موضوع: قرآن میں پردہ
تاریخ جلسه : ١٣٩٥/١١/٤
شماره جلسه : ۳
-
اگر کلمہ "طہارت" مطلق ذکر ہو تو یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد گناہ سے پاکیزہ ہونا ہو ۔
-
لیکن خود اسی آیت میں فرماتا ہے :" طهارت لقلوبكم " یعنی شارع نے یہاں پر طہارت قلبی کا ارادہ کیا ہے ۔
بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله رب العالمين وصلي الله علي سيدنا محمدوآله الطاهرين
طہارت قلوب
عرض ہوا کہ بعض علماء نے یہ فرمایا ہے کہ آیہ کریمہ «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ» :سے حجاب کا واجب ہونا بھی سمجھ آتا ہے اور اس جملہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ازواج سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ حکم تمام خواتین کے لئے ہے ۔
کل ہم نے کتاب اسدا ء الرغاب کے مصنف کے نظریہ کو بیان کیا اور ان کے دلیل کا جواب بھی بیان کیا ، یہاں پر ہم اس جواب پر ایک اور جملہ کو اضافہ کریں گے کہ اس آیہ کریمہ میں طہارت کا متعلق بھی ذکر ہواہے ، یعنی آیہ کریمہ میں یہ ذکر ہوا ہے «أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ» یعنی شارع نے یہاں پر مطلق طہارت کو نہیں طلب کیا ہے بلکہ یہاں پر شارع نے طہارت قلبی ارادہ کیا ہے ۔
قرآن کریم میں کلمہ "طہارت" بہت زیادہ استعمال ہوا ہے ، جیسے: «فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا» یا «قيل المراد الطهارة من الذنوب و الاكثر آنها الطهارة من النجاساة»۔
طہارت اگر مطلق بغیر کسی کلمہ کے بیان ہو جائے تو یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد گناہ سے پاکیزہ گی مراد ہو ۔
یا وہ آیہ شریفہ کہ فرماتا ہے : «وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ» :یہ عبادات جسے خداوند متعالی نے قرار دیا ہے یہ اس لئے نہیں ہے کہ تمہارے زحمت کا سبب ہو بلکہ خدا چاہتا ہے تمہیں پاکیزہ کرے کہ ہر عبادت اپنی جگہ پر گناہ سے بچنے کے لئے علت ہے ۔
اگر کلمہ "طہارت" مطلق ذکر ہو تو یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد گناہ سے پاکیزہ ہونا مراد ہو ۔
لیکن خود اسی آیت میں فرماتا ہے :" طهارت لقلوبكم " یعنی شارع نے یہاں پر طہارت قلبی کا ارادہ کیا ہے ۔ اگر ہم مرحوم امام خمینی(رہ) اور بعض دوسرے بزرگان کو مبناء کو قبول کریں تو یہ حضرات فرماتے ہیں امور قلبی تکلیف کے دائرہ سے ہی خارج ہے ، امور قلبی ایسے امور ہیں جن کا اختیار انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا اور یہ بنیادی طور پر متعلق تکلیف بھی قرار نہیں پاتا ہے ، شارع مقدس ہمیں طہارت قلبی کے بارے میں مکلف نہیں کر سکتا ، کیونکہ قلبی امور انسان کے اختیار سے خارج ہے ، اگر ہم اس بات کو بتائیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ خداوند متعالی فرماتا ہے : «وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» : اگر تم نے پردہ کے پیچھے سے ان سے کوئی چیز طلب کیا تو خودبخود طہارت باطنی اور طہارت قلبی تمہارے لئے حاصل ہو گا ۔
لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ تکلیف کا متعلق قرار پائے ، شارع یہ نہیں بتا سکتا کہ تمام خواتین اس طہارت قلبی اور باطنی کو حاصل کریں ، کیونکہ قلبی امور اور ،قلبی افعال انسان کے اختیار سے خارج ہے ۔
لیکن بعض دوسرے بزرگان جیسے ہمارے والد محترم (رضوان الله تعالى عليه) ہیں انہوں نے اصول فقہ میں جو اشکالات مرحوم امام پر کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایمان بھی ایک امر قلبی ہے اگر ایمان امر قلبی ہو اور آپ یہ بتائيں کہ قلبی امور دائرہ تکلیف سے خارج ہے تو قرآن کریم میں جتنے " آمنوا" ذکر ہوا ہے وہ کس لئے ہے ؟ان کو توجیہ کرتے ہیں کہتے ہیں: چونکہ اس کے مقدمات انسان کے اختیار میں ہےاور وہ امور قلبی جن کے اسباب اور مقدمات انسان کے اختیار میں ہو ، انسان کو پتہ ہے کہ اگر فلان کام کرے تو یہ اس کی قلب کی تاریکی کا سبب ہے اور اگر فلان کام کو انجام دیں تو اسے نورانیت حاصل ہو گی ،چونکہ یہ مقدمات انسان کے اختیار میں ہے لہذا یہ متعلق تکلیف واقع ہو سکتا ہے اور خدا اس کے بارے میں حکم کرسکتا ہے ۔
یہاں ہم پہلے قول کو قبول کریں یا دوسرے قول کو چونکہ یہاں پر متعلق کو معین کیا ہے «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ» ۔اور حجاب کے بارے میں بعض آیات جن کو ہم بعد میں بیان کریں گے ان میں" ذلك ازكى لكم" ذکر ہوا ہے " لقلوبكم"ذکر نہیں ہے ، اس سے یہ معنی واضح ہوتا ہے کہ اس آیہ کریمہ میں خداوند یہ بیان کرنے کے درپے نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جو طہارت قلبی کا سبب ہے اس حاصل کرنا انسان پر واجب ہے ، بلکہ یہاں پر یہ فرمانا چاہ رہا ہے کہ «من وراء الحجاب»۔ میں ایسا اثر ہے یعنی اگر پردہ کے پیچھے رہے تو یہ طہارت قلبی کا سبب ہے ۔
پس یہ کتاب اسداء الرغاب کے مولف کا پہلا دلیل تھا اور اس علت یا حکمت سے عمومیت کو استفادہ کرنا چاہتا تھا ، لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس سے عمویت استفادہ نہیں ہوتا ہے ۔
دوسرا دلیل جسے انہوں نے بیان کیا ہے فرماتے ہیں ہمارے پاس کچھ روایات ہیں کہ ایک نابینا مرد پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ،اس وقت آپ کے ازواج بھی سب بیٹھے ہوئے تھے ، پیغمبر اکرم(ص) نے ان کو پردہ کے پیچھے چلے جانے کا فرمایا۔
یہ روایت وسائل الشيعه كتاب النكاح، ابواب مقدمات النكاح، باب 129میں ذکر ہے: «استأذن ابن ام مكتوم على النبى (ص) و عنده عائشة و حفصة"؛ عایشہ اور حفصہ آپ کے پاس بیٹھی ہوئیں تھیں،ابن ام مکتوم اندر آئے - فقال لهما قوما فادخلا البيت-؛ آپ (ص) نے ان دونوں سے فرمایا اندر چلے جاؤ - فقالتا انه اعمى فقال-؛ تو ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو نابینا ہے کسی کو دیکھ نہیں سکتا- فقال ان لم يركما فانكما تريانه»؛فرمایا وہ تمہیں نہیں دیکھ سکتا لیکن تم تو اسے دیکھ سکتی ہو ، اسی طرح کی ایک اور روایت ام سلمہ سے نقل ہے : «كنت عند رسول الله و عنده ميمونة-؛پیغمبر اکرم(ص) کی ازواج میں میں ایک ہے - فأقبل ابن أم مكتوم و ذلك بعد أن أمر بالحجاب فقال احتجبا-؛پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا تم اپنے لئے پردہ قرار دیا کرو اور پردہ کے پیچھے چلی جاؤ - فقلنا يا رسول الله أليس اعمى لا يبصرنا؟ - ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ نابینا ہے یہ ہمیں نہیں دیکھ سکتا ،یہاں پر بھی پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے وہی جواب فرمایا کہ اگر وہ تمہیں نہیں دیکھ سکتا ہےلیکن تم تو اسے دیکھ سکتی ہو۔
کتاب اسداء الرغاب نے شاہد کے طور پر یہ ذکر کیا ہے کہ یہ روایت جو ام سلمہ سے نقل ہے اس میں ہے کہ - بعد أن امر بالحجاب -؛خداوند متعالی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کو یہ حکم کرنے کے بعد کہ خواتین کو پردہ کے پیچھے ہونا چاہئے یا - بعد أن امر اللّه بالحجاب –خدانے پردہ کا حکم فرمایا ہے ،فرماتا ہے ہم اس سے ایک قانون کلی نکال سکتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ : «وَإ ِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» ؛پردہ کے بارے میں ایک حکم عمومی کو بیان کر رہا ہے ،اور یہ پردہ کے بارے میں جو حکم ہے وہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ازواج سے مخصوص نہیں ہے ، بلکہ یہ تمام خواتین کے لئے ہے ،یہ دوسرا دلیل۔
جواب:ہم ان کے اس دلیل کا چند جواب ذکر کریں گے :
1۔ ابن ام مکتوم کی یہ روایت ، روایت مرسلہ ہے ، سند کے لحاظ سے ارسال ہے یعنی کچھ راوی حذف ہوا ہے اور ان کا نام ذکر نہیں ہے۔
2۔ روایت کے الفاظ مختلف ہیں ، کتاب وسائل الشیعہ میں ام السلمہ سے نقل ہے کہ جس میں - بعد ان امر بالحجاب -ہے لیکن کتاب کافی میں جملہ- بعد ان امر بالحجاب - نہیں ہے ۔
لہذا معلوم نہیں ہے کہ یہ جملہ اس روایت میں ہے یا نہیں ہے ، جب ہم کسی روایت کے بارے میں شک کریں اس کے بعد وہ قابل استدلال نہیں ہوتا اور اس روایت سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
3۔ جملہ «بعد ان أمر بالحجاب» ام سلمہ کا کلام ہے اور ام سلمہ کا کلام ہمارے لئے کوئي حجت نہیں ہے ،اگر یہ جملہ معصوم علیہ السلام کے کلام میں ہوتے تو یہ ہمارے لئے حجت ہوتے لیکن ام سلمہ کا کلام کوئی حجت شرعی نہیں ہے لہذا اس سے استدلال بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
4۔بعض روائی کتابوں میں یہ جملہ ذکر ہے «بعد أن امرنا بالحجاب»۔ہمیں جب پردہ کا حکم ہوا ؛ یعنی اس سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ پردہ کا جو حکم ہے وہ ہم ازواج سے پیغمبر سے مخصوص تھا ۔
کتاب اسداء الرغاب کے دوسرے دلیل کا یہ چار جواب ہے لہذا ہم اس آیت سے عمومیت کو استفادہ نہیں کر سکتے ہیں ۔
یہاں پر ایک مطلب ہے کہ یہ آیہ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) پرحجاب واجب تھا ۔
اور ابن ام مکتوم کی روایت کو ہم اگر بالفرض قبول بھی کرلیں ، اور اس کی سند کی بھی قبول کر لیں ، لیکن پھر بھی یہ روایات انہیں ازواج پیغمبر سے مخصوص ہونے کے بارے میں ہے۔
البتہ ہم فقہی اعتبار سے بتا رہے ہیں لیکن اخلاقی اور تربیتی لحاظ سے مسئلہ یہ ہے کہ عورت کے لئے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ نہ کوئی مرد اسے دیکھیں اور نہ وہ کسی مرد کو دیکھیں،لیکن فقہی لحاظ سے کیا ہم اس ابن ام مکتوم کی روایت سے استفادہ کر سکتے ہیں یا نہیں کہ عورت پر اگرچہ مستحب ہو کہ کوئی مرد آئے تو پردہ کے پیچھے سے اس سے بات کریں اور اسے نہ دیکھیں ! ظاہر تو یہ ہے کہ اگر ہم یہ بتائے کہ آیہ کریمہ سے صرف پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج پر پردہ واجب ہونا استفادہ ہوتا ہے اور ان دونوں روایات کے بارے میں بھی یہی بتائيں کہ یہ بھی پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ازواج کے بار ےمیں ہے ، یعنی یہ بتایا جائے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج پر یہ حکم تھا کہ وہ کسی مرد کو نہ دیکھیں ، لیکن اس سے یہ استفادہ نہیں کر سکتا کہ یہ تمام خواتین اور مومنین کے خواتین کے بارے میں ہے ، اور ان پر مستحب ہونے کو بھی ہم استفادہ نہیں کرسکتے ، ہم ان روایات سے اس ملاک و معیار کو اخذ نہیں کر سکتے ۔
اب ان تمام باتوں کے علاوہ کیا ہم آیہ کریمہ «وَإ ِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» ۔ سے وجوب کو استفادہ کر سکتے ہیں ؟
کیا اس آیہ کریمہ کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ازواج میں سے کسی نے بھی کہیں پر بھی کسی مرد کو نہیں دیکھا ! اور کسی مرد نے بھی ازواج پیغمبر (ص) کو نہیں دیکھا؟یا ایسا نہیں ہے ، اس آیہ کریمہ سے اس کام کا راجح ہونا استفادہ ہوتا ہے ،اس آیت میں «فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا»۔ سے ہم وجوب کو استفادہ نہیں کر سکتے ، ایک رجحان پایا جاتا ہے ، خداوند متعال فرماتا ہے کہ فَانْتَشِرُوا۔ اب اگر کوئي شخص کھانا کھانے کے بعد دس منٹ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے گھر میں بیٹھ گیا ، تو ہم کیا بتا سکتے ہیں کہ اس نے واجب کو ترک کیا ہے ؟ «وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِىَّ فَيَسْتَحْىِ مِنْكُمْ وَاللهُ لَا يَسْتَحْىِ مِنْ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» ۔
میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ جملہ جو فرمایا ہے اسی طرح یہ جملہ «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ» ان سب سے بہتر ہونا استفادہ ہوتا ہے یعنی بہتر یہ ہے جو چیز تمہارے قلب کی پاکیزہ گی کا سبب ہے اور جو چیز ازواج پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے قلوب کی پاکیزہ گی کا سبب ہے وہ پردہ کے پيچھے سے کسی چیز کا درخواست کرنا ہے ۔
ہم اس آیہ کریمہ جس میں «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ» ذکر ہے اور اس سے ما قبل فرماتا ہے: «فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا» ہم اس آیہ کریمہ سے بطور واضح وجوب کو استفادہ نہیں کر سکتے ہیں ، حتی کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ازواج کے لئے بھی ،اور اسے دوسرے خواتین کے بتانا تو بہت ہی مشکل ہے ۔
ان تمام باتوں کے علاوہ یہاں پر ایک اور بات یہ ہے کہ کیا ہم «وَإ ِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ»سے وجوب استفادہ ہوتا ہے یا نہیں ؟یا اس سے لازم ہونا استفادہ ہوتا ہے یا نہیں ؟کیا «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ »خود ایک واضح قرینہ نہیں ہے جس سےیہ استفادہ ہوتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے ! لیکن تمہارے قلب کی پاکیزہ گی کا سبب ہے ،یہ ایک مطلب ہے ،جو اس آیہ کریمہ کی شان نزول کے بارے میں ذکر ہوا ہے جس کے بارے میں غور وحوض کرنے کی ضرورت ہے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ کیا اس آیہ کریمہ کے نازل ہونے کے بعد خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ (پنجم ہجری) سے لے کر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے آخر عمر تک کسی بھی مرد نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ازواج میں سے کسی کو نہیں دیکھا اورآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ازواج میں سے بھی کسی نے کسی مرد کو نہیں دیکھا!باقی مطالب کو انشاء اللہ کل عرض کروں گا ۔
وصلی الله علی محمد و آله الطاهرین
نظری ثبت نشده است .