موضوع: قرآن میں معاد
تاریخ جلسه : ١٣٩١/٣/٢٤
شماره جلسه : ۱۶
چکیده درس
دیگر جلسات
بسمہ تعالی
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
ہماری گفتگو سورہ مبارکہ مومنون کی آیت ٩٩ اور ١٠٠ میں تھی «حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِي، لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ» یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آلے گی تو وہ کہے گا اے پروردگار! مجھے واپس دنیا میں بھیج دیں جس دنیا کو چھوڑ آیا ہوں شاید اس میں عمل صالح بجالاؤں ہر گز نہیں ! یہ تو وہ جملہ ہے جسے وہ کہہ دے گا اور ان کے پچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے ۔
اس آیہ شریفہ کے بارے میں کچھ مطالب بیان ہوئے کہ ''ارجعون'' کا مخاطب خداوند متعالی ہے یا ملائکہ ؟ اسی طرح «أعمل صالحاً» سے کیا مراد ہے یہ بھی بیان ہوا ، اس آیت کے بارے میں ایک بحث یہ ہے کہ «إذا جاء أحدهم الموت» میں ضمیر''ہم'' کا مرجع کیا ہے جس کے بعد ہمیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ «رب إرجعون» کا مخاطب کون ہیں ؟ مشہور مفسرین جیسے فخر رازی ، صاحب مجمع البیان،آلوسی اور بعض دوسروں نے یہ بتائے ہیں کہ یہ ضمیر کفار کی طرف پلٹ رہی ہے «حتّي إذا جاء أحدهم الموت» یعنی موت کے وقت جب کفار کے پاس آتے ہیں ، فخررازی نے لکھا ہے «الأكثرون علي أنّه راجعٌ إلي الكفار» مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں لکھا ہے «أحدهم أي هؤلاء الكفار» آلوسی نے روح المعا نی میں لکھا ہے «والظاهر الذي لا ينبغي العدول عنه أنّ ضميرهم راجعٌ إلي الكفار» کہ یہ ضمیر کفار کی طرف پلٹی ہے ، اگر یہ ضمیر کفار کی طرف پلٹے تو اس کانتیجہ یہ ہے کہ صرف کفار «رب إرجعون» کہے گا ،اس آیہ شریفہ کے مطابق یہ کفار کا کلام ہے اور یہ کفار کا تقاضا ہے کہ دنیا کی طرف پلٹ آئے۔
معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم ان کے قول کو پڑھیں جوسے خداوندمتعالی ان سے نقل کر رہا ہے «رب ارجعوني لعلّي أعمل صالحاً فيما تركت» تو یہ کہنا چاہیئے کہ ضمیر''ہم'' کفار سے مخصوص نہیں ہے ،مخصوصاً جب ہم یہ بتا رہے ہیں کہ ''حتی'' ابتدائیہ ہے اور پہلے ذکر شدہ آیات یاذکر شدہ آیات کے مطالب کے لئے غایت نہیں ہے ! کیونکہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے کہ کفار یہ بولے کہ ہم اب دنیا می پلٹ کر عمل صالح انجام دینا چاہتے ہیں،کیونکہ ان کا اعتقاد تو بنیاد سے ہی خراب ہے ،ان کا ایمان میںبنیاد سے ہی مشکل ہے ،لہذا اگرچہ اکثر مفسرین نے اس آیہ شریفہ میں ضمیر '' ہم '' کو کفار کی طرف پلٹایا ہے ،لیکن قائل کے مقول قول «قال رب ارجعوني لعلي أعمل صالحاً فيما تركت»سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ عام ہے یعنی جو بھی اس دنیا سے چلا جاتا ہے فرق نہیں وہ کافر ہو یا عمل صالح انجام نہ دینے والے مومنین یا حتی کہ وہ مومنین جنہوں نے عمل صالح تو انجام دیا ہے لیکن کم انجام دیا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کا ایک عمل آخرت میں کتنا اثر رکھتا ہے تو وہ بھی ایسا ہی درخواست کرتا ہے ۔
اس آیہ شریفہ میں ایک مطلب یہ ہے کہ یہ کہنے والاخدا سے کہتا ہے ؛خدایا مجھے دنیا کی طرف پلٹا دو تا کہ میں ایک عمل صالح انجام دوں ، یہ قرینہ ہے کہ اس کے بولنے والے کے نامہ عمل میں ایک عمل صالح بھی نہیں ہے اور جب اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسی ابتدائی لحظات میں متوجہ ہوتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال میں کوئی اچها کام نہیں ہے اس وقت خدا سے التجا کرتا ہے کہ اسے پلٹا دے تا کہ ایک عمل صالح انجام دیں ، اس وقت نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آیہ شریفہ ان افراد کے بارے میں ہے جنہوں نے ایک عمل صالح بھی انجام نہیں دیا ہے. «رب ارجعون» کو وہ لوگ بولے گا جو دنیا میں ایک عمل صالح بھی انجام نہیں دے سکا ہے ، اور جب اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عالم میں عمل صالح کی کتنی قدر و قیمت ہے اس وقت خدا سے التجا کرتا ہے کہ انہیں دنیا میں دوبارہ پلٹا دیں تا کہ کم از کم ایک عمل صالح تو انجا م دے سکے ، بہر حال اس آیت کے اول مےں جو ضمیر''ہم '' ہے وہ کفار سے مخصوص نہیں ہے اور کوئی قرینہ بھی نہیں ہے کہ یہ ضمیر ''ہم''کفار سے مختص ہو ،اگرچہ آلوسی نے کہا ہے ''لا ینبغی العدول عنہ'' کہ یہ ضمیر کفارکی طرف پلٹتی ہے لیکن اس کے لئے ہمارے پاس کوئی قرینہ نہیں ہے.
اگر ہم یہ قبول کر لیں کہ یہ ضمیر''ہم'' کفار کی طرف پلٹتی ہے تو یہ بتانا ہو گا کہ خدا وند متعالی فرماتا ہے کفاردنیا سے جاتے وقت کہتے ہیں «رب ارجعوني لعلي اعمل صالحاً فيما تركت» ہم یہاں یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ ملاک اور معیار غیر کفار میں بھی موجود ہے ، اگر ہم اس نتیجہ تک پہنچے کہ آیت کے اول میں ضمیر''ہم''کفار کی طرف پلٹ رهی ہے اور یہ بتائے کہ آیت میں یہ بیان ہو رہا ہے کہ کفار دنیا سے جاتے وقت «رب ارجعوني لعلّي اعمل صالحاً» کہے گا ، اس وقت ہم کیا یہ نہیں بتا سکتے کہ جو بھی مرنے کے بعد ندامت اورحسرت کرے وہ یہ بولے گا ؟ ٹھیک ہے خداوند متعالی کفار کے بارے میں بیان کر رہا ہے لیکن پھر بھی ہم اسے کفار سے منحصر نہیں کر سکتے ،کہ یہ بتائے کہ یہ مومنین کو شامل نہیں ہوتا ہے ، ہمارے خیال میں اگر ضمیر''ہم'' کفار کی طرف پلٹے تب بھی آیت سے انحصار استفادہ نہیں ہوتا۔
آیہ کریمہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ''رب ارجعون'' کی علت ندامت اور حسرت ہے ،یعنی جو شخص اس دنیا سے چلا جاتا ہے اس کی ندامت شروع ہوتی ہے مگر وہ لوگ جو اولیاء خدا یا پہلے درجہ کا مؤمن ہو ،لیکن جن افراد کے لئے ندامت اور حسرت ہے ان کی پہلی بات یہی ہے کہ ''رب ارجعون'' مجھے واپس دنیا میں بھیج دیں ۔
«كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَ» یہ خدا وند متعالی کے قول کا مقول ہے ،خدا فرماتا ہے ہرگز! یہ ایک کلام ہے ، کبھی کلمہ کو کلام پر اطلاق کرتے ہیں ، نہ کہ صرف ایک لفظ پر! یہ ایک کلام ہے کہ خود اس کے بولنے والا بولتا ہے ''ہو قائلہ '' سے کیا مراد ہے ؟ اس میں دو احتمال ہے :
١۔ وہ خودبولنے والا اسے بولتا ہے اس کے علاوہ اس کے پاس بولنے کے لئےکچھ نہیں ہے اورکوئی اس کا جواب بھی نہیں دیتا ہے! «كلا إنها كلمةٌ هو قائله» یعنی جس دن وہ دنیا سے چلا جاتا ہے وہ یہ بولتا ہے «رب ارجعون» لیکن کوئی اس کی بات کا جواب نہیں دیتا «لا يجاب عليه» جواب نہیں دیتا «ولا تسمع منه» کوئی اس کی بات نہیں سنتا ،کیوں؟اس لیے کہ اگرکوئی اس کی بات کا جواب دے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس جواب دینے والے نے اس کی بات پر توجہ دی ہے درحالیکہ اس کی اس بات پر کوئی توجہ نہیں دینا چاہیئے ،یہ انسان اتنا بے ارزش اور بے وقت ہے کہ اس کی بات بھی جواب کے قابل نہیں ،اس کی بات سننے کی قابل نہیں ،پس ایک احتمال یہ ہے ۔
٢۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ «كلا إنّها كلمةٌ هو قائله» اس کا ایک بہت ہی لطیف معنی ہے ! یعنی جو بات یہ بول رہا ہے ، وہ عملاً قابل قبول نہیں ہے «إنها كلمةٌ هو قائله» یعنی قیامت تک یہ . «رب ارجعون» بولتا رہے گا اور جہنم میں جانے تک یہی بولتا رہے گا ، یہ مسلسل ''رب ارجعون ''بولتا رہے گا چونکہ اس کی ندامت اور حسرت دائمی ہے ، اور ندامت اور حسرت میں مبتلاء ہیں وہ خدا سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اسے پلٹا دیا جائے«رب ارجعوني لعلي اعمل صالحاً فيما تركت» میری نظرمیں یہ دوسرا معنی پہلے معنی سے اقوی اوراظہر ہے اگرچہ بہت سارے تفاسیر اورترجموں میں یہی پہلا معنی بیا ن ہوا ہے «كلا إنها كلمةٌ هو قائله» چونکہ ''ہو ''ضمیر فصل ہے اور مسند الیہ بھی واقع ہوا ہے لہذا یہ منحصر ہونے پردلالت کرتا ہے ،یعنی صرف وہ بولنے والا ہے.
«وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِىَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنْ الصَّالِحِينَ» [1]" اور جو رزق ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے وہ کہنے لگے :پروردگار! تو نے مجھے مہلت کیوں نہ دی تا کہ میں صدقہ دیتا اور میں صالحین میں سے ہوتا ۔" اس میں ایک نکتہ بیان ہوا کہ ابن عباس نے اس آیہ کریمہ کے قرینہ سے سورہ مومنین کی آیت کے بارے میں بتایا «لعلّي اعمل صالحاً "یعنی میں دنیا میں پلٹ جاؤں تاکہ اپنے مال سے کچه زکات دے دوں ، ہم نے اس کے جواب میں بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن عباس کی بات ہمارے لئے حجت نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ آیت اس آیت کا تکرار ہو یا یہ آیت اس آیت کا تکرار ہو ۔
سورہ مومنین کی اس آیت سے ہم نے یہ استفادہ کیا کہ «لعلي اعمل صالحاً» یہ مالی امور کے بارے میں بھی ہے اورغیر مالی واجبات کے جیسے نماز ،روزہ ،زکات اور حج۔۔۔۔۔۔ کے بارے میں بھی ہے کہ بعض روایات میں حج بھی ذکر ہوا ہے ، اب کیا سورہ منافقون کی یہ آیت کیا صرف زکات سے مختص ہے ؟ و انفقوا مما رزقناكم یہ انفاق اور زکات دینے کا حکم دیتا ہے ،وہ واجبات ہیں جسے انجام دیناچاہیئے «مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِىَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ» جب انسان پرموت واقع ہوتا ہے یعنی موت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں ، کہ اس بارے میں امیر المومنین علیہ السلام کا ایک کلام ہے نہج البلاغہ میں خطبہ نمبر ١٠٩ ہے کہ جب انسان پر موت واقع ہوتی ہے تو سب سے پہلے انسان کا زبان کام نہیں کرتا ،لیکن اس کی آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہے اس کے کان سن رہے ہوتے ہیں ، ا س کے بعد انسان کا کان کام کرنا چھوڑدیتا ہے ،اس کے ارد گرد رشتہ دار بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں منہ اور زبان کو ہلا رہے ہیں لیکن وہ کچھ نہیں سنتا اور آخر میں اس کی آنکھیں بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ، اس بارے میں تفصیل ہم آگے بیان کریں گے ۔
«حتي إذا جاء أحدهم الموت» بیان ہوا کہ موت آنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کا قبض روح ختم ہوچکا ہوبلکہ یہ قبض روح ختم ہونے سے پہلے ہے ، بیان ہوا کہ ہرانسان چاہیئے مؤمن ہو یا کافر ، مرنے سے چند سیکنڈ پہلے سمجھ جاتا ہے کہ اب وہ مر رہا ہے لہذا سورہ منافقون کی آیت میں فرماتا ہے «فيقول رب لو لا أخرتني» ابھی موت واقع نہیں ہوا ہے لیکن وہ خداسے چاہتا ہے کہ موت کو کچھ مدت کے لئے ٹال دے ۔
تاکہ میں صدقہ دے دوں ، اس کے بعد فرماتا ہے «و اكن من الصالحين» یہ صدقہ کے علاوہ الگ مطلب ہے ، میں چاہتا ہوں کہ صالح ہوجاوں ،صالح یعنی وہ انسان جس کا ایمان اورعمل صحیح ہو ، ابن عباس کی بات کے برخلاف کہ بتارہے تھے یہ آیت صرف زکات سے مخصوص ہے ، نہیں ایسا نہیں ہے ! بلکہ آیت کے ذیل میں ہے «فأصدّق فأكن من الصالحين»اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک الگ عنوان ہے ، اور اس کے بعد والی آیت میں بھی فرماتا ہے
یہاں پر ایک اوربحث یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں توبہ کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا ہے کہ انسان کب توبہ کرے ! البتہ توبہ ایک واجب فوری ہے لیکن اس کا قبول ہونا کسی خاص زمانہ سے مقید نہیں ہے ،جوانی میں توبہ کرے ، بوڑھاپے میں توبہ کرے ، بیماری کی حالت میں توبہ کرے یا تندرستی کی حالت میں توبہ کرے ! توبہ کسی خاص زمانہ سے مقید نہیں ہے ، اس بارے میں ایک آیہ سورہ نساء کی آیت ٨ ١ ہے «وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْساً إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ».
«فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ48ا فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَ» [2] شیخ طوسی[3] نے اس آیت کے ذیل میں یہ فتوا دیا ہے کہ مرتے وقت یا موت کے آثارکو دیکھنے کے بعد کرنے والاتوبہ قبول نہیں ہے ! ہم یہ چاہئتے ہےں کہ کیا سورہ مومنون کی اس آیت سے بھی کیا یہ بات ثابت ہو تی ہے ؟ کیا سورہ منافقون کی آیت سے یہ مطلب استفادہ ہوتا ہے؟ «رب لو لا أخرتني إلي أجل قريب» جب اس کی بات کو سنا نہیں جاتا ہے تو اس کا توبہ بھی قبول نہیں ہوگا ۔
اگر ہم آیہ کریمہ سے یہ استفادہ کرے کہ قبض روح کے بعد وہ «رب ارجعوني لعلّي اعمل صالحاً» بولے گا تو یقینا یہ توبہ کا مقام نہیں ہے ! لیکن ہم نے آیہ کریمہ سے یہ استفادہ کیا کہ جب یہ لوگ موت کے آثار کودیکھتا ہے تو اس وقت پلٹانے کی درخواست کرتا ہے ، ابھی اس نے ملک الموت کو یا قبض روح کرنے والے فرشتے کو دیکھا ہے ، کہ مرنے سے سب اسے دیکھ لیتا ہے ،کیا اس وقت اس کا توبہ قبول ہو گا ؟ شیخ طوسی نے ان آیات سے استفادہ کرتے ہوئے یہ فتوا دیا ہے کہ اس وقت توبہ قبول نہیں ہے ، ہم ان آیات کے ساتھ ان دونوں آیات کو رکھیں اس وقت کیا ہم یہ ثابت کر سکتے ہےں کہ یہ وقت استثناء ہوا ہے ؟ کہ خدااس کے توبہ کو قبول کرتا ہے ، ہمارے پاس کچھ آیات اور روایات ہیں کہ توبہ کے قبول کرنے کے بارے میں کچھ عموم اور اطلاق ہے لیکن اس عموم اور اطلاق سے ایک وقت استثناء ہوا ہے وہ اسی دنیا میں مرنے سے دو تین منٹ پہلے ہے کہ اس وقت توبہ قبول نہیں ہے ۔
و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين
[1] - سورہ منافقون / آیت ١٠
[2] - سورہ مبارکہ غافر آیت ١٤
[3] - تفسیر تبیان :ج٩ص١٠٢
نظری ثبت نشده است .