موضوع: قرآن میں معاد
تاریخ جلسه : ١٣٩٣/٣/٢٠
شماره جلسه : ۱
-
اس یات کو آپس میں جمع کرنے کے دوطریقے ہیں ،سب سے اعلی سبب خداوندمتعالی ہے ،اس کے بعد ملک الموت ہے ،اورملک الموت کے بعد اس کے اعوان وانصار ہیں اگر کسی کام کو ملک الموت کے اعوان وانصار نے انجام دیا تو ان کا یہ کام ملک الموت کا کام ہے اورملک الموت کا کام خدا کا کام ہے.
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
قبض روح کا مسؤل کون ؟خدا یا ملک الموت یا ملائکه
ہماری گفتگو اس میں ہے کہ قبض روح کا مسؤل کون ہے؟اس بارے میں قرآن کریم سے کیا استفادہ ہوتا ہے ؟
بیان ہوا کہ اس بارے میں موجود آیات کریمہ میں پانچ عناوین موجود ہیں بعض سے استفادہ ہوتا ہے کہ اس کا مسؤل خودخداوندمتعالی ہے کہ خودمستقیماًروح قبض کرلیتاہے کہ سورہ زمرمیں ہے:"اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حينَ مَوْتِها"[1]یہاں پرکچھ خاص افرادمدنظر نہیں ہے کیونکہ ''الانفس'' جمع ہے اورالف ولام کے ساتھ ذکر ہوا ہے جس سے عموم استفادہ ہوتا ہے یعنی اس آیت کریمہ سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ تمام انسانوں کا قبض روح خودخدا کرتا ہے"اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حينَ مَوْتِها" لیکن سورہ سجدہ میں اسے ملک الموت سے نسبت دی ہے ''قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذي وُكِّلَ بِكُمْ"[2] یہاں پر بھی خاص افراد مد نظر نہیں ہے کیونکہ ''توفاکم '' ذکر ہوا ہے جوعمومی خطاب کے لئے ہے ۔
اورسورہ نساء میں ملائکہ سے نسبت دی ہے ''الَّذينَ تَتوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَة ''[3]
کچھ دوسری آیات ہیں جن میںبھی خود خداسے نسبت دی گئی ہے جیسے :'' وَهُوَالَّذي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهار''[4] اور''ْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذي يَتَوَفَّاكُم ''[5] ۔
عرض ہوا کہ یہاں پران آیات کو آپس میں جمع کرنے کے دوطریقے ہیں ،سب سے اعلی سبب خداوندمتعالی ہے ،اس کے بعد ملک الموت ہے ،اورملک الموت کے بعد اس کے اعوان وانصار ہیں اگر کسی کام کو ملک الموت کے اعوان وانصار نے انجام دیا تو ان کا یہ کام ملک الموت کا کام ہے اورملک الموت کا کام خدا کا کام ہے.
علامہ پر اشکال:
آیات کے تعبیروں میں اختلاف کو جمع کرنے کا تیسرا طریقہ :
کتاب من لا یحضر الفقیہ میں ایک روایت ہے جوہمارے لیے تیسری طریقہ کو بتاتا ہے ہماری نظرمیں اگریہ طریقہ قابل قبول ہوتوپھردوسرے اورپہلے طریقے کی ضرورت نہیں ہے ،جس سوال کو کسی شخص نے امیر المؤمنین علیہ السلام سے کیا تھا ،اسی سوال کوامام صادق علیه السلام سے بھی کسی نے کیا ہے روایت یہ ہے :وَ سُئِلَ الصَّادِقُ علیہ السلام عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ اللّٰهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهٰا وَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قُلْ يَتَوَفّٰاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ وَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ -الَّذِينَ تَتَوَفّٰاهُمُ الْمَلٰائِكَةُ طَيِّبِينَ وَ الَّذِينَ تَتَوَفّٰاهُمُ الْمَلٰائِكَةُ ظٰالِمِي أَنْفُسِهِمْ وَعَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- تَوَفَّتْهُ رُسُلُنٰا وَعَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ لَوْتَرىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلٰائِكَةُ وَ قَدْيَمُوتُ فِي السَّاعَةِ الْوَاحِدَةِ فِي جَمِيعِ الْآفَاقِ مَا لَا يُحْصِيهِ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَكَيْفَ هَذَا فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى جَعَلَ- لِمَلَكِ الْمَوْتِ أَعْوَاناً مِنَ الْمَلَائِكَةِ يَقْبِضُونَ الْأَرْوَاحَ بِمَنْزِلَةِ صَاحِبِ الشُّرْطَةِ لَهُ أَعْوَانٌ مِنَ الْإِنْسِ يَبْعَثُهُمْ فِي حَوَائِجِهِ فَتَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَيَتَوَفَّاهُمْ- مَلَكُ الْمَوْتِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مَعَ مَا يَقْبِضُ هُوَ وَ يَتَوَفَّاهَااللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ مَلَكِ الْمَوْتِ[6]۔
٣۔ تیسرا مؤید: تفسیر علی بن ابراہیم[7] میں ابن ابی عمری سے وہ ہشام سے وہ ابا عبد اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:''قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه و آله لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ رَأَيْتُ مَلَكاً مِنَ الْمَلَائِكَةِ ''فرماتا ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ معراج پر گئے ،فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کو دیکھا ''بِيَدِهِ لَوْحٌ مِنْ نُورٍ لَا يَلْتَفِتُ يَمِيناً وَ لَا شِمَالًا''یعنی صرف لوح کو دیکھ رہا تھا اورمسلسل اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ''مُقْبِلًا عَلَيْهِ ثَبُّهُ '' یعنی بہت زیادہ طاقتور ''كَهَيْئَةِ الْحَزِينِ ''غمناک شکل تھا '' فَقُلْتُ مَنْ هَذَا يَا جَبْرَئِيلُ '' میں نے جبرئیل سے کہا:یہ کون ہے ؟چاہتا ہوں اس سے بات کروں اس نے کہا : اس کا کام ارواح کو قبض کرنا ہے '' فَقَالَ هَذَا مَلَكُ الْمَوْتِ مَشْغُولٌ فِي قَبْضِ الْأَرْوَاحِ'' مجھے اس کے پاس لے جاؤ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں '' فَقُلْتُ أَدْنِنِي مِنْهُ يَا جَبْرَئِيلُ لِأُكَلِّمَهُ '' تو وہ مجھے اس کے پاس لے گیا ''فَأَدْنَانِي مِنْهُ '' میں نے اس سے کہا :جو بھی مرا ہے اورجو بھی آئندہ مرے گا تم خود اس کی قبض روح کرتے ہو ؟ ''فَقُلْتُ لَهُ يَا مَلَكَ الْمَوْتِ أَ كُلُّ مَنْ مَاتَ أَوْ هُوَ مَيِّتٌ فِيمَا بَعْدُ أَنْتَ تَقْبِضُ رُوحَهُ '' اس نے کہا جی ہاں میں خود قبض روح کرتا ہوں '' قَالَ نَعَمْ ''میں نے کہا : ہر روح کو خود حاضر کرتے ہو،اس نے کہا :جی ہاں'' قُلْتُ وَ تَحْضُرُهُمْ بِنَفْسِكَ قَالَ نَعَمْ '' اس روایت سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ خود مستقیماً اس فعل کوا نجام دیتا ہے تمام ارواح کو وہ خود ہی قبض کرتا ہے ''قَالَ نَعَمْ مَا الدُّنْيَا كُلُّهَا عِنْدِي فِيمَا سَخَّرَهَا اللَّهُ لِي وَ مَكَّنَنِي مِنْهَا إِلَّا كَدِرْهَمٍ فِي كَفِّ الرَّجُلِ''اس نے کہا:پوری دنیامیرے ہاتھ میں ویسا ہی ہے جس طرح ایک درہم انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ انسان جس طرح چاہتا ہے اس درہم کو اوپر نیچے کرلیتا ہے '' يُقَلِّبُهُ كَيْفَ يَشَاءُ وَ مَا مِنْ دَارٍ فِي الدُّنْيَا '' کہتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا گھر نہیں جس میں میں داخل نہ ہوتا ہو''فِي كُلِّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ '' ہرروز دن میں پانچ بار میں ان گھروں میں داخل ہوتا ہوں،دوسری روایات میں ہے کہ یہ پانچ بارنماز کے اوقات ہیں کہ اس روایت کو ہم بعد میں بیان کریں گے کہ جب ملک الموت دیکھتا ہے کہ یہ انسان پابندی سے نماز پڑھتا ہے تواس کے قبض روح کرنے کی کیفیت میں دوسروں کی نسبت فرق کرتا ہے ،''«إن ملك الموت يتصفّح الناس في كلّ يوم خمس مرّات» '' ہر روز پانچ بار ہر انسان سے ملاقات کرتا ہے ،یتصفح :یعنی الگ الگ ہوتا ہے (بعض روایات میں ہے کہ کبھی کسی گھر میں بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ،اوراچانک سب خاموش ہو جاتے ہیں ،روایت میں ہے کہ یہ وہی وقت ہے کہ جس وقت ملک الموت ان کو دیکھ رہا ہے ''«عند مواقيت الصلاة». «فإن كان ممن يواظب عليها عند مواقيتها لقّنه شهادة ان لا اله الا الله و أن محمداً رسول الله»''اگر دیکھتا ہے کہ یہ انسان پابندی سے نمازپڑھتا ہے توجس وقت قبض روح کرنا چاہتا ہے تووہ خوداسے شہادتین سیکھاتا ہے اوراس وقت شیطان انسان کے پاس آتا ہے تا کہ شہادتین کوپڑھ نہ سکے تو ملک الموت اسے اس انسان کے پاس آنے نہیں دیتا ،روایت کے آخر میں ہے ''وَ أَقُولُ إِذَا بَكَى أَهْلُ الْبَيْتِ عَلَى مَيِّتِهِمْ لَا تَبْكُوا عَلَيْهِ ''ملک الموت کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس انسان کے گھر والے اس جنازہ پر رو رہا ہے ،میں ان سے کہتا ہوں کہ گریہ مت کرو ''فَإِنَّ لِي إِلَيْكُمْ عَوْدَةً وَ عَوْدَةً '' میں پھر بھی یہاں آؤں گا یہاں تک کہ تم میں سے کوئی بھی اس دنیا میں نہیں رہو گے ،ا س کے بعد پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا '' كَفَى بِالْمَوْتِ طَامَّةً ''اے جبرائیل موت بہت ہی بزرگ اوربے مثال ہے '' فَقَالَ جَبْرَئِيلُ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ أَطَمُّ وَ أَعْظَمُ مِنَ الْمَوْتِ '' جبرائیل نے کہا : خود موت بزرگ اور بہت بڑا امتحان ہے لیکن موت کے بعد کا وقت اس سے بھی زیادہ بزرگ وبرترہے ،یہ ہے آیات کے آپس میں جمع کرنے کا تین طریقہ ، کہ ان میں سے تیسرا طریقہ زیادہ بہتر ہے ۔
وصلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین
---------------------------------------------------------------------
[1] - زمر/٤٢
[2] - سجدہ/١١
[3] - نساء/٩٧
[4] -انعام/ ٦٠
[5] - یونس/١٠٤
[6] - من لا يحضره الفقيه؛ ج1، ص: 136
[7] - [تفسير القمي] أَبِي عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عن هِشَامٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ رَأَيْتُ مَلَكاً مِنَ الْمَلَائِكَةِ بِيَدِهِ لَوْحٌ مِنْ نُورٍ لَا يَلْتَفِتُ يَمِيناً وَ لَا شِمَالًا مُقْبِلًا عَلَيْهِ ثَبُّهُ كَهَيْئَةِ الْحَزِينِ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا يَا جَبْرَئِيلُ فَقَالَ هَذَا مَلَكُ الْمَوْتِ مَشْغُولٌ فِي قَبْضِ الْأَرْوَاحِ فَقُلْتُ أَدْنِنِي مِنْهُ يَا جَبْرَئِيلُ لِأُكَلِّمَهُ فَأَدْنَانِي مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ يَا مَلَكَ الْمَوْتِ أَ كُلُّ مَنْ مَاتَ أَوْ هُوَ مَيِّتٌ فِيمَا بَعْدُ أَنْتَ تَقْبِضُ رُوحَهُ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَ تَحْضُرُهُمْ بِنَفْسِكَ قَالَ نَعَمْ مَا الدُّنْيَا كُلُّهَا عِنْدِي فِيمَا سَخَّرَهَا اللَّهُ لِي وَ مَكَّنَنِي مِنْهَا إِلَّا كَدِرْهَمٍ فِي كَفِّ الرَّجُلِ يُقَلِّبُهُ كَيْفَ يَشَاءُ وَ مَا مِنْ دَارٍ فِي الدُّنْيَا إِلَّا وَ أَدْخُلُهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ وَ أَقُولُ إِذَا بَكَى أَهْلُ الْبَيْتِ عَلَى مَيِّتِهِمْ لَا تَبْكُوا عَلَيْهِ فَإِنَّ لِي إِلَيْكُمْ عَوْدَةً وَ عَوْدَةً حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْكُمْ أَحَدٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ كَفَى بِالْمَوْتِ طَامَّةً يَا جَبْرَئِيلُ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ أَطَمُّ وَ أَعْظَمُ مِنَ الْمَوْتِ(بحارالانوار، ج6، ص 141،ح2 )
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
قبض روح کا مسؤل کون ؟خدا یا ملک الموت یا ملائکه
ہماری گفتگو اس میں ہے کہ قبض روح کا مسؤل کون ہے؟اس بارے میں قرآن کریم سے کیا استفادہ ہوتا ہے ؟
بیان ہوا کہ اس بارے میں موجود آیات کریمہ میں پانچ عناوین موجود ہیں بعض سے استفادہ ہوتا ہے کہ اس کا مسؤل خودخداوندمتعالی ہے کہ خودمستقیماًروح قبض کرلیتاہے کہ سورہ زمرمیں ہے:"اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حينَ مَوْتِها"[1]یہاں پرکچھ خاص افرادمدنظر نہیں ہے کیونکہ ''الانفس'' جمع ہے اورالف ولام کے ساتھ ذکر ہوا ہے جس سے عموم استفادہ ہوتا ہے یعنی اس آیت کریمہ سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ تمام انسانوں کا قبض روح خودخدا کرتا ہے"اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حينَ مَوْتِها" لیکن سورہ سجدہ میں اسے ملک الموت سے نسبت دی ہے ''قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذي وُكِّلَ بِكُمْ"[2] یہاں پر بھی خاص افراد مد نظر نہیں ہے کیونکہ ''توفاکم '' ذکر ہوا ہے جوعمومی خطاب کے لئے ہے ۔
اورسورہ نساء میں ملائکہ سے نسبت دی ہے ''الَّذينَ تَتوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَة ''[3]
کچھ دوسری آیات ہیں جن میںبھی خود خداسے نسبت دی گئی ہے جیسے :'' وَهُوَالَّذي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهار''[4] اور''ْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذي يَتَوَفَّاكُم ''[5] ۔
عرض ہوا کہ یہاں پران آیات کو آپس میں جمع کرنے کے دوطریقے ہیں ،سب سے اعلی سبب خداوندمتعالی ہے ،اس کے بعد ملک الموت ہے ،اورملک الموت کے بعد اس کے اعوان وانصار ہیں اگر کسی کام کو ملک الموت کے اعوان وانصار نے انجام دیا تو ان کا یہ کام ملک الموت کا کام ہے اورملک الموت کا کام خدا کا کام ہے.
علامہ پر اشکال:
آیات کے تعبیروں میں اختلاف کو جمع کرنے کا تیسرا طریقہ :
کتاب من لا یحضر الفقیہ میں ایک روایت ہے جوہمارے لیے تیسری طریقہ کو بتاتا ہے ہماری نظرمیں اگریہ طریقہ قابل قبول ہوتوپھردوسرے اورپہلے طریقے کی ضرورت نہیں ہے ،جس سوال کو کسی شخص نے امیر المؤمنین علیہ السلام سے کیا تھا ،اسی سوال کوامام صادق علیه السلام سے بھی کسی نے کیا ہے روایت یہ ہے :وَ سُئِلَ الصَّادِقُ علیہ السلام عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ اللّٰهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهٰا وَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قُلْ يَتَوَفّٰاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ وَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ -الَّذِينَ تَتَوَفّٰاهُمُ الْمَلٰائِكَةُ طَيِّبِينَ وَ الَّذِينَ تَتَوَفّٰاهُمُ الْمَلٰائِكَةُ ظٰالِمِي أَنْفُسِهِمْ وَعَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- تَوَفَّتْهُ رُسُلُنٰا وَعَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ لَوْتَرىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلٰائِكَةُ وَ قَدْيَمُوتُ فِي السَّاعَةِ الْوَاحِدَةِ فِي جَمِيعِ الْآفَاقِ مَا لَا يُحْصِيهِ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَكَيْفَ هَذَا فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى جَعَلَ- لِمَلَكِ الْمَوْتِ أَعْوَاناً مِنَ الْمَلَائِكَةِ يَقْبِضُونَ الْأَرْوَاحَ بِمَنْزِلَةِ صَاحِبِ الشُّرْطَةِ لَهُ أَعْوَانٌ مِنَ الْإِنْسِ يَبْعَثُهُمْ فِي حَوَائِجِهِ فَتَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَيَتَوَفَّاهُمْ- مَلَكُ الْمَوْتِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مَعَ مَا يَقْبِضُ هُوَ وَ يَتَوَفَّاهَااللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ مَلَكِ الْمَوْتِ[6]۔
پہلے مرحلہ میں
فرشتے قبض روح کرتا ہے،بیان ہوا کہ وفات اورموت میں فرق ہے،وفات یعنی ''اخذ
الشیء تماماً وحفظہ'' اس میں لے لینا اوراس کے بعد حفظ کرنا بھی ہے
،فرشتے انسان سے اس کے روح کو لے لیتا ہے اوراسے اپنے پاس رکھتا ہے اوربعد
میں ملک الموت کو دے دیتا ہے،اورملک الموت بھی ان سب کوخداکے تحویل میں دے
دیتا ہے ۔
٣۔ تیسرا مؤید: تفسیر علی بن ابراہیم[7] میں ابن ابی عمری سے وہ ہشام سے وہ ابا عبد اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:''قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه و آله لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ رَأَيْتُ مَلَكاً مِنَ الْمَلَائِكَةِ ''فرماتا ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ معراج پر گئے ،فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کو دیکھا ''بِيَدِهِ لَوْحٌ مِنْ نُورٍ لَا يَلْتَفِتُ يَمِيناً وَ لَا شِمَالًا''یعنی صرف لوح کو دیکھ رہا تھا اورمسلسل اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ''مُقْبِلًا عَلَيْهِ ثَبُّهُ '' یعنی بہت زیادہ طاقتور ''كَهَيْئَةِ الْحَزِينِ ''غمناک شکل تھا '' فَقُلْتُ مَنْ هَذَا يَا جَبْرَئِيلُ '' میں نے جبرئیل سے کہا:یہ کون ہے ؟چاہتا ہوں اس سے بات کروں اس نے کہا : اس کا کام ارواح کو قبض کرنا ہے '' فَقَالَ هَذَا مَلَكُ الْمَوْتِ مَشْغُولٌ فِي قَبْضِ الْأَرْوَاحِ'' مجھے اس کے پاس لے جاؤ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں '' فَقُلْتُ أَدْنِنِي مِنْهُ يَا جَبْرَئِيلُ لِأُكَلِّمَهُ '' تو وہ مجھے اس کے پاس لے گیا ''فَأَدْنَانِي مِنْهُ '' میں نے اس سے کہا :جو بھی مرا ہے اورجو بھی آئندہ مرے گا تم خود اس کی قبض روح کرتے ہو ؟ ''فَقُلْتُ لَهُ يَا مَلَكَ الْمَوْتِ أَ كُلُّ مَنْ مَاتَ أَوْ هُوَ مَيِّتٌ فِيمَا بَعْدُ أَنْتَ تَقْبِضُ رُوحَهُ '' اس نے کہا جی ہاں میں خود قبض روح کرتا ہوں '' قَالَ نَعَمْ ''میں نے کہا : ہر روح کو خود حاضر کرتے ہو،اس نے کہا :جی ہاں'' قُلْتُ وَ تَحْضُرُهُمْ بِنَفْسِكَ قَالَ نَعَمْ '' اس روایت سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ خود مستقیماً اس فعل کوا نجام دیتا ہے تمام ارواح کو وہ خود ہی قبض کرتا ہے ''قَالَ نَعَمْ مَا الدُّنْيَا كُلُّهَا عِنْدِي فِيمَا سَخَّرَهَا اللَّهُ لِي وَ مَكَّنَنِي مِنْهَا إِلَّا كَدِرْهَمٍ فِي كَفِّ الرَّجُلِ''اس نے کہا:پوری دنیامیرے ہاتھ میں ویسا ہی ہے جس طرح ایک درہم انسان کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ انسان جس طرح چاہتا ہے اس درہم کو اوپر نیچے کرلیتا ہے '' يُقَلِّبُهُ كَيْفَ يَشَاءُ وَ مَا مِنْ دَارٍ فِي الدُّنْيَا '' کہتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا گھر نہیں جس میں میں داخل نہ ہوتا ہو''فِي كُلِّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ '' ہرروز دن میں پانچ بار میں ان گھروں میں داخل ہوتا ہوں،دوسری روایات میں ہے کہ یہ پانچ بارنماز کے اوقات ہیں کہ اس روایت کو ہم بعد میں بیان کریں گے کہ جب ملک الموت دیکھتا ہے کہ یہ انسان پابندی سے نماز پڑھتا ہے تواس کے قبض روح کرنے کی کیفیت میں دوسروں کی نسبت فرق کرتا ہے ،''«إن ملك الموت يتصفّح الناس في كلّ يوم خمس مرّات» '' ہر روز پانچ بار ہر انسان سے ملاقات کرتا ہے ،یتصفح :یعنی الگ الگ ہوتا ہے (بعض روایات میں ہے کہ کبھی کسی گھر میں بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ،اوراچانک سب خاموش ہو جاتے ہیں ،روایت میں ہے کہ یہ وہی وقت ہے کہ جس وقت ملک الموت ان کو دیکھ رہا ہے ''«عند مواقيت الصلاة». «فإن كان ممن يواظب عليها عند مواقيتها لقّنه شهادة ان لا اله الا الله و أن محمداً رسول الله»''اگر دیکھتا ہے کہ یہ انسان پابندی سے نمازپڑھتا ہے توجس وقت قبض روح کرنا چاہتا ہے تووہ خوداسے شہادتین سیکھاتا ہے اوراس وقت شیطان انسان کے پاس آتا ہے تا کہ شہادتین کوپڑھ نہ سکے تو ملک الموت اسے اس انسان کے پاس آنے نہیں دیتا ،روایت کے آخر میں ہے ''وَ أَقُولُ إِذَا بَكَى أَهْلُ الْبَيْتِ عَلَى مَيِّتِهِمْ لَا تَبْكُوا عَلَيْهِ ''ملک الموت کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس انسان کے گھر والے اس جنازہ پر رو رہا ہے ،میں ان سے کہتا ہوں کہ گریہ مت کرو ''فَإِنَّ لِي إِلَيْكُمْ عَوْدَةً وَ عَوْدَةً '' میں پھر بھی یہاں آؤں گا یہاں تک کہ تم میں سے کوئی بھی اس دنیا میں نہیں رہو گے ،ا س کے بعد پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا '' كَفَى بِالْمَوْتِ طَامَّةً ''اے جبرائیل موت بہت ہی بزرگ اوربے مثال ہے '' فَقَالَ جَبْرَئِيلُ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ أَطَمُّ وَ أَعْظَمُ مِنَ الْمَوْتِ '' جبرائیل نے کہا : خود موت بزرگ اور بہت بڑا امتحان ہے لیکن موت کے بعد کا وقت اس سے بھی زیادہ بزرگ وبرترہے ،یہ ہے آیات کے آپس میں جمع کرنے کا تین طریقہ ، کہ ان میں سے تیسرا طریقہ زیادہ بہتر ہے ۔
وصلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین
---------------------------------------------------------------------
[1] - زمر/٤٢
[2] - سجدہ/١١
[3] - نساء/٩٧
[4] -انعام/ ٦٠
[5] - یونس/١٠٤
[6] - من لا يحضره الفقيه؛ ج1، ص: 136
[7] - [تفسير القمي] أَبِي عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عن هِشَامٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ رَأَيْتُ مَلَكاً مِنَ الْمَلَائِكَةِ بِيَدِهِ لَوْحٌ مِنْ نُورٍ لَا يَلْتَفِتُ يَمِيناً وَ لَا شِمَالًا مُقْبِلًا عَلَيْهِ ثَبُّهُ كَهَيْئَةِ الْحَزِينِ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا يَا جَبْرَئِيلُ فَقَالَ هَذَا مَلَكُ الْمَوْتِ مَشْغُولٌ فِي قَبْضِ الْأَرْوَاحِ فَقُلْتُ أَدْنِنِي مِنْهُ يَا جَبْرَئِيلُ لِأُكَلِّمَهُ فَأَدْنَانِي مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ يَا مَلَكَ الْمَوْتِ أَ كُلُّ مَنْ مَاتَ أَوْ هُوَ مَيِّتٌ فِيمَا بَعْدُ أَنْتَ تَقْبِضُ رُوحَهُ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَ تَحْضُرُهُمْ بِنَفْسِكَ قَالَ نَعَمْ مَا الدُّنْيَا كُلُّهَا عِنْدِي فِيمَا سَخَّرَهَا اللَّهُ لِي وَ مَكَّنَنِي مِنْهَا إِلَّا كَدِرْهَمٍ فِي كَفِّ الرَّجُلِ يُقَلِّبُهُ كَيْفَ يَشَاءُ وَ مَا مِنْ دَارٍ فِي الدُّنْيَا إِلَّا وَ أَدْخُلُهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ وَ أَقُولُ إِذَا بَكَى أَهْلُ الْبَيْتِ عَلَى مَيِّتِهِمْ لَا تَبْكُوا عَلَيْهِ فَإِنَّ لِي إِلَيْكُمْ عَوْدَةً وَ عَوْدَةً حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْكُمْ أَحَدٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ كَفَى بِالْمَوْتِ طَامَّةً يَا جَبْرَئِيلُ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ أَطَمُّ وَ أَعْظَمُ مِنَ الْمَوْتِ(بحارالانوار، ج6، ص 141،ح2 )
نظری ثبت نشده است .