16 April 2024 و 16:20

امام صادق علیہ السلام کا علماء اہل سنت سے برتاؤ

میں ابتدائی طور پر یہ عرض کروں گا کہ ہمیں چاہئے  امام صادق علیہ السلام ( یہ ایام آپ کی شہادت کے ایام ہیں ) کے بارے میں کچھ زیادہ توجہ دیں ، ہم اپنے گھر ، رشتہ داروں اور اپنے شہر میں امام صادق علیہ السلام کی نسبت ایک خصوصی احترام کا قائل ہو جائے ،مشہور مورخین اور رجال شناس افراد کے قول کے مطابق ، اصول اربعمائمہ امام صادق علیہ السلام کے زمانہ میں موجود تھا ، اور یہ بات کثرت  کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ اسی وقت یا اس کے بعد والے زمانہ میں مسجد کوفہ میں 900 ایسے افراد کو میں نے دیکھا جو سب یہ بتاتے تھے : قال جعفر بن محمد۔

لہذا اس وقت امام صادق علیہ السلام سے جو روایات ہمیں ملی ہیں ، ہماری فقہ کی بنیاد یہی روایات ہیں ، اور یہ سب امام صادق علیہ السلام کے وجود کی برکت سے ہے،اسی طرح ہمارے فقہی اور علمی حیات ، ہمارا حوزہ علمیہ سب کے سب انہی حضرت سے مربوط ہے ، لہذا  اس امام علیہ السلام کی شہادت کے دن خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ، جہاں تک ہم سے ہو سکے مجالس عزاء برپا کرے اور آپ علیہ السلام کے زندگی کے مختلف پہلوں کے بارے میں شناخت پیدا کرے ، میں ہمیشہ بتاتا رہتا ہوں کہ ایک اہم کام جو ابھی تک نہیں ہوا ہے اور  ہونا چاہئے ،یہ ہے کہ امام صادق  اور امام باقر علیہما السلام کا اہل سنت کے علماء ؛ ابوحنفیہ ، قتادہ، ابن ابی لیلا، ابن مالک اور دوسروں کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟ لوگوں کو ان کے ساتھ وحدت کی رعایت ، ان کے مجالس میں شرکت کرنے ، ان کے تشیع جنازہ میں شرکت کرنے ، ان کے ساتھ مدارات سے پیش آنے اور ان کے نمازوں میں شرکت کرنے کی تشویق دلاتے تھے ، ان سب کے باوجود ان کے درجہ اول کے افراد کے لئے علمی لحاظ سے کسی ارزش کا قائل نہیں تھے اور اسے بیان بھی فرماتے تھے ، کبھی ایک ہی جگہ پر ان کے ساتھ جب جمع ہوتے تھے تو امام صادق علیہ السلام ان سے کچھ سوالات بھی  پوچھتے تھے۔

اس پر خاص توجہ دیں کہ روایات میں ہے کہ سوال صرف سمجھنے کے لئے ہوناچاہئے اس کے علاوہ اس سے کوئی اور غرض اور مقصد نہیں ہونا چاہئے ، لیکن چونکہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو فتوا دینے کی اس منصب پر قرار دیا ہوا تھا تو حضرت ان کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ تمہارے اندر فتوا دینے کی صلاحیت نہیں ہے ، اور کچھ موارد کو بھی بیان فرماتے کہ ہماری روایات میں بہت سارے موجود ہیں ، امام باقر علیہ السلام نے قتادہ سے فرمایا تم کس بنیاد پر اجتھا د کرتے ہو اور کیسے فتوا دیتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : میں قرآن کے مطابق فتوا دیتا ہوں ، آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا:«مَا وَرَّثَکَ اللَّهُ مِنْ کِتَابِهِ حَرْفا»،تمہیں قرآن کی حقیقت سے ایک حرف  کے بارے میں بھی علم نہیں ہے ، میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس سے حضرت علیہ السلام کا مراد یہ نہیں ہے کہ تمہیں قرآن کے ظاہر سے کچھ بھی معلوم نہیں ہے ، کیونکہ قرآن کا ظواہر سب لوگوں کے لئے قابل فہم ہے ، لیکن انسان کو آیات کی حقایق سے کچھ استفادہ کرنا چاہئے اور بہت گہرے مطالب تک پہنچنا چاہئے ، اس بارے میں تمہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آتا ہے ، یا بہت سارے مواقع پر حضرت علیہ السلام ابو حنفیہ سے مختلف سوالات کرتے ہیں ، وہ واقعہ جو کتاب مکاسب میں صحیحہ ابو ولاد میں ذکر ہوا ہے ، کہ کسی شخص نے ایک خچر کو ایک خاص جگہ تک جا کر واپس آنے  کے لئے کرایہ پر لیا، لیکن اس جگہ سے واپس نہیں آیا بلکہ کسی اور جگہ چلا گیا ، آدھا دن جاکر واپس آنے کے بجائے ، 15 دن یہ سفر طویل ہوا ، خچر کا مالک سنی تھا ، اور جس نے کرایہ پر لیا تھا وہ شیعہ تھا ،یہ لوگ ابوحنیفہ کے پاس چلے گئے ، ابوحنیفہ نے کہا : جو پیسہ اجارہ کے لئے معین ہوا تھا وہی دینا ہو گا اس کے علاوہ کچھ اور دینا ضروری نہیں ہے ، خود یہ سنی بھی اس ظالمانہ فتوا سے تعجب کرنے لگے ، لیکن چونکہ ابوحنیفہ نے کہا تھا لہذا اس بات کو یہیں پر ختم کر لیا ، لیکن اس  شیعہ شخص  کو حج کے ایام میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا اور اس نے امام علیہ السلام کی خدمت میں اس واقعہ کو بیان کیا ، آپ علیہ السلام نے فرمایا : اسی طرح کے فتوا کی وجہ سے ہے کہ آسمان سے بارش نہیں برستی  اور زمین سے سبزہ نہیں نکلتا ۔

ایسے مواقع پر تقیہ کچھ نہیں تھا اور ان سے فرما دیتے تھے کہ تمہارے اندر دین سمجھنے کی کوئی اہلیت نہیں ہے ، فتوا دینے کی اہلیت نہیں رکھتے ہو ، اگر ابو حنیفہ کی ان فتواوں کو جمع کر لیں تو ان میں بہت سے عجیب غریب چیزیں نظر آتی ہیں ، یہ روایت ظاہرا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے کہ فرماتے ہیں : «الولد للفراش» بچہ شوہر کا ہے ، اس کے ذیل میں ایک عجیب فتوا جو میں نے خود اہل سنت کی فقہی کتابوں میں دیکھا ہے یہ ہے کہ اگر دنیا کے اس کونہ میں ایک مرد نے دنیا کے دوسرے  کونہ میں ایک عورت سے شادی کر لی ، تو یہ عقد صحیح ہے اگرچہ ان دونوں میں سے کسی نے بھی دوسرے کو نہیں دیکھا ہو ، اگر دس سال بعد اس عورت کے ہاں کوئی بچہ ہوا تو ابو حنیفہ کہتاہے ، یہ بچہ اس مرد کا ہے جو دنیا کے اس کونہ میں ہے، یہ اس کے فتواوں میں سے ایک ہے ، واقعا ان لوگوں نے اسلام کے ساتھ کیا کھیل کھیلا ہے اور اسلام کو کن مصیبتوں میں ڈال دیا ہے ۔خود ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے 5 سے زیادہ قطعی احادیث نہیں ہیں ،اس کے علاوہ باقی چیزوں کو ہمیں خود حل کر لینا چاہئے اور اس نے ایسا ہی کر لیا ، قیاس سے تمسک کرتے ہوئے اکثر مسائل کو حل کر لیا ، یہاں پر  مجھے ہمارے مرحوم والد محترم (اعلی اللہ مقامہ الشریف) کی ایک بات یاد آتی ہے ، کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھ سے پوچھیں کہ آئمہ علیہم السلام کی مظلومیت کس میں ہے ؟ میں یہ بتاوں گا کہ ان کی مظلومیت صرف امامت کے غصب کرنے یا ان کی بے احترامی کرنے میں نہیں ہے ، بلکہ ان کی مظلومیت اس میں ہے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ اسی مکہ اور مدینہ میں ہزاروں افراد کی تربیت کر تے تھے  ، سارے مسائل میں ان سے دس ہزار روایات موجود ہیں ، لیکن آج ہم جب مکہ اور مدینہ جاتے ہیں تو ان میں سے ایک روایت کا بھی کوئی اثر وہاں موجود نہیں ہے ۔

فرماتے تھے بقیع کو ان لوگوں نے خراب کر لیا ، یہ ہمارے لئے ایک بہت بڑی پریشانی ہے ، اور یہ کبھی ختم نہ ہونے والی پریشانی ہے ، لیکن ان کی مظلومیت اس میں نہیں ہے کہ ان کے گنبد اور بارگاہ کو خراب کر لیا ، بلکہ ان کی مظلومیت یہ ہے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ مکہ و مدینہ کے مالک اور آقا تھے ، وہاں پر سارے روای ان  کے محضر سے استفادہ کرتے تھے ، حتی کہ خود ابوحنیفہ امام صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھا ، اور مالک نے یہاں تک کہا تھا کہ جعفر بن محمد سے زیادہ فقیہ نہ کسی  آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے  سنا ہے ، اور ان علیہ السلام سے زیادہ کسی کے بھی قلب میں علم خطور نہیں کرتا ہے ، لیکن اب یہ نظر آتا ہے کہ وہاں پر ان میں سے کسی چیز کا بھی کوئی اثر موجود نہیں ہے ۔



ماخذ :



کلمات کلیدی :


۱,۴۹۰ قارئين کی تعداد: