انجمن علماء اہل سنت عراق کے چئرمین سے ملاقات میں آیت اللہ فاضل لنکرانی ( دامت برکاتہ) کے بیانات

26 April 2024

03:17

۲,۳۶۴

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

حضرت آیت الله حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی(دامت برکاته) کے بیانات

بسم الله الرحمن الرحیم

 جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ مرکز فقہ اسلام سیکھانے کا ایک مرکز ہے اور یہاں پر ایسے فقہاء کی تربیت ہوتی ہے جو رسول خدا(ص) کے فقہ واقعی کو صحیح طرح سمجھ سکے اور اسے پیغمبر اکرم(ص) کی امت کے لئے کامل طور پر بیان کریں ۔

ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس وقت زمانہ کی حالات کے مطابق واجبات میں سے ایک اہم واجب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دین کامل طور پر اعتقادات ، اخلاقیات، سیاست اور احکام سے لے کے دوسرے تمام چیزوں کو صحیح طرح سمجھیں اور اسے لوگو ں کے لئے بیان کریں ، یعنی ہمارے اس زمانہ میں علماء اور عوام دونوں کی  یہ ذمہ داری ہےکہ دین شناسی خصوصا احکام اور فقہ میں زیادہ قوت پیدا کرے۔

آئمہ اھل بیت (علیہم السلام) اس مشہور دعا کے پڑھنے کی بہت تاکید کرتے تھے: «اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي‏»،:اس زمانہ میں اس دعا کے پڑھنے کی بہت تاکید ہوئی ہے ۔چونکہ خدا شناسی ، پیامبر شناسی اور حجج الہی کو شناخت دین کی اہم ضروریات میں سے ہے۔

اگر آپ کچھ مدت قم میں بٹھیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہمارے حوزہ علمیہ میں ایک عظیم تحول اور تبدیلی واقع ہوئی ہے ، آجکل ہمارے طلاب اور فضلاء دینی مسائل سیکھنے اور معارف اسلامی کے بارے میں تحقیقات کرنے میں بہت زیادہ سعی و کوشش کرتے ہیں اور اس بارے میں بھی بہت زیادہ تحقیقات کر تے ہیں کہ فقط اسلام ہی تنھا وہ دین ہے جو بشر کی ضروریات کے جوابگو ہے ۔الحمد للہ اس وقت حوزہ علمیہ میں تحقیقات ، کتابیں اور تحقیقی گروہ بہت ہیں ، اس عظیم تحول و تبدیلی کا تقاضا یہ ہے کہ شیعہ حوزات علمیہ اور اہل سنت حوزات علمیہ کے درمیان ارتباط بہت ہی محکم ہو۔

 شیعہ اور سنی کے درمیان وحدت کا ایک اہم محور یہ ہونا چاہئے کہ شیعہ اور اہل سنت علماء دین اسلام کی جامعیت ہونے کا معتقد ہوں اور اس بات پر بھی یقین رکھتا ہو کہ عصر حاضر میں اسلام بشریت کےتمام کاموں کو چلا سکتا ہے اور یہ بھی یقین رکھتا ہو کہ اس وقت دنیا میں جو مشکلا ت ہیں چاہئے خصوصا تربیتی ، اخلاقی او خاص کر کے فقہی اور حقوقی مسائل میں جو مشکلات ہیں ان سب کا جواب صرف اسلام کے پاس ہے ، آپ کو معلوم ہے کہ یہ مطلب بہت ہی اہم مطلب ہے کہ دشمن اسی کے سامنے کھڑا ہے اور اس کے درپے ہیں کہ اسلام کو ایک ناقص ،ضعیف دین کے عنوان پر متعارف کریں اور یہ متعارف کرائیں کہ دین اسلام معاشرتی مسائل خصوصا جوانوں کے مسائل کے بارے میں کچھ بیان نہیں کر سکتا۔

لہذا اس مطلب کے بارے میں شیعہ اور سنی علماء اور مجتہدین کو بہت توجہ کرنا چاہئے کہ کہیں شیعہ حوزات علمیہ یا اہل سنت حوزات علمیہ سے کوئی ایسا مطلب صادر نہ ہو جائے کہ جو اس کے تضعیف کا سبب ہو یا کوئی ایسا مطلب بیان نہ ہو جائے کہ جو دشمنوں کے  فائدہ میں ہو ، ہمیں چاہئے کہ دین کو اسی واقعیت میں لوگوں کے سامنے لائيں جیسا کہ وہ ہے ، میرے خیال میں دین کے دشمنوں نے اسلام کو بہت ہی اچھی طرح سمجھا ہے ، انہوں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ اسلام اپنی تمام خصوصیات کہ انہیں میں سے ایک اس کا رحمۃ للعالمین ہونا ہے دنیا میں پھیل رہا ہے ، اس کے پیش نظر وہ لوگ دین کے رحمانیت اور رحیمیت کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔

لہذا اس جنایت کار گروہ داعش کو پیدا کیا ہے ،یہ اسلام کو ختم کرنے کے لئے ہے ، ہمیں چاہئے کہ اسلام کے اصلی پہلووں کہ ان میں سے رحمت ، حکمت، اس کے عقاید کا عقل اور منطق کے بنیاد پر استوار ہونا ہے ان چیزوں کو زیادہ سے زیادہ دنیا کے سامنے بیان کریں۔

مجھے خوشی ہے کہ آج شیعہ اور اہل سنت علماء اعلام اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دشمن صرف شیعہ یا صرف اہل سنت کے مخالف نہیں ہیں ۔بلکہ اس وقت دشمنان اسلام جس طرح شیعہ کے مخالف ہیں اسی طرح اہل سنت کے بھی مخالف ہیں اور جس کی واضح مثال داعش کے جنایتیں ہیں کہ انہوں نے اپنے ان جنایتوں میں شیعہ اور سنی میں کوئي فرق نہیں رکھا ہے بلکہ دونوں کو قتل عام کیا ہے ۔

دشمن نے آج اپنے آپ کو کل اسلام کے مقابل میں قرار دیا ہے ، نہ صرف شیعہ یا اہل سنت،ان کی دشمنی صرف  انقلاب اسلامی ایران اور علماء شیعہ سے نہیں ہے ، بلکہ اسلام کی بنیاد کے مقابل میں کھڑا ہے ، یعنی جو چیز آج سب کے لئے عیاں ہے وہ یہ ہے کہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ اسلام کا کچھ باقی نہ رہے ، نہ شیعہ نہ سنی،نہ قرآن باقی رہے نہ سنت رسول خدا(ص) اور کلمات اہل بیت (ع) ، نہ وہ روایات باقی رہے جو شیعوں کے درمیان میں ہے اورنہ وہ روایات جو اہل سنت کے ہاں، یہی دشمن کا اصلی مقصد و ہدف ہے ، کہ جس کے بارے میں ہمیں بہت ہی متوجہ رہنا چاہئے۔

اس وقت شیعہ اور اہل سنت  حوزات علمیہ کے درمیان علمی رابطہ  محکم ہونے کی ضرورت ہے ،آپ اس مرکز فقہی میں تشریف لائے ہیں اور ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ یہاں پر ہر شعبہ فقہ ، اصول، کلام اورتفسیر میں طلاب و فضلاء اہل سنت کے آخری نظریات سے بھی آشنائی پیدا کررہے ہیں ، یعنی شیعہ بزرگ علماء کے نظریات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اہل سنت علماء کے نظریات  کو بھی کامل طور پر بیان کرتے ہیں ، ہمار ے اس مرکز کے لائبریری میں اہل سنت کے فقہی ، اصولی ،اعتقادی اور تفسیر کے بارے میں لکھی گئی آخری کتابوں تک موجود ہے اور ہمارے طلاب بالکل آزاد طور پر ان تمام کتابوں سے استفادہ کر تے ہیں ۔

آج حوزہ علمیہ قم اور یہاں کے تحقیقی مراکز منجملہ مرکز فقہی ائمہ اطہار (علیہم السلام) اور عراق کے اھل سنت حوزات علمیہ اور بڑے علماء کے درمیان ارتباط برقرار ہونی چاہئے ، اور اسی طرح خود عراق کے اندر بھی سنی اور شیعہ بڑے بڑے علماء اور حوزات کے درمیان رابطہ برقرار ہونا چاہئے ،ہمارے درمیان علمی ارتباط برقرار ہونا چاہئے اور سیاسی غوغا سے ہٹ کر جسے دشمن اپنے خاص اہداف کے تحت ہمارے درمیان میں پیدا کرتے ہیں علمی ارتباط ہونا چاہئے اور یہ رابطہ جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی اہل سنت اور شیعوں کے درمیان مشترکات زیادہ ہوں گے ۔

ہم نے اسی مرکز میں بچوں سے متعلق احکام پر مبنی آٹھ جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی گئی ہے کہ آپ کے خدمت میں پیش کروں گا اس کتاب میں شیعہ اور مکتب اہل بیت(علیہم السلام) کے نظریات کے ساتھ ساتھ مذاہب اربعہ کے نظریات کو بھی  معتبر کتابوں سے بیان کیا گیا ہے ۔

دنیا کو آج اگر یہ پتہ جائے کہ اسلام صرف بچوں کے بارے میں اتنے زیادہ باتیں کرتے ہیں تو ضرور اسلام کی طرف رغبت پیدا کرے گا ۔اسی طرح سینکڑوں سال تک شیعہ پر یہ تہمت لگائي جاتی رہی کہ شیعہ قرآن کے تحریف کے قائل ہیں لیکن مجھے آج خوشی ہے کہ اہل سنت کے علماء یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ شیعوں پر صرف ایک تہمت تھی۔

میں نے بعض اہل سنت کے بزرگوں کے کلمات میں ملاحظہ کیا کہ یوں لکھا ہوا تھا کہ یہ صرف ایک تہمت ہے ، میری خواہش ہے کہ آپ بھی اس بارے میں دیکھ لیں ، شیعہ کا قرآن وہی قرآن ہے جو رسول اکرم (ص) پر نازل ہوا ، شیعہ تفاسیر بھی قدیم الایام سے اب تک اسی قرآن کے مطابق ہے ، شیخ طوسی سے لے کر زمان حاضر تک جتنے تفاسیر شیعہ علماء نے لکھے ہیں سب اسی قرآن کے مطابق ہے ۔

ہمارے اس مرکز میں بھی ایک برجستہ محقق نے  «تمسک العترة الطاهره بالقرآن الکریم» کے عنوان سے دو جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی ہے جس میں ائمہ اطہار علیہم السلام نے صرف فقہ میں جہاں جہاں قرآن سے استدلال فرمائے ہیں ان کو جمع آوری کیا ہے ، تا کہ اس بارے میں کوئي شک و شبہ باقی نہ رہے ۔

اب وہ دور ختم ہوا ہے کہ دشمن اس طرح شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ ڈالتے تھے ،آج ہم سب کا یہ عقیدہ ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں کے ہاں وہی قرآن ہے جو صدر اسلام میں تھے ، اور یہ قرآن  ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والا معجزہ ہے ، ہمارے پیغمبر (ص) کی خاتمیت ہی اس قرآن کے ہر قسم کے تحریف سے محفوظ رہنے سے مربوط ہے ، لہذا شیعہ اور سنی علماء کو چاہئے کہ اس مسئلہ کے بارے میں زیادہ دقت کریں۔

ایک اور اہم مطلب کہ دشمن نے اہل سنت کے بعض علماء کے زبانی قدیم الایام سے شیعوں پر  تہمت لگاتے رہے ہیں وہ شرک سے متہم کرنا ہے ، یعنی آپ ملاحظہ فرمائيں کہ دشمن خدا کی کتاب کے بارےمیں بھی شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں اور اسی طرح اعتقادی مہمترین مسئلہ جو کہ توحید ہے اس بارے میں بھی ہمارے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں ،ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ توحید کے بارے میں امیر المومنین اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے کلمات میں توحید کے بارے میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں وہ اہل سنت روایات اور ائمہ اہل سنت سے نقل ہوئے ہیں قابل مقایسہ ہی نہیں ہے ، یہ ایک ایسا مطلب ہے جسے بغیر کسی تعصب کے واضح اور آشکار بتانا چاہئے ، یہ بہت ہی ظلم ہے کہ کوئي یہ بتائے کہ شیعہ باب توحید میں کمزور ہے ۔

لہذا ہم نے اسی مرکز میں ایک اور کتاب کی جمع آوری کی ہے جس کا نام «موسوعة عقاید ائمة الاطهار(علیهم السلام)» ہے جس میں امیر المومنین اورباقی ائمہ اطہار علیہم السلام سے توحید کے بارےمیں جو کلمات بیان ہوئے ہیں ان سب کو جمع آوری کیا گیا ہے ۔یہ کتاب شاید 20 جلدوں پر مشتمل ہو لیکن ابھی تک اس کی صرف دو جلدیں چھپ چکی ہے ۔

البتہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ اس بارے میں اہل سنت نے کوتاہی کی ہے ،لیکن آج اہل سنت علماء اور جامعہ اہل تسنن کو شیعوں کے باب توحید کے بارےمیں موجود ان مطالب سے آشنا ہونا چاہئے ، کہ یہی بات خود وحدت کے لئے ایک اہم بات ہے ، البتہ اہل سنت نے شیعہ کو شرک سے متہم نہیں کیا ہے ، بلکہ یہ وہابی تھے اور وہ بھی دشمنان اسلام کے حکم سے انہوں نے اس ناروا تہمت کو لگایا ہے ۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ ان میں سے بہت سارے کام تو دشمنوں کے حکم سے ہی انجام دیا گيا ہے ، خود ہمارے زمانہ میں دیکھیں کہ کچھ طلاب کو بچپن سے ہی اسلام کے مخالف تربیت دیتے ہیں اور اس میں ان کے لئے شیعہ اور سنی میں کوئي فرق نہیں ہے ، گذشتہ زمانہ میں بھی کچھ حد تک ایسا ہی تھا  لہذا ہل سنت کے علماء کو اس بارے میں خصوصی توجہ دینی چاہئے کہ شیعہ کلمات اہل بیت علیہم السلام کے مطابق توحیدی قوی ترین تعابیر رکھتے ہیں جو قرآن کریم کے مطابق بھی ہیں

اس ملاقات میں آقای ڈاکٹر مہدی الصمیدی نے کہا:


بسم الله الرحمن الرحیم

:بہت ہی شکریہ ادا کرتا ہوں میں چاہوں کہ ابتداء میں کچھ باتوں کو دو ٹوک الفاظ میں بیان کروں ، اگر ہم کچھ عرصہ پہلے چلے جائيں کہ سنہ 1975 تک عراق میں اہل سنت صرف حنفی اور شافعی تھے ، اس وقت حنفی اور شافعی میں اتنے اختلاف زیادہ تھے کہ شافعی والے حنفی والوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے اور حنفی والے بھی شافعی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے ،یہ اس لئے تھا کہ ایک دوسرے کے نماز کو باطل سمجھتے تھے ، لیکن جو بھی تھا وہ زمانہ گذر گیا ،لیکن آج ہمیں علمی حوالہ سے آپس میں مل بیٹھ کر گفتگو کرنی چاہئے ۔

ہمیں معلوم ہے کہ بہت سارے اتہامات جو شیعوں پر لگائے جاتے ہیں وہ دوسرے گروپ جیسے اسماعیلی اور علوی وغیرہ کی وجہ سے ہے کہ جن کے مختلف اعقتادات ہیں لیکن اسے تمام شیعوں سے نسبت دی جاتی ہے ، میں نے اپنی کتاب میں ایک درخت بنایا ہے کہ جس کا ایک جڑ اور دو تنے ہیں اس کی جڑ کو اصل اور اس کے دو تنے میں سے ایک کو فرع اور دوسرے کو مستحب نام رکھا ہے ، میں صراحت کے بتاتا ہوں کہ میرا ابھی 61 سال عمر ہے ۔

ایک سنی عالم ہوں اس 61 سال عمر میں میں نے کسی اہل سنت شخص سے یہ نہیں سنا ہے کہ اہل بیت(ع) کی توہین کیا ہو، اصل جو کہ وہی ارکان ہے اگر ایک رکن ختم ہو جائے تو کل بھی ختم ہو جائے گا ، لہذا تمام ارکان ہونا چاہئے ، ہمارے اعتقاد یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی محبت  اصول اور ایمان کے ارکان میں سے ہے اور جو بھی اہل بیت(ع) سے محبت نہ رکھتا ہو وہ ملت اسلام سے خارج ہے ، اور اس سلسلے میں ہمارے پاس دلیل قرآن کریم کی آیات اور پیغمبر اکرم(ص) کی روایات ہیں۔

صحیح بخاری میں ہمارے پاس قطعی دلائل موجود ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے امیر المومنین سے فرمایا:"لا یحبّه إلا مؤمن و لا یبغضه إلا منافق "یا اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں فرمایا:" من أحبّهم فقد أحبّنی" یا حسنین (ع) کے بارےمیں فرمایا" لا یحبّه إلا مؤمن و لا یبغضه إلا کافر

لیکن جہاں تک اختلافات کی بات ہے تو یہ اختلافات بہت پہلے سے شروع ہوا ہے ، کہ جس وقت عراق میں آمریکا والوں کی تسلط تھی اس وقت ایک جیل تھا جس میں شیعہ اور سنی دونوں کے افراد زندانی تھے،کہ دونوں نے آمریکیوں کے خلاف کام کر چکے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی حساب سے ایک دوسرے سے بھی بعض اور کینہ رکھتے تھے ، اور ایک دوسرے کے ساتھ بھی لڑتے جھگڑتے تھے ،کہ جو بھی سنی زندان میں شیعہ نشین جگہ سے گزرتے تھے تو اس کی مار پٹائي ہوتی تھی اسی طرح جو بھی شیعہ جیل میں سنیوں کے جگہ سے گزرتے تھے تو اس شیعہ کی مار پٹائي ہوتی تھی۔

میں جیل میں جو شیعہ علماء تھے ان سے ملاقات کرنے گیا تھا تو وہی پر میرے اوپر ہجوم لايا گیا ،میں نے ان سے کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو ، خدا کی قسم میں تمہیں تکفیری نہیں بتاتا ہوں ہم بھی اسلام کے معتقد ہیں ، ہم سب بھائي بھائي ہیں ، آپ سب سے صرف ایک ہی خواہش ہے کہ آمریکا کا کھولنا نہ بن جائے ، وہاں پر جو آخری بات جو میں نے کی تھی وہ تھی کہ جو بھی امام علی اور امام حسین کو قبول نہیں کرتے وہ ہمارے عقیدہ کے مطابق کافر ہے ،وہاں پر بعض نے اشاروں میں دوسرے سے یہ بولے کہ یہ عالم دین ہے اور ادب کےساتھ بات کرتا ہے ، ہمیں چاہئے کہ ان کی احترام کی حفاظت کریں ، اس کے بعد مجھے گلے لگائے اور اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر مجھے اندر لے گئے ۔

ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے درمیان میں ایک گروہ ہے جو اہل سنت کے بزرگوں کی توہین کرتے ہیں وہی لوگ شیعہ علماء کے بھی توہین کرتے ہیں ،یہ چیزیں ختم ہونی چاہئے ، میں نے اپنے خدا سے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ نہ کسی پارٹی میں رہوں نہ کسی طایفہ اور قبیلہ کے لئے کام کروں اور نہ کسی کی طرفداری کروں ،حتی کہ اہل سنت کی بھی طرفداری نہیں کرتا ہوں،صرف اسلام کی طرفداری کرتا ہوں، میرے عقیدہ کے مطابق جس نے بھی لا الہ الا اللہ پڑھا وہ اسلام کے قلعہ میں داخل ہو گیا اس کا خون ، مال اور ناموس محفوظ ہے ،مگر یہ کہ اس سے کفر صریح صادر ہو جائے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ خدا اور نبی کے مورد لعن واقع ہوتا ہے۔

وحدت کی جو روشن افق میں دیکھ رہا ہوں ان شاء اللہ دس سال بعد تک بہت سے تغییر اور تبدیلی شیعوں کے درمیان آئے گی  اسی طرح سنیوں کے درمیان میں بھی ایسی تغییر و تبدیلی آرہی ہے ، اس وقت نہ شیعہ آج کا یہ شیعہ ہو گا اور نہ اہل سنت یہ اہل سنت ،چونکہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ دونوں کو اتفاق اور اتحاد سے رہنے کی ضرورت ہے ۔

میں اس کام کے لئے تیار ہوں کہ کوئی ایسا مدرسہ بنایا جائے جہاں پر شیعہ اور سنی دونوں ایک دوسرے کے اصولی اور فروعی مسائل کے بارے میں مل بیٹھ کر بات چیت کرے ، اس کام کے لئے میں حاضر ہوں۔

آخر میں آیت اللہ فاضل نے ان کے اس گفتگو پر شکریہ ادا کیا اور یہ دعاکیا کہ خداوند ان جیسے عالم کو اہل سنت کے علماء کے درمیان میں زیادہ کرے ، اور آخر میں ان سے یہ سوال کیا کہ آپ کی مسانید کی کتابوں میں محبت اہل بیت علیہم السلام کے لازمی ہونے کے بارے میں بہت ساری روایات ہیں ، آپ فرمائيں کہ کیا یہ صحیح ہے کہ ان سے محبت کرنا واجب ہو لیکن ان کا کلام حجت نہ ہو ؟ دوسرے الفاظ میں روایات میں اتنی تاکید صرف ایک قلبی محبت پیدا کرنے کے لئے ہے یا محبت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رفتار و کردار کی پیروی بھی کرنا ہے ؟

ڈاکٹر صمدی نے جواب دیا:مقام تشریع میں حجت صرف خدا اور رسول گرامی اسلام (ص) سے مخصوص ہے اور غیر مقام تشریع میں اہل بیت (ع) کی کلام کی طرف توجہ دینا ضروری ہے ،جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے :«ان کنتم تحبون الله فاتبعوني».

آيت الله فاضل:ہمارے پاس صرف امام باقر اور امام صادق علیہما السلام سے 40 ہزار احادیث ہیں کہ انہوں نے اپنے پدران گرامی کے واسطہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کیا ہے یا ان روایات کو قرآن کریم کی آیات سے مستند کیا ہے ، اس صورت میں تشریع میں بھی اہل بیت (علیہم السلام) کے کلام خدا یا رسول خدا(ص) کے فرمان سے مستند ہوتا ہے ۔

اس صورت میں تشریع میں بھی اہل بیت (علیہم السلام) کے کلام خدا یا رسول خدا(ص) کے قول سے مستند ہے۔

لہذا ضروری ہے کہ اہل سنت کی فقہی کتابوں میں ائمہ اطہار علیہم السلام کے روایات بھی مورد استناد قرار پائے جبکہ ابھی تک ایسا نہیں ہے، امید ہے کہ اہل بیت اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے کلام کی محوریت پر خصوصی توجہ دیں گے اس طرح شیعہ اور سنی علماء کے درمیان رابطہ پیدا ہو گا اور اسلام کا نورانی چہرہ داعش، وہابی اور دہشت پھیلانے والوں کی دہشت سے ہٹ کر دنیا کے سامنے آئے گي ۔

برچسب ها :