نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاتمیت کے بارے میں ایران کے ٹی وی چینل 4 پر حضرت حضرت آیت الله حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی(دامت برکاته)کے بیانات15/ 10 / 94

27 April 2024

03:06

۲,۷۰۶

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمین و صلی الله علی سیدنا محمد و آله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین
پیغمبر خاتم  حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور رئیس مذہب تشیع امام جعفر صادق علیہ السلام کے ولادت باسعادت کی مناسبت پر تمام مسلمانوں اور شیعیان کی خدمت میں تبریک عرض کرتا ہوں ،امید ہے کہ مسلمان خصوصا شیعیان دنیا میں جو حالات اس وقت ہیں ان دو مولود کے عظیم برکات سے بہرمند ہوں گے ، ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اسلام اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کے اہداف عالیہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے ۔
ہماری گفتگو پیغمبر اکرم(ص) کی خاتمیت کے بارے میں ہے ، کہ یہ ہمارے زمانہ کے بہت ہی مہم معارف اور عقاید کے موضوعات میں سے ہے ، یونیورسٹی اور حوزات علمیہ کے دانشمندوں کو چاہئے کہ اس موضوع کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرے ، ہم سب کا یہ اعتقاد ہے کہ دین اسلام کامل ترین دین ہے ، اور ہمارا پیغمبر آخری پیغمبر ہے جسے خدا نے لوگوں کے لئے مبعوث فرمایا ہے ،ان کے بعد قیامت تک کسی بھی شخص پر پیغمبر کے عنوان سے خدا کی طرف سے وحی نازل نہیں ہو گا ۔
خاتمیت کا مفہوم
مسئلہ خاتمیت میں چند مطالب قابل گفتگو ہے ؛
1۔ خاتمیت کا معنی کیا ہے اور یہ اسلام کی ضروریات میں سے ہے اس سے کیا مراد ہے؟کیا خاتمیت کا معنی یہ ہے کہ انسان تکامل عقلی کے لحاظ سے اس حد تک پہنچا ہے کہ اب اور خدا کی طرف سے کسی رسول اور نبی کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، جیسا کہ بعض مولفین اسی مطلب کو بیان کرتے ہیں کہ گذشتہ اقوام اور امتیں عقلی لحاظ سے اس حد تک رشد نہیں کر چکے تھے کہ کامل دین کو حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتے لیکن آخر الزمان کی امت میں یہ رشد پیدا ہوچکی تھی۔
(ہمارے عزیزان گرامی اور دانشمند حضرات بخوبی آگاہ ہیں کہ آخر الزمان اسی صدر اسلام سے آغاز ہوا ہے اور یہ امت ، امت آخر الزمان ہے )۔
کیا خاتمیت واقعی میں اسی معنی میں ہے ، کہ خداوند متعال نے بشر کو عقلانیت کی ایک ایسے مرحلہ پر دیکھا کہ جس کے بعد ان کے لئے کسی نبی کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،یا ہمیں خاتمیت کی لوگوں کے رشدعقلی سے قطع نظر تفسیر و تحلیل کرنی چاہئے ، البتہ یہ بات بھی قابل انکار نہیں ہے کہ زمان کے گزرنے  کے ساتھ ساتھ لوگوں کے فہم و شعور اور آگاہی اور کلچر میں بھی بہت فرق آتا ہے اور پہلے سے بہتر ہوتا ہے ، مختلف کاموں میں ان کی تدبیر اور عقلانیت  مضبوط ہوئے ہیں اور وسعت پیدا ہوا ہے ۔ 
ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ چونکہ خداوند تبارک وتعالی نے جب بشر کی عقل کو تکامل کے مرحلہ میں  دیکھا تو اس کے بعد کوئی اور پیغمبر بھیجنے کا احساس نہیں کیا ، اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو اور خاتمیت کا اس طرح تفسیر کرے تو طبعتا آہستہ آہستہ دینی نصوص اور متون اور جن چيزوں کو وحی لے آئي ہیں ان سے فاصلہ پیدا ہو گا ،اور جس کے بعد یہ بوليں گے خداوند متعال نے بشر کو اس وقت عقل کے اس مرحلہ میں دیکھا کہ اب جدید دین اور پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن اب 1400 سال گزر گیا ہے اور بشر کا عقل اس حد تک پہنچا ہے کہ وہ اسی عقل کے مطابق اپنے کاموں کو چلا سکتا ہے ، یہ ایک غلط بات ہے ، خاتمیت کا معنی یہ نہیں ہے، وہ خاتمیت جو اسلام کی ضروریا ت میں سے بتایا گیا ہے اس سے مرا د یہ ہے کہ دین اسلام کامل ترین ادیان میں سے ہے ، یعنی خدا اس سے زیادہ بشر کے لئے قانون بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے ، قیامت تک جو کچھ بشر کی مصلحت کے لئے تھا ان سب کو اصول اور قوانین کے عنوان سے قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے : «الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا»،  یعنی خاتمیت کی ایک پہلو کو اس میں دیکھنا چاہئے کہ دین اسلام اور دوسرے تمام ادیان گذشتہ میں کیا فرق ہے ؟ادیان گذشتہ ایک کامل دین اور شریعت نہیں تھا بہت سارے احکام جو اسلام میں موجود ہے وہ گذشتہ شرایع میں بیان نہیں ہوے ہیں ، اس کی ایک علت یہ ہے کہ لوگ فکری لحاظ سے اس حد تک نہیں پہنچے تھے اور اس کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل اور موانع بھی تھے ۔
خاتمیت کو سمجھنے کے لئے دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر نہیں آئے گا ، یہ اس وجہ سے ہے کہ خداوند متعال نے بشر کے لئے ایک جامع دین وضع کرنے کے علاوہ قیامت تک کے لئے ایک مبین اور مفسر بھی قرار دیا ہے ، لہذا امامت کو سمجھے بغیر خاتمیت  کا کوئی معنی ہی نہیں ہے ، اگر خاتمیت امامت سے جدا ہو جائے تو اس وقت خاتمیت کا کوئي واضح مفہوم نہیں ہو گا ۔
خاتمیت رسول خدا(ص) کے اسی فرمان میں پوشیدہ ہے کہ فرمایا:«إنی تارکٌ فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی»، : اس فرمان میں قرآن ایک جامع قانون اور دستور کے عنوان سے اور رسول خدا(ص) کی عترت اس کے حقیقی بیان کرنے والے کے عنوان سے معرفی ہوا ہے کہ جو دین کے تمام جزئیات اور خدا کے تمام دستورات سے کامل طور پر آگاہ ہیں ، ان دونوں کے بعد اب کسی اور رسول کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے ، دوسرے الفاظ میں گذشتہ ادیان میں پہلی بات تو یہ ہے کہ شریعت کامل نہیں تھا ، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت اوصیاء نبی مکرم اسلام اور حجج الہی کے طرح کوئی نہیں تھے،لہذا پیغمبر مبعوث کرتے تھے لیکن دین اسلام میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں ، دین بھی کامل ہے اور مبین دین جو اس دین کو حقیقی طور پر بیان کرے موجود ہیں ۔
لہذا ان دو پہلوں کے لحاظ سے یہ مسئلہ کہیں بھی مطرح نہیں ہوتا ہےکہ لوگ عقلی لحاظ سے رشد اور تکامل تک پہنچے تھے ، جی ہاں ظہور کے بارے  میں موجود روایا ت میں ہے کہ جب حضرت حجت (عج) ظہور فرمائیں گے «إذا قام قائمنا وضع الله یده علی رؤوس العباد فجمع بها عقولهم وکملت به احلامهم»[1] خدا متعالی اس وقت لوگوں کے عقول کو اس قدر رشد دیا ہوا ہو گا کہ جو ہمارے زمانہ سے اصلا قابل مقایسہ نہیں ہے ،لیکن جو بات بتایا جا رہا ہے وہ اور اس میں فرق ہے، یہ بتایا جائے کہ چونکہ آخر الزمان کے لوگ کلچر ، فکر،اور عقلی لحاظ سے رشد پیدا کریں گے اس وجہ سے کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے ، خاتمیت کے بارے میں یہ کوئی صحیح تعبیر نہیں ہے ،خاتمیت اس لحاظ سے ہے کہ خداوند تبارک و تعالی نے حجت کے عنوان سے بشر کے درمیان دو رکن کو رکھا ہے ، ایک قانون اور دوسرا اس قانون کو بیان کرنے اور اس کی تفسیر کرنے والا ، یہ دو رکن قیامت تک بشر کے درمیان موجود ہے ، کسی بھی آئين ، دین اور شریعت میں ایسی خصوصیت نہیں تھی ، نہ ان کا دین کامل تھا اور نہ ہی ان کی دین کے لئے کسی آگاہ اور معصوم مفسر کو قرار دیا گیا تھا۔
خاتمیت اور دلیل عقلی
خاتمیت کے بارے میں مورد بحث مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ کیا خاتمیت کے عقلی بھی کوئی دلیل ہے ؟
اکثر اعتقادی مسائل جیسے توحید، نبوت کی ضرورت اور امامت کی ضرورت کے بارے میں بہت ساری عقلی دلائل موجود ہیں ، لیکن خاتمیت ایک ایسا موضوع ہے کہ قرآن اور روایات کے بغیر اس پر ہم برہان ہی اقامہ نہیں کر سکتے ، البتہ خاتمیت کی توضیح اور اس کی حقیقت بیان ہو گیا ، انسان جب اس معنی کو تصور کرتا ہے تو یہ بتا سکتا ہے کہ خود بخود ایسا نتیجہ حاصل ہوتا ہے یعنی خاتمیت وہاں پر ہے کہ
الف: دین اور قانون الہی کامل ہے
ب: اس کامل قانون کے لئے معصوم مفسر ہے کہ اس کا علم خدا کے علم سے متصل ہے ، البتہ ممکن ہے  یہ سوال کیا جائے کہ زمان غیبت میں یہ کیسے ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ہمارے آئمہ (علیہم السلام ) نے زمان غیبت میں جامع الشرائط فقہاء کو مرجع قرار دئیے ہیں، جب یہ چیزیں ہیں تو اس کے بعد خداوند تبارک و تعالی کی طرف سے کسی رسول کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہم قرآن کریم کو ایک معجزہ ختمیہ سمجھتے ہیں ، اس سے کیا مراد ہے ؟ یعنی رسول اکرم(ص) کی مہمترین او رہمیشہ رہنے والا معجزہ قرآن کریم ہے ، اسلام اور دوسرے تمام ادیان کے درمیان افتراق کا ایک اہم ترین نکتہ یہی ہے ،دوسرے تمام ادیان میں اگرچہ کتاب اور قانون تھے ،  وہ کتاب اگرچہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی تھی لیکن معجزہ کے طور پر نازل نہیں ہوئي تھی ، تورات خداوند متعال کی طرف سے نازل ہوئي تھی،لیکن یہ حضرت موسی (علیہ السلام) کے معجزہ کے طور پر نازل نہیں ہوئی تھی،اسی طرح انجیل اور زبور بھی معجزہ کے عنوان سے نازل نہیں ہوئے تھے،لیکن قرآن کریم معجزہ کے طور پر نازل ہوئی ، دوسرے تمام انبیاء  اپنے زمانہ کے مطابق معجزہ لے آئے تھے جو اسی زمانہ سے مخصوص تھے ، کسی لکڑی کا اژدھا ہونا ، یا مردوں کو زندہ کرنا یا بیمار کو شفا دینا یہ سب اسی خاص زمانہ کے لئے تھا، لیکن اسلام میں پیغمبر اکرم(ص) کا معجزہ قرآن ہے ، اور یہ ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے یعنی صدر اسلام سے یہ تھا ابھی بھی ہے اور قیامت تک رہے گا،ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ قرآن ہر لحظہ انسان کے لئے چیلنچ ہے یعنی جس طرح صدر اسلام میں فرمایا«فأتوا بسورةٍ مثله» اگر تم کر سکتے ہو تو قرآن کی سوروں کی طرح ایک سورہ لے آو ، یا قرآن کریم کی آیات کی طرح ایک آیت لے آو،اس وقت لوگ ایک سورہ یا آیت نہیں لے آسکا ، ابھی بھی نہیں لا سکتے ہیں اور آیندہ بھی نہیں لا سکیں گے ،پس پیغمبر اکرم(ص) کے خاتمیت کا ایک رکن قرآن کریم کا اعجاز اور اس کا ہمیشہ کے لئے ہونا ہے ،اس معجزہ ختمیہ کے ساتھ ایک حجت بالغہ الھیہ بھی ہے کہ وہ  رسول اکرم (ص) کے بعد حضرات معصومین علیہم السلام کے وجود مبارک ہیں اور زمان غیبت میں بھی مسئلہ واضح ہے ، اسی سے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ  اس کے بعد اب خدا وند تبارک و تعالی کی طرف سے کسی جدید رسول کی آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
 پس اگرچہ خاتمیت کے لئے عقلی دلیل نہیں ہے ، لیکن جو مطلب بیان ہوا اس کے بعد پھر کسی عقلی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔
خاتمیت قرآن کی نظر میں
قرآن کریم میں پیغمبر اکرم(ص) کی خاتمیت کے بارے میں بہت ساری آیات موجود ہیں،انہیں آيات میں سے ایک سورہ مبارکہ احزاب کی آیت 40 ہے :«ما کان محمدٌ أبا أحد من رجالکم ولکن رسول الله و خاتم النبیین»، شاید مہمترین آیت ہے جس میں خاتمیت کےبارے میں تصریح ہوئی ہے ،البتہ اس آيت کا شان نزول پیغمبر اکرم(ص) کااپنے منہ بولے بیٹا زید کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کے بارے میں ہے کہ اس زمانہ میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ زید رسول خدا(ص) کا منہ بولا بیٹا ہے تو اس کی طلاق شدہ بیوی سے شادی کرنا صحیح نہیں ہے ،خدا وند متعالی فرماتا ہےکہ پیغمبر اکرم(ص) تم میں سے کسی کا نسبی باپ نہیں ہے بلکہ رسول خدا اور خاتم انبیاء ہے ، اس آيت میں صراحت کے ساتھ فرماتا ہےکہ پیغمبر اکرم(ص) خاتم انبیاء ہے ۔
بعض یہ بتاتے ہیں کہ خاتم زینت کے معنی میں ہے ، انگوٹھی بھی چونکہ زینت ہے لہذا اس خاتم کہا جاتا ہے ،ممکن ہے یہاں پر خاتم سے مراد تمام انبیاء کی زینت ہو ، اس کے جواب میں ہم سب سے پہلے یہ بتائیں گے کہ جس واقعہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس کا زینت سے کیا تناسب ہے ؟دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی لغوی کتاب میں خاتم کو زینت معنی نہیں کیا ہے ،لغت عرب کی تمام کتابوں میں انگوٹھی کو خاتم کہا گیا ہے لیکن نہ اس وجہ سے کہ یہ زینت ہے بلکہ اس وجہ سے انگوٹھی کو خاتم کہا گیا ہے  بادشاہان اور بزرگان اپنے خط کو انگوٹھی کے مہر سے ختم کرتے تھے ،یعنی انگوٹھی کو خاتم کہا گیا ہے چونکہ یہ خط کے ختم ہونے کی علامت ہے ،اس لحاظ سے بھائیت کی بات کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے ، کہ انہوں نے خاتم کو زینت معنی کیا ہے اور خاتمیت کا منکر ہوئے ہیں کہ یہ اسلام اور قرآن کی ضروریات میں سے ایک کا انکار ہے ، ان کی بات صحیح نہیں ہے کیونکہ خاتم کا غلط معنی کرتے ہیں ۔
بعض یہ بتاتے ہیں کہ اس آیت میں خاتم نبیین ذکر ہوا ہے تو اس میں کیا اشکال ہے کہ نبی نہ ہو لیکن رسول ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مورد اور مصداق کے لحاظ سے جو بھی نبی ہو وہ رسول بھی ہے اگرچہ نبی اور رسول کے مفہوم میں فرق ہے ، لہذا پیغمبر اکرم(ص) خاتم نبیین ہے اور خاتم رسل بھی ہے ، لہذا یہ آيت کریمہ ان آیات میں سے ہے جو پیغمبر اکرم(ص) کی خاتمیت پر بخوبی دلالت کرتی ہے ۔
ایک اور آیت سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 ہے :«الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا»: خاتمیت کو اس آیت کریمہ سے استفادہ کر سکتے ہیں جیسا کہ خاتمیت کی حقیقت کی وضاحت میں بیان ہوا دین اسلام ایک جامع اور کامل دین ہے اور ہمارا یہ اعتقاد یہ ہے کہ خدا وند تبارک و تعالی نے اپنے علم مطلق کی بنیاد پر قیامت تک کے بشر کی ضروریات اور مصالح کو مد نظر رکھا ہے اور اسی کے مطابق دین اسلام کی تشریع کی ہے ۔
ایک اہم مطلب یہ ہے کہ بعض افراد کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ ایک ایسا دین جو 1400 سال پہلے اور وہ بھی سرزمین حجاز مین عرب لوگوں کے لئے آيا ہے اور بعض جگہوں پر ان کی ثقافت کے بارے میں بھی اشارہ ہوا ہے وہ دین کیسے آج ہماری مشکلات کو حل کرسکتا ہے ؟
اگرکسی کا اعتقاد ایسا ہو ، تو مشخص ہے ، وہ دین جو صرف ایک خاص جگہ اور اسی جگہ کے زبان اور کلچر کے لئے آیا ہو ، تو وہ اسی زمانہ میں ہی دوسرے مناطق اور دوسرے لوگوں کے  کسی کام کا نہیں ہے، صدر اسلام میں دین اسلام روی زمین کے تمام لوگوں کے لئے آیا تھا،کیا اس وقت دنیا میں صرف حجاز تھا؟کیا ایران ، روم اور چین وغیرہ نہیں تھا؟اس وقت یہ سب تھے ،لہذا کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اسلام کی نظر میں صرف حجاز کے لوگوں کا کلچر مد نظر تھا، ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ خداوند تبارک و تعالی نے نہ صرف اسی زمانہ کے لوگوں کو مد نظر رکھا ہے بلکہ قیامت تک کے لوگوں کے احتیاجات کو مدنظر  تھا، اور اسلام نے قیامت تک کے تمام لوگوں کے احتیاجات کا جوابگو ہے ،خدا وند تبارک و تعالی آیہ شریفہ «الیوم اکملت لکم» میں ایک خاص معنی کے تحت امامت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ،امامت دین کا جوہر ہے ، اور ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ انسان اگر امامت سے متمسک رہے تو کسی بھی مسئلہ میں چاہئے وہ شخصی ہو یا اجتماعی، سیاسی ہو یا اقتصادی یا عرفانی ، اخلاقی اور معنونی۔۔۔۔۔کوئی لاجواب مسئلہ باقی نہیں رہتا، کمال دین یہ ہے کہ خداوند متعالی نے ایک گرانبھا چیز کو امامت کے عنوان سے قرار دیا ہے جو اس دین کو قیامت تک اس دین کی نگہداری کر سکتا ہے ، خاتمیت کے بارے میں ایک اہم آیت یہ آیہ کریمہ ہے ۔
ایک اور آيت سورہ روم کی آيت 30 ہے : «فأقم وجهک للدین حنیفاً فطرة الله التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله ذلک الدین القیّم»، دین اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام قوانین بشر کی فطرت کے مطابق ہے ، ہمارے پاس اسلام میں کوئی ایسا حکم یا قانون نہیں ہے جس کا عقلی یا عقلائی توجیہ نہ ہو،کبھی ایسا ہوتا ہےکہ ہمارا عقل ناتواں ہے اور ہم کسی قانو ن کے ملاک اور فلسفہ کو درک نہیں کرسکتے ، لیکن جب ہم اس قانون کی طرف آجائيں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فطرت انسان کے عین مطابق ہے ۔
ایک اور آيت سورہ مبارکہ اسراء کی آیت 9 ہے اس موضو ع کے بارے میں یہ آیت بھی ایک بہت اچھی آیت ہے ، خداوند تبارک و تعالی فرماتا ہے :قرآن کریم انسان کو وہ راستہ دیکھتا  ہے جو سب سےزیادہ سیدھا ہے ، یعنی بشر ہر وہ راستہ جو سیدھا ہے اور ہر وہ کام جو صحیح ہے اور انجام دینا چاہتا ہے ،وہ اچھا اور حق کام جس میں باطل نہ ہو ،قرآن اسے اسی کی طرف راہنمائي کرتا ہے ،
یعنی خداوند تبارک و تعالی فرماتا ہے کہ  جب ہم نے ایسا قرآن نازل کیا ہے جو یهدی للتی هی اقوم ہے اس کے بعد کسی اور پیغمبر اور قانون بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے ، جب یہ کتاب یہدی للتی ہی اقوم ہے ، اس کے اوپر  کسی اور چیز کو لانا بے معنی ہے ، اگر یہ بتایا جائے کہ یہی بہترین راستہ ہے تو اس کے بعد کیا معنی رکھتا ہے کہ اس کے بعد بھی کوئي اور راستہ بھی ہو ؟شاید ایسے تعابیر کے ذریعہ ہم مسئلہ خاتمیت کو عقلی بتا سکتے ہیں ، اگرچہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ یہاں پر کوئي عقلی دلیل نہیں ہے ، لیکن جب ہم یہ بتائيں کہ یہ دین استوارترین ہے ، قوی ترین ، محکم ترین اور استوار ترین راستہ کو بشر کے لئے بیان کرتا ہے ،اس کے بعد کسی اور راستہ کا تصور نہیں ہے ، پس خدا کس کو اور کس کتاب کو نازل کرے ؟ لہذا مسئلہ خاتمیت کے بارے میں ایک اہم آیت یہی آیت کریمہ ہے ، کہ جس کے بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
اس بارے میں آخری آیت سورہ  اسراء کی آیت 33 ہے : «هو الذی أرسل رسوله بالهدی و دین الحق لیظهره علی الدین کله ولو کره المشرکون»،فرماتا ہے خداوند ارسال رسل کرتا ہے اور اسلام کو دین حق کے عنوان سے لوگوں کے لئے بھیجا ہے ،اور یہ دین تمام ادیان پر غلبہ پیدا کرے گا، جب یہ دین دوسرے تمام ادیان پر غلبہ پیدا کرے گا تو اس کے بعد اس دین کے اوپر بھی کسی دین کا ہونا قابل تصور نہیں ہے ،البتہ اس آیت کے بارےمیں ایک اور احتمال ہے جو بحث مہدویت میں مطرح ہوتا ہے کہ«لیظهره علی الدین کلّه»، میں کلہ کی ضمیر خود دین کی طرف پلٹا ہے ، کہ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ ایک ایسا زمانہ آجائے کہ دین تمام لوگوں کے لئے بیان ہواو رظاہر ہو جائے کہ اس وقت  حضرت حجت (عج) کے ظہور کا وقت ہے ۔
یہ آيات کریمہ واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ نبی مکر م اسلام کی خاتمیت اور شریعت کی خاتمیت دین اسلام کی مسلم اور ضروریات میں سے ہے۔
بحث خاتمیت میں ایک اہم مطلب  یہ ہے کہ شاید اکثر لوگ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں وہ مطلب یہ ہے کہ دین اسلام ایک ایسا دین ہے کہ  جس کی بنیاد پر ہر مسلمان جو اس دین پر ایمان رکھتا ہے اسے ضروری ہے کہ تورات اور انجیل واقعی کو بھی قبول کرے ،قرآن کریم کی بعض آيات میں جب ایمان کو بیان کرتا ہے تو فرماتا ہے :«وَ الَّذينَ يُؤْمِنُونَ بِما أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ ما أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ»[2]. : مومن وہ ہے جو ان سب پر جو رسول خدا اور گذشتہ انبیاء پر نازل ہوئے ہیں ایمان لے آئے ،یعنی اسلام تمام گذشتہ ادیان کے حقایق کا مجموعہ ہے ،یہ بات جو کہ مشہور ہے کہ اسلام گذشتہ شرایع کا ناسخ ہے یہ اس معنی میں ہے کہ گذشتہ انبیاء کی نبوت ختم ہو گئی ہے اور ایک نئی نبوت شروع ہوئی ہے ، لیکن اگر کوئی یہ خیال کرے کہ گذشتہ تمام شرایع اور قوانین ختم ہوئے ہیں اور منسوخ ہو گئے ہیں ، یہ مطلب قرآن کریم کے برخلاف ہے ، قرآن کریم متعدد آیات میں فرماتا ہے ہم ادیان گذشتہ کے تصدیق کرنے والے ہیں «وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الْكِتابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِما بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتابِ»[3] :جو کچھ تورات اور انجیل میں بیان ہوئے ہیں ان سب کا تصدیق کرنے والا ہے ،یعنی ایک مسلمان کے لئے لازم ہے کہ یہ بولا جائے میں ہر وہ احکام جو تورات واقعی میں بیان ہوا ہے ان سب پر میرا ایمان اور اعتقاد ہے ، یعنی حضرت موسی کی نبوت کو خود ان کے زمانہ میں قبول کرے اور اس وقت کے قوانین کو بھی۔
البتہ یہ ایک بہت ہی دقیق بحث ہے کہ جس میں تفسیری اور اعتقادی دونوں پہلو موجود ہے ،ہم نے اصول کے درس میں اس بارے میں تفصیلا گفتگو کی ہے ، جس کے فقہی اور اصولی آثار بھی ہیں ،کہ انہیں آثار میں سے ایک یہ ہے اس مبناء کے مطابق سابقہ شرایع کو استصحاب کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
 پس ایک ایسا دین آيا ہے ، ایسا دین جس میں تمام گذشتہ ادیان کے حقایق موجود ہے ،اور ان حقایق کو کامل طور پر بیان بھی کیا ہے ، خدا نے  کامل طور پر بشر کے اختیار میں دیا ہے ،قانون کامل ہے ، اس قانون کے مبین اور مفسر بھی موجود ہے ،لہذا اس کے بعد کسی اور رسول کو کسی اور قانون کے ساتھ مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

برچسب ها :