رسول خداحضرت محمد مصطفےٰ (ص)کی مختصر سوانح حیات

22 November 2024

03:57

۱۰,۶۸۷

چکیده :
محمد بن عبد اللہ حضرت اسماعیل (ع) نبی کے ۲۹ پشت اور حضرت آدم کے ۴۹ پشت یعنی حضرت آدم (ع)کے وفات کے ۹۷۰۰سال چار مہینے بعد،شیعہ علماء کے قول کے مطابق ۱۷ /ربیع الاول بروز جمعہ ،یعنی ۲۹/اگست ۵۷۱ء صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے ،پدر بزرگوارجناب عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ۔
مادر گرامی جناب آمنہ قبیلہبنی کلاب کی شریف زادی اور رئیش خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ،شجاعت اور بہادری میںیہ خاندان بہت ممتاز گزرا ہے اور عرب میں بہت مستند تھا۔
شعب ابو طالب مکہ میں آپ کی ولادت ہوئی آپ (ص) کے والد عبداللہ آپ (ص) کی ولادت سے دو مہینے پہلے ہی وفاتپا چکے تھے دادا عبد المطلب موجود تھے وہ آپ کے کفیل ہوئے اور آپ کے چچا جناب ابوطالب علیہ السلام آپ کی ہر طرح سے کفالت اور دیکھ بھال کرتے رہے ۔
نشست های علمی

رسول خداحضرت محمد مصطفےٰ (ص)کی مختصر سوانح حیات

محمد بن عبد اللہ حضرت اسماعیل (ع) نبی کے ۲۹ پشت اور حضرت آدم کے ۴۹ پشت یعنی حضرت آدم (ع)کے وفات کے ۹۷۰۰سال چار مہینے بعد،شیعہ علماء کے قول کے مطابق ۱۷ /ربیع الاول بروز جمعہ ،یعنی ۲۹/اگست ۵۷۱ء صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے ،پدر بزرگوارجناب عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ۔
مادر گرامی جناب آمنہ قبیلہبنی کلاب کی شریف زادی اور رئیش خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ،شجاعت اور بہادری میںیہ خاندان بہت ممتاز گزرا ہے اور عرب میں بہت مستند تھا۔
شعب ابو طالب مکہ میں آپ کی ولادت ہوئی آپ (ص) کے والد عبداللہ آپ (ص) کی ولادت سے دو مہینے پہلے ہی وفاتپا چکے تھے دادا عبد المطلب موجود تھے وہ آپ کے کفیل ہوئے اور آپ کے چچا جناب ابوطالب علیہ السلام آپ کی ہر طرح سے کفالت اور دیکھ بھال کرتے رہے ۔
آپ (ص) کا اسممبارک : محمد ،احمد
آپ کی کنیت: ابو القاسم
آپ کے القاب: آپ (ص) کے القاب ایک ہزار سے زیادہ ہیں جو زیادہ مشہور ہیں ان کوہم یہاں بیان کر رہے ہیں ۔ منجملہان کے ، مصطفےٰ ،مجتبیٰ ،محمود ، شفیع ،شافع ، خاتم الانبیا، رسول اللہ ،حبیب اللہ، اشرف المرسلین ، سید البشر ،محبوب حق،طاہر ،مختار ، سراج منیر ،امین ، صادق ، شمسالضحیٰ ، بدرالدجیٰ ، طۤہ،یٰس،مزمل ،مدثر ، سرور کائنات ، فخر موجودات ، سید عالموغیرہ ......

آنحضرت (ص) کی ولادت

شہر مکہ تاریکیوں اور خاموشیوں میں ڈوبا ہوا تھا ،زندگی کے آثار دور دور تک نظرنہیں آ رہے تھے البتہ چاند اپنی عادت کے مطابق دھیر ے دھیرے پہاڑوں کی اوٹ سے گزرتہوا ذرا بلندی پر آگیا تھا اور اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی شعاعیں مکہ کے معمولی اور سادہگھروں اور ریگستانی ذروں پر بکھیر رہا تھا۔
رفتہ رفتہ آدھی رات گزر گئی اور حجاز کے جلتے جھلستے ہوئے صحراؤں پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں ذرا دیر کے لئےریگستانوں کے سینوں میں لگی آگ ٹھنڈی ہوئی،ریا کاری سے دور ،خلوص کی اس بزم میںستاروں کی موجودگی نے جن میں اور اضافہ کر دیا ۔
صبح ہو چکی ہے نسیم سحر ہولے ہولے چل رہی ہے مرغان خوش الحان سحر انگیز نغمے فضا میں منتشر کر رہے ہیں گویا کسیمعشوق سے راز و نیاز کر رہے ہیں
افق مکہ پر سپیدہئ سحر ی نمودار ہونے والا ہےمگر سارے شہر پر ایک مبہم سا سکوت طاری ہے سب گہری نیند سورہے ہیں ،ہاں صرف'' آمنہ ' 'بیدار ہیں ناگہاں چند نا معلوم مگر نورانی عورتیں ان کے کمرے میں آئیں ۔ان کیخوشبو نے جناب آمنہ کو متحیر کر دیا یہ کون ہیں اور کس طرح یہاں آئی ہیں کیوں کہدروازہ تو بند ہے)۱(
تھوڑی دیر گزری تھی کہ ان کا عزیز فرزند متولدہوا۔ جس چیز کا مہینوں سے انتظار تھا ۱۷ /ربیع الاول)2)، یعنی ۲۹/اگست۵۷۱ع صبح صادق کے وقت اپنے بچے کی صورت دیکھ کر جناب آمنہ کی آنکھیں چمک اٹھیں اوردل باغ باغ ہو گیا۔
ہر ایک کو اس ولادت کی خوشی تھی '' محمد '' سے جناب آمنہ کےگھر کے درودیوار روشن و منور ہو گئے لیکن اس وقت آمنہ جواں سال شوہر '' عبداللہ'' کی کمی شدت سے محسوس کر رہی تھیں جس وقت وہ شام سے مدینہ واپس آرہے تھے راستہ میںان کا انتقال ہو گیا تھا انھیں وہیں دفن کر دیا گیا تھا اور آمنہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے تنہا ہو گئی تھیں۔(۳)

ولادت کے وقت

جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اس وقت زمین و آسمان میں ایسے عجائبات و معجزات خدا کیطرف سے ظاہر ہوئے خاص کر مشرق میں ، اس وقت کی تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔یہ حوادثخبر رسانی کا اس وقت اس سے سریع ذریعہ تھے جس سے یہ معلوم ہو گیا کہ دنیا میں کوئیعظیم واقعہ ہوا ہے ۔
یہ بچہ تمام فرسودہ رسم و رواج کا خاتمہ کرنے ولا اور ایکنئی تہذیب کی بنیاد رکھنے والا تھا ، انسانوں کو سعادت کی شاہراہ پر گامزن کرنےوالا تھا ، لہٰذا ولادت کے پہلے ہی دن سے فرسودہ اور جاہلی نظام کے لئے خطرے کیگھنٹیاں بجنے لگیں۔
نوشیرواں کا وسیع و عریض محل ،جس کی ابدیت کا خواب دیکھا جرہا تھا ، اسی رات اس میں زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کنگورے گر گئے (۴) ،آتش کدہئ فارس جو ایک ہزار سال سے مجوسی قوم نے جلا رکھا تھا خود بخود خاموش ہو گیا۔(۴)وقت ولادت ایسی روشنی پھیلی کہ شام و کسریٰ کی عمارتیں دکھائی دینےلگیں ، جہاں کہیں بھی بت رکھے ہوئے تھے سب سر نگوں ہو گئے ۔
خیالی خدا ؤں کےپجاری جن کا تعصب انھیں کوئی اور فکر کرنے نہیں دیتا تھا وہ بھی ان واقعات کے بعدسوچنے پر مجبور ہو گئے اسی طرح '' ساوہ '' کے دریا نے خشک ہو کر بیداری کا پیغامدیا۔(۵)

ماں کی شفقت سے محروم

ابھی آپ (ص) کی عمر کی چھ بہاریں گزری تھیں(۶)کہ آپ کی والدہ جنابآمنہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت کرنے گئیں اور آپ (ص) کواپنے ہمراہ لے گئیں ،مدینہ میں رشتہ داروں سے ملاقات کی اور شوہر کی قبر کی زیارتکرکے اپنے عہد کی تجدید کی اور پھر مکہ واپس آنے لگیں کہ راستہ میں '' ابوائ'' نامیجگہ پر آپ (آمنہ) کا انتقال ہوگی (۷)و ہ عمر جس میں بچے کو ماں کی محبتوں اور باپ کی شفقت کی بے پناہ ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں آپ (ص)کے سر سے دونوںسایہ اٹھ گئے۔

نبوت کے آثار

جسطرح پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت اور اس کے بعد رو نما ہونے والے غیر معمولی وقعاتآنحضرت کی شخصیت اور عظمت کی ترجمانی کر رہے تھے اسی طرح بچپن میں آپ (ص) کی باتیںاور آپ (ص) کا کردار آپ کو دوسرے بچوں سے ممتاز کر رہا تھا جناب عبد المطلب کو اسبات کا اندازہ ہو گیا تھا ۔اسی لئے وہ آنحضرت (ص) کا غیر معمولی احترام کرتے تھے ۔(۸)
آنحضرت (ص) کے چچا جناب ابو طالب کا بیان ہے کہ ہم نے کبھی محمد (ص) سےغلط بیانی اور کوئی نازیبابات نہیں دیکھی نہ کبھی ے جا ہنستے دیکھا اور نہ کبھی بےجا گفتگو کرتے دیکھا وہ اگثر بیشتر تنہا رہتے تھے ۔(۹)
جس وقتآنحضرت (ص)  سات سال کے تھے اس وقت یہودیوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہےکہ پیغمبر اسلام (ص)  حرام اور مشتبہ غذاؤں کو استعمال نہیں کرتا لہٰذا بہتر ہے کہ ہمان کا امتحان لیں ، چنانچہ ایک مرتبہ یہودیوں نے ایک مرغ چرا کر ابو طالب کے پاسبھیجا ،چوں کہ کسی کو علم نہ تھا اس لئے سب نے کھا یا لیکن پیغمبر اسلام (ص)  نے اسطرف ہاتھ تک نہیں بڑھایا ۔ جب اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا : کہ یہ حرام ہےاور خدا مجھے حرام سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں نے ایک بار اپنے پڑوسیکا مرغ پکڑ لیا اور خیال یہ تھا کہ بعد میں اس کی قیمت ادا کردیں گے ۔پیغمبراکرم (ص) نے اس مرغ کی طرف بھی ہاتھ نہیں بڑھایا اور فرمایا: کہ یہ غذا مشتبہ ہے ۔ اس کےبعد یہودیوں نے کہا کہ یہ بچہ بڑی عظمتوں کا مالک ہے اس کی شان نرالی ہے ۔(۱۰)
قریش کے سردار جناب عبد المطلب رسول خدا (ص)  کے ساتھ ہر گز اس طرحسے پیش نہیں آتے تھے جس طرح دوسرے بچوں کے ساتھ پیش آتے تھے بلکہ بہت عزت اوراحترام کرتے تھے ۔
جس وقت خانہ کعبہ کے گرد جناب عبد المطلب کے لئے مخصوص نشستبنائی جاتی تھی اور ان کے فرزند اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے تو ایسا رعب طاری ہوتتھا کہ کوئی اس جگہ تک جا نہیں سکتا تھا ،لیکن آنحضرت (ص)  اس جاہ و جلال سے کبھیمرعوب نہیں ہوئے ،آنحضرت (ص) سیدھے وہاں جاتے تھے جہاں جناب عبد المطلب بیٹھے ہوتےتھے ،وہ لوگ جو آنحضرت کو وہاں جانے سے روکتے تھے عبد المطلب ان سے کہتے تھے کہمیرے فرزند کو روکو نہیں ،خدا کی قسم اس کی جدا گانہ شان ہے ، اس وقت آنحضرت (ص) جنابعبد المطلب کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔(۱۱)

یاد ماضی

آنحضرت (ص)  کا بچپن یتیمی کے کرب کے ساتھ دادا عبد المطلب اور چچا ابو طالب کیشفقت کی چھاؤں میں گزرا ۔یتیمی کا رنج ہر رنج سے جانگداز ہو تا ہے ،رنج کے یہ تجربےآنحضرت (ص) کی آئندہ زندگی کے لئے بڑے مفید ثابت ہوئے ۔
رفتہ رفتہ عمر میں اضافہہوتا رہا اور بچپن سے جوانی میں قدم رکھا ، جہاں صلاحیتیں اور جذبات پروان چڑھتےہیں اگرچہ ماں کی محبت اور باپ کی شفقت سے محروم ہو چکے تھے مگر جناب ابوطالب اپناخلاقی فریضہ اور اپنے والد کی وصیت کے مطابق آنحضرت (ص) کی برابر حفاظت کرتے رہے ۔ابوطالب کے لئے حضرت تین طرح سے عزیز تھے ،فرزند تھے ۔مرحوم بھائی کی نشانی اوراپنے مرحوم پدر کی یادگار تھے ۔لہٰذا حضرت (ص) جناب ابوطالب کے گھر کے ایک فرد تھے۔ جناب ابوطالب کے دوسرے بچوں کی طرح حضرت (ص) بھی ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتےتھے جناب ابوطالب آنحضرت (ص)  کے لئے مہربان باپ ،وفادار چچا اور دل سوز مربی تھے ۔چچاور بھتیجے میں اتنی محبت تھی گویا دو قالب ایک جان تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ابو طالبہر جگہ آنحضرت (ص) کو اپنے ساتھ رکھتے تھے ،اپنے ساتھ عرب کے مشہور بازاروں ''عکاظ '' ''محبنہ'' اور '' ذی المجاز'' لے جاتے تھے ۔یہاں تک کہ جس وقت جناب ابوطالب کروان تجارت کے ساتھ شام جانے لگے تو حضرت کی جدائی برداشت نہ کر سکے اور حضرت کواپنے ہمراہ شام لے گئے ۔حضرت (ص) نے اونٹ کے اوپر ''یثرب'' اور ''شام'' کا دور درازسفر کیا۔(۱۲)

بحیر ا سے ملاقات

جب قریش کا دقافلہ ''بصری'' (۱۳)کے نزدیک پہنچا ،اس وقت گوشہ نشین زاہد بحیرا اپنے صومعہ میں تھا ،اس نے دیکھا کہ ایک قافلہ آرہا ہے اور قافلہ کےساتھ ساتھ ابر کا ایک ٹکڑا بھی حرکت کر رہا ہے ۔
بحیرا اپنے صومعہ سے نیچے اتر کر ایک گوشہ میں کھڑا ہو گیا اور اپنے خادم سے کہنے لگا ک قافلہ والوں سے جا کر کہہدو کہ وہ سب آج ہمارے مہمان ہیں ۔ حضرت (ص) کے علاوہ ہر شخص اس کے پاس چلا گی۔بحیرا نے دیکھا کہ ابر کا ٹکڑا وہیں رکا ہوا ہے ۔اس نے دریافت کیا کہ قافلہ کےتمام افراد یہاں آ گئے ہیں؟ سب نے کہا ہاں ! البتہ ایک نوجوان جو سن میں سب سےچھوٹا ہے وہ یہاں نہیں ہے ۔ بحیرا نے کہا جاؤ اس کو بھی بلا لاؤ جب حضرت چلے تو ابربھی ان کے ساتھ چلا ۔بحیرا غور سے یہ منظر دیکھتا رہا ۔
جب کھانا وغیرہ کھا چکےتو بحیرا نے حضرت (ص) سے کہا میں آپ سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں ۔ میں آپ کو ''لات'' اور''عزیٰ '' کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ضرور جواب دیں گے۔
حضرت(ص) :۔۔۔۔۔۔ جن دو ناموں می تم نے مجھے قسم دلائی ہے مجھے سب سے زیادہ انہی دو ناموںسے نفرت ہے۔
بحیرا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو اللہ (خدا) کی قسم دیتا ہوں کہ آپ میرےسوالوں کا جواب دیجئے ۔
حضرت (ص) :۔۔۔۔۔۔ اپنا سوال بیان کرو۔
مختصر سی گفتگو کےبعد بحیرا حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور آپ کے دست و پا کا بوسہ لیا اور کہا :اگرمیں اس تک زندہ رہا تو آپ کے دشمنوں سے جنگ کروں گا آپ بشریت کے سردار ہیں۔
اسکے بعد اس نے قافلہ والوں سے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے ۔ قافلہ والوں نے ابو طالب کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا فرزند ہے بحیرا نے کہا: یہ ان کے والد نہیںہیں ان کے والد ان کی ولادت سے پہلے انتقال کر چکے ہیں ۔
ابوطالب علیہ السلامنے کہا ہاں وہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔
بحیرا نے کہا : اس جوان کا مستقبل بہت ہیروشن وتابناک ہے ۔جو خصوصیات میں اس میں دیکھ رہا ہوں اگر یہودیوں کو معلوم ہو جائےتو اس کو قتل کر ڈا لیں ۔ اس جوان کے سلسلے میں یہودیوں سے بہت زیادہ ہوشیار رہئے۔
ابوطالب علیہ السلام نے پوچھا : یہ بچہ کیا کار نامہ انجام دے گا؟ اور یہودیکیا کریں گے ۔
بحیرا نے کہا: یہ بچہ مستقبل میں پیغمبر ہوگا ۔اس پر وحی کا فرشتہنازل ہوگا۔
ابوطالب علیہ السلام نے کہا: خدا یقینا اس بچہ کی حفاظت کرے گا ،(۱۴) (یہودیوں اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گ)

کردار کی بلندی

جس معاشرے میں حضرت زندگی بسر کر رہے تھے ،اخلاقی پستیاں اس معاشرے کی فضیلتشمار کی جاتی تھیں ۔جوان تو جوان حجاز کے بوڑھے بھی بدکاری میں سب سے آگے تھے یہاںتک کہ ہر گلی اور کوچہ میں بالا خانوں پر سیاہ پرچم مرکز فساد کی نشاندہی کرتے تھےاور لوگوں کو بدکرداری اور انحراف کی طرف بلاتے تھے ۔
ایسے گندے اور کثیف ماحولمیں حضرت نے اپنی جوانی کے پچیس سال گزارے لیکن آپ کے دامن کردار پر ماحول کی کثافتکا ذرا بھی اثر نہ ہو ا بلکہ دوست و دشمن ہر ایک نے آپ (ص) کے کردار کی بلندی کاعتراف کیا ہے۔
جس وقت جناب خدیجہ سے آپ کی شادی ہوئی اس وقت شعراء نے حضرت کیمدح میں جو اشعار کہے وہ حضرت کے کردار کے آئینہ دار ہیں ، شاعر جناب خدیجہ کومخاطب کرکے کہتا ہے کہ : ''اے خدیجہ ! دنیا والوں میں تم کو بہت بڑا مرتبہ ملاہے تمسب کو فوقیت حاصل ہے ،تم کو محمد (ص) جیسا شوہر ملاہے ،دنیا کی تمام عورتوں نے آج تکایسا کوئی بچہ پیدا نہیں کیا۔تمام اخلاقی اقدار ،بلندیاں،حیاوعفت سب اس میں جمع ہیںاور اسی طرح جمع رہیںگی'' (۱۵)
ایک دوسرا شاعر کہتاہے:
''اگر تماممخلوقات کے ساتھ حضرت کا مقابلہ کیا جائے تو ان کو سب پر فوقیت حاصل رہے گی ۔یقیناًقریش ان کے اخلاق اور کردار کی بلند یوں سے خوب واقف ہیں'' (۱۶)

آنحضرت (ص) کی شادی

جوانی فطری تقاضوں کے ظہور کا وقت ہوتا ہے ۔ اس وقت خاہشات شر اٹھانے لگتی ہیں۔جب لڑکا اور لڑکی کی عمر کے اس مرحلہ میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں گھر بسنے کی تمنا جاگنے لگتی ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کا احساس ہونے لگتا ہے تاکہ انکو سکون دل حاصل ہو جائے۔
اسلام نے فطری تقاضے کی سیرابی اور فتنہ و فساد سےمحفوظ رہنے کے لئے تاکید کی ہے کہ جوانوں کو جلدی شادی کرنا چاہئے اور یہ بہانہ نہبنانا کہ بعد کے اخراجات کے وسائل ان کے پاس نہیں ہیں ۔(۱۷)
ہاں اگرزندگی درہم برہم ،شادی کے ابتدا ئی اور بنیادی مسائل بھی فراہم نہیں ہیں تو اس صورتمیں عفت اور پاک دامنی کے ساتھ حالات کا انتظار کرنا چاہئے۔(۱۸)
حضرت نے اپنی زندگی کے ۲۵ سال اسی طرح کے سخت حالات میں گزارے۔مالی حالت ایسی نہ تھی کہ حضرت شادی کر سکتے ۔اس لئے حضرت حالات کا انتظار کر رہےتھے ۔(۱۹)

جناب خدیجہ کی پیش کش

جناب خدیجہ دولت مند اور شریف خاتون تھیں دوسرے افراد ان کے سرمائے سے تجارتکرتے تھے اور اپنی مزدوری لے کر نفع حضرت خدیجہ کو دے دیتے تھے
جس وقت حضرت کیامانت داری بلند کرداری کا سارے عرب میں شہرہ ہو گیا تو جناب خدیجہ نے سوچا کہ کیوںنہ حضرت کے ذریعہ تجارت کی جائے ،جناب خدیجہ نے یہ پیش کش حضرت (ص) کے درمیان رکھیکہ میں ایک غلام کے ساتھ سرمایہ آپ کو دوںگی تاکہ آپ اس سے تجارت کریں اور آپ کودسروں سے زیادہ دوں گی ۔
حضرت جناب ابو طالب (ع) کی زندگی سے بخوبی واقف تھے کہان کے اخراجات کتنے زیادہ ہیں اور آمدنی کتنی محدود ہے ،زندگی کس تنگی میں گزر رہیہے ۔لہٰذا آپ نے جناب خدیجہ کی پیش کش قبول کر لی۔(۲۰)

شام کا سفر

جس وقت قریش کا قافلہ تجارت کے لئے شام جانے لگا حضرت نے بھی اپنے سفر کی تیاریکی اور قافلہ میں شامل ہو گئے ،جناب خدیجہ نے سرمایہ حضرت (ص) کے حوالے کرتے ہوئے اپنےغلام ''میسرہ '' سے کہا کہ تم ان کے ساتھ جاؤ اور ان کی خدمت کرو ۔
اس تاریخیسفر کی جزئیات گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے بیان نہیں کیا جا سکتا بس اتنا جاننا ضروریہے کہ سفر بے پناہ برکتیں اپنے دامن میں لئے ہوئے تھا ،تجارت میں کافی فائدہ ہوتھا حضرت کی شخصیت اور نمایاں ہو گئی تھی ۔ عیسائی راہب نے حضرت سے ملاقات کی تھیاور آپ کی رسالت کی پیش گوئی کی تھی ۔(۲۱)اور یہی سفر شادی کا ذریعہبھی قرار پایا تھا۔
جب یہ قافلہ اپنا سفر طے کرکے مکہ واپس ہو ا تو میسرہ نے سفرکی تمام جزئیات تفصیل سے جناب خدیجہ کو سنا دیں ۔(۲۲)یہ باتیں سن کراور ایک عیسائی راہب کی پیشین گوئی سن کر کہ حضرت کی شادی قریش کی ایک بہت ہی بعزت اور محترم خاتون سے ہوگی ،خدیجہ نے اپنے دل میں ایک خاص لگاؤ محسوس کیا اورحضرت (ص)کی شکل میں اپنا در مقصود نظر آیا۔(۲۳)
اس سے پہلے ان کےچچا '' ورقہ بن نوفل'' بھی پیغمبر وں کے بارے مین کافی باتیں بتا چکے تھے اور بیانکر چکے تھے کہ حضرت (ص)  نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوں گے اور خدیجہ سے ان کی شادیہوگی(۲۴)ان باتوں نے اس قلبی لگاؤ میں اور زیادہ شدت پیدا کر دی۔
یہ بات کس طرح حضرت تک پہنچائی جائے ۔کیوں کہ خدیجہ کوئی معمولی عورت نہ تھیںقریش کی سب سے زیادہ محترم خاتون تھیں۔

شادی کی پیش کش

خدیجہ نے اپنی سہیلی ''نفیسہ '' (جو خدیجہ کے راز ہائے دل سے واقف تھی) کےسامنے یہ بات رکھی تاکہ وہ حضرت سے گفتگو کرے ۔نفیسہ حضرت (ص) کے پاس گئیں اور حضرتسے کہا کہ آ پ شادی کیوں نہیں کرتے ؟
حضرت (ص) نے جواب دیا : میرے حالات شادیکی اجازت نہیں دےتے ۔
نفیسہ نے کہا : اور اگر وہ وسائل فراہم ہو جائیں اور مسائلحل و جائیں ،ایک شریف خاندان کی دولت مند عورت اس بات پر تیار ہو جائے کیا اس وقتآپ شادی کریں گے ؟
حضرت (ص) نے دریافت کیا ۔وہ عورت کون ہے؟
نفیسہ نے کہ : خدیجہ ۔
اس پر آنحضرت (ص) نے کہا کہ اس نے تو قریش کے بڑے بڑے ثروت مندوں کےپیغامات رد کر دئے ہیں وہ میرے ساتھ شادی کرے گی ۔
نفیسہ نے کہا: ہاں یہ ہو سکت ہے اور میں اس رشتہ کو طے کروں گی ۔ (۲۵)
جس وقت حضرت کو اس بات کاطمینان ہو گیا کہ خدیجہ شادی کرنے کے لئے راضی ہیں حضرت نے ساری باتیں اپنے چچا سےبیان کر دیں ،وہ لوگ یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے رشتہ طے ہوا اور خاص اہتمام سے شادیہو گئی۔(۲۶)
حضرت نے شادی کے خاص بہترین ایام یعنی اپنی زندگی کے ۲۵سال جناب خدیجہ کے ساتھ گزارے ،خدیجہ حضرت کی صرف شریک حیات نہ تھیں بلکہ حضرت کیبہت بڑی مددگار بھی تھیں(۲۷)عورتوں میں آپ حضرت پر سب سے پہلے ایمانلائیں اور اپنا سارا مال و متاع دین مقدس اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے دے دیا ۔(۲۸)
جناب خدیجہ سے حضرت کی کئی اولادیں ہوئیں ،قاسم اور طاہر دوفرزند اور ایک بیٹی جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام ،دونوں بیٹے بچپنے میں ہی انتقالکر گئے ۔(۲۹)جناب خدیجہ کی محبت، فدکاری ،کی حضرت ہمیشہ قدر کرتے رہے۔زندگی میں بھی ان کے قدر داں رہے اور ان کے انتقال کے بعد بھی برابر یاد کرتے رہےاور جب بھی یاد کرتے تھے غمگین ہو جاتے تھے ۔(۳۰)کبھی کبھی ان کی یادمیں میں آنسوبھی نکل آتے تھے ۔جناب خدیجہ کی حیات کا چراغ اگر چہ ۶۵برس کی عمر میںگل ہو(۳۱)لیکن حضرت کا گھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدیجہ کے نور سے محرومہو گیا۔


۱۔ بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۳۲۵
۲۔ بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۲۵۰
۳۔ بحار الانوار،ج/۱۵ص/۲۵۷
۴و ۵۔ بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۲۵۸ و ۲۶۳
۶۔بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۴۰۲و ۴۰۵
۷۔سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱ص/۱۶۸
۸و ۹ ۔ بحار الانوار ،ج/۱۵۔ص/ ۳۸۲ و ۰۲ ۴ و ۳۶۶و ۳۳۶
۱۰۔ بحار الانوار ،ج/۱۵۔ص/ ۳۶۶ و ۳۳۶
۱۱۔ بحار الانوار ،ج/۱۵۔ص/ ۱۴۲۔سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱ص/۱۶۸
۱۲۔ سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۰
۱۳۔ بصریٰ شام کایک چھوٹا سا شہر
۱۴۔ سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۱۔اعلام الوریٰ ،ص/۲۶۔بحار الانوار ،ج/۱۵،ص/۱۹۳و۲۰۴
۱۵۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۷۴
۱۶۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۷۵
۱۷و ۱۸۔ قرآن کی آیت سے استفادہ کیا ہے ( نور/۳۱و۳۲)
۱۹۔ بحار الانوار،ج/۱۶۔ص/۳،تاریخ یعقوبی ج/۲،ص/۱۵۔ اعیان الشیعہ ج/۲ص/۸ ۔سیرت ،ج/۱ص/۱۵۲
۲۰۔ سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۸طبع ۱۳۷۵ھ۔بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۲۲
۲۱۔ سیرۃ ابن ہشام،ج/۱،ص/۱۸۸طبع ۱۳۷۵ھ۔یہ راہب بحیرا کے علاوہ ہے جس نے بچپن میں پیشین گوئی کیتھی۔
۲۲۔ کامل ابن اثیر ج/۲ص/۳۹مطبوعہ بیروت ۱۳۸۵ھ
۲۳۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۲۰و۲۱
۲۴۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۲۰و۲۱
۲۵۔ سیرۃ حلبیہ ،ج/۱ص/۱۵۲۔اعیانالشیعہ ج/۲ص/۸
۲۶۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۵۶۔۷۳
۲۷۔ بحار الانوار،ج/۱۶۔ص/۷۔۱۰۔۱۱۔ اعلام الوریٰ ص/۱۴۶
۲۸۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۱۰۔۷۱۔اعیانالشیعہ ،ج/۲ص/۸
۲۹۔بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۳۔اعیان الشیعہ ،ج/۲ص/۸
۳۰۔بحارالانوار ،ج/۱۶۔ص/۸ ۔۱۳
۳۱۔بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۸ ۔
برچسب ها :