درس بعد

آثار موت کو دیکهنے کے بعد توبہ قبول نہیں

درس قبل

آثار موت کو دیکهنے کے بعد توبہ قبول نہیں

درس بعد

درس قبل

موضوع: قرآن میں معاد


تاریخ جلسه : ١٣٩١/٣/٢٧


شماره جلسه : ۱۷

PDF درس صوت درس
چکیده درس
دیگر جلسات

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين

موت کے بارے میں نہج البلاغہ[1] میں امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک خطبه ہے ہم یہاں اسے بیان کرتے ہیں ۔

آپ اس خطبہ میں فرماتے ہیں : اجْتَمَعَتْ عَلَيْهِمْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ وَ حَسْرَةُ الْفَوْتِ جو لوگ دنیاطلب تھے اور دنیا کے پچھے لگے ہوئے تھے اورکوئی اچھا کام انجام نہیں دیا ہے فرماتے ہیں :''ایک طرف موت کے سکرات نےاسے گھیر لیا ہے اوردوسری طرف فراق دنیا کی حسرت''' اجْتَمَعَتْ عَلَيْهِمْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ ''' یعنی موت کے وقت تمام سکرات اورخطرات نے اسے گھیر لیا ہے '' اس کے بعد فرماتا ہے '' فَفَتَرَتْ لَهَا أَطْرَافُهُمْ '' موت کی پہلی خصوصیت یہ ہے انسان کے ہاتھ پاوں ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ،اس کے ہاتھ پاوں میں اب چلنے پھرنے اورچلانے کی قدرت نہیں ہے '' وَ تَغَيَّرَتْ لَهَا أَلْوَانُهُمْ '' اوراس کا رنگ بھی اڑ گیا ہے ، یہ موت کا پہلا مرحلہ ہے '' ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ فِيهِمْ وُلُوجاً '' اس کے بعد موت کی دخل اندازی اور بڑھ جاتی ہے اور آہستہ آہستہ انسان کے اندر نفوذ پیدا کر جاتا ہے '' فَحِيلَ بَيْنَ أَحَدِهِمْ وَ بَيْنَ مَنْطِقِهِ '' اب وہ گفتگو کی راہ میں بھی حائل ہوگئی ہے ''حیل'' یعنی اب وہ اپنے زبان سے بول نہیں سکتا ،وہ اپنی زبان سے مدد کے لئے کسی کو پکار نہیں سکتا ! یہ موت کا تیسرا مرحلہ ہے '' وَ إِنَّهُ لَبَيْنَ أَهْلِهِ يَنْظُرُ بِبَصَرِهِ وَ يَسْمَعُ بِأُذُنِهِ '' وہ گھر والوں کے درمیان ہے انہیں آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ،کان سے ان کی آوازیں سن رہا ہے'' عَلَى صِحَّةٍ مِنْ عَقْلِهِ وَ بَقَاءٍ مِنْ لُبِّهِ ''عقل بھی سلامت ہے اورہوش بھی برقرار ہے،اورسوچ بھی صحیح ہے '' يُفَكِّرُ فِيمَ أَفْنَى عُمُرَهُ '' اب حسرت شروع ہو گئی ہے ،ابھی تو اس کی آنکھیں دیکھ رہا ہے کان سن رہا ہے ،سوچ اورعقل بھی صحیح ہے لیکن زبان اب بول نہیں سکتا ،علماء اخلاق بیان کرتے ہیں کہ بہت سارے گناہوں کا سبب زبان ہے ،یہ زبان موت کے وقت دوسرے اعضاء سے پہلے کام کرناچھوڑ دیتا ہے شاید اس کی ایک علت یہ ہو اب پھر توبہ نہیں کر سکے گا اور کچھ بول نہیں سکتا ، اس وقت انسان '' يُفَكِّرُ فِيمَ أَفْنَى عُمُرَهُ '' یہ سوچنا شروع کرتا ہے کہ عمر کو کہاں برباد کیا ہے ''وَ فِيمَ أَذْهَبَ دَهْرَهُ '' اور زندگی کو کہاں گذارا ہے '' وَ يَتَذَكَّرُ أَمْوَالًا جَمَعَهَا'' ان اموال کو یاد کرتا ہے جنہیں جمع کیا تھا ''أَغْمَضَ فِي مَطَالِبِهَا'' اوران کی جمع آوری میں آنکھیں بند کر لی تھیں یعنی ایک عمر آنکھیں بند کر کے ان اموال کو جمع کیا تھا ''وَ أَخَذَهَا مِنْ مُصَرَّحَاتِهَا وَ مُشْتَبِهَاتِهَا ''کہ کبھی صحیح راسته سے حاصل کیا اور کبھی مشتبہ طریقوں سے '' قَدْ لَزِمَتْهُ تَبِعَاتُ جَمْعِهَا''کہ صرف ان کے جمع کرنے کے اثرات باقی رہ گئے ہیںیعنی ان گناہوں کو دیکھ لیتا ہے جو مال کو حرام طریقہ سے جمع کرنے کی وجہ سے اس میں مبتلاء ہوا ہے ''وَ أَشْرَفَ عَلَى فِرَاقِهَا ''اوراب ان اموال سے جدائی کا وقت آگیا ہے ''تَبْقَى لِمَنْ وَرَاءَهُ ''اب یہ مال بعد والوں کے لئے رہ جائے گا ،کن لوگوں کے لئے ؟'' يَنْعَمُونَ فِيهَا ''ان کے لئے جو آرام کریں گے''وَ يَتَمَتَّعُونَ بِهَا '' اورمزے اڑائیں گے'' فَيَكُونُ الْمَهْنَأُ لِغَيْرِهِ وَالْعِبْ‏ءُ عَلَى ظَهْرِهِ '' یعنی مزہ دوسروں کے لئے ہو گا اوربوجھ اس کی پیٹھ پرہوگا.

 ''وَالْمَرْءُ قَدْ غَلِقَتْ رُهُونُهُ بِهَا ''اب وہ انسان اس مال کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، اب ان اموال کے بارے میں حساب وکتاب دینا ہے ،اس سے سوال جواب ہو گا کہ ان اموال کو کہاں سے لیا اور کہاں خرچ کیا ،اب اسے ان سب کا جواب دینا ہے ''فَهُوَ يَعَضُّ يَدَهُ نَدَامَةً '' اورموت نے سارے حالات کو بے نقاب کر دیا ہے کہ ندامت سے اپنے ہاتھ کاٹ رہا ہے''عَلَى مَا أَصْحَرَ لَهُ عِنْدَ الْمَوْتِ مِنْ أَمْرِهِ'' اوراس چیز سے کنارہ کش ہونا چاہتا ہے جس کی طرف زندگی بھر راغب تھا ، یہ کنایہ ہے کہ موت کے وقت انسان ان سب اعمال کو دیکھ لیتا ہے جسے اس نے دنیا میں انجام دیا ہے کہ وہ سب کام اس کے لئے وبال جان ہے ،ان کاموں نے اب اسے پریشان کر رکھا ہے ، مرتے وقت انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کیا کیا ہے ؟جان لیتا ہے کہ یہ اموال حرام اور مشتبہ تھے ،کس قدر دوسروں کے حقوق کو ضائع کیا ہے ،کس قدرحق اورناحق کام انجام دیا ہے ! ان سب کو موت کے وقت انسان دیکھ لیتا ہے ،ہم تو ہمیشہ یہ سوچتے تھے کہ انسان قیامت کے دن حساب اورکتاب کے وقت جان لیتا ہے کہ کیا حرام ہے اورکیا حلال ،البتہ وہاں پر بھی یہ ضرور ہے لیکن امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اموال کے بارے میں انسان کو مرتے وقت بھی معلوم ہوتا ہے کہ کیا حلال تھا اور کیا حرام؟ ''وَ يَزْهَدُ فِيمَا كَانَ يَرْغَبُ فِيهِ أَيَّامَ عُمُرِهِ ''اب وہ زاہد بن جاتا ہے اورزندگی میں جن چیزوں کے بارے میں بہت ہی لالچی تھا اب وہ ان کے بارے میں زاہد بن گیا ہے ''وَ يَتَمَنَّى أَنَّ الَّذِي كَانَ يَغْبِطُهُ بِهَا وَ يَحْسُدُهُ عَلَيْهَا قَدْ حَازَهَا دُونَهُ '' اب یہ چاہتا ہے کہ کاش جو شخص اس سے اس مال کی بنا پرحسد کررہاتھا یہ مال اس کے پاس ہوتا اوراس کے پاس نہ ہوتا ۔
جس شخص کے پاس دنیا میں کوئی مال نہ ہو، ایک محدود زندگی ہو ، ایسے انسان کے لئے یه مشکلات نہیں ہے ، لیکن جو شخص دنیا میں مال و دولت جمع کرنے کے پیچھے لگا ہوا ہو اور حلال اور حرام کے بھی پابند نہ ہو ،یہ شرط بھی ہے کہ اس نے مال ودولت جمع کرنے میں حلال اورحرام کو نظرانداز کیا ہوا ہو ، وگرنہ ایک مومن مالدار جو شریعت کے پابند ہو اس کے لئے یہ مشکلات نہیں ہے.
لیکن جوشخص حلال اورحرام کے پابند نہ تھے اوراسے پروا نہیں ہوتا تھا کہ مال کہاں سے آرہا ہے ، ایسے انسان کے لئے امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کے مطابق سب سے پہلا مشکل موت کے وقت ہے.
اس کے بعد فرماتا ہے ''فَلَمْ يَزَلِ الْمَوْتُ يُبَالِغُ فِي جَسَدِهِ ''اس کے بعد موت اس کے جسم میں مزید در اندازی کرتا ہے ''حَتَّى خَالَطَ لِسَانُهُ سَمْعَهُ ''اورزبان کے ساتھ کانوں کو بھی شامل کر لیتی ہے '' فَصَارَ بَيْنَ أَهْلِهِ لَا يَنْطِقُ بِلِسَانِهِ وَ لَا يَسْمَعُ بِسَمْعِهِ ''اب انسان اپنے گھروالوں کے درمیان نہ بول سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے ''يُرَدِّدُ طَرْفَهُ بِالنَّظَرِ فِي وُجُوهِهِمْ '' ہرایک کے چہرہ کو حسرت سے دیکھ رہا ہے '' يَرَى حَرَكَاتِ أَلْسِنَتِهِمْ '' ان کی زبان کی جنبش کو بھی دیکھ رہا ہے  لیکن الفاظ کو نہیں سن سکتا ہے ۔

''ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ الْتِيَاطاً بِهِ اس کے بعد موت او رچپک جاتی ہے'' فَقُبِضَ بَصَرُهُ كَمَا قُبِضَ سَمْعُهُ ''تو کانوں کی طرح آنکھوں پربھی قبضہ ہو جاتا ہے '' وَخَرَجَتِ الرُّوحُ مِنْ جَسَدِهِ '' اور روح جسم سے پرواز کر جاتی ہے، یہ وہ مرحلہ ہے کہ روح انسان کے جسم سے کلی طورپرنکل جاتی ہے ''فَصَارَ جِيفَةً بَيْنَ أَهْلِهِ ''اب وہ گھر والوں کے درمیان ایک مردار ہوتا ہے ''قَدْ أَوْحَشُوا مِنْ جَانِبِهِ ''جس کے پہلو میں بیٹھنے سے بھی وحشت ہو نے لگتی ہے''وَ تَبَاعَدُوا مِنْ قُرْبِهِ '' اورلوگ دوربھاگنے لگتے ہیں ،کہ اس بارے میں ایک آیت بھی ہے  «وَالْتَفَّتْ السَّاقُ بِالسَّاقِ» کہ ہم انشاء اللہ اس کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے '' لَا يُسْعِدُ بَاكِياً '' یہ اب وہ افراد جو اس کے ارد گرد بیٹھے رو رہے ہیں کسی کو سہارا نہیں دے سکتا ہے '' وَ لَا يُجِيبُ دَاعِياً ''اورنہ کسی پکارنے والے کی آواز پر آواز دے سکتا ہے'' ثُمَّ حَمَلُوهُ إِلَى مَخَطٍّ فِي الْأَرْضِ '' لو گ اسے زمین کے ایک گڑھے تک پہونچادیتے ہیں '' فَأَسْلَمُوهُ فِيهِ إِلَى عَمَلِهِ '' وہاں اسے اس کے اعمال کے حوالہ کر دیتے ہیں '' وَ انْقَطَعُوا عَنْ زَوْرَتِهِ ''اور اس طرح ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے ۔  
«حتي إذا جاء احدهم الموت قال رب ارجعوني لعلي اعمل صالحاً»  ہماری گفتگو اس آیہ کریمہ کے بارے میں تھی کہ بیان ہوا جب موت کے آثار نمایاں ہو جاتی ہیںتو وہ کہتا ہے ''رب ارجعون'' یہی انسان جس نے حلال اور حرام طریقہ سے مال و دولت جمع کیا ہے ،یہی انسان کہتا ہے ''رب ارجعون''عرض ہوا کہ اگرچہ مفسرین کا اصرار ہے کہ ضمیر''ہم'' کفار کی طرف پلٹتی ہے ،لیکن یہ''رب ارجعون'' ندامت اور حسرت کا معلول ہے ،پس وہ مومنین جو فاسق تھے ، اور جن مومنوں نے غلطیاں کی ہے وہ بھی رب ارجعون بولیں گے ۔
اس کے بعد ہم نے توبہ کے بارے میں کچھ گفتگو کی تھی کہ قرآن کریم کی آیات کریمہ کے مطابق توبہ ہمارے دین میں موجود ہے  «فتوبوا إلي الله جميعاً»  توبہ کرنے کا حکم ہوا ہے ،اگر چہ یہ ایک واجب فوری ہے لیکن یہ کسی زمان سے مخصوص نہیں ہے  «حتي إذا جاء أحدهم الموت قال رب ارجعوني لعلّي اعمل صالحاً فيما تركت كل»  کیا ہم اس آیت کریمہ سے یہ استفادہ کر سکتے ہیں کہ جب موت کے آثار کو دیکھ لیں اس وقت پھر توبہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اب توبہ کا وقت ختم ہو چکا ہے.
«وَلَيْسَتْ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ اور ایسے لوگوں کی توبہ نہیں ہے جو برے کاموں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے : اب میں نے توبہ کی ''اس سے پہلی والی آیت میں فرماتا ہے : «إنما التوبة علي الله للذين يعملون السوء بجهالة» اللہ کے ذمے صرف ان لوگوں کی توبہ ہے جو نادانی میں گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ''یعنی انسان اگر دنیا میں جہالت اور نادانی کی وجہ سے کوئی گناہ کرے تو وہ توبہ کر سکتا ہے، اسی آیت میں ہے کہ انسان اپنی اس نادانی سے کیے ہوئے گناہ پر جلدی سے توبہ کرے ، اس کے بعد والی آیت کے قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک موت کے آثار کو نہیں دیکھا ہے اس وقت تک وہ توبہ کر سکتا ہے ۔
اس بارے میں ایک اور آیت یہ ہے : «حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلّله الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ، أَالْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِينَ»[2]  جب فرعون غرق ہونے لگا تو کہنے لگا :میں ایمان لے آیا کہ اس ذات کے سواء کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہو گیا ہوں ، (جواب ملا) اب (ایمان لاتا ہے ) جب کہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا"اب یہ توبہ قبول نہ ہونا فرعون سے مختص نہیں ہے ،جو بھی فاسق اور گناہکار انسان موت کے آثار کو دیکھنے کے بعد توبہ کرنا چاہیئے اس کا توبہ قبول نہیں ہے ،یہ صرف فرعون سے مخصوص نہیں ہے ۔
اسی طرح ایک اور آیت یہ ہے : «فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وجعل عاليها و سافلها آمنا بالله قالوا آمنا بالله وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا[3]»  پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے : ہم خدائے واحد پر ایمان لاتے ہیں اور جسے ہم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے اس کا انکار کرتے ہیں ، لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لئے فائدہ مند نہیں رہا ''
خدا کے عذاب کو مشاہدہ کرنے کے بعد جو ایمان لاتا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ! اگر انسان زلزلہ کی وجہ سے ایمان لائے ، تو اس کا یہ ایمان کسی فائدہ کا نہیں ہے ،اگر گرج چمک سے ڈر کر ایمان لائے یا سخت قسم کا بیمار ہو جائے اور مرنے کے قریب ہو جائے اور اس وقت اگر آمنت باللہ بولے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے !
پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں فرماتا ہے «إذا حضر أحدهم الموت»، «رأوا بأسنا»  خدا کا عذاب موت کے لئے مقدمہ ہے ،تو ان دونوں صورتوں میں توبہ قبول نہیں ہے ،ہم اسی سے یہ استفادہ کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی سخت قسم کا مریض ہو اور خود اسے معلوم ہو جائے کہ ایک دن کے بعد مرنے والا ہوں !! ایسی حالت میں جو توبہ کرے تو وہ قبول نہیں ہے ،اگر کوئی بوڑھا توبہ کرے تو ممکن ہے کہ وہ بیست(٢٠) سال کے بعد مر جائے  وہ اگر توبہ کرے تو اس کا توبہ قبول ہے اگرچہ وہ توبہ کرنے کے ایک گھنٹہ کے بعد هی مرجائے ،اسی طرح اگر کوئی مریض انسان یہ امید رکھتا ہو کہ شاید خدا مجھے شفا دے ،کیونکہ بہت سارے انسان ایسے ہوتے ہیں جو سرطان میں مبتلاء ہوتے ہیں اور وہ یہ بولے شاید خدا مجھے شفا دے دیں ، اگر اسی فکر کے ساتھ توبہ کرے تو اس کا توبہ قبول ہے لیکن اگر کسی کو یقین ہو کہ مر نے والا ہوں اور اس وقت اگر توبہ کرے تو اس کا توبہ قبول نہیں ہے « فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ، فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ».

و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين








 

[1] - نہج البلاغہ خطبہ ١٠٩

[2] - یونس/٩٠،٩١

[3] - غافر/٨٤،٨٥

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .