موضوع: قرآن میں معاد
تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١٢/٨
شماره جلسه : ۱۱
چکیده درس
-
سکرات موت ایک حقیقت ہے اورہرموت میں یہ ایک حقیقت کے عنوان سے موجود ہے ،مومن کے لئے بھی سکرات موت ہے اورکافروں کے لئے بھی، سکرات موت کے بارے میں موجود روایات دوقسم کے ہیں ،ایک قسم کی روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سکرات موت سب کے لئے ہے ،حتی مومن کے لئے بھی ، حتی انبیاء کے لئے بھی ، لیکن بعض دوسری روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مومن کا قبض روح بہت آسان ہے ''کاطیب طیب'' ہے ۔
دیگر جلسات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
ہماری گفتگو اس میں تھی کہ آیات کریمہ کے ظاہر سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سکرات موت ایک حقیقت ہے اورہرموت میں یہ ایک حقیقت کے عنوان سے موجود ہے ،مومن کے لئے بھی سکرات موت ہے اورکافروں کے لئے بھی، سکرات موت کے بارے میں موجود روایات دوقسم کے ہیں ،ایک قسم کی روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سکرات موت سب کے لئے ہے ،حتی مومن کے لئے بھی ، حتی انبیاء کے لئے بھی ، لیکن بعض دوسری روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مومن کا قبض روح بہت آسان ہے ''کاطیب طیب'' ہے ۔امام باقرعلیہ السلام سے ایک روایت نقل ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :'' قِيلَ لِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع ''امام سجاد علیہ السلام سے عرض ہوا'' مَاالْمَوْتُ قَالَ لِلْمُؤْمِنِ كَنَزْعِ ثِيَابٍ وَسِخَةٍ قَمِلَةٍ ''مومن کے لئے موت ایک ایسے کپڑے کے اتار دینے کی طرح ہے جو بہت ہی گندھا ہواہو'' وَ فَكِّ قُيُودٍ وَ أَغْلَالٍ ثَقِيلَةٍ ''بدن سے سنگین زنجیروں اورطوق کواتاردینے کی طرح ہے''وَالِاسْتِبْدَالِ بِأَفْخَرِالثِّيَابِ''اوربہت ہی فاخرکپڑے کو پہنے کی طرح ہے،اسی طرح ایک اورروایت جسے ہم نے پہلے بیان کیا جس میں تھا : '' أَعْظَمُ سُرُورٍ يَرِدُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ''اوراسی طرح صفحہ ١٥٥ پرنقل ہے ''ما الموت قال ہونوم الذی یعطیکم کل لیلۃ الا انہ طویل مدتہ لا ینتبہ مما الا یوم القیامۃ'' موت ایک بہت ہی طولانی نیند کی طرح ہے کہ قیامت کے دن انسان اس نیند سے بیدار ہو جائیں گے ، لوگوں کی بھی دوقسمیں ہیں :بعض اس نیند میں '' مِنْ أَصْنَافِ الْفَرَحِ'' ہیں اور بعض دوسرے '' مِنْ أَصْنَافِ الْأَهْوَالِ'' ہیں،کچھ بہت ہی خوشی اورمسرت میں ہیں اوربعض قیامت کی سختیوں اور گرفتاریوں کے فکر میں ہوتے ہیں ۔
ہمیں ان دو قسم کی روایات کو آپس میں جمع کرنا چاہئے ،اور ان کو آپس میں جمع کرنے کے دو طریقے ہیں :پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ تفصیل دیں گے کہ مومنین کے دو قسمیں ہیں اوراسی طرح کافروں کے بھی دو قسمیں ہیں،بعض مومنین کے لئے سخت قسم کی سکرات ہیں اوربعض کے لئے سکرات نہیں ہے بلکہ ان کے لئے '' كَنَزْعِ ثِيَابٍ ''جو لوگ دنیا میں گناہ انجام دیئے ہیں ان کے لئے سکرات اورمشکلات ہیں ،اور جو لوگ دنیا میں گناہ میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں ان کے لئے سکرات موت نہیں ہے ایک روایت میں ہے :'' دَخَلَ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ ع عَلَى رَجُلٍ قَدْ غَرِقَ فِي سَكَرَاتِ الْمَوْتِ وَ هُوَ لَا يُجِيبُ دَاعِياً ''امام کاظم علیہ السلام ایک ایسے شخص سے جو سخت قسم کے سکرات موت میں گرفتار تھا اور کسی کے بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھاکے پاس تشریف لے آئے تو '' فَقَالُوا لَهُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ''وہاں پر موجود لوگوں نے آپ سے عرض کیا :یابن رسول اللہ '' وَدِدْنَا لَوْ عَرَفْنَا كَيْفَ الْمَوْتُ وَ كَيْفَ حَالُ صَاحِبِنَا'' ہم موت کی حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں ،اورہمارا یہ دوست جو ابھی حالت احتضار میں ہےیہ کس حالت میں ہے ؟ '' فَقَالَ الْمَوْتُ هُوَ الْمِصْفَاةُ يُصَفِّي الْمُؤْمِنِينَ مِنْ ذُنُوبِهِمْ''موت ایک ایسی چیز کی طرح ہے جو اے پاک وصاف کر رہا ہے ، جو افراد گناہگار ہیں ،موت انہیں پاک وصاف کرتا ہے '' فَيَكُونُ آخِرُ أَلَمٍ يُصِيبُهُمْ '' یہ ان کےلئے آخری درد ہے '' كَفَّارَةَ آخِرِ وِزْرٍ بَقِيَ عَلَيْهِمْ ''۔
ایک اورروایت میں ہے :امام صادق علیہ السلام نے مفضل سے فرمایا :'' يَا مُفَضَّلُ إِيَّاكَ وَ الذُّنُوبَ '' گناہ سے بچے رہو '' وَحَذِّرْهَا شِيعَتَنَا'' ہماری شیعوں کو گناہوں سے دور رکھو ،ان کو موت سے ڈراؤ'' فَوَ اللَّهِ مَا هِيَ إِلَى أَحَدٍ أَسْرَعَ مِنْهَا إِلَيْكُمْ '''گناہ انسان میں بہت جلد اثر کر لیتا ہے'' أَسْرَعَ مِنْهَا إِلَيْكُمْ ''یعنی اگر تم شیعہ ان گناہوں کو انجام دیں تو تمہارے اندر یہ بہت جلد اثر کرے گا ، یہ بھی ایک مہم مطلب ہے کہ مسلمان اورشیعہ جو گناہ انجام دیتے ہیں اورجو گناہ کافر انجام دیتے ہیں ان دونوں میں فرق ہے ،اگر شیعہ کوئی گناہ انجام دیں تو یه اس میں بہت جلد اثر کرے گا ،کیوں؟فرماتے ہیں:'' إِنَّ أَحَدَكُمْ لَتُصِيبُهُ الْمَعَرَّةُ مِنَ السُّلْطَانِ'' معرہ اذیت کے معنی میں ہے ، تم میں سے کوئی ایک اگرظالم بادشاہ کے اذیت کا شکار ہوجائے '' وَ مَا ذَاكَ إِلَّا بِذُنُوبِهِ'' یہ اس وجہ سے ہے کہ تم نے کوئی گناہ انجا م دیا ہے ''وَ إِنَّهُ لَيُصِيبُهُ السُّقْمُ وَ مَا ذَاكَ إِلَّا بِذُنُوبِهِ''ایک اور اگر مریض ہوتا ہے تو یہ اس کی گناہ کی وجہ سے ہے '' وَ إِنَّهُ لَيُحْبَسُ عَنْهُ الرِّزْقُ''تم میں سے بعض کی روزی کم ہو جاتی ہے '' وَ مَا هُوَ إِلَّا بِذُنُوبِهِ'' یہ بھی اس کی گناہوں کی وجہ سے ہے ،اورموت کے وقت مومن شیعہ کو بہت سخت اذیت ہوتی ہے '' وَإِنَّهُ لَيُشَدَّدُ عَلَيْهِ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ مَا هُوَ إِلَّا بِذُنُوبِهِ حَتَّى يَقُولَ مَنْ حَضَرَهُ لَقَدْ غُمَّ بِالْمَوْتِ ''یہ موت اس شخص کے لئے تمام قسم کی سختیوں کو ساتھ لے آتی ہے ، ان روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو مؤمن گناہکارہواس کے پا ک وصاف ہونے کا ایک مقام اس کے قبض روح کا وقت ہے ، قبض روح کے وقت جو سختیاں اورمشکلات اس کے لئے پیش آتی ہے اس طریقہ سے اس کی گناہوں کی بخشش ہوتی ہے ۔
دسواں روایت :''وَأَمَّا صَاحِبُكُمْ هَذَا فَقَدْ نُخِلَ مِنَ الذُّنُوبِ نَخْلًا''غربل غربالا، یعنی یہ شخص گناہوں سے دھلایا جاتا ہے ،یعنی موت کے ذریعہ گناہ اس کے بدن سے خارج ہوتا ہے'' وَ صُفِّيَ مِنَ الْآثَامِ تَصْفِيَةً ''گناہوں سے پاک ہوتا ہے '' وَ خُلِّصَ حَتَّى نُقِّيَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ مِنَ الْوَسَخِ ''اس طرح سے گناہو ں سے پاک ہوتا ہے جس طرح گندگی سے دھلے ہوئے ایک قمیض کی طرح ،اس میں ایک مہم بات یہ ہے کہ '' وَ صَلُحَ لِمُعَاشَرَتِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فِي دَارِنَا دَارِ الْأَبَدِ ''یہ شیعہ جسے قبض روح کے وقت سخت تکلیف ہوتی ہے ، یہ اس لئے ہے کہ یہ گناہوں سے پاک ہو جائے اور اس کی گناہیں ختم ہو جائے اور اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ قیامت کے دن ہم اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ ہمنشین ہوجائے
ہمارے پاس بہت ساری ایسی روایات ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومن کے لئے موت کی سختیاں ہیں ، پس ہم آتے ہیں اس طرح بتاتے ہیں کہ قبض روح کے لحاظ سے مومن کی دو قسمیں ہیں :بعض مومن ایسے ہیں کہ انہوں نے کوئی گناہ انجام نہیں دیا ہے ان کاقبض روح بہت ہی آسان ہے ایک خشبو سونگھنے کی طرح ہے اس کے لئے کوئی مشکل اور سختی نہیں ہے ،لیکن بعض مومن ایسے ہیں کہ وہ گناہگار ہیں ان سے گناہ سرزد ہوئے ہےں ،خصوصاً اس پندرہویں روایت سے ایک قانون کلی استفادہ ہوتا ہے کہ یہ خدا کے شیعوں اور مسلمانوں پر ایک منت ہے کہ اگر کوئی کافر کوئی گناہ انجام دیں تو ایسا نہیں ہے کہ اس گناہ کا اثر وضعی اس دنیا میں اسے گھیر لے ،خدا نے کافر کے گناہ کے تمام آثار کو قیامت کے دن کے لئے چھوڑ دیا ہے یہ جو روایات مےں ہے کہ دنیا کافر کی جنت ہے تو اس ایک بیان اور تفسیر یہی ہے کہ اگر گناہ کا کوئی اثروضعی ہو تو وہ اثر اس کافر کے لئے اس دنیا مےں نہیں ہے ،لیکن اگر کوئی شیعہ اسی گناہ کو انجام دیں تو وہ اس کے اثار میں مبتلاء ہو جاتا ہے اور اس کا اس گناہ کے بلا ء میں مبتلا ہونا اسے پاک و صاف کرنے کے لئے ہے اگر کسی نے کوئی گناہ انجام دیا ہے اور ظالم بادشاہ اسے اذیت کرے تو یہ اس کی گناہ کا کفارہ ہے ، اس کا مریض ہونا اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اسی طرح قبض روح میں سختی ہونا بھی اس کی گناہوں کوختم کرنے کے لئے ہے یہ ایک بہت اہم بات ہے جس کی طرف ہم بہت ہی کم توجہ کرتے ہیںمسلمان بالخصوص اس روایت کے مطابق شیعہ اگر کوئی گناہ انجام دیں تو اس دنیا میں اس کے اثراورجزاء کو دیکھ لیتا ہے تا کہ اس کے گناہ ختم ہو جائے لیکن کافروں میں ایسا نہیں ہے ۔
اس پندرہویں روایت سے ایک قانون کلی استفادہ ہوتا ہے کہ گناہگارمومن «ليشدّد عليه عند الموت» مرتے وقت اسے سختیاں ہوتیں ہیں پس ان روایات کو آپس مں جمع کرنے کا راستہ یہ ہے کہ : مومن کے دو قسم ہیں ، بعض مومن ایسے ہیں کہ ان کی قبض روح بہت ہی آسان ہے اوربعض مومن ایسے ہیں کہ ان کے لئے قبض روح میں سختی ہے ، اسی طرح کافر کے قبض روح کے بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ ہیں جن کے لئے قبض روح آسان ہے ، ایک روایت کے مطابق جسے ہم نے پہلے بیان کیا کہ کوئی کافر ممکن ہےاس دنیا میں کسی کو حتی کہ ایک مچھر کو بھی کوئی اذیت نہیں پہنچایا ہو خدا وند متعالی اس کے لئے زندگی کی آخری راحتی کو اس کےقبض روح کے وقت قرار دیتا ہے اور اس کا قبض روح آسانی سے ہوتا ہے لیکن وہ کافر جس نے دنیا میں سب کو اذیت پہنچایا ہوجس کا کام ہی جرم جنایت کے علاوہ کچھ نہ ہو تواس کے عذاب کے مراحل میں سے ایک اس کے قبض روح کا وقت ہے پس اس بارے میں موجود روایات کو آپس میں جمع کرنے کا ایک طریقہ یہی ہے ،اس سے پہلے والے درس میں چھٹی روایت جوہم نے پڑھی ہے وہ اس کے لئے ایک اچھی گواہی ہے چونکہ اس روایت میں یہی مسئلہ بیان ہوا ہے اورامام صادق علیہ السلا م سے عرض ہوا کہ مرنے کو ہمارے لئے بیان کرو «صف لنا الموت، قال(ع( للمؤمن كأطيب ريحٍ يشمه فينعس لطيبه وينقطع التعبوالألم كله عنه» آپ علیہ السلام نے فرمایا :یہ مومن کے لئے ایک پھول کو سونگھنے کی طرح ہے لیکن «وللكافر كلسع الأفاعي ولدغ العقارب أو أشد» کافر کے لئے سانپ اوربچھو کے ڈسنے کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی شدید ہے اس کے بعد امام سے عرض ہوا : «فإن قوما يقولون: إنه أشد من نشر بالمناشير» اما م سے عرض ہوا کہ ہم نے سنا ہے کہ مرنا جسم کو آری سے ٹکڑے کرنے کی طرح ہے «وقرض بالمقاريض، ورضخ بالأحجار، وتدوير قطب الأرحية على الأحداق» پتھر مارنے کی طرح ہے ،ایسا ہے جیسا کہ آنکھوں کوچکی کے پتھر کے نیچے رکھا گیا ہو،آپ نے فرمایا : : «كذلك هو علي بعض الكافرين والفاجرين» یہ بعض کافروں اورفاجروں کے لئے ہے ،تویہ چھٹی روایت ہمارے روایات کو آپس میں جمع کرنے کے طریقہ کے لئے ایک بہترین گواہ ہے ۔
ان روایات کو آپس میں جمع کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ :''اطیب طیب'' موت کے بعد کے لئے ہے ، یعنی خودبدن سے روح نکلنے کے وقت کے لئے سکرہ اورسختیاں ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے استفادہ ہوتا ہے «وجاءت سكرة الموت بالحق» کہ ہرمرنے والے کے لئے موت کی سختیاں ہیں اور وہ روایت جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے نقل ہوئی کہ آپ نے ا س میں سکرۃ الموت کی وقت کے لئے دعا فرمایا : «اللهم أعنّي علي سكرات الموت» ہم یہ بتائیں کہ ہر موت حتی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے موت کی سختیاں ہے ، لیکن جب مرجاتا ہے اس کے بعد آپس میں فرق ہے کہ مومن کے لئے ایک پھول کو سونگھنے کی طرح ہے یا کسی گندھے کپڑے کو بدن سے اتارنے کی طرح ہے لیکن کافر کے لئے یہ سختیوں کی ابتداء ہے عذاب کا شروع ہے ۔
روایات کو جمع کرنے کا تیسرا طریقہ : یہ وجہ کچھ حد تک پہلے طریقہ کے لئے موید ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ بتائیں : ''''یہ سکرۃ الموت (موت کی سختیاں) غالب اوراکثرکو بیان کرنے کے لئے ہے یعنی چونکہ موت غالباً سکرات کے ساتھ ہے اس وجہ سے قرآن کریم میںفرمایا ہے : «جاءت سكرة الموت» یعنی سو میں سے ٩٥ موارد میں سکرۃ الموت ہے ۔
اب تک ہم یہ بتا رہے تھے کہ آیت کریمہ سے یہ استفاد ہ ہوتا ہے کہ ذات موت میں ہی سختیاں ہیں جس طرح بخار کی ذاتی صفت یہ ہے کہ اس میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ کہیں پربخارہولیکن درجہ حرارت بڑھ نہ جائے ، اسی طرح موت کی ذات میں ہی سختیاں ہیں ،روایات کو آپس میں جمع کرنے کے اس تیسرے طریقہ میں ہم اس بات سے ہٹ جاتے ہیں بلکہ یہاں پرہم یہ بتائیں گے کہ قرآن کریم میں جو «وجاءت سكرة الموت» بیان ہوا ہے یہ غالبی عنوان کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ غالباً موت میں سختیاں ہیں لیکن بعض افراد اوروہ مومن جس نے زندگی میں کوئی گناہ انجام نہیں دیا ہے اس کے لئے یہ سختیان نہیں ہے ۔
ہماری نظر میں ( میں نے جمع کرنے کی اس تیسری طریقہ کو کسی تفسیر میں نہیں دیکھا ہے ) یہ اہم مباحث میں سے ایک ہے ، بحار الانوار میں ٣٠ صفحوں پر ٥٦ روایات موجود ہیں لہذا ان روایا ت اورآیت کریمہ میں آپس میں کسی طریقہ سے جمع کرنا چاہئے ۔
ہم نے یہاں پرجمع کرنے کی تین طریقوں کو بیان کیا اوراس سے زیادہ اور طریقے ذہن میں نہیں آتے پس انہیں تین طریقوں میں سے ایک کے ذریعہ نتیجہ لینا پڑھے گا ۔
ایک اورآیت کریمہ جس کے بارے میں ہم گفتگو کرنا چاہئے ہیں یہ آیت کریمہ ہے «إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمْ الْمَلَائِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ، نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِوَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ»
وصلی اللہ علی محمد وآلہ الطاہرین ۔
نظری ثبت نشده است .