درس بعد

موت کے وقت مؤمنین کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے

درس قبل

موت کے وقت مؤمنین کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے

درس بعد

درس قبل

موضوع: قرآن میں معاد


تاریخ جلسه : ١٣٩١/٢/١٩


شماره جلسه : ۱۴

PDF درس صوت درس
چکیده درس
دیگر جلسات

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين

: «إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمْ الْمَلَائِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ»[1] ہماری بحث اس آیہ کریمہ کے بارے میں تھی اس آیت کے ذیل میں وارد چند روایات نقل ہوئیں ایک اورروایت یہ ہے : «قال رسول الله(ص) لا يزال المؤمن خائفاً من سوء العاقبة» مومن کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی عاقبت کے خراب ہونے کے بارے میں ہے اوراگر کسی کو سوء عاقبت کے بارے میں خوف نہ ہو تو وہ مؤمن هی نہیں اگرکوئی یہ بتائے کہ مجھے یقین ہے کہ میری عاقبت  اچھی ہو گی تو وہ مومن نہیں ہے بلکہ مومن وہ ہے جس کے پاس ایمان ہواوریہ بھی جانتا ہے کہ شیاطین اس کے  پیچھے ہے اوراس سے ایمان کو سلب کرنا چاہتا ہے  اسی وجہ سے اسے ہمیشہ خوف رہتا ہے «لا يتقّن الوصول إلي رضوانا الله» مومن کورضوان الہی تک پہنچنے کا یقین نہیں ہوتا «حتي يكون وقت نزع روحه»  جب تک اس کی قبض روح کا وقت آجائے اورملک الموت اس کے پاس ظاہرہوجائے  «و ظهور ملك الموت له و ذلك أنّ ملك الموت يرد علي المؤمن وهو في شدة علّته»   ملک الموت ایسی حالت میں مومن کے پاس آتا ہے کہ وہ سخت حالت میں مبتلا ہے اس کا دل اور سینہ تنگ ہے  «وعظيم ضيق صدره» یہ مومن اب بال بچوں اورزندگی سے جدا ہو رہا ہے ، زندگی میں جواعمال اورامورانجام دیا ہے ان کے بارے میں پریشان ہے ،بہت ساری آرزوئیں پوری نہیں ہوئی ہیں «بما يخلّفه من امواله و عياله و ما هو عليه من اضطراب أحواله في معامليه و عياله و قد بقيت في نفسه حزازتها و انقطعت آماله فلم يناله»  اس وقت ملک الموت اس سے کہے گا«فيقول له ملك الموت»  تم کیوں اتنا پریشان ہو ؟کیوں آہستہ آہستہ ہرقسم کے غصہ کھا رہے ہو «مالك تجرع غصصك» مومن کہے گا: اس لیے پریشان ہوں کہ اب میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے معلوم نہیں ؟! «فيقول لاضطراب احوالي و انقطاعي دون آمالي» اس وقت ملک الموت اس مومن سے کہے گا : اگرکوئی عاقل انسان  ایک جعلی درہم کو ہاتھ سے دے دے اوراس کے مقابلہ میں دنیا کے ایک میلیون برابر اسے دیں تو کیا پھر بھی وہ غمگین ہوتا ہے ؟اس عاقل انسان سے کہا جائے کہ تم ایک جعلی درہم کو پھینک دو اس کے مقابلہ میں اصلی دس لاکھ درہم  دیں گےیا دنیا میں جو کچھ ہے اس کے دس لاکھ برابر اسے دے دیں روایت میں ہے  «فيقول له ملك الموت و هل يجزع عاقلٌ من فقد درهمٍ زائف و قد اعتاض عنه ألف ألف ضعف الدنيا» یعنی دنیا کے دس لاکھ برابر،یعنی پوری دنیا کودس لاکھ کے برابر تمہیں دینا چاہتا ہے !عرض کرتا ہے : «يقول لا. فيقول له ملك الموت فنظر فوقك» ذرا اوپر کی طرف دیکھو «فينظر فيرى درجات الجنان وقصورها التي تقصر دونها الأماني» بہشت میں درجات اورقصر اورمحل کو دیکھ لیتا ہے ایسے قصراورمحل کہ جس کا انسان نے تصور بھی نہ کیا ہو ،ایسی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے جس کے بارے میں انسان نے کبھی سوچا بھی نہ ہو ۔
«فيقول له ملك الموت: هذه منازلك ونعمك و أموالك وعيالك ومن كان من ذريتك صالحا فهم هناك معك، أفترضى به بدلاً مما ههنا؟ ملک الموت کہتا ہے یہ سب تمہارے لیے ہے تمہاری نعمتیں ہے ، کیا تم دنیا میں جو کچھ ہے اس کے بدلے میں ان کو لینے پر راضی ہو ''فیقول :بلی و اللہ'' خدا کی قسم ! راضی ہوں ۔
«ثم يقول له ملك الموت: انظر فينظر فيرى محمداً(ع) وعلياً والطيبين من آلهما في أعلى عليين» اس وقت پیغمبر اکرم (ص) کو دیکھتا ہے امیر المومنین (ع) کو دیکھتا ہے اورآل علی(ع) کو دیکھتا ہے . «فيقول له أو تراهم هؤلاء ساداتك وأئمتك» کیا تم ان کو دیکھ رہے ہو؟ یہ تمہارے امامان معصوم ہیں تم دنیا میں ان کے معتقد تھے  «هم هنا جلاسك» عالم آخرت میں تمہارے ہمنشین یہی حضرات ہیں  «وآناسك أفما ترضى بهم بدلا مما تفارق ههنا؟ فيقول: بلى وربي» کیا تم راضی ہو کہ اہل دنیا سے اٹھ بیٹھ کے بدلے ان حضرات کے ہمنشین ہو جائے ، اس وقت یہ مومن بولے گا:''بلی وربی'' قسم کھا کے کہے گا : جی ہاں ! مجھے یہ پسند ہے ۔
اس روایت میں امام حسن عسکری علیہ السلام فرمارہا ہے : «فذلك ما قال الله اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمْ الْمَلَائِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا علي ما تخلّونه من الذراري و العيال و الاموال» ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ حزن گذشتہ کے بارے میں ہے ،ایک انسان جو ایک عمر اپنے بیوی بچوں اوردوسرے دوست و احباب کے ساتھ گزارا ہے ان سب سے مانوس ہیں اب ایک ہی سکینڈ میں ان سب کو چھوڑنا مشکل گھڑی ہے ، اس سے کہا جائے گا توغمگین نہ ہو ،آیہ کریمہ میں '' الا تحزنوا''کا ایک معنی گذشتہ گناہوں کی نسبت غمگین ہونا ہے ،اور اس کا ایک اورمعنی بھی ہے وہ یہ ہے کہ ''الا تخافوا'' یعنی تمہیں کوئی عقاب نہیں ہو گا اور ''ولا تحزنوا''یعنی تمہاری گناہیں معاف ہوگئی ، لیکن اس روایت کے مطابق ''الا تخافوا''عقاب اورقیامت کے متعلق ہے اور''ولا تحزنوا '' کا معنی یہ ہے کہ تم اب ان سب سے جدا ہورہے ہوتو پریشان نہ ہو ،ان کے بدلے پیغمبر اکرم ،امیر المؤمنین اور آئمہ طاہرین تمہارا ہمنشین ہوگا ،دنیاوی ان گھروں کے بدلے جنت کی یہ محل تمہارے لیے ہے «فهذا الذي شاهدتموه في الجنان بدلاً منهم وابشروا بالجنة التي كنتم توعدون هذه منازلكم وهؤلاء اُناسكم» اس میں دو بشارت ہے ایک جن سے جدا ہو رہے ہو اس کی وجہ سے غمگین نہ ہو ،اوردوسرا ''ابشروا'' جس بہشت کی خدا نے تمہیں وعدہ دیا ہوا ہے اس کی بشارت ہو ہذہ منازلکم و ہؤلاہ اناسکم ۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ مومن کے قبض روح کے وقت ملائکہ الہی نازل ہوتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں : «لا تخافوا و لا تحزنوا و ابشروا بالجنة التي كنتم توعدون».  اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ جنہوں نے ''ربنا اللہ '' نہیں کہا ہے اورجن کے پاس اسقامت نہیں ہے ان کے لئے ایسا نہیں ہے ،اوربشارت دینے والے فرشتے ان کے پاس نہیں آتے ،بلکہ ان کے پاس کچھ دوسرے فرشتے آتے ہیں «إِذَا تَوَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ»  یعنی اگرکوئی فاسق یا کافرہوتو فرشتے ان کے پاس اس طرح سے وارد ہوتے ہیں اوران کو یہ عذاب دیتے ہیں ۔
قبض روح کے بارے میں ایک اورروایت یہ ہے : «علي بن ابراهيم عن أبيه عن محمد بن عيسي عن يونس عن ادريس القمي، قال سمعت ابا عبدالله (ع) يقول إنّ الله عزوجل يأمر ملك الموت فيردّ نفس المؤمن ليهوّن عليه ويخرجها من أحسن وجهها فيقول الناس لقد شدّد علي فلانٍ الموت و ذلك تهوينٌ من الله عزوجل عليه»  اس روایت میں امام صادق علیہ السلام فرماتا ہے :خداوند متعالی ملک الموت کو حکم کرتا ہے کہ اس مومن کے روح کو اس کے بدن کی طرف پلٹا دو تا کہ ''لیہوّن علیہ'' قبض روح اس کے لئے آسان ہوجائے ويخرجها من أحسن وجهها تا کہ بہت ہی بہتر طریقہ سے اسے اس کے بدن سے خارج کرے ،جولوگ اس مومن کے اردگرد بیٹھے ہوئے ہوں وہ یہ کہتے ہیں کہ کیوں اس کا روح بدن سے جدا نہیں ہورہا ہے ،شاید جان دینا اس کے لئے مشکل ہوا ہے ،وہ لوگ یہ سوچتے ہیں لیکن درحقیقت خدا اسے آسان کرنا چاہتا ہے ۔
اس حدیث کے ذیل میں مرحوم مجلسی فرماتے ہیں : «فيردّ نفس المؤمن أي يردّ الروح إلي بدنه بعد قرب النزع»  یعنی جب قبض روح نزدیک ہوتا ہے  «يرد مرّة بعد اخري لئلا يشقّ عليه مفارقة الدنيا دفعةً» اگر کوئی کسی جگہ کو چھوڑنا چاہیئے تو ایک هی دفعہ میں وہاں سے چلا جانا اس کے لئے مشکل ہے ،لیکن اگر ایک دفعہ وہاں سے نکل کر دوبارہ واپس آئے ،اوردوسری مرتبه پهرواپس جائے اور دوبارہ آجائے تو یہ اس کے لئے مشکل نہیں ہے ،اسی وجہ سے میت کو دفن کرنے کے مستحبات میں ہے جب قبر کے نزدیک پہنچ جائے تو تین بار اسے زمین پررکھے اوراٹھائے تاکہ وہ  قبر کے لئے تیارہو جائے ،ایک دفعہ میں اسے قبر میں دفن نہ کرے !اس روایت کے مطابق قبض روح میں بھی ایساہے ،اس حالت میں خداوند متعالی مومن انسان پرجو لطف کرتا ہے یہ ہے کہ جب ملک الموت اس کے روح کو بدن سے خارج کرتا ہے،ابھی کامل طور پرروح نہیں نکلی ہے کہ خدا ملک الموت کو حکم کرتا ہے کہ اس کے روح کو دوبارہ اس کے بدن میں لائے ،روح دوبارہ اس کی بدن میں پلٹ آتی ہے اوراپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھتا ہے اوراس کے بعد دوبارہ آرام آرام سے اس کے بدن سے روح کو نکالتا ہے یہ اس لیے ہے تا کہ قبض روح ایک ہی دفعہ میں واقع نہ ہو جائے اور دنیا سے جانا اس کے لئے آسان ہو جائے ۔
مرحوم مجلسی نے یہ بھی لکھا ہے : «وقيل يراه منزله في الجنة» ملک الموت قبض روح شروع کرتا ہے اورابھی کامل طور پر قبض روح نہیں ہوا ہے لیکن اسے بہشت میں اپنے مقام و منزلت کو دیکھتا ہے  «ثم يرد إليه الروح»  اس کے بعد خدا کے حکم سے دوبارہ روح کو اس کے بدن میں ڈال دیتا ہے«ليرضى بالموت ويهون عليه»  اس وقت یہ مومن کہتا ہے کہ میں مرنے کے لیے بالکل تیار ہوں ۔
اس کے بعد فرماتا ہے : : «أو يرد عليه روحه مرة بعد اخرى ليخفف بذلك سيئاته»خداوند متعالی اس کی گناہوں کو ختم کرنا چاہتا ہے ایک دفعہ روح کو بدن سے نکالتا ہے لیکن آخر تک نہیں نکالتا اور دوبارہ اس کے بدن میں روح کو واپس لاتا ہے ،اس کے بعد دوبارہ روح کو نکالنا شروع کرتا ہے تا کہ اس کی کچھ گناہیں بخش دیا جائے اور آخرت اس کے لئے آسان ہو «ويهون عليه أمر الآخرة» اس کے بعد خود مجلسی کہتا ہے ا ن سب میں سے بہترین بیان پہلا بیان ہے خدا مومن پر لطف کرنے کے لئے ایسا کررہا ہے ، روایت میں بھی ہے : «ذلك تهوينٌ من الله»خدا مومن پرآسان کرنا چاہتا ہے اورآسانی یہ ہے کہ ایک ہی دفعہ میں مومن کو دنیا سے جدا نہ کرے بلکہ آرام آرام سے اس کے روح کو بدن سے خارج کرے اور دوبارہ بدن میں ڈال دیں ، اس کے بعد دوبارہ روح کو بدن سے جدا کرے ۔
روایت میں ہے  «ذلك تهوينٌ من الله»  لیکن کافر میں ایک ہی دفعہ میں قبض روح ہوجاتی ہے اور اس میں یہ ممکن ہی نہیں کہ روح دوبارہ اس کے بدن میں واپس آجائے بلکہ اسی ایک دفعہ میں یہ ختم ہو جاتا ہے ۔
و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين
 

[1] -(فصلت٣١

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .