فقہ شیعہ( فایدے اور تبدیلیاں )
14 November 2024
11:52
۵,۸۸۳
چکیده :
فقہ شیعہ( فایدے اور تبدیلیاں )
یہ گفتگو حوزہ کے مجلہ پگاہ میںشمارہ نمبر ۲۱ ،۲۲ میں موجود ہے
س :گفتگوکے آغاز میں جیسا کہ اپ جانتے ہیںشیعوں کے علمی حوزوں نے عصر غیبت سے لیکر اب تک
سب سے زیا دہ توجہ فقہی مطالب پر دی ہے حضرت عالی کا اس بارے میں کیاکہنا ہے ؟
فقہ شیعہ دوسرے تمام مذاہب کے قوانین کی با نسبت چاہے وہ سنّی ہوں یا غیر سنّی حتی
غربی فقہ کی بانسبت کہ جسکو جعلی فقہ سے یاد کیا جاتا ہے کچھ خاص امتیازات کی حامل ہے کہ میں اس گفتگو میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کروں گا ۔
فقہ شیعہ کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک خاص جامعیت پائی جاتی ہے تمام میدانوں میں
اور تمام زمانوں میں تمام نسلوں کیلئے قابل ذکر ہے اور انسانی زندگی کے سبھی پہلوں میں اجتماعی اقتصادی ،سیاسی ا ن سب مسائل کا راہ حل اس میں موجود ہے ۔فقہ شیعہ میں انسان کی ولادت سے پہلے اور مرنے کے بعد کا دستورالعمل بھی موجود ہے ۔مثال کے طور پر انسان کی پیدائیش سے پہلے یہاں تک کہ اسکا نطفہ ٹھر جانے سے پہلے، فقہ اہلیبت میں اس سلسلہ میںمفصل اور واضح دستورات موجود ہیں اور انسان کے کسی ایک پہلو میںمحدود نہیں ہے انسان کی زندگی کے ہر گوشہ کیلئے لائحہ عمل موجود ہے مثال کے طورپر ایک اسلامی صحیح حکومت کہ جو قرآن اور سنّت کے مطابق ہووہ صرف اور صرف فقہ اہلبیت کے مبانی پر قابل تنظیم اور تثبیت ہے ۔
اہل سنّت کی فقہ کی بناءپر ایک صحیح حکومت اسلامی کی بنیادنہیں رکھی جاسکتی لہذا یہ مشہور ہے ( الواالامر و)(الحق لمن غلب )کی بنیاد پریہ اس بات کے معتقد ہیں وہ لوگ جا حاکم بن جاتے ہیں تو انکی پیروی کرنا ضروری ہے ۔لیکن فقہ شیعہ میں حکومت کیلئے ایک خاص نازک راستہ معین کیا گیا ہے کہ جو صرف فقہ اہلبیت کی خصوصیات میں سے ہے ۔ خاندان اور کنبہ کے مسائل کے سلسلہ میں ہمارے پاس جامع قوانین موجود ہیں اور ایسا کوئی مسئلہ نہیں کی جسکا جواب موجود نہ ہو۔
البتہ یہ کہا جاسکتا ہے فقہ میں ہمار پاس اقتصاد میں کوئی معین نظام موجونہین ہے لیکن ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس فقہ میں ایسے معیار موجود ہیںکہ جن کی بنیاد پر ایک صحیح نظام کو بنایا جا سکتا ہے اسی طرح فقہ میں موجود قواعد اور ضواط کی روشنی میں ایک صحیح سیاسی نظام کو استخراج کیا سکتا ہے اس بناءپر سب سے پہلی خصوصیت جو تمام دوسری خصوصیات پر مقدم ہے وہ فقہ اہلبیت کا جامع ہونا ہے یعنی وہ تمام مسائل جو واقع ہو چکے ہیں یا قیامت تک واقع تمام موارد میں فقہ اہلبیت موجود ہے ۔
۲:فقہ اہلبیت کی دوسری خصوصیت عقل اور احکام عقلی کی طرف توجہ ہے ۔
خدا کا شکر ہے کہ ہماری فقہ بہت قوی اصول پر استوار ہے اور ہم اصولی مباحث مین دیکھتے ہیں کی ملازمت عقلی بہت ساری اصولی بحثوں میں فقیہ کا مبنا ءاجتھاد ہے ۔اور کیا کسی چیز کا حکم کرنا اس کی ضد سے نہی کا تقاضا کرتا ہے ۔اصل بحث یہ ہے کہ کیا ملازمت عقلیہ پائی جاتی ہے یا نہیں ؟
نتیجہ میں اس مسئلہ کے بہت سارے نتائج ہیں اور کچھ موارد میں ہم عقل کے حکم کو دوسر ے روایات پر کہ جو عقل سے سازگاری نہیں رکھتی مقدم کرتے ہیں ۔
اس بناءپر ان خصوصیات میں سے جو دوسرے مذاہب کے اندر موجود نہیں ہے اور اس طرح سے انکے ہان عقل کا میدان خالی ہے یہان تک کہ عقل کو ایک باطنی حجت کے طور پر بھی قبول نہیں کیا جا تا کبھی کھبی بعض مکاتب فکر کے لوگ بعض عقلی مسائل کی طرف اشار ہ کرتے ہیں ۔لیکن ایک
حجت ظاہری جیسے رسول کی طرح عقل کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔ البتہ یہاں پر بہت ساری فنی بحثیں موجود ہیں کہ کیا ہم مرحوم محقق اصفھانی کے نظریہ کے مطابق عقل کو صرف بعنوان قوہ مدرکہ سمجھیں اور کہیں کہ عقل کے اندر حکم کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے اور حکم کرنا خداوند اور شارع کا کام ہے یا یہ کہ جیسا کہ مشہور کا عقیدہ ہے کہ عقل درک کر سکتی ہے اوراسی طرح حکم بھی کر سکتی ہے کہ اس مطلب کو کسی دوسری جگہ بیان کیا جائے گا۔
اس بناءپر فقہ اہلبیت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس فقہ کے احکامات عقل پر استوار ہیں ۔ یعنی جو احکام ہمیں ائمہ سے ملے ہیں ان میں کوئی بھی عقل کے منافی نہیں ہے ۔
۳: تیسری خصوصیت اسی دوسری خصوصیت سے وجود میں آتی ہے ہم فقہ میں افعال میں مصالح اور مفاسد میں ایک خاص اعتبار کے قائل ہیں یعنی ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر حکم ایک ملاک کا تابع ہے اور احکام کسی ملاک کی بناءپر وجود میں آئے ہیں ۔اور ملاک کے بدلنے کی وجہ سے حکم بھی بدل جاتا ہے ۔
البتہ یہ نکتہ بہت مہم ہے کہ کیسے ایک ملاک بدل جاتا ہے اور کیسے ایک فقیہ ملاک کو کشف کرتا ہے اور اس مسئلہ کو کیسے کشف کرتا ہے ظنی ملاک کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ یہ وہ بحثین ہیں کہ جن کو اپنی جگہ پر مفصل طور پر پیش کیا جائے گا لیکن مہم مسئلہ یہ ہے کی احکام مصالح اور مفاسد کے تابع ہیں یہاں تک کہ مباح کاموں میں بھی اباحہ اقتضائی اور اباحی لا اقتضائی پایاجاتا ہے کہ اباحہ اقتضائیہ میں مباح ہونے کا حکم یعنی یہ کہ یہ عمل مباح ہے اور اس کا تابع اس مقتضی کا تقاضا کرتا ہے کہ جو عمل میں پایا جاتاہے ۔
۴:چوتھی خصوصیت جو فقہ اہلبیت میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم عقل اورمصالح اور مفاسد کے پیروی کے معتبر ہونے کے قائل ہیں اسی طرح ظواہر شرعیہ کا مقام اپنی جگہ پر باقی ہے۔ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے فقہاءظاہر روایات سے اچھے طریقہ سے استفادہ کرتے ہیں یعنی فقیہ پہلے مر حلہ میں ظواہر کی پیروی کرتا ہے اگر چہ حجیت ظاہر ایک عقلی حجت ہے ۔ لیکن جس وقت معصومین کی روایات میں غور و فکر کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کی ایسے بہت سارے موارد پائے جاتے ہیں کہ ائمہ ع نے ایک حکم کو بیان کیا اور اس حکم کے منشاءکو قرآن کی کسی ایک آیت سے بیان کیا اس بات یہ معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ اپنے زمانے کے اصحاب اور فقہاءکو یہ سمجہاتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی بتاتے تھے کہ ظاہر حجت ہے اس لئے کہ یہ ایک عقلی اور واضح سی بات ہے کہ (کل ظاہر حجة)دوسرا نکتہ یہ کہ ائمہ توجہ رکھتے ہیں کہ کلام شارع میں ایک ظاہر موجود ہے ہمیں اسکی پیروی کرنا چاہیے اوراب اگرایک مسئلہ عقلی حکم اس کے بر خلاف آجائے تو یہ ایک دوسرے بات ہے ۔
لیکن جہاں اسکے بر خلاف ہماری پاس حکم عقلی موجود نہیں ہے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ملاک کیا ہے اور ایک حکم ظاہر شریعت میں موجود ہے اور ملاک کو ہم قطعی صورت میں تشخیص نہیں دیتے ہیں اور کوئی قطعی عقلی دلیل بھی اس کے بر خلاف نہیں پائی جاتی تو اس وقت ہمارے فقہا ءاپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ اہلبیت کی سیرت مطاق عمل کریں اور ظاہر کا اتباع کریں اور اور ظاہر کی حجیت کے قائل ہو جایں ۔
اس بناءپر ہماری فقہ میں عقل ،عقلاءکی سیرت کے حجت ہونے کے ساتھ ساتھ ہم ظاہر کیلئے ایک خاص مقام کے قائل ہیں ۔
۵: پانچھویں خصوصیت فقہ اہلبیت کی وہ قواعد ہیں کہ جن کو قواعد فقہیہ کے نام سے یا دکیا جاتا ہے ہمارے گزشتگان جیسے شہید اول کے پاس قواعد فقہیہ ہیں کی جنکو القواعد والفوئد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس میں بعض فقہی قواعد کو پیس کیا ہے یا کتاب القواعد الفقھیہ کہ جو معتبر اور مفصل کتابوں میں سے ہے اور اس کو مرحوم بجنوردی نے لکھا ہے اور ہمارے والد بزرگوار نے بھی کچھ قواعد فقہیہ کو تدوین کیاہے اور حقیرنے بھی اس پر مقدمہ لکھا ہے ۔
البتہ دوسرے مکاتب فقہی کے پاس کچھ قواعد موجود ہیں لیکن ہمارے قواعد فقہیہ اور ان کے قواعد فقہیہ میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے احکام شرعی میں فقہی قواعد کا موجود ہونا اس فقہ کے محکم ہونے پر دلالت کرتاہے ۔یعنی جس مکتب کے پاس بھی درست فقہی قواعد موجود ہیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ فقہ ایک خاص نظام پر استوار ہے ۔البتہ ہمارے بعض فقہی قواعد کی اصل قرآن ہے لیکن اکثر قواعد فقہی کی اصل احادیث ائمہ طاہریں ع ہیں لیکن ان میںسے بعض قواعد فقہ اہلبیت میں موجود نہیں ہیں مثال کے طو ر پر قاعدہ الزام وہ قاعدہ ہے جو ابتداءمیں اہل سنّت کے ہاں تھا ،لیکن بعض بزرگ فقھاءنے جیسے ہمارے والد بزرگوار اس بات کے معتقد تھے کہ قاعدہ الزام دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے یہاں تک کہ کفار کے ہاں بھی پایا جاتا ہے مثال کے طور پر آج کل جو بحث پیش کی جاتی ہے کہ ہم دوسروں کے حقوق کی رعایت کرتے ہیں ہم اس قاعدہ کو انہیںکے خلاف استعمال کر سکتے ہیں ۔لہذا فقہ میں قواعد فقہی
کا پایا جانا فقہ کے مستحکم ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
۶: چھٹی خصوصیت فقہ کی وہ یہ ہے کہ ہماری فقہ ہمیشہ زندہ ہے اور اگر ہم اس پہلو کی طرف توجہ کریں تو ہم یہ دیکھیں گے فقہ شیعہ علمی میدان میں ترقی کے مراحل طی کر رہی ہے ہم یہ نہیں کہ سکتے فقہی مسائل کا دائرہ محدود ہے بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ فقہ میں تبدیلیاں رونماہو رہی ہیں ۔ اج ایسے بہت سارے ایسے نئے مسائل موجود ہیں کہ جن کا جواب ہمارے علماءنے دیا ہے ۔ جیسے بینک سے مربوط مسائل ،بیمہ،شبیہ سازی وغیرہ اس طرح کے بہت سارے مسائل موجود ہیں اسی طرح ڈاکٹری کے نئے مسائل ان سب سوالوں کا جوا بات ہماری فقہ میں موجود ہیں ۔اور ہماری فقہ میں ان سب مسائل کیلئے ایک راہ حل موجود ہے ۔اس بناءپر ہمارا اجتھاد ، زندہ ہے ۔اور اس بات کا راز
کہ ہر زمانے میں انسان زندہ مجتہد کی تقلید کرے اور اس طررجوع کرے یہ ہے کہ اجتہاد ہمیشہ رشد اور ترقی کے راستے میںہے ۔بعض بے خبر افراد کے برخلاف کہ جو یہ کہتے ہیں کے ان کے علوم وہی گزشتہ علوم ہیں اور وہ expire ہو چکے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ یہ لوگ فقہ کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں اور ہم انہیں معیاروں اور مبانی کی بناءپر جو ہمیں شریعت سے ملیں ہیںان کے وسیلہ سے ہم آئندہ میں بھی ہر مسئلہ کا حل ڈہونڈ سکتے ہیں ۔
اور لوگوں کیلئے جو مسائل پیش آتے ہیں ان کا جواب دے سکتیں ہیں او ر یہ اجتھاد کے زندہ ہونے کیوجہ سے ہے ۔اس لئے کہا جا سکتا ہے ہماری فقہ بھی باقی علوم کی طرح رشد کر رہی ہے ۔دوسری اور تیسری صدی میں ہماری فقہ دو سو یا اس سے زیادہ صفحات پر مشتمل تھی لیکن اب ہمارے پا س آج ایسی فقہی کتابیں موجود ہیں جو چالیس سے لیکر پچاس جلدوں پر مشتمل ہیں ۔ تفصیل الشریعہ جو ہمارے والد بزرگوار کی ہے جس کا عنوان شرح تحریر ہے تقریباًپچاس جلدوں پر مشتمل ہے یہ اس بات کو بیان کرتی ہیں کے ہماری فقہ ررشد کے راستے میں ہے ۔
میں یہاں پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کیاابتداءمیں شیعوں کو اصول فقہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی چون کہ امام اس زمانے میں موجو دتھے ۔لیکن اہل سنّت پیغمبر(ص)کی رحلت کے بعد علم اصول کے محتاج ہو گئے ۔اس بناءپر اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ ابتدا میں ان کا علم اصول ہمارے
علم اصول سے زیادہ وسیع ہواور اس مسئلہ میںبھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔لیکن اگر ہم آج ان دونوں کا مقا بلہ کریں تو دیکھیں گے کہ ہمارا علم اصول کا وسعت اور عمق کے اعتبار سے کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
مثال کے طور پر ترتب وجود پر ایک تحقیق موجود ہے کہ جس کے اصلی ریشہ کو مرحوم محقق ثانی نے جامع المقاصد ،کتا ب دین میں ذکر کیا ہے ۔ لیکن یہی ترتب کی بحث اہل سنّت اور دوسرے مذاہب کی فقہ موجود نہیں ہے ۔لیکن مرحوم محقق نائینی نے پانچ مقدمے اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ذکر کئے ہیں اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ خطاب ترتبی کی بحث فقہ کے ضروریات میں سے ہے اگر چہ اس نظریہ کے مخالف بھی موجود ہیں جیسا کہ مرحوم آخوند خراسانی نے کفایہ میں اس نظریہ کی مخالفت کی ہے لیکن مرحوم علامہ کتاب قواعد میں اور اور مرحوم کاشف الغطائ مرحوم محقق ثانی کہتے ہیں کہ اگر ہم بحث ترتب کو پیش نہ کریں تو ہماری بہت سار ی عبادات باطل ہو
جائیں گی۔بحث ترتب کا آغاز یہا ں سے ہوا کہ اگر کسی پرقرض ہے اور دوسری طرف سے نماز کا اول وقت آچکا ہے اور شخص نماز پڑہنا چاہتا ہے تو اس صورت میں اس پر دین کے ادا ءکرنے کا حکم ثابت ہے اور اگر نما زپڑہنا چاہے در حقیقت اس نے معصیت کی ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ نماز صحیح ہے اس کے باوجود کے اس نے قرض کوا دا ءنہیں کیا تو ہمیں خطاب ترتبی درست کرنا پڑے گا یعنی ہمیں کہنا چاہیے کہ نماز کے سلسلے میں حکم نے آکر اس شخص کا گلا پکڑا ہے لیکن ترتب کے اعتبار سے ۔اور جس وقت میں نے اس مسئلہ میں غور و فکر کیا میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ اہل سنت کی کسی کتا ب میں بھی خطاب ترتبی کی بات نظر نہیں آتی ہے ۔
ہمارے اصولین نے واجب معلق اور مشروط کے سلسلہ میں جو تحقیقات انجام دی ہیں کہ جس کو صاحب فصول نے مطرح کیا تھا اسی مقدمہ واجب کی بحث میں کہ آج کل جس کو علم اصول سے زائد سمجھا جاتاہے میری نظر میں بہت بڑی غلطی ہے اور خود مقدمہ واجب کی بحث ممکن ہے کہ اس کا نتیجہ اتنا مہم نہ ہو.(جاری)