مسلمان آ ج اپنے مشترکات پر اتفاق کریں یعنی قرآن ، پیغمبر اکرم(ص) قبلہ ،حج ،یہ ہمارے مشترکات ہیں ان میں اتفاق کریں اور اس مشکل مسئلہ کے حل کو اہل بیت علیہم السلام کے کلمات میں تلاش کریں ، لہذا تکفیری  مسئلہ کے حل کے لئے شیعہ اور سنی علماء کے آپس میں کچھ علمی محافل منعقد کریں ، آج یہ دونوں کا ایک مشترک خطرہ ہے ، میں یہاں پر آ پ سے یہ بھی بتا‎ؤں کہ اگرچہ تکفیریوں کو پیدا کرنے والا امریکا اور اسرائیل ہیں ، اور اس بارے میں ہمیں کوئی شک نہیں کہ تمام تکفیریوں کی وجود کا فائل امریکا اور اسرائیل کے اطلاعات میں ہی وجود میں آئے اور یہ ان کا نطفہ وہاں سے ہی پیدا ہوا ہے ، لیکن آج تکفیری گروہ امریکا سے زیادہ خطرناک ہے ،لہذا ہمیں اس خطر کا احساس ہے اور اس کے پیش نظر شیعہ اور اہل سنت علماء کے درمیان تعامل اور ہماہنگی کی ضرورت ہے تاکہ مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ کر سکے انشاء اللہ ۔
شیعہ اور اہل سنت کے درمیان موجود مشترکات میں سے ایک مہدویت ہے ، یہ ایک ایسا مطلب ہے کہ علماء شیعہ اور علماء اہل سنت دونوں کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہئے ، اہل سنت کی بعض تفاسیر جیسے آلوسی کی تفسیر روح المعانی میں بعض آیات کے ذیل میں تصریح کیا ہے کہ یہ احتمال ہے کہ ان  تعبیرات  سے مراد مہدی ہو جس کا شیعہ معتقد ہیں ، اصل مہدویت اہل سنت اور شیعہ کے مشترکات میں سے ہیں ۔
آج دنیا اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اسلام ایک جہانی حکومت کے داعی ہے، اور اس حکومت کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بشارت دی  ہے ، شیعہ اور سنی دونوں اس عالمی حکومت کے تشکیل کے درپے ہیں ، ان جدید فرقوں یعنی وہابیت ،بہائیت ، سلفی گری ، تکفیری ، جعلی عرفاء، اور باطل معنوی مذاہب کا وجود  امت اسلامی کی اسی عالمی حکومت کو ختم کرنے کے لئے ہے ، لہذا ہماری خواہش یہی ہے کہ اہل سنت بھی مہدویت کے بارے میں سنجیدگی سے بنیادی کچھ کام کریں ، جس طرح قم میں کچھ مراکز ہیں جن میں مہدویت سے مربوط مباحث پر بحث و گفتگو ہوتی ہے ، ہمارے پاس قرآن کریم میں کچھ ایسی آیات ہیں جو حضرت مہدی(عج) کے زمان ظہور کے علاوہ  کوئی  او رمصداق ہی نہیں ہے «هو الذی ارسل رسوله بالهدی و دین الحق لیظهره علی الدین کلّه»  یعنی تمام بشریت پر دین کا غلبہ کسی زمانہ میں بھی حتی خود رسول خدا ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی متحقق نہیں ہوا ہے یہ صرف زمان ظہور میں ہی واقع ہو گا ، اور یہ خداوند متعال کا وعدہ ہے ۔
لہذا اہل سنت اور علماء اہل سنت کو بھی اس بارے میں بہت زیادہ کا کرنے کی ضرورت ہے اور نسل جوان کو مہدویت سے روشناس کرائیں ان کو اس بارے میں جاہل نہ چھوڑیں۔
کچھ دوسرے مطالب بھی ہیں لیکن اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ، آخر میں ایک بار پھر جنا ب ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں امید ہے ان کا یہ سفر انشاء اللہ ہمارے لئے ، خود ان کے لئے اور حوزہ علمیہ کے لئے مفید واقع ہو اور اس سفر کے آثار کو انشاء اللہ بہت جلدنمایاں ہو جائیں گے ، شیعہ اور اہل سنت علماء کے درمیان ارتباط بہت ہی ضروری ہے ۔
ّآخر میں آیت اللہ فاضل لنکرانی نے ڈاکٹر الہلالی سے یہ پوچھا کہ :
 شیخنا کیف رأیتم هذا المرکز؟ (اس مرکز کو آپ نے کیسا پایا؟)
انہوں نے ان جملات میں جواب دیا : «فیها کتب قیمة و وجوهٌ طیبة و برکات کاملة و إن شاء‌الله توجهات عندالله مقبولة» اس مرکز میں بہت قیمتی کتابیں ، پاک و پاکیزہ چہرے اور خداوند متعال کی کامل برکات ہیں انشاء اللہ آپ کی سعی و کوشش درگاہ احدیت میں مورد قبول واقع ہوجائے۔


برچسب ها :