حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی روز شہادت کی مناسبت سے حضرت آيت الله ‌حاج شیخ محمدجواد فاضل لنکراني (مدظله العالی) کا درس خارج فقه میں بیان (اتوار 2 /12/1394)

20 April 2024

01:51

۳,۰۷۶

خبر کا خلاصہ :
، اگر ہم خدا سے نذدیک ہونا چاہتے ہیں تو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شناخت کے ذریعہ ممکن ہے ،حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مقام و منزلت کے اعتراف کے بغیر خدا سے تقرب حاصل ہونا ممکن نہیں ہے
آخرین رویداد ها

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمدلله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين

چونکہ یہ ایام فاطمیہ اول کے ایام ہیں اور کل 13 جمادی الاولی ہے کہ ایک نقل کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی روز شہادت ہے لہذا اسی مناسبت سے کچھ مطالب  عرض کرتا ہوں۔

ہم سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ شیعہ کی حقیقت اور اس کی استمرار و بقاء حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مرہون منت ہے ،اگرچہ ہمارے ائمہ طاہرین علیہم السلام ان کے اولاد  ہیں اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کی امامت کا مسئلہ بہت ہی اہم مسائل میں سے ہے اور  اصول دین میں سے ہے ، لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شناخت اور آپ کے وجود مبارک کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا خود اپنی جگہ ایک بہت ہی بڑا میدان ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے ، لہذا ہمیں چاہئے کہ حضرت زہرا  سلام الله علیها  کو زیادہ سے زیادہ پہچانیں ، ان ایام میں مجالس عزاء برگزار ہوتی ہیں ان مجالس میں ان مظالم اور مصائب کے علاوہ جو ان پر ڈالے گئے ہیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے عظمت اور مقام کو بھی زیادہ سےزیادہ پہچان لیں ،کتاب بحار الانوار جلد 43 جس میں اکثر مطالب حضرت زہرا  سلام اللہ علیہا  کے بارے میں ہے  اس میں کچھ ایسی روایات ہیں  جسے پڑھ کر انسان کا عقل دنگ رہ جاتا ہے  کہ یہ خاتون  اس جہان آفرینش کی کیا عظیم شخصیت تھی ۔ایک روایت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : قال رسول الله:«معاشرالناس تدرون لما خلقت فاطمه، قالوا الله ورسوله اعلم، قال خلقت فاطمة حوراء انسيّةً لا انسية » . اس مطلب کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کے سوال کیے بغیر خود لوگوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے : تمہیں معلوم ہے کہ اس بانو کی خلقت کی کیفیت کیا تھی؟لوگوں نے عرض کیا : ہمیں معلوم نہیں خدا اور اس کا رسول اس  بارے میں آگاہ ہے ، فرمایا:فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا   صرف  انسیہ کی شکل میں خلق نہیں ہوئی ہے بلکہ حورا اور انسیہ دونوں مرکب خلق ہوئی ہے ،یعنی حضرت سلام اللہ علیہا  کی خلقت اور دوسرے انسانوں کی خلقت  کی کیفیت میں فرق ہے ، انسانوں کی خلقت میں صرف شکل انسانی ہے لیکن آپ سلام اللہ علیہا  کی شاکلہ انسانی اور حورایی دونوں سے مرکب ہے ۔

اس کے بعد فرماتا ہے : «خلقت من عرق جبرئیل و من زغبه»؛فاطمہ جبرئيل کے پسینہ اور پر سے خلق ہوا ہے ، "زغب" چھوٹے چھوٹے پروں کو کہتے  ہیں جو چوزے کے بدن میں ہوتا ہے ، لوگوں نے عرض کیا:«يا رسول‏اللّه اشتکل ذلک علينا»؛یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ مطلب ہمارے لئے مشکل ہو گیا ، آپ نے دو مطلب کو بیان فرمایا ؛ فاطمہ کی خلقت حوراء انسیہ ہے صرف انسیہ نہیں ہے ، اسی طرح جبرئيل کے پسینہ اور پر سے خلق ہوئی ہے ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس مطلب کو درک کرنا ہمارے لئے بہت مشکل ہے ،کیا  ہے یہ بات ؟

فرمایا : میں ابھی اس بات کو بیان کرتا ہوں ! «اهدي اليّ ربيّ تفّاحةً من الجنَّة»؛خداوند متعالی نے بہشت سے ایک سیب کو میرے لئے تخفہ عنایت فرمایا «اتاني بها جبرئيل عليه‏السّلام فضمّها الي صدره»؛جبرئیل نے اس سیب کو اپنے سینہ سے لگا کر میرے لئے لے آئے «فعرق جبرئيل و عرقت التفّاحة»اس وقت جبرئيل کو پسینہ آیا اور پسینہ کے کچھ قطرات اس سیب پر گرا  «فصار عرقهما شيئاً واحداً» تو یہ دونوں پسینہ مل کر ایک ہو گیا ،توجہ فرمائيں کہ جبرئیل کے  اس سیب کے لانے کی کیفیت پر بھی توجہ ہوا ہے، یعنی اس سیب کو ایک معمولی چیز کی صورت میں نہیں لایا ہے اور اسے  ہاتھ میں لے کر نہیں لایا ہے ، عام طور پر انسان جس تخفہ کے احترام کا قائل ہو اسےسینہ سے لگاتے ہیں  «ثم قال السّلام عليک يا رسول‏اللّه و رحمة اللّه و برکاته قلت و عليک السّلام يا جبرئيل فقال إنّ اللّه اهدي إليک تفاحةً من الجنة»  ؛ جبرئيل امین آئے اور سلام عرض کیا ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کا جواب دیا ، اس کے بعد جبرئيل نے فرمایا : خداوند متعالی نے بہشت سے آپ کےلئے ایک سیب تخفہ بھیجا ہے ۔

«فاخذتها و قبّلتها و وضعتها علي عيني و ضممتها إلي صدري»؛ میں نے اس سیب کو لے لیا اور اسے چوما اور اسے آنکھوں پر رکھا اس کے بعد اسے اپنے سینہ سے لگا لیا "  توجہ فرمائيں کہ جبرئیل اس سیب کے کتنے احترام کا قائل ہے ، چونکہ یہ صرف ایک معمولی کھانا نہیں تھا کہ جو اوپر سے نازل ہوا ہو ، بہشتی کھانا مریم  اور بعض دوسرے اولیاء کے لئے بھی نازل ہوا ہے! لیکن وہ اس طرح نہیں تھا کہ جبرئیل اسے چومے اسے اپنے آنکھوں اور سینہ سے لگائے  «ثمّ قال يا محمّد کُلها»؛ جبرئيل نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سیب کو نوش فرمائیں «قلت يا حبيبي جبرئيل هديّة ربّي يؤکل»؛ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :کیا میں خداوند متعالی کی تخفہ کو کھا لوں ؟ یہ خدا وند متعالی کا تخفہ ہے ، تخفہ کو کھایا نہیں جاتا اس کی حفاظت کر کے رکھا جاتا ہے «قال نعم قد اُمرت باکلها»؛ لیکن جبرئیل کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس سیب کے کھانے کا حکم ہے ۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : « فالقتها فرأيتُ منها نوراً ساطعاً ففرغت من ذلک النور»؛ میں نے سیب کو کاٹ کر دو حصہ کر لیا تو اس سے ایک نور خارج ہو گیا ، عجیب بات یہ ہے کہ خدا کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عقل کل ہے اور خدا کے نور کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی نور ہے اور اس  کے اوپر کوئی نور نہیں ہے ،لیکن یہاں  فرماتا ہے کہ میں اس نور کو دیکھ کر ڈر گیا یعنی اس سیب کے اندر اتنی با عظمت نور تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی وحشت زدہ کر دیا ، اس نور سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کی وجود دنیا میں آنے والی ہے ۔

جبرئيل نے عرض کیا : «قال کُلْ فإنّ ذلک نور المنصورة فاطمة»سیب نوش فرمائيں اس سیب میں فاطمہ منصورہ کا نور ہے «قلت يا جبرئيل من المنصورة؟ قال جاريةٌ تخرج من صلبک و اسمها في السماءِ منصورة و في الارض فاطمة»میں نے سوال کیا منصورہ کون ہے ؟جبرئيل نے عرض کیا :  آپ کے صلب محترم سے  ایک لڑکی اس دنیا میں آنے والی ہے اس کا نام آسمان میں منصورہ اور زمین میں فاطمہ ہے ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیوں اس کا نام آسمان میں منصورہ اور زمین میں فاطمہ ہے ؟اس روایت میں آسمان میں انہیں منصورہ کہنے کی علت کو ذکر نہیں کیا ہے لیکن دوسری روایات میں ذکر ہے ، اس روایت میں صرف یہ فرمایا ہے  «قال سمّيت فاطمة في الارض لانها فطمت شيعتها من النار وفطموا اعدادها عن حبّها و ذلک قول الله في کتابه ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله نصر فاطمة عليها السلام» : فاطمہ نام رکھا گیا ہے چونکہ اپنے شیعوں کو آگ سے دور کرتی ہے اور ان کے دشمن ان کی محبت سے جدا ہوتے ہیں ، یہ بہت ہی اہم مطلب ہے کہ حضرت کے دشمنان آپ سلام اللہ علیہا  کی محبت سے جدا اور محروم ہوئے ہیں یعنی دشمنان کبھی بھی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کی محبت کو اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے ، اس روایت کے مطابق یہ بہت ہی غلط بات ہے کہ کوئي یہ بولے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  بھی دوسری خواتین کی طرح ایک خاتون ہے ، خدا کے نذدیک فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کی جو مقام و منزلت ہے اور جن کی ایسی نورانی خلقت ہو اس کی محبت عام محبت سے مختلف ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ سلام اللہ علیہا  سے جو محبت کرتے تھے وہ بھی اسی بنیاد پر تھی ، فاطمہ کو بوسہ دیتے تھے اور ان سے خوشبو سونگھتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے زہرا سے بہشت کی خوشبو آتی ہے ، میں آپ تمام سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ ہم اپنے اندر  اس محبت کو زیادہ کریں ، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کی اس عظمت کو زیادہ سے زیادہ اپنے فکر و ذہن میں قرار دینا چاہئے ، ہر سال پہلے سے باشکوہ طور پر یہ ایام فاطمیہ برگزار کرنی چاہئے ، ہم اپنے گھر والوں اور عصر حاضر کے  جوانوں کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کے مقام و منزلت سے زیادہ سے زیادہ آگاہ کرنا چاہئے ۔

ہماری بحث و گفتگو اس میں نہیں ہے کہ بعض افراد آپ سلام اللہ علیہا  پر آنے والے مصائب کو انکار کرنے کے لئے کچھ احمقانہ اشکالات کرتے ہیں مثلا کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں دروازہ ہوتے تھے یا نہیں ؟!  ہماری گفتگو اس سے بڑھ کر ہے ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  ایک ایسی مخلوق ہے  جن کی خلقت سے لے کر دوسرے تمام مناقب اور فضائل دوسرے تمام انسانوں سے مختلف ہے ، کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان ان کے بارے میں توجہ نہ کریں ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ شیعہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کے بارے میں بی توجہی کرے  ۔

ایک ایسی بے نظیر مخلوق اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رحلت کے بعد کتنی مدت زندہ رہی؟ اسلامی معاشرہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اس وجود مقدس کے ساتھ کیا کیا تھا کہ بہت ہی مختصر مدت میں شہید ہو گئی؟اس بی بی دوعالم پر جو مصائب آئی ہے وہ ایک مسلم مسئلہ ہے ۔

میں یہ بات پہلےبھی بتا چکا ہوں کہ "فاطمہ شناسی" حوزہ کے دروس میں سے ایک درس ہونا چاہئے ،حوزہ علمیہ میں جو بھی طلبہ ،علم حاصل کر رہا ہے  اسے  چاہئے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کے بارے میں اپنی معلومات  کو زیادہ کرے ،جب یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  معصوم تھی اور ان کے لئے مقام عصمت تھا تو اس بارے میں کوئی شک و تردید نہیں ہونی چاہئے ، اس کے لئے اس بارے میں کوئي سوال مبھم نہیں ہونا چاہئے ،حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کے مقام علمی اور قرآن کریم پر ان کو جو تسلط حاصل تھا اس  بارے میں آگاہ ہو نا چاہئے ،آپ ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت نے مسجد میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں قرآن کریم کی کتنی آیات سے استدلال فرمایا ،اور وہ بھی ایک ایسی خاتون ہے جن کا باپ چند ایام پہلے رحلت پائے ہیں اور یہ  خود مصیبت زدہ ہے ، کیا ایک عام انسان کے لئے ممکن ہے ایک خطبہ میں اتنی زیادہ آیات سے تمسک پیدا کرے؟!یہ سب آپ سلام اللہ علیہا  کی نوری خلقت کی وجہ سے ہے ، اس کے علاوہ حضرت کی علم کی کیفیت ، اس عالم کے ماورای سے ارتباط ، آپ کے محدثہ ہونے  اور آپ کے مصحف کے بارے میں   صحیح طرح آگاہ ہونا چاہئے اور ان کے بارے میں غور و حوض کرنا چاہئے ۔

یہ ایام ، ایام فاطمیہ ہے ، اگر ہم خدا سے نذدیک ہونا چاہتے ہیں  تو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کی شناخت کے ذریعہ ممکن ہے ،حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کی مقام و منزلت کے اعتراف کے بغیر خدا سے تقرب حاصل ہونا ممکن نہیں ہے ،یہ مطلب ہمارے لئے روز روشن کی طرح واضح ہے ، خدا سے تقرب اس عظیم خاتون کی شناخت کے بغیر ممکن نہیں ہے ، یہ عزاداری ہر سال پہلے سے بہتر اور مفصل ہونا چاہئے ، اس میں کوئی چیز کم نہ ہو، اگر شیعہ کو زندہ رہنا ہے اور اگر شیعہ  ترقی کے خواہان  ہے تو ان مجالس عزاء  کو مفصل انداز میں برگزار کرنا چاہئے ،اس عظیم شخصیت پر کیسے کیسے ظلم ہوئی ہے ، ایسے مظالم ڈالے گئے ہیں جو قابل انکار نہیں ہے۔

ان ایام میں انسان کم از کم  کتاب " بحار الانوار" کی اسی جلد کو پڑھ لیں خصوصا وہ روایات جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کے بارے میں ہیں ، انشاء اللہ ہم سب کو خداو وند متعال اس بی بی کی شفاعت نصیب فرمائے  ۔

اہم مطالب:

1۔ شیعہ کی حقیقت اور ہویت ، اور اس کا باقی  رہنا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کی مرہون منت ہے ۔

2۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کی مقام و منزلت کے اعتراف کے بغیر خدا سے تقرب حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔

3۔ اگر شیعہ دنیا میں زندہ رہنا چاہتا ہے اور اسے ترقی کرنا ہے تو ایام فاطمیہ کے مجالس عزاء  کو بہتر سے بہتر انداز میں برگزار کرنی چاہئے ۔

4۔ اس عظیم شخصیت پر جو مظالم ہوئے ہیں وہ قابل انکار نہیں ہے ۔



برچسب ها :