حضرت آیت اللہ شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کاسمنان شہر کے ٹریفک ملازمین کےایک گروہ سے ملاقات

26 April 2024

17:45

۲,۲۰۷

خبر کا خلاصہ :
سمنان شہر کے ٹریفک ملازمین کےایک گروہ نے بروز جمعہ ۷،۱۲،۸۸ کو آیت اللہ شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کے ساتھ ملاقات کی۔

اس ملاقات میں موصوف نے خوش آمدید کےبعد فرمایا:

الحمد للہ ایسی مجلس میں تشریف لائے ہیں کہ جو تقریبا ستر سال سے آئمہ اطہار (ع) کی ولادتوں اور شہادتوں کے مناسبتوں سے منعقد ہورہی ہے اور مراجع اور علماء بھی کئی سالوں سے اس مجلس میں حاضر ہوتے رہے ہیں۔
آخرین رویداد ها

سمنان شہر کے ٹریفک ملازمین کےایک گروہ نے بروز جمعہ ۷،۱۲،۸۸ کو آیت اللہ شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کے ساتھ ملاقات کی۔

اس ملاقات میں موصوف نے خوش آمدید کےبعد فرمایا:

الحمد للہ ایسی مجلس میں تشریف لائے ہیں کہ جو تقریبا ستر سال سے آئمہ اطہار (ع) کی ولادتوں اور شہادتوں کے مناسبتوں سے منعقد ہورہی ہے اور مراجع اور علماء بھی کئی سالوں سے اس مجلس میں حاضر ہوتے رہے ہیں۔

ہمارے والد مرحوم کی شخصیت کےبارے میں جو تعریفات بیان ہوئی ہیں ان میں سے دقیق ترین رہبر معظم کا یہ بیان ہے کہ آپ نے فرمایا: موصوف ( آیت اللہ فاضل لنکرانی) انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ان نامدار علماء میں سے تھے کہ جنہوں نے تمام حساس موارد میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔

ہمیشہ ہمارے بزرگوں نے آئمہ اطہار(ع) کی بارگاہ میں زانوئے ادب طے کئے ہیں۔ جو بھی جس علمی اور معنوی مقام تک پہنچا ہے اہل بیت علیھم السلام کی برکت سے پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر آپ ملاحظہ کریں امام راحل کی کامیابی کا راز کیا تھا؟

حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے پہلا یہ کہ آپ اخلاق اور عرفان کی بلندی پر فائز تھے۔ اور چالیس سال کی عمر میں اسرار العارفین کو اسرار نماز کی صورت میں لکھا کہ جسے بڑے بڑے فلاسفرز بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں دنوں میں کتاب چہل حدیث کو بھی لکھتے ہیں کہ جو نہایت با عظمت کتاب ہے۔ دوسرا پہلو یہ کہ فقہی میدان میں بھی بہت بڑے مرتبہ کے حامل تھے مرحوم والد فرماتے تھے: امام کی ایک مظلومیت یہ تھی کہ سیاست اس بات کا سبب بنی کہ امام کے علمی ، فقہی، فلسفی، تفسیری اور اصولی پہلو لوگوں کے سامنے آشکار نہیں ہو پائے۔

ان تمام ابعاد اور پہلو میں جو امام کا اصلی جوہر تھا وہ قرآن و عترت سے تمسک تھا۔ دیکھئے انسان کا جوانی میں جو ملکہ ہوتا ہے بڑھاپے اورزندگی کے آخری دنوں میں زیادہ آشکار ہو جاتا ہے۔ اور امام (رہ) اپنے وصیت نامہ کو حدیث ثقلین سے آغاز کرتے ہیں اور یہ اس بات کی  دلیل ہےکہ امام پوری زندگی قرآن اور عترت سے ہی متمسک رہیں ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اس چیز کو امام سے سیکھیں۔ آپ روزانہ دو تین بار قرآن کی تلاوت کرتے تھے حتی آدھی رات کو بیماری کے بستر پر بھی۔ اور تلاوت کےساتھ ساتھ اہل بیت علیہم السلام سے توسل۔

آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی نے مزید فرمایا:

عزیز بہنو اور بھائیو! یہ جان لینا چاہیے کہ راہ سعادت صرف قرآن اور عترت ہے۔ ہر روز قرآن سے رابطہ برقرار رہنا چاہیے اور اہل بیت سے مربوط مجالس میں شرکت کرنا چاہیے۔ خاص کر کے امام زمانہ(ع) سےتوسل اس زمانے میں نہایت ضروری ہے۔

لہذا، ہمارے بزرگوں کی کامیابی کا راز پیغمبراکرم(ص) کی وصیت پر عمل پیرا ہونا تھا کہ فرمایا: انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی" پیغمبر کی دو گران بہا امانتوں کی حفاظت ہمارا فریضہ ہے۔ اس کام کو انجام دینے سے خود ہمارا وجود نورانی ہوگا۔ اس طریقے سے کہ بزرگوں کے بقول انسان زندگی کے آخری دنوں میں خوشی سے اسے پر لگ جائیں گے اور ان پروں کے ذریعے وہ آخرت کی طرف پرواز کر کے چلا جائے گا۔

والد مرحوم، اپنی زندگی کے آخری دنوں میں زیادہ خاموش رہتے اور فکر کرتےتھے اور جب بولتے تھے صرف یہ کہتےتھے السلام علیک یا فاطمۃ الزہراء(س)

آپ نے علماء کی ایک میٹینگ میں فرمایا: میں پچاس سال سے زیادہ تدریس کر رہا ہوں اور ہزار سے زیادہ شاگرد تربیت کئے ہیں۔ اور دسیوں کتابیں تالیف کی ہیں لیکن اپنی آخرت کے لیے ان میں سے کسی ایک کی امید نہیں رکھتا ہوں۔ صرف میری امید ان اعلانوں پر ہے کہ جو میں نے  جناب زہراء(ع) کی شہادت کے دنوں میں مجالس منعقد کرنے کے لیے لکھے ہیں۔

لہذا آپ دیکھیں ایام فاطمیہ سے اسی شدت محبت کی بنا پر آپ کی وفات بھی خدا وند عالم نے انہیں دنوں میں قرار دی۔

انشاء اللہ خدا وند عالم ہمارے رابطہ کو آئمہ اطہار(ع) سے زیادہ سے زیادہ قوی کرے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

برچسب ها :