سب سے پہلے جس نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا ) پر مرثیہ پڑھا وہ خود حضرت امیر المومنین (ع) تھے

27 April 2024

05:07

۲,۵۵۰

خبر کا خلاصہ :
حضرت زہرا ( سلام اللہ علیہا) کی رثای میں امیر المومنین(ع) کے فرمایشات کے بارے میں حضرت آيت فاضل لنکرانی (مدظلہ) کے بیانات
آخرین رویداد ها

بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله رب العالمين و صلى الله على سيدنا محمد و آله الطاهرين


یہ ایام حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے ایام ہیں لہذا اس بارے میں چند کلمات بیان کرتا ہوں۔

خدا کا شکر ہے ان آخری بیست سالوں میں حوزہ علمیہ قم مقدسہ میں ، بزرگ مراجع خصوصا ہمارے مرحوم والد معظم حضرت آیت اللہ العظمی حاج شیخ محمد فاضل لنکرانی (رضوا اللہ تعالی علیہ ) نے ایام فاطمیہ کے لئے خاص توجہ ديے تھے ، اور اس بارے میں اچھے اقدامات کيے ، خصوصا کچھ مہم پیغامات ديے ، کہ ہمارے مرحوم والد نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایا تھا اس دنیا میں جو کام انجام دیا ہوں ان میں سے ایک جس کے بارے میں قبر اور قیامت میں امیدوار ہوں وہ بیانات ہیں جو  ایام فاطمیہ کے احیاء کے بارے میں اور آپ (س) کی عزاداری کے بارے میں دیا ہوں ۔

الحمد للہ آہستہ آہستہ فاطمیہ کے یہ مجالس برقرار ہوئے ، آج ہم سب طلاب کا بھی فرض ہے کہ اس بارے میں کوشش کریں ، اور ہر سال ہم اس عظیم خاتون کی شخصیت کے مختلف پہلووں کے بارے میں آیات اور روایات کے مطابق پہلے درجہ پر ہم خود آشنا ہو جائے  اور اس کےبعد لوگوں کے لئے بیان کرے۔

 میں ابھی تک  یہ روایت «وَ عَلَی مَعْرِفَتِها دارَتِ الْقُرُونِ الاُولی»   کے معنی کو نہیں سمجھ سکا ہوں ، میری نظر میں وہی تعبیر لیلۃالقدر کی طرح کہ فرمائے ہیں فاطمہ زہرا (س)  لیلۃالقدر ہے ، ان الفاظ میں سے جس کامعنی ہم سے مخفی ہے ، البتہ نہ کہ اس کا تحت اللفظی معنی مجہول ہے ، بلکہ اس کی حقیقت مخفی ہے، کہ خداوند متعالی نے بھی اپنے پیغمبر (ص) سے فرمایا ہے : «وَ ما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ»[1]   آپ (س) کی حقیقت شب قدر کی حقیقت کی طرح مخفی ہے ، یہ جو فرمائے ہیں : «سُمِّیتْ فَاطِمَةَ لِأَنَّ الْخلْقَ فطِمُوا عَنْ مَعْرِفَتِهَا»،  بہت ہی عجیب تعابیر ہے ، یعنی خداوند  تبارک وتعالی نے ایک خاتون کو خلق  فرمایا کہ بشر قیامت تک  ان کی معرفت کی انتہا تک نہیں پہنچ پائيں گے ، حضرت فاطمہ (س) دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان نہیں تھیں ، ولادت سے لے کر شہادت تک ، ان کی تمام خصوصیات خداوند تبارک و تعالی  کے خاص مورد عنایت تھے ۔

جب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) آجاتی ہیں تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کھڑے ہو جاتے ہیں او ر ان کی استقبال کے لئے جاتے ہیں ، ان کو بوسہ کرتے ہیں ، وہاں حاضر افراد کے مورد توجہ قرار پاتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعض اصحاب اعتراض کرتے ہیں کہ یہ آپ کےلئے مناسب نہیں ہے کہ سب کے سامنے حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) کے ہاتھوں کو بوسہ دیں ، پیغمبر اکرم (ص) ان کے جواب میں فرماتے ہیں میں اس کام کو خدا کے حکم سے انجام دیتا ہوں ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی یہی بات خود عجیب ہے ۔

 ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہر سال حضرت زہرا (س) کی  معرفت  اپنے  اندر ، اپنے سماج،  خصوصا جوانوں میں زیادہ سے زیادہ کرے ، کوشش کریں تا کہ کچھ حد تک سمجھ جائيں فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کون تھیں ؟ ان شاء اللہ ہم سب اپنے اس ذمہ داری کو احسن وجہ انجام دیں ، حضرت زہرا ( سلام اللہ علیہا ) کی عزاداری کے بارے میں جس سے جو کام ہو سکتا ہے وہ انجام دیں ، اس میں کوتاہی نہ کرے ، جو تقریر کر سکتا ہے وہ تقریر کرے ، جو نوحہ یا مرثیہ پڑھ سکتے ہیں وہ نوحہ اور مرثیہ پڑھے ،اور عوام بھی ہر کوئی اپنے گھروں  کے دروازوں پر پرچم لگائيں ۔

یہ سب اس لئے نہیں ہے کہ بی بی دو عالم پر جو ظلم ہوئے ہیں ان کے بدلے ہم سب  کی عزاداری کی ان کو ضرورت ہے ، انہیں کوئي ضرورت نہیں ہے ، لیکن اگر ہم ایسے عظیم واقعہ کے بارے میں اورپیغمبر اکرم (ص) کے بعد خداوند متعالی کے محبوب ترین مخلوق  شخصیت کے بارے میں  ان تمام ظلم اور مصیبت  پر بی تفاوت نہ رہنا چاہئے ، تو یہ عزاداری برپا کریں ، اگر ایسا نہ کرے تو ہمارے شیعہ ہونے کا دعوا بھی مشکل ہو گا ، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا ) کے تدفین کے بعد امیر المومنین (ع) نے جو کلمات بیان فرمائے تھے یقینا منبر سے بیان کر چکے ہوں گے ، آپ(ع) نے فرمایا : «إِلَى اللهِ أَشْكُو»، خداوند متعالی کے حضور شکایت کیا ہے اور فرماتا ہے : «أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ، وَ أَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ»،  خدا کا ایک حجت یہ بیان فرما رہا ہے  : کہ اب میرا حزن ہمیشہ کے لئے ہے ، اس مصیبت پر اب راتوں کو صبح تک بیدار ر روتے رہوں گا ۔

 سب سے پہلے جس نے فاطمہ زہرا ( سلام اللہ عليہا ) پر مرثیہ پڑھا اور ان کی مصیبت پڑھی وہ خود امیر المومنین (علیہ السلام ) ہے کہ اپنے ہمسر کو دفن کرنے کے بعد ان کے قبر کے کنارے یہ سب پڑھ رہے تھے ۔

بی بی دو عالم کی عظمت کے  ایک گوشہ کے بارے میں جاننے کے لئے امیر المومنین (علیہ السلام) نے ان کی جدائی میں جو مرثیہ پڑھا ہے اس پر توجہ دے دیں :

«فَلَمَّا نَفَضَ يَدَهُ مِنْ تُرَابِ الْقَبْرِ هَاجَ بِهِ الْحُزْنُ»،  جب قبر مطہر کی مٹی سے ہاتھوں کو اٹھا لیا تو دنیا کی تمام مصیبتیں آپ پر گر پڑی ، «وَ أَرْسَلَ دُمُوعَهُ عَلَى خَدَّيْهِ»   چہرہ اطہر پر آنسو   جاری ہوئے ، اب اس کے بعد سے حضرت (ع) کیا کرے ؟کس کے ساتھ بات کریں ؟کس سے درد دل کرے ؟ «وَ حَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى قَبْرِ رَسُولِ اللهِ(صلی الله علیه و آله)» کوئي  راستہ نظر نہیں آیا سوائے اس کے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پناہ لے لیں ، کسی بھی چیز سے آپ کو سکون حاصل نہیں ہوا ، سوائے اس کے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ہم کلام ہو جائے ، مصیبت اتنا زیادہ تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے قبر مطہر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :«السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، عَنِّي وَ عَنِ ابْنَتِكَ وَ حَبِيبَتِكَ، وَ قُرَّةِ عَيْنِكَ وَ زَائِرَتِكَ، وَ الثَّابِتَةِ فِي الثَّرَى بِبُقْعَتِكَ»، نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ پیغمبر اکرم (ص) کے اس نئے  مہمان کی طرف سے بھی  سلام دیا ، سلام ہو تم پر تمہاری بیٹی ، نورچشم اور تمہارے زائر کی طرف سے ، «الْمُخْتَارِ اللَّهُ لَهَا سُرْعَةَ اللِّحَاقِ بِكَ»  سلام ہوآپ  پر اس کی طرف سے  جسے خداوند متعالی نے کتنے جلدی ہم سے لے لیا اور کس قدر جلدی آپ سے ملحق ہوئے ۔

بہت ہی  تعجب کی بات ہےکہ امیر المومنین (علیہ السلام) عرض کرتے ہیں : «قَلَّ يَا رَسُولَ اللهِ عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي، وَ ضَعُفَ عَنْ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ تَجَلُّدِي...»  اب جو مصیبت آئی ہے میں اب اس پر صبر نہیں کر سکتا ہوں «قَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِيعَةُ» یا رسول الله  (ص) جو امانت آپ نے دی تھی وہ آپ کو واپس کیا گیا لیکن ملاحظہ فرمائے جو آپ نے دیا تھا اور جو آپ کو واپس ہوا ہے ان دونوں میں کتنا فرق ہے؟! «وَ أُخِذَتِ الرَّهِينَةُ، وَ اخْتُلِسَتِ‏ الزَّهْرَاءُ»   زہرا(س) کو اچانک مجھ سے لیا گیا ، «فَمَا أَقْبَحَ‏ الْخَضْرَاءَ وَ الْغَبْرَاءَ»  اب آسمان اور تمام زمین میرے لئے تاریک ہے ، کتنی عجیب تعبیر ہے ، یہ سے معمولی باتیں نہیں ہے ، چونکہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پورے عالم سے وابستہ ہے ۔

«يَا رَسُولَ اللهِ! أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ، وَ أَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ، لَا يَبْرَحْ الْحُزْنُ‏ مِنْ قَلْبِي أَوْ يَخْتَارَ اللَّهُ لِي دَارَكَ الَّتِي فِيهَا أَنْتَ مُقِيمٌ» یا رسول اللہ (ص) یہ غم اور اندوہ آخر عمر تک میرے دل میں رہ جائے گا ، اور یہ دل سے نکل جانے والی مصیبت نہیں ہے ، «كَمَدٌ مُقَيِّحٌ»،  اس   غم  واندوہ نے ایک ناسور کے مانند میرے وجود میں  جگہ بنا لی ہے ، یعنی ایک معمولی غم نہیں ہے ، جو جلد  ختم ہو جائے ! ایک سخت غم ہے جو بدن میں باقی رہ جائے گا ، اور مجھے اندر سے کھا لے گا ،  «وَ هَمٌّ مُهَيِّجٌ، سَرْعَانَ مَا فَرَّقَ بَيْنَنَا»، کتنے جلدی ہمارے درمیان جدائی ہوئی ، اس کے بعد فرماتا ہے : «وَ إِلَى اللهِ أَشْكُو»،  میں خدا سے شکایت کرتا ہوں ، امیر المومنین (ع) کی یہ بات حضرت زہرا(س) کے وفات کے بعد ہے ، کہ کسی زمانہ میں یہ شکایت  ہونا چاہئے اور اس کا حساب و کتاب ہونا چاہئے ۔

اے رسول خدا (ص) اپنی بیٹی سے پوچھ لیں کہ آپ کی امت نے آپ کے بعد ان پر کیا کیا ظلم  ڈھائے،   «فَاسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ»   آپ(ص) کے وفات کے بعد کی حالات آپ اپنی بیٹی سے استفسار کریں ، «فَكَمْ مِنْ غَلِيلٍ مُعْتَلِجٍ بِصَدْرِهَا»  اگر زہرا (س) کی سینہ کو دیکھ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ ان کا سینہ ہونے والے  ظلم و ستم سے سینہ بھرا ہوا ہے ،  اس عبارت کو شیخ صدق نے امالی میں ، اور شیخ مفید اور اصول کافی میں لکھا ہوا ہے ۔

«و لَوْ لَا غَلَبَةُ الْمُسْتَوْلِينَ عَلَيْنَا لَجَعَلْتُ الْمُقَامَ عِنْدَ قَبْرِكَ لِزَاماً، وَ التَّلَبُّثَ عِنْدَهُ مَعْكُوفاً»  بعض جاہل لوگ کہتے ہیں : کیا خبر ہے ؟ 1400 سال پہلے کسی پر ظلم ہوا ہے ، اس سے ابھی کیا ربط ہے ؟ یہ لوگ نا سمجھ ہیں ! جاہل ہیں !امیر المومنین (ع) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے بعد کائنات کے  وہ  عظیم انسان فرما رہا ہے : اگر یہ دشمن جو قبر زہرا (سلام اللہ علیہا) کو پانے کے درپے ہیں تا کہ ان کے جنازہ مطہرہ کو باہر لایا جائے نہ ہوتے تو آخر عمر تک میں زہرا (س) کے قبر کے کنارے بیٹھ جاتا اور قبر زہرا کا معتکف ہوتا ، یعنی یہ مصیبت اتنی عظیم ہے ۔

«وَ لَأَعْوَلْتُ إِعْوَالَ الثَّكْلَى عَلَى جَلِيلِ الرَّزِيَّةِ»  جوان بیٹا ہاتھ سے دینے والی عورت کی طرح میں روتا رہتا ، کتنی عجیب تعبیر ہے ،. «فَبِعَيْنِ اللهِ تُدْفَنُ بِنْتُكَ سِرّاً، وَ يُهْتَضَمُ حَقَّهَا قَهْراً» خدا کے حضور آپ(ص) کی بیٹی کو چھپائے ہوئے دفن کر لوں، آپ کے آنکھوں کے سامنے اس کی حق کو چھینا گیا اور طاقت و قدرت کے ذریعہ انہیں ارث سے محروم کر دیے ، «وَ لَمْ يَطُلِ الْعَهْدُ» درحالیکه آپ تو تازہ اس دنیا سے جا چکے تھے ، اور آپ کے وفات سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا  کہ آپ کی بیٹی پر یہ سب ظلم ہو گیا ۔

 اس کے بعد دوبارہ عرض کرتا ہے  «فَإِلَى اللهِ يَا رَسُولَ اللهِ الْمُشْتَكَى»   یہ شکایت میں قیامت کے دن صرف خدا کے حضور میں بیان کروں گا ، «وَ فِيكَ أَجْمَلُ الْعَزَاءِ، فَصَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهَا وَ عَلَيْكَ...».

یہ وہ مرثیہ ہے جسے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) کے دفن کے بعد امیر المومنین (علیہ السلام) نے ان کے قبر پر فرمایا ہے ۔

 جب زہرا (س) کی جدائی پر امام (ع) ہمیشہ عزادار ہے ، زمان حاضر میں ہمارا بھی یہ عقیدہ ہے کہ بغیر کسی شک کے حضرت حجت(عج) کا بھی یہی حال ہے اور یہ فرمائيں گے : خدایا میں اپنی ماں کی مصیبت پر تمہارے حضور شکایت کرتا ہوں ، لہذا  ہمیں چاہئے ان ایام میں جتنا ہو سکے باشکوہ اور معرفت کے ساتھ مجالس عزاداری منعقد کرے اور یہ خدا کی طرف سے بہت بڑی توفیق ہے ۔

ہمارے مرحوم والد محترم  (رضوان اللہ تعالی علیہ ) جو کہ واقعا فاطمی اور احیا گر فاطمیہ شخصیت تھے ان سے یہ واقعہ بیان کرتا ہوں ، ایک دن میں نے ان سے عرض کیا کہ کیوں آپ ہمیشہ حضرت زہرا ( سلام اللہ عليہا ) سے متوسل ہوتے ہیں ؟ ان بانو معظم سے آپ نے کیا دیکھا ہے ؟ خصوصا آخری چند مہینوں میں کسی سے بات نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ ایک خاص حالت میں ہوتے تھے ، کبھی صرف سر کو اوپر لاتے تھے اور کہتے تھے : «السلام علیک یا فاطمة الزهرا»میں نے بتایا کہ آپ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) سے بہت زیادہ متوسل ہوتے ہیں ؟ فرمایا : میں بچپنے سے جب بھی کوئی مشکل پیش آیا حضرت زہرا(س) سے متوسل ہوتا تھا ، اس بارے میں ہمیں بھی بہت زیادہ نصیحت فرماتے تھے ، اور وصیت نامہ میں بھی یہی وصیت فرمایا ہے کہ فاطمیہ کو احیاء کریں ،مجالس برگزار کریں ، اور اس بارے میں اپنی ذمہ داری کو ادا کریں ۔

خراسان سے کچھ علماء آپ کے خدمت میں آئے تھے ، اس وقت آپ نے ان سے فرمایا تھا : حضرات محترم میں تقریبا 50 سال سے درس دے رہا ہوں ، میں نے کتاب لکھی ہے ، بہت زیادہ شاگردوں کو تربیت دی ہے ، یہ سب خداوند متعالی کی طرف سے توفیق تھی جو مجھے عطا ہوئی ، لیکن میں قیامت کے دن کے لئے ان میں سے کسی  ایک سے   میری امید وابستہ نہیں ہے ، البتہ ان کاموں کی قدر و قیمت کو کم کرنا نہیں چاہتے تھے ، بلکہ یہ فرمائے میری امید ان  کاموں سے وابستہ نہیں ہے ، جس چیز سے میری امید ہے وہ میری وہ آواز ہے جو فاطمیہ کے احیاء کے لئے میں نے بلند کی ہے ، ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی اسی راستہ پر چلے اور اپنے بچوں کو بھی اسی راستہ کی طرف چلنے کی تلقین کرے ، یقینا اس کے بہت بڑے آثار اور نتائج ہوں گے ۔

میں اس  معنی سے بھرے ہوئے روایت کو بھی پڑھنا چاہتا تھا «إن الله یَغْضَبُ لِغَضَبِ فاطِمَةَ وَ یَرضَی لِرِضاها»  تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے فقط یہی ایک جملہ عرض کرتا ہوں ، کہ جس شخص پر خدا وند متعالی غضبناک ہو اس کا جايگاہ کہاں ہے ؟ خداوند قرآن کریم میں فرماتا ہے :«وَ مَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبي فَقَدْ هَوى»، جس پر خداوند متعالی غضبناک ہو وہ آگ  میں سقوط کرے گا، یہ بہت ہی بڑی بات ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بار بار فرمایا ہے : خداوند تبارک و تعالی حضرت زہرا (س) کی غضب پر غضبناک ہوتا ہے ، اور جس پر خداوند متعالی غضبناک ہو اس کی عاقبت جہنم میں اور آگ میں سقوط ہونا ہے ۔

ایک اور نقل میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے سلمان سے فرمایا : «مَنْ أَحَبَّ فَاطِمَةَ ابْنَتِي فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ مَعِي»، اگر کوئي فاطمہ سے محبت کرے وہ کل بہشت میں میرے ساتھ ہو گا ، «وَ مَنْ أَبْغَضَهَا فَهُوَ فِي النَّارِ»  اور جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا وہ جہنم کے آگ میں ہو گا ۔ اس روایت کے آخر میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا ) کے شیعیوں کے لئے ایک بشارت دی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : افسوس ہو ان لوگوں پر جو فاطمہ ، ان کے ہمسر ، ان کے فرزندوں اور ان کے شیعیوں پر ظلم کرتے ہیں «وَيْلٌ لِمَنْ يَظْلِمُهَا وَ يَظْلِمُ بَعْلَهَا أَمِيرَاَلْمُؤْمِنِينَ عَلِيّاً عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَ وَيْلٌ لِمَنْ يَظْلِمُ ذُرِّيَّتَهَا وَ شِيعَتَهَا»  آپ (ص) جانتے تھے کہ آپ کے بعد فاطمہ ( سلام اللہ علیہا) پر کیا کیا ظلم اور ستم ہونگے ، خداوند متعالی نے پیغمبر (ص) کے لئے کتنا صبر دیا ہوا تھا ، یہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شیعوں کے لئے ایک بشارت ہے کہ ان کے دشمن خداوند متعالی کا مورد خشم اور غضب واقع ہونگے ۔

امام صادق (علیہ السلام) سے عرض کرتے ہیں  کہ یہ روایت نقل ہوا ہے : «إِنَّ اللهَ يَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ وَ يَرْضَى لِرِضَاهَا»، آپ (ع) نے فرمایا جی ہاں یہ نقل صحیح ہے اور یقینی ہے ،اور اہمیت والی بات یہ ہے کہ اس حدیث کے سند کا سلسلہ خود امام صادق (علیہ السلام) ہے،  امام باقر سے ، امام سجاد سے ، امام حسین سے ، امام علی بن ابیطالب (علیہم السلام ) سے، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے .

 اس کے بعد وہ شخص کہتا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک خاتون کے غضب پر خداوند متعالی غضبناک ہو جائے ؟ یہاں پر امام صادق (علیہ السلام) ایک مطلب بیان فرماتا ہے ، یہ سوال کرنے والابظاہر اہل سنت میں سے صندل نامی کوئی  شخص تھا ، امام (ع) اس شخص سے سوال کرتا ہے مگر تمہاری کتابوں میں نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کسی مومن کے غضب سے غضبناک ہوتے ہیں ؟ کہتا ہے : جی ہاں ! آپ(ع) فرماتا ہے کیا فاطمہ مومن نہیں ہے ؟ اس کے بعد وہ شخص اس بات کو قبول کر لیتا ہے اور اس کے بعد کہتا ہے : «اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَهُ»  اس حدیث کے ذیل سے معلوم ہوتا ہے کہ صندل شیعہ نہیں تھا ، بعض نقل میں راوی کو کوئی اور شخص بتایا ہے .

 میرا گمان یہ ہے کہ «إنّ اللهَ يَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ»   کو کم اہمیت کرنے کے لئے  اس کے مقابلہ میں یہ بتاتے ہیں  «إنَّ اللهَ یَغضِبُ لِغَضَبِ عَبدِهِ المُؤمن»، لیکن رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ہم تک پہنچی ہے وہ یہ روایت ہے «إِنَّ اللهَ يَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ وَ يَرْضَى لِرِضَاهَا »

ہمیں چاہئے کہ اس روایت کو صحیح طرح سمجھیں  ، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت پر بھی غور کریں کہ فرماتا ہے :جس پر خداوند متعالی غضبناک ہو جائے وہ عذاب الیم اور عظیم میں گرفتار ہو گا ۔

شہادت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مناسبت سے امام ومان (عج) کہ اول عزادار ہیں ان کی خدمت میں تسلیت عرض کرتا ہوں ، اور امام زمان (ع) سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ ہم شیعوں کی  ولایت اہبیت (ع) پر ایما ن اور یقین اور عاقبت بخیر ہونے ،شیعوں اور جہان  اسلام کے  مشکلات کے حل   خصوصا نظام جمہوری اسلامی کے لئے دعا فرمائے تا کہ جو بھی بلا ء وہ سب برطرف ہو جائے .

وصلی الله علی محمد و آله الطاهرین


برچسب ها :