شیعہ غیرسیدمردکاشیعہ
سیدہ لڑکی سے شادی کرنے میں شرعی لحاظ سے کوئی اشکال نہیں ہے اور اسلام کی نظر میں
ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ سیدہ لڑکی کا غیر سید سے شادی جائز نہ ہو ۔
اس مسئلہ کی دلیل
خود قرآن ہے ۔
اوراس کاواضح
نمونہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی پھوپھی زینب کا زید بن حارثہ سے شادی کرنا
ہے کہ قرآن کریم میں یہ صریحاً ذکر ہوا ہے ۔
جیسا کہ سور احزاب میں فرماتا ہے :''« وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ
أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ
وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا مُبِيناً * وَ إِذْ تَقُولُ للَّذِي
أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَ
اتَّقِ اللَّهَ وَ تُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَ تَخْشَى
النَّاسَ وَ اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشاهُ فَلَمَّا قَضى زَيْدٌ مِنْها وَطَراً زَوَّجْناكَها لِكَيْ لا يَكُونَ عَلَى
الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْواجِ أَدْعِيائِهِمْ إِذا قَضَوْا مِنْهُنَّ
وَطَراً وَ كانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا»)سوره احزاب آیت 36 تا 37)
اور کسی مومن مرد
اور مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب ا للہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں
فیصلہ کردیں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے
رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا ۔اور (اے رسول یاد کریں وہ
وقت ) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا ، کہہ رہے تھے :اپنی
زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ نے اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے
جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار
ہے کہ آپ اس سے ڈریں ، پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پور ی کر لی تو ہم
نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تا کہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں
(سے شادی کرنے ) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر
چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہے گا ''۔
واقعہ یہ ہے کہ
:بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جب حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ سے شادی کی ، اس وقت خدیجہ نے ''زید '' نامی کسی غلام کو خریدا
اور بعد میں اسے پیغمبر اکرم (ص) کو ہدیہ کے طور پر دیا ،اور پیغمبر اکرم(ص) نے
اسے آزاد فرمایا، اورجب اس کے قبیلہ والوں نے اس سے بائیکاٹ کیا تو آپ (ص) نے اسے اپنا بیٹا بنایا کہ اصطلاح میں اسے تبنی
کہا جاتا ہے ۔
اسلام کے ظہور
ہونے کے بعد ''زید '' ایک مخلص مسلمان ہوا ، اور اسلام میں اپنا مقام پیدا کیا
،اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ ''موتہ'' میں لشکر اسلام کے کمانڈر بن گئے
اور اسی جنگ میں شہید ہوئے ۔
جب پیغمبر
اکرم(ص) کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت زینب بنت جحش کی منگنی کی ،زینب بنت
جحش رسول خدا (ص) کی پھوپھی کی بیٹی تھی اور سیدہ تھی اور زید ایک آزاد ہونے والا
غلام تھ کہ حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم(ص) کو ہدیہ دیاتھا اور وہ سید نہیں تھا ،
پیغمبر اکرم (ص)نے جب زینب کی منگنی کی تو وہ یہ سوچ کر خوشحال ہوئی تھی کہ
آپ(ص)اپنے لیے منگنی کررہے ہیں اس لیے خوشحال ہو کر راضی ہوئی ،لیکن جب بعد میں یہ
پتہ چلا کہ زیدکے لئے منگنی کی ہے تو سخت پریشان ہوئی اور منع کرنے لگی ، اور اس
کا بھائی ''عبدا للہ '' بھی اس کے لئے راضی نہیں تھا اور سختی سے مخالفت کررہا
تھا، اس وقت جن آیات کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے ان میں سے ایک نازل ہوئی اور زینب
اورعبداللہ کو یہ خبر دار کیا کہ جب خدا اور اس کا رسول کی کام کو ضروری سمجھتے
ہیں تو کوئی اس کی مخالفت نہیں کر سکتا ،انہوں نے جب یہ بات سنی تو وہ بھی خدا کے
حکم سے سامنے سر تسلیم خم ہوئے ( البتہ جیسا کہ معلوم ہے یہ شادی کوئی معمولی شادی
نہیں تھا بلکہ یہ زمان جاہلی کی ایک غلط رواج کو باطل قرار دینے کے لئے ایک مقدمہ
تھا ، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں کوئی با شخصیت عورت کسی غلام سے شادی کرنے پر
رضامند نہیں ہوتی تھی،اگرچہ اس کا انسانی لحاظ سے بہت ہی قدر و قیمت والا ہی کیوں
نہ ہو ۔
اگر سیدہ لڑکی کا
کسی غیر سید سے شادی کرنے میں کوئی مختصر بھی مشکل ہوتا تو خدا اور اس کا رسول ا س
کی تائید نہیں کرتے ، لیکن یہاں پر زینب نے جب اس سے منع کیا تو خداوند متعالی نے
اسے خبردار کیا ۔
کہ یہ کسی بھی
صورت میں یہ شادی واقع ہونا چاہئے تا کہ یہ غلط اور باطل رواج اور نسلی امتیاز
بندی ختم ہو جائے ۔
البتہ بعد میں
زید اور زینب کے درمیان اختلافات ہوئے اورزینب کو طلاق ہوئی اس کے بعد زینب کی
حوصلہ افزائی اورتبنی کے غلط رواج کو توڑنے کے لئے پیغمبر اکرم(ص) زینب سے شادی کر
لی کہ دوسری آیت اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔
بہر حال یہ آیت
کریمہ سید ہ کا غیر سید سے شادی کے جائز ہونے کا بہترین دلیل ہے ۔
اس کا ایک اور
نمونہ ، عبد المطلب کی پوتی ضباعہ کا مقداد سے شادی کرنا ہے کہ روایات میں نقل ہوا
ہے مخصوصاً اس روایت کے ذیل میں تصریح ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:''میں
نے یہ شادی کرایا ہے تا کہ لوگوں کے درمیان شادی وسیع پیمانہ پر واقع ہو جائے اور
تمام قسم کے قید اور بند ختم ہو جائے ''۔
ہمارے زمانہ کے
بہت سارے مراجع جیسے آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ گلپائیگانی کہ خود سادات
بنی زہرا میں سے ہیں ، لیکن انہوں نے اپنی بیٹیوں کو غیر سادات کو دیئے ہیں ۔
لہذا سید ہ اور
غیر سید میں شادی جائز نہ ہونے کا جو عقیدہ ہے دین میں بدعت ہے شاید دشمنان اہل
بیت نے اس کو رواج دیا ہو گا تا کہ اس طرح سادات اور غیر سادات میں کوئی گهرا
تعلقات پیدا نہ ہو جائے ۔
سیدہ عورت کا غیر سید مرد سے شادی
24 December 2024 ٹائم 04:50
کسی سیدہ خاتون کا غیر سید مرد سے شادی کا کیا حکم ہے ؟
پاسخ :
شیعہ غیرسیدمردکاشیعہ سیدہ لڑکی سے شادی کرنے میں شرعی لحاظ سے کوئی اشکال نہیں ہے اور اسلام کی نظر میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ سیدہ لڑکی کا غیر سید سے شادی جائز نہ ہو ۔
اس مسئلہ کی دلیل خود قرآن ہے ۔
اوراس کاواضح نمونہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی پھوپھی زینب کا زید بن حارثہ سے شادی کرنا ہے کہ قرآن کریم میں یہ صریحاً ذکر ہوا ہے ۔
جیسا کہ سور احزاب میں فرماتا ہے :''« وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا مُبِيناً * وَ إِذْ تَقُولُ للَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللَّهَ وَ تُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ وَ اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشاهُ فَلَمَّا قَضى زَيْدٌ مِنْها وَطَراً زَوَّجْناكَها لِكَيْ لا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْواجِ أَدْعِيائِهِمْ إِذا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَراً وَ كانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا»)سوره احزاب آیت 36 تا 37)
اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب ا للہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کردیں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا ۔اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت ) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا ، کہہ رہے تھے :اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ نے اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں ، پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پور ی کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تا کہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے ) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہے گا ''۔
واقعہ یہ ہے کہ :بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جب حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے شادی کی ، اس وقت خدیجہ نے ''زید '' نامی کسی غلام کو خریدا اور بعد میں اسے پیغمبر اکرم (ص) کو ہدیہ کے طور پر دیا ،اور پیغمبر اکرم(ص) نے اسے آزاد فرمایا، اورجب اس کے قبیلہ والوں نے اس سے بائیکاٹ کیا تو آپ (ص) نے اسے اپنا بیٹا بنایا کہ اصطلاح میں اسے تبنی کہا جاتا ہے ۔
اسلام کے ظہور ہونے کے بعد ''زید '' ایک مخلص مسلمان ہوا ، اور اسلام میں اپنا مقام پیدا کیا ،اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ ''موتہ'' میں لشکر اسلام کے کمانڈر بن گئے اور اسی جنگ میں شہید ہوئے ۔
جب پیغمبر اکرم(ص) کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت زینب بنت جحش کی منگنی کی ،زینب بنت جحش رسول خدا (ص) کی پھوپھی کی بیٹی تھی اور سیدہ تھی اور زید ایک آزاد ہونے والا غلام تھ کہ حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم(ص) کو ہدیہ دیاتھا اور وہ سید نہیں تھا ، پیغمبر اکرم (ص)نے جب زینب کی منگنی کی تو وہ یہ سوچ کر خوشحال ہوئی تھی کہ آپ(ص)اپنے لیے منگنی کررہے ہیں اس لیے خوشحال ہو کر راضی ہوئی ،لیکن جب بعد میں یہ پتہ چلا کہ زیدکے لئے منگنی کی ہے تو سخت پریشان ہوئی اور منع کرنے لگی ، اور اس کا بھائی ''عبدا للہ '' بھی اس کے لئے راضی نہیں تھا اور سختی سے مخالفت کررہا تھا، اس وقت جن آیات کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے ان میں سے ایک نازل ہوئی اور زینب اورعبداللہ کو یہ خبر دار کیا کہ جب خدا اور اس کا رسول کی کام کو ضروری سمجھتے ہیں تو کوئی اس کی مخالفت نہیں کر سکتا ،انہوں نے جب یہ بات سنی تو وہ بھی خدا کے حکم سے سامنے سر تسلیم خم ہوئے ( البتہ جیسا کہ معلوم ہے یہ شادی کوئی معمولی شادی نہیں تھا بلکہ یہ زمان جاہلی کی ایک غلط رواج کو باطل قرار دینے کے لئے ایک مقدمہ تھا ، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں کوئی با شخصیت عورت کسی غلام سے شادی کرنے پر رضامند نہیں ہوتی تھی،اگرچہ اس کا انسانی لحاظ سے بہت ہی قدر و قیمت والا ہی کیوں نہ ہو ۔
اگر سیدہ لڑکی کا کسی غیر سید سے شادی کرنے میں کوئی مختصر بھی مشکل ہوتا تو خدا اور اس کا رسول ا س کی تائید نہیں کرتے ، لیکن یہاں پر زینب نے جب اس سے منع کیا تو خداوند متعالی نے اسے خبردار کیا ۔
کہ یہ کسی بھی صورت میں یہ شادی واقع ہونا چاہئے تا کہ یہ غلط اور باطل رواج اور نسلی امتیاز بندی ختم ہو جائے ۔
البتہ بعد میں زید اور زینب کے درمیان اختلافات ہوئے اورزینب کو طلاق ہوئی اس کے بعد زینب کی حوصلہ افزائی اورتبنی کے غلط رواج کو توڑنے کے لئے پیغمبر اکرم(ص) زینب سے شادی کر لی کہ دوسری آیت اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔
بہر حال یہ آیت کریمہ سید ہ کا غیر سید سے شادی کے جائز ہونے کا بہترین دلیل ہے ۔
اس کا ایک اور نمونہ ، عبد المطلب کی پوتی ضباعہ کا مقداد سے شادی کرنا ہے کہ روایات میں نقل ہوا ہے مخصوصاً اس روایت کے ذیل میں تصریح ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:''میں نے یہ شادی کرایا ہے تا کہ لوگوں کے درمیان شادی وسیع پیمانہ پر واقع ہو جائے اور تمام قسم کے قید اور بند ختم ہو جائے ''۔
ہمارے زمانہ کے بہت سارے مراجع جیسے آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ گلپائیگانی کہ خود سادات بنی زہرا میں سے ہیں ، لیکن انہوں نے اپنی بیٹیوں کو غیر سادات کو دیئے ہیں ۔
لہذا سید ہ اور غیر سید میں شادی جائز نہ ہونے کا جو عقیدہ ہے دین میں بدعت ہے شاید دشمنان اہل بیت نے اس کو رواج دیا ہو گا تا کہ اس طرح سادات اور غیر سادات میں کوئی گهرا تعلقات پیدا نہ ہو جائے ۔
کلمات کلیدی :
۱۵,۲۰۹