موضوع: قرآن میں پردہ
تاریخ جلسه : ١٣٩٥/١١/٤
شماره جلسه : ۲
-
آیہ کریمہ دلالت کرتی ہے کہ حاجت کے وقت پردہ کے پیچھے سے طلب کرنا چاہئے ، تو جہاں پر کوئی چیز کی ضرورت نہ ہو یا بات کرنے کی ضرورت نہ ہو تو وہاں یہ حکم پردہ کے پیچھے سے ہونا ضروری ہے ، اس آیہ کریمہ سےیہ مطلب استفادہ ہوتا ہے۔
بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
سورہ احزاب آیت 53 کے بارےمیں گفتگو:
عرض ہو کہ ہم جس آیت کریمہ کے بارے میں سب سے پہلے گفتگو کریں گے وہ سوہ حزاب کی آیہ 53 ہے ۔
«وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» ۔ اس آیت کے بارے میں ہم نے ابھی تک پچھلے درس میں دو مطالب کو بیان کرچکے ہیں۔
تیسرا مطلب:اگر ہم نے اس آیت شریفہ سے حجاب کے ضروری ہونے کو استفادہ کیا ہے ، تو آیہ ایک حاجت کے وجود کو فرض کر کے فرماتاہے: وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً"۔ جب ازواج پیغمبر (ص) میں سے کسی سے کوئی چیز طلب کرنا ہو تو: فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» یعنی پردہ کے پچھے سےدرخواست کرنا چاہئے تو اس وقت فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ "تو جہاں پر کوئی حاجت نہ ہو یا کوئی کام نہ ہو تو وہاں یہ حکم یقینی طور پر موجود ہے۔
اگر آیہ کریمہ دلالت کرتی ہے کہ حاجت کے وقت پردہ کے پیچھے سے طلب کرنا چاہئے ، تو جہاں پر کوئی چیز کی ضرورت نہ ہو یا بات کرنے کی ضرورت نہ ہو تو وہاں یہ حکم پردہ کے پیچھے سے ہونا ضروری ہے ، اس آیہ کریمہ سےیہ مطلب استفادہ ہوتا ہے۔
چوتھا مطلب:اس آیہ کریمہ کے بارے میں یہ ایک اہم مطلب ہے کہ کیا یہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مخصوص ہے ؟ اگر ہم یہی بتائیں کہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مخصوص ہے تو ہم اس آیت سے حجاب اور پردہ کے واجب ہونے کو استفادہ نہیں کر سکتے، سوہ مبارکہ احزاب میں ازواج پیغمبر اکرم(ص) کے مخصوص احکام اور دوسرے مختص موارد کو بیان کیا ہے :
«يَا نِسَاءَ النَّبِىِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنْ النِّسَاءِ إِنْ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ـ خضوع به قول نكنيد در مقابل با نا محرمان و مردان ـ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوفاً (32 ) وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى» ۔
کیاما قبل آیات جو کہ ازواج پیغمبر (ص) سے مربوط ہیں کو ہم قرینہ قرار دے کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیہ کریمہ 53 کہ ان میں بھی
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ ہے ، فَاسْأَلُوهُنَّ ہے،ان میں بھی ہم یہ بتائیں کہ اس (هُنَّ)میں کوئي شک نہیں ہے کہ اس آیہ کریمہ میں جو ضمیر ہے وہ پیغمبر اکرم(ص) کی ازواج کی طرف پلٹی ہے ؛تو ہم یہ بتائيں کہ یہ حکم بھی ازواج پیغمبر سے مخصوص ہے ،لہذا ہم اس آیت سے ایک حکم کلی استفادہ نہیں کر سکے ،جس طرح «وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى"۔ کہ یہ مختصات پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مربوط ہے ، ہم یہاں پر بھی یہ بتائيں کہ یہی بات ہے خصوصا اس آیہ کریمہ 53 میں " وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ» ۔ اسی آیت میں آگے فرماتا ہے : پیغمبر اکرم(ص) کے بعد{ اب یہ بات کہ یہ کلمہ من بعدہ سے مراد پیغمبر اکرم(ص) کے وفات کے بعد ہے یا آپ(ص) کے فارغ کرنے کے بعد اگرچہ آپ (ص) قید حیات میں ہوں) کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ ان خواتین سے شادی کرے ، اکثر فقہاء امامیہ اسی قول کا قائل ہیں کہ ازواج پیغمبر (ص)سے کسی کو شادی کرنے کا حق نہیں ہے فرق نہیں وہ ان (ص) کی حیات میں آپ (ص) سے جدا ہوئی ہو یا آپ(ص) کے رحلت کے بعد ،کہ ان کے ساتھ نکاح کرنا کسی بھی مومن کے لئے جائز نہیں ہے ۔
اکثر اہل سنت علماء بھی یہی بتاتے ہیں ،اور بعض کا ایک اور نظریہ ہے کہ ابھی اس کے بیان کا موقع نہیں ہے ،اس آیہ شریفہ اور اس سے ما قبل آیات میں کلمہ (هُنَّ) ذکر ہوا ہے ، استدالی لحاظ سے آیہ کریمہ میں یہ فرمایا ہے کہ اگر ان خواتین سے کوئی چیز طلب کرنا ہے تو پردہ کے پیچھے سے طلب کرو ، اور ان سے کوئي بات کرنا ہے تو پردہ کے پیچھے سے بات کرو ،لیکن دوسرے خواتین کے بارے میں یہ حکم ثابت نہیں ہوا ہے ۔
آیہ کریمہ خوداس بارے میں ظہور رکھتی ہے کہ یہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کے مختصات میں سے ہے «فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» ؛ اس سے ما قبل آیات اس بارےمیں بالکل واضح ہے : «وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى» یہ بھی پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کے بارے میں ہے ، اسی آيت میں ایک اور حکم کو بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے نکاح کرنا حرام ہے ، نتیجہ یہ ہےکہ یہ آیہ کریمہ حجاب کے کلی اور عمومی طور پر واجب ہونے پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ یہ ایک حکم کو بیان کر رہی ہے جو ان خواتین کے بارے میں ہے جن کا اس آیہ کریمہ میں ذکر ہوا ہے ۔
اہل سنت کی کتابوں میں اس آیت کا شان نزول
اہل سنت کی کتابوں میں بعض شان نزول کو بیان کرتے ہیں کہ واقعا افسوس کا مقام ہے ، خود اسی آیت کے بارے میں جو شان نزول بیان کیا ہے بہت ہی افسوس ہوتا ہے ، اس آیہ کریمہ کے بارے میں آلوسی نے اپنی کتاب تفسیرروح المعانی جلد 11، صفحہ 72 پر ایک روایت کو نقل کیا ہے وہ کہتا ہے صحیح بخاری میں بھی یہ روایت نقل ہے ۔
انس بن مالک سے نقل کرتا ہے کہ عمر بن خطاب نے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کیا : «يا رسول الله يدخل عليك البر و الفاجر"( آپ کے گھر میں اچھے لوگ بھی آتے ہیں اور برے لوگ بھی) فلو امرت امهات المؤمنين بالحجاب":لہذا ان کے بقول اعتراض کے طور پر نہیں بلکہ سوال کیا پیغمبر اکرم(ص) سے کہ آپ(ص) کیوں امہات المومنین کو پردہ کرنے کے بارےمیں نہیں بتاتے ہو؟وہ لوگ کہتے ہیں عمر نے جب پیغمبر اکرم(ص) پر جب یہ اعتراض کیا "و كان حريصاً على حجابهن) :وہ خود امہات مومنین کے با پردہ ہونے کو چاہتا تھا "و ما ذاك الا حباً لرسول الله"اور یہ پیغمبر اکرم(ص) سے جو محبت تھی اس کی وجہ سے تھا ، اسی واقعہ میں عایشہ سے نقل کرتے ہیں ، کہ عایشہ کہتی تھی: ہم ازواج پیغمبر جب رات ہوتی تھی تو مدینہ کے کسی بلند جگہ پر جایا کرتيں تھیں "و كان عمر يقول للنبى":عمر پیغمبر اکرم(ص) کے پاس آکر اعتراض کرتا تھا کہ آپ کیوں اپنے ازواج کو باہر آنےکی اجازت دیتے ہیں ، آپ کیوں ان کو پردہ کے بارے میں حکم نہیں کرتے ہیں ؟ـ فلم يكن رسول الله يفعل ـ:پیغمبر اکرم(ص) نے بھی پہلے عمر کی بات پر کان نہیں دھرے ـ فخرجت سودة بنت زمعه ليلة من الليالى عشائاً ـ:پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج میں سے ایک جس کا نام سودہ تھا رات کو گھر سے باہر نکل گئی ـ و كان امرأة طويلة ـوہ دوسری عورتوں کی نسبت لمبی تھیـ فناداها عمر بصوته الاعلى ـعمر نے چیخ کر اسے بلایا ـ قد عرفناك يا سودة ـ بہت ہی بلند آواز میں اس نے کہا مجھے معلوم ہو گیا تم سودہ ہو !ـ حرصاً على ان ينزل الحجاب ـ اسے یہ چاہتا تھا کہ خدا کی طرف سے حجاب کے بارے میں کوئي حکم نازل ہو جائے ـ فانزل الله تعالى ذلك ـخداوند متعال بھی عمر کے اس اعتراض کا منتظر تھا ، پیغمبر اکرم(ص) مخالفت کرے اور بعد میں خدا نے بھی عمر کی اتباع کی ( سوچیں واقعا آیہ کریمہ کے لئے کیا شان نزول بیان کرتے ہیں ) اس کے بعد آلوسی کہتا ہے ـ و ذلك احد موافقات عمر ـ:یہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ خود عمر نے بیان کیا ہے ـ وافقت ربى فى اربع ـ:اور اہل سنت کی کتابوں میں بھی یہ موافقات عمر کے نام سے مشہور ہے ـ وهى مشهورة ـ:اس کے بعد خود آلوسی کہتا ہے ـ وعد الشيعه ما وقع منه... ـ :پیغمبر اکرم(ص) یا عمر سے جو چیز واقع ہوا ہے شیعہ اسے عیب قرار دیتا ہے ۔
یہ کیا کام ہے کہ عمر پیغمبر اکرم(ص) کی زوجہ پر چیخ و پکار کرے ، جس کے بعد ان سے کوئي کام بھی نہیں ہے صرف یہ کہتاہے کہ میں نے تمہیں پہچان لیا ، میں نے تمہیں پہچان لیا کہ تم سودہ ہو ، یہ ان کے آزار و اذیت کا سبب ہے !یہ سوء ادب ہے ، بعد میں خود اہل سنت جواب دیتے ہیں کہ اگر ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ اس آیت کا شان نزول یہی ہے ـ ان عمر رآه ان لا بأس بذلك ـ : یعنی رسول اللہ کے حضور میں عمر کی اجتھاد کو قبول کیا ہے !یہاں پر صراحت کے ساتھ کہتا ہے :ـ لا بأس بذلك لما غلب على ظنه من ترتب الخير العظيم ـ:عمر نے یہ سوچا ہے کہ اس میں بہت اچھائی ہے ـ والرسول و ان كان اعلم و اغير ـ:ہمیں یہ قبول ہے کہ رسول اللہ (ص) عمر سے اعلم تھے لیکنـ لم يفعل انتظاراً للوحى ـخدا کے حکم کا منتظر تھا لہذا آپ(ص) عمر کی بات پر کچھ دھیان نہیں دیا۔
اس آیت کریمہ کے لئے جو شان نزول بیان کیا ہے اس بارے میں سوچیں ، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خود قرآن فرماتا ہے :
«وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً» :یہ واقعہ پیغمبر اکرم(ص) کے گھر کے اندر ہوا ہے ، اور وہ بھی آپ(ص) کی شادی تھی،ولیمہ تھا اور اس وقت بہت سارے مرد بھی وہاں موجود تھے ، اس وقت یہ لوگ بغیر کچھ اطلاع کے پیغمبر (ص) کے ازواج کے کمروں میں چلے جاتے تھے اور وہاں جا کر کسی چیز کا درخواست کرتے تھے ، اس وقت یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی کہ ایسا مت کیا کرو «وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» لہذا جس شان نزول کو اہل سنت نے بیان کیا ہے وہ اس آیت کے ساتھ سازگار نہیں ہے !یہ جو شان نزول بیان کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج باہر چلی جاتيں تھیں اور کسی بلند جگہ پر بیٹھ جاتيں تھیں جہاں پر سب مردوں کو نظر آتے تھے ، عمر کو غصہ آیا اور اس کی غیرت سے رہا نہیں گیا لہذا جذبہ میں آکر پیغمبر اکرم(ص) کو یہ حکم دیا یا تقاضا کیا ، لیکن آپ(ص) نے عمر کی بات نہیں سنی ، اس کے بعد خداوند متعالی نے آیہ کریمہ کو نازل فرمایا: «فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» :شان نزول میں کم از کم ایک جیسا ہونا چاہئے ، ہم کہتے ہیں کہ شان نزول مخصص نہیں ہے ، شان نزول آیہ کریمہ کو محدود نہیں کرتا ہے ، لیکن مناسبت تو ہونا چاہئے ، یہ جو شان نزول بیان ہوا ہے اس میں اور «وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً» : میں کیا تناسب ہے ! دوسری بات یہ ہے کہ ایک مطلب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) متوجہ نہیں تھے لیکن عمر اس بارے میں متوجہ تھا ، یہ چیزیں عمر کی قد کو بڑھانے کے لئے ہے ، پیغمبر اکرم(ص) کا شیڈول ہی یہی تھا کہ احکام شرعی تدریجی طور پر نازل ہو جائے ، اور یہ آیہ کریمہ خود پیغمبر اکرم(ص) کے گھر میں نازل ہوئی ہے ، باہر نازل نہیں ہوئی ہے ، اور نہ لوگوں کے سامنے نازل ہوئی ہے،اس کے بعد ان سب سے جو بری بات ہے یہ ہے کہ بتایا جائے عمر نے خود رسول اللہ (ص) کے زمانہ میں اجتھاد کیا ہے ، خود پیغمبراکرم(ص) کے مقابلہ میں اجتھاد کیا ہے ، یہ سب باتیں جعلی ہیں ، غلط بات ہے ، اور سب سے بڑا اشکال یہ ہے کہ یہ شان نزول خود آیہ کریمہ سے متناسب نہیں ہے ،البتہ یہ شان نزول اہل سنت کی کتابوں میں ذکر ہے اور اس پر یہ اعتراضات وارد ہے ۔
یہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مخصوص ہے یا یہ عام ہے
آیہ کریمہ کی شان نزول سے ہٹ کر جو مطلب ہمیں یہاں بیان کرنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہ آیہ کریمہ صرف پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کے لئے ہے، اگر ہم یہ بتائیں تو اس آیت سے تمام خواتین پر حجاب کے واجب ہونے کے بارے میں کوئی حکم کلی نہیں لے سکتا ہے ، اور اگر ہم یہ بتائيں کہ یہ آیہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مختص نہیں ہے تو اس صورت میں اس آیت سے حجاب کے واجب کے بارے حکم کلی استفادہ کر سکتا ہے ، اسداء الرغاب فی مسئلۃ الحجاب کے نام سے ایک کتاب ہے اس کتاب کے مصنف کہتا ہے کہ یہ آیہ کریمہ عمومیت ہے ، لیکن ہم نے تین قرینہ ذکر کیا ، ایک کلمہ (هُنَّ)ہے ،دوسرا قرینہ اس سے ما قبل آیات ہیں اور تیسرا قرینہ اسی آیت کا ذیل ہے کہ ان سب سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ یہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم(ص) کی ازواج کے مختصات میں سے ہے ۔
لیکن یہ مصنف فرماتا ہے کہ ہم اس آیت سے عمومیت استفادہ کرتے ہیں اپنے اس بات کے لئے دو دلیل بھی ذکر کیا ہے ، ایک دلیل وہ علت ہے جسے اسی آیت کے ذیل میں بیا ن کیا ہے : «وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ» : یہ بات تمہارے اور ان کے قلوب کی پاکیزہ گی کے لئے بہتر ہے ،یعنی یہ کام تمہارے قلوب کا زیادہ سے زیادہ پاکیزہ ہونے اور ازواج پیغمبر (ص) کے قلوب کا پاکیزہ ہونے کا سبب ہے ، اس دلیل کو انہوں نے یوں بیان کیا ہے کہ یہ "ذلکم" علت ہے ، اور اگر علت ہو تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر وہ چیز جو زیادہ پاکیزہ گی کا سبب ہو اس کو اپنانا چاہئے ، اور یہ پاکیزہ گی پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج میں اس طرح ہے کہ وہ پردہ کے پیچھے رہیں ، اور دوسرے تمام خواتین میں بھی اسی طرح ہے ، اگر وہ بھی اس کا لحاظ کریں ، دوسرے الفاظ میں پردہ کے پیچھے ہو کر جو پاکیزہ گی حاصل ہوتی ہے وہ ازواج پیغمبر سے مخصوص نہیں ہے اگر دوسری مومنہ خواتین بھی اس کا لحاظ کریں تو یہ پاکیزہ گی ان کے لئے بھی حاصل ہو گی ۔
پس چونکہ یہ "ذلکم" علت ہے ، اور یہ علت دوسری تمام خواتین میں بھی ہو سکتی ہے ،والعلة تعمم پس آیہ کریمہ سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ؛ «فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» : پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مخصوص نہیں ہے ۔
یہ پہلا دلیل ہے ، اس دلیل کی وضاحت یہ ہے کہ یہ پاکیزہ گی اور اطہریت کیسے حاصل ہوتی ہے ؟جواب یہ ہے کہ جب پردہ کے پیچھے ہو یعنی جب آنکھ سے کسی خاتون کو نہ دیکھیں، تو بہت سارے خطرات رفع ہو جاتی ہے ، آنکھ چابی ہے اور دیکھنا برائی کی چابی ہے ، جب آنکھ سے دیکھ لیں گناہ کے لئے میدان ہموار ہو جاتا ہے ،بہت ساری گناہیں جن کو تصور کیا جا سکتا ہے ، لیکن اگر خاتون پردہ کے پیچھے ہو اور آنکھوں سے اسے نہ دیکھیں ،گناہ کا یہ راستہ بند ہو جاتا ہے ، اور اگر دیکھیں تو یہ گناہ حاصل ہوتا ہے اور یہ طہارت اور پاکیزہ گی حاصل نہیں ہوتی ، اور اگر نہ دیکھیں تو یہ طہارت و پاکیزہ گی حاصل ہوتی ہے ۔
اسداء الرغاب کے مصنف کے دلائل کے بارے میں تحقیق
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ " ذلکم اطہر" معلوم نہیں ہے کہ علت ہو ، ممکن ہے یہ حکمت ہو کہ ہم بعد میں دوسری آیات میں بیان کریں گے کہ ان آیات میں" ذَلِكَ أَزْكَى" ہے، یہ اطہر اور ازکی ہونا یا کچھ دوسری تعبیرات جو ان آیات حجاب میں ذکر ہیں یہ حکمت ہے ۔
ایک اہم مطلب:میں یہاں پر ایک مطلب کو بیان کرنا چاہتا ہوں اگرچہ اس بارے میں تفصیلی گفتگو ہم نے اصولی اور فقہی دروس میں بیان کر چکے ہیں ، وہ مطلب یہ ہے کہ مشہور یہ کہتے ہیں کہ حکمت اور علت میں فرق یہ ہے ، علت یہ ہے کہ حکم کا ہونا اور نہ ہونا اسی پر منحصر ہے اگر ہم نے یہ بتایا کہ " لا تشرب الخمر لانه مسكر"اگر ہم نے "لانہ مسکر " کو علت بتایا تو حرام کا ہونا اور نہ ہونا اسی اسکار(مستی) پر ہے اگر مستی لاتا ہو تو حرام ہے اور اگر مستی نہیں لاتا ہو تو حرام نہیں ہے ، لیکن اگر ہم یہ بتائیں کہ "لانہ مسکر" علت نہیں بلکہ حکمت ہے ،تو حکمت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اگر حکمت ہو تو اس حکم کا ہونا لاز م ہے لیکن اگر وہ حکمت نہ ہو تو ضروری نہیں کہ وہ حکم بھی نہ ہو ، تو یہاں پر اگر ہم یہ بتائیں کہ " لانہ مسکر" حکمت ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کسی شراب میں مستی نہ بھی ہو تب بھی وہ حرام ہے ۔
جس مطلب کو ہم نے وہاں پر بیا ن کیا ہے یہ ہے کہ یہ بات صحیح ہے لیکن یہ بات حکمت کی قدر و قیمت کو ختم نہیں کرتا ؛ یعنی جناب ! جہاں بھی یہ حکمت ہو یہ حکم ہونا چاہئے ،لیکن حکمت علت سے ایک درجہ ضعیف ہے یعنی اگر حکمت نہ ہو تب بھی حکم ہے اس کا نہ ہونا حکم کے ہونے کے کوئی نقصاندہ نہیں ہے ، یہ بات صحیح ہے لیکن اگر ہم یہ بتائيں کہ یہاں پر ایک چیز ہے لیکن اس کا کمزور مرحلہ ہے ، خدا نے اسی کمزور مرحلہ کے لحاظ سے اس کے لئے ایک حکم کو لایا گیا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں بھی یہ حکمت ہو یہ حکم ہونا چاہئے ، یعنی ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ چونکہ حکمت ہے علت نہیں ہے پس دوسری جگہوں پر ممکن ہے حکمت ہو لیکن یہ حکم نہ ہو ، دوسرے الفاظ میں ہم یہاں پر مشہور کی بات کو قبول کرتے ہیں ، اور یہ کہیں گے کہ جناب! اگر حکمت کے نہ ہونے کی وجہ سے حکم کا نہ ہونا لازم آتا ہے یہ بات صحیح ہے لیکن ہم یہ بتائيں گے کہ آپ بات کو خراب مت کریں اب اگر ہم اس کو حکمت بتائيں تو یہ نہ بتایا جائے کہ اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے ! اگر کسی جگہ پر حکمت ہے پس اس کی موجودگی میں حکم بھی ہونا چاہئے ۔
اس بیان کے مطابق نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم آیہ کریمہ میں اس اطہریت( پاکیزہ گی) کو حکمت بتائيں یا علت دونوں صورتوں میں یہ حکم ہے اور مشہور بھی یہی بتاتے ہیں ،لیکن جس مطلب کو ہم بیان کر رہے ہیں اس لحاظ سے یہ بتائيں گے کہ جناب! یہ علت ہو یا حکمت ، یہ واضح ہوتا ہے کہ شارع کے لئے یہ اطہریت موضوعیت رکھتا ہے ، کیا پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کے علاوہ دوسری خواتین اگر پردہ کے پیچھے سے بات کریں یا کوئی چیز دے دیں تو کیا یہ اطہریت (پاکیزہ گی) ثابت نہیں ہے ؟ جی ہاں ! وہاں بھی پاکیزہ گی ثابت ہوتا ہے ،۔
لیکن دوسرا مطلب خود کلمہ«طهارت» ہے ہم کتاب اسداء الرغاب کے مصنف کے فرمایشات کے مقابلہ میں یہ بتائيں گے کہ اس طہارت سے کیا مراد ہے ؟ کیا اس طہارت سے مراد ، گناہ سے پاکیزہ گی مراد ہے ؟ یعنی اگر خواتین پردہ کے پیچھے ہوں اور مردوں کو اگر ان سے کوئي کام ہو یا ان سے کوئی چیز لینا چاہتے ہوں یا کوئي چیز انہیں دینا چاہتے ہوں تو پردہ کے پیچھے سے دیں تو مرد بھی گناہ کے مرتکب نہیں ہوں گے اور خواتین بھی گناہ سے بچ جائے گی۔اگر طہارت سے مراد گناہ سے پاک رہنا مراد ہو تو یہ بات صحیح ہے اور یہ استدلال صحیح ہے ، یہ بتائيں کہ اگر «فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» ؛گناہ سے بچنے کے لئے علت ہے یاہمارے اس بیان کے مطابق حکمت ہے اور یہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مخصوص نہیں ہے مومنین کے ازواج بھی اس میں شامل ہیں انہیں بھی چاہئے کہ ایسا کام کرے جس سے گناہ سے محفوظ رہے لہذا اگر دوسرے مردوں کو ان سے کوئی کام ہے تو پردہ کے پیچھے سے کرے ۔
لیکن یہ احتمال ہے کہ یہ اطہریت اور طہارت مخصوصا صیغہ افعل التفضیل ذکر ہواہے اس سے مراد طہارت قلبی سے ایک مرتبہ اوپر ہو کہ گناہ بھی نہیں ہے ، یعنی یہاں پر طہارت سے مراد گناہ سے پاک ہونا مراد نہیں ہے بلکہ اس سے ایک درجہ اوپر طہارت قلبی مراد ہے ، خداوند متعالی چاہتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج طہارت قلبی کے اس بالاترین درجہ پر فائز ہو حتی کہ یہاں پر کسی بھی چیز کا تصور بھی نہ ہو جائے ، اگر ہم یہاں پر یہی بتائيں کہ اس طہارت سے مراد گناہ سے پاک ہونا مراد نہیں ہے جیسا کہ دوسری آيات میں ہے: «ذَلِكَ أَزْكَى» کہ یہ " ازکی" (بہت زیادہ پاکیزہ ہونا) گناہ کی نسبت نہیں ہے ، یا کم از کم ہم یہ بتائيں گے کہ یہ ہمارے لئے مجمل ہے ، ہمیں معلوم نہیں ہے کہ یہ طہارت کس چیز کے مقابلہ میں ہے !اس آیہ کریمہ میں گناہ کے مقابلہ میں ہے یا نہیں بلکہ طہارت کا بالاترین درجہ مراد ہے ؟اس وقت ہم اس آیہ کریمہ سے عمومیت کو استفادہ نہیں کر سکتے ہیں ،پس یہاں تک جو مطالب ہم نے بیان کیا ہے اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے پاس واضح دلائل ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکم پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مختص احکامات میں سے ہے ، البتہ ہم بعد میں بیان کریں گے کہ اس کے بعد آیہ حجاب ذکر ہوا ہے : «يَا أَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ» : لیکن یہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کے بارے میں ہے ، ہم صرف اسی آیہ کریمہ سے ایک حکم کلی کو استفادہ نہیں کر سکتے ۔
وصلی الله علی محمد و آله الطاهرین
نظری ثبت نشده است .