درس بعد

مومنین پرموت کے وقت ملائکہ نازل ہوتا ہے

درس قبل

مومنین پرموت کے وقت ملائکہ نازل ہوتا ہے

درس بعد

درس قبل

موضوع: قرآن میں معاد


تاریخ جلسه : ١٣٩١/١/٣٠


شماره جلسه : ۱۳

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • علی بن ابراہیم نقل کرتا ہے: «إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا، قال علي ولاية أميرالمؤمنين(ع»(اہل سنت کے تفاسیر میں زیادہ سے زیادہ یہی بیان ہوا ہے کہ اعتقاد اورعمل صالح پراستقامت کرنا ہے لیکن صجیج اعتقاد کیا ہے یہ بیان نہیں ہوا ہےواضح ہے ''ربنااللہ '' کو وہی شخص بول سکتا ہے جو خداوند متعالی کے فرامین پر اعتقاد رکھتا ہو اورخدا کے فرامین میں سے ایک امیر المومنین ع کی ولایت ہے کہ آیہ کریمہ بلاغ اس پردلالت کرتی ہے۔ «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ».

دیگر جلسات

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
  1. : «إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمْ الْمَلَائِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ »اس آیه کریمه کے بارے میں کچھ مطالب بیان ہوئےاس کے ذیل میں کچھ روایات نقل ہیں ہم ابھی اسے بیان کرتے ہیں علی بن ابراہیم نقل کرتا ہے: «إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا، قال علي ولاية أميرالمؤمنين(ع»(اہل سنت کے تفاسیر میں زیادہ سے زیادہ یہی بیان ہوا ہے کہ اعتقاد اورعمل صالح پراستقامت کرنا ہے لیکن صجیج اعتقاد کیا ہے یہ بیان نہیں ہوا ہےواضح ہے ''ربنااللہ '' کو وہی شخص بول سکتا ہے جو خداوند متعالی کے فرامین پر اعتقاد رکھتا ہو اورخدا کے فرامین میں سے ایک امیر المومنین ع کی ولایت ہے کہ آیہ کریمہ بلاغ  اس پردلالت کرتی ہے۔ «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ».
 اگرکوئی زبان سے ''ربنا اللہ ''بولے لیکن امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت پر اعتقادنہیں رکھتا ہو تو وہ اپنے اس ربنااللہ کہنے میں جھوٹا ہے اسے امیر المومنین کی ولایت پر استقامت کرنا چاہیئے یعنی جس کے پاس ولایت ہو اس کے پاس پورا دین ہے اورجس کے پاس ولایت نہیں ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، یہ آیہ کریمہ کہ جسے خدا وند متعالی نے پیغمبر اکرم ص سے فرمایا اگر اسے نہ بتلائے تو گویا رسالت کو ہی انجام نہیں دیا !اس سے ایک مطلب واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس کے پاس ولایت ہو اس کے پاس تمام دین ہے اور جس کے پاس ولایت نہیں اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ جس کے پاس ولایت نہیں ہے اس کی نماز صحیح نہیں ہے اور اس کا روزہ روزہ نہیں ہے اور اس کا حج ،حج نہیں ہے ؟ اس بات کی اصل بنیاد قرآن کریم ہے ، خداوند متعالی نے پیغمبر اکرم ص سے فرمایا ہے ''ان لم تفعل'' اگر اس کام کو انجام نہیں دیا تو گویا خدا کی رسالت کو انجام ہی نہیں  دیا ، یعنی دین کی اب تک جو تبلیغ کی ہے وہ سب کچھ ضایع ہو جائے گا اوران کا کچھ فایدہ نہیں ہے پس جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا دین کامل ہو اور اپنے دین پر استقامت سےرہنا چاہتا ہے تواسے امیرالمومنین کی ولایت پراستقامت کرنا چاہیئے''علی ولایت امیر المومنین '' استقامت کا فرد اکمل ہے یعنی استقامت کے مصادیق میں سے فرد اکمل امیر المومنین کی ولایت پر استقامت کرنا ہے ۔
ساتویں روایت میں محمد بن مسلم امام صادق علیہ السلام سے سوال کرتا ہے«سألت أبا عبدالله(ع) عن قول الله عزوجل إنّ الذين قالوا ربّنا الله ثم استقاموا فقال ابو عبدالله (ع) استقاموا علي الائمة واحداً بعد واحد» اس روایت میں تمام آئمہ پردلالت کرتی ہے یعنی جن لوگوں نے امام کاظم علیہ السلام کے بعد امام رضا علیہ السلام کی امامت کو قبول نہیں کیا اورواقفیہ ہو گئے اورامام موسی بن جعفر پرتوقف کیے اوران کے بعد کے اماموں کو قبول نہیں کیایہ لوگ بھی اس آیت کریمہ میں شامل نہیں ہیں آیہ کریمہ میںفرماتا ہے «استقاموا علي الائمة واحداً بعد واحد».
ایک اور روایت ابی بصیر کی روایت ہے کہ وہ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے  «في قول الله عزوجل إنّ الذين قالوا ربنا ثم استقاموا تتنزل عليهم الملائكة قال: هم الأئمة عليهم السلام و تجري في من استقام من شيعتنا» فرماتا ہے یہ آیہ کریمہ ہمارے شیعوں میں سے جو استقامت کرے ان کے بارے میں ہے ۔
ایک اورروایت میں ابو الجارود امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتا ہے  «إن الذين قالوا ربنا الله، يقول: إستكملوا طاعة الله و طاعة رسوله وولايه آل محمد(ع» فرماتا ہے کہ ربنا اللہ کا معنی ہی یہ ہے کہ خدا اوررسول کی اطاعت کرے اور آل پیغمبر کی ولایت کو قبول کرے لہذا یہ ''ثم استقاموا'' ربنااللہ سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ وہی ہے اور اسی پر استقامت کرنا ہے ۔
بعض تفاسیر میں ''ربنا اللہ '' کو صرف اعتقادی مسائل بتایا ہے اور''استقاموا '' کو مقام عمل بتایا ہے یعنی استقامو ا فی العمل 'ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ! بلکہ ''ربنا اللہ '' میں سب شامل ہے اور''استقاموا'' کا معنی ''ربنا اللہ '' پراعتقاد رکھنا ہے ،کون لوگ خدا کے اپنے رب ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں ؟وہ لوگ جو خدا و رسول کی اطاعت کرتے ہیں اورپیغمبراورآل پیغمبر کی ولایت کو قبول کرتے ہیں اور اس کے بعد اسی پر استقامت کرے ''اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول'' اہلبیت کی ولایت کو قبول کرے اوراسی پر آخرعمر تک باقی رہے ، ہم ''ربنا اللہ '' کو قولی اور''استقاموا'' کو عملی مسئلہ نہیں بتا سکتے بلکہ اس ربنا اللہ میں سب کچھ شامل ہے اسی وجہ سے اس روایت میں فرماتا ہے «قالوا ربّنا الله استكملوا طاعة الله و طاعة رسوله و ولايت آل محمد عليهم السلام ثم استقاموا عليه».
اسی طرح کی کچھ دوسری روایات بھی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ ''ربنا اللہ '' میں امیر المومنین اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت بھی شامل ہے اگر اس آیت کے ذیل میں یہ روایات بھی نہ ہوتیں تو بھی یہ مطلب دوسری آیات سے استفادہ ہوتا کہ اگر کسی کے پاس ولایت نہیں ہے تو اس کے پاس دین نہیں ہے ! جیسا کہ اگر پیغمبر اکرم ص ولایت کو نہیں پہنچاتا تو گویا ان کے ذمہ پرخدا نے جو رسالت رکھا تھا وہ ناتمام تھا ، لہذا اس بارے میں یہ آیات اور روایات بخوبی دلالت کرتیں ہیں ، اس سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ «تتنزل عليهم الملائكة»  یعنی ملائکہ کا نازل ہونا سارے مسلمانوں کے لئے نہیںہے بلکہ یہ تتنزل عليهم الملائكة ألا تخافوا و لا تحزنو»  شیعوں کے لئے ہے اور ان سے مربوط ہے جو امیر المؤمنین اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت پر اعتقاد رکھتے ہوں،شیعہ کے علاوہ کوئی بھی اس میں شامل نہیں ہو سکتے ،پہلے درجہ پر آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں اس کے بعد وہ افراد جو ان کی ولایت پر اعتقاد رکھتے ہوں ۔
ان روایات میں ایک اورمطلب یہ ہے  «تتنزل عليهم الملائكة قال عند الموت، ألا تخافوا و لا تحزنوا و أبشروا بالجنة التي كنتم توعدون نحن اولياءكم في الحياة الدنيا» ملائكه بتاتے ہیں ''نحن نحرسکم من الشیاطین '' ہم نے آپ کوشیطانوں کے وسوسہ سے بچایا ! بعض اولیاء خدا ایسے ہیں کہ اصلاً ان کے ذہنوں میں گناہ کا تصور بھی نہیں آتا ، لیکن بعض ہمیشہ گناہ کے سوچ میں ہوتے ہیں ! ملائکہ انہیں گناہوں سے بچا تے تاکہ مومنین کے دلوں میں شیاطین داخل نہ ہو جائے اور ان کے دلوں میں وسوسہ پیدانہ کرے ۔
اسی بارے میں ایک روایت ہے کہ  «دخل حمران بن أعين علي أبي‌جعفر» حمران کہتا ہے کہ میں امام باقرعلیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اورعرض کیا  «جعلت فداك يبلغنا أنّ الملائكة تنزلوا عليكم» ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ پرملائکہ نازل ہوتے ہیں کیا یہ بات صحیح ہے؟  «قال أي و الله لتنزل علينافرمایا :جی ہاں ! ہم پر فرشتے نازل ہوتے ہیں  «فتطأ فرشنااور اسی بچھونے پر بیٹھتے ہیں ، اس کے بعد آپ نے فرمایا: «أما تقرأ كتاب الله تبارك وتعالى: إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملائكة» کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہے جو لوگ ''ربنا اللہ '' کہتے ہیں اور اسی پر استقامت پیدا کرتے ، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ۔
آئمہ طاہرین علیہم السلام کی استقامت کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے چونکہ یہ حضرات خود استقامت کا محور ہے یعنی اگر دوسرے لوگ ان کی پیروری کرے تو ان میں استقامت پیدا ہوتی ہے ،لہذا یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ موت کے وقت ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں ، لیکن ان کے علاوہ دوسرے مومنین اور شیعیان چونکہ آخر عمر تک انحراف کے خطرہ میں ہے ممکن ہے اسی آخری لحظات میں یہ اعتقاد ہاتھ سے دے دیں لہذا یہ نہیں بتا سکتے کہ ان میں استقامت ہے ، اورجب تک استقامت نہ ہو ان پر ملائکہ نازل نہیں ہوتے !لہذا دنیا میں ملائکہ کا نازل ہونا صرف آئمہ طاہرین علیہم السلام سے مخصوص ہیں اور اگر واقعاً کچھ افراد ہوں جو خدا کے خاص بندوں میں سے ہو اس کے لئے ممکن ہے ہم اس کی نفی نہیں کرتے لیکن آیہ کریمہ اور روایت سے جو چیز استفادہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آئمہ محل نزول ملائکہ ہیں کہ اوپرذکر شدہ روایت میں امام نے فرمایا ملائکہ ہم پر نازل ہوتے ہیں ، اسی بچھونے پر ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں ، ہمیں سلام کرتے ہیں اورہمارے ساتھ باتیں بھی کرتے ہیں ، کیوں ؟اس لئے کہ آئمہ طاہرین علیہم السلام کے ایمان ، ربنا اللہ اور استقامت میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے ، ملائکہ کے نازل ہونے کا شرط ''ربنا اللہ ثم استقاموا'' ہے لیکن آئمہ کے علاوہ دوسروں میں امکان کی نفی نہیں کرتے لیکن عام انسان ان کو دیکھنے اور ان سے بات کرنا یہ بہت ہی مشکل ہے ،شاید ہم آیہ کریمہ سے یہ استفادہ کر سکتے ہیں کہ دنیا میں ملائکہ کا نازل ہونا صر ف آئمہ طاہرین علیہم السلام سے مخصوص ہے اگر کوئی عارف یہ بتائے کہ میں ملائکہ کو دیکھتا ہوں ہم اس سے قبول نہیں کر سکتے چونکہ یہ ''ربنا اللہ ثم استقاموا'' اس میں انتہاء تک نہیں پہنچا ہے لیکن آئمہ میں یہ یقینی ہے لہذا خود انہوں نے فرمایا ہے کہ ملائکہ ہم پر نازل ہوتے ہیں لیکن آئمہ کے علاوہ اگر کوئی ایسی بات بتائے تو اس روایت کے مطابق جو اس آیت کے ذیل میں نقل ہوئی ہے ہم اس سے قبول نہیں کر سکتے ۔
اگر ہمارے زمانہ میں کوئی یہ ادعا کرے کہ میں فرشتوں کو دیکھتا ہوں ہم اس بات کو قبول نہیں کر سکتے اگرچہ ہم نے پہلے پڑھا ہے کہ ملائکہ انسان مؤمن کے مراقب ہیں انہیں شیطانوں سے بچا تے ہیں ان کے دلوں میں وسوسہ داخل ہونے نہیں دیتا ، لیکن یہ انہیں دیکھ لیں یہ ممکن نہیں ہے ۔
اب اگر حضرت موسی علیہ السلام کی ماں یا حضرت مریم کے ملائکہ کو دیکھنے کے بارے میں  قرآن نے جوخبر دی ہے اسے انہی موارد پر اکتفا کرنا چاہیئے ، ان کا فرشتے کو دیکھنا سبب نہیں بنتا کہ آج بھی کوئی عام انسان فرشتے کو دیکھ لیں ،اس آیت میں ایک قانون کلی کو بیان کیا ہے: «إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمْ الْمَلَائِكَةُ». اگر ہماری استقامت ہے تو انشاء اللہ موت کے وقت ظاہر ہو جائے گی توہمارے اوپر ملائکہ کے نازل ہونے کا وقت بھی موت کے وقت ہے لیکن آئمہ طاہرین کی استقامت اسی دنیا میں ثابت اور روشن ہے لہذا اسی دنیا میں ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں ۔
ہماری نظر میں ملائکہ کے نازل ہونے کا ملاک او رمعیار ''ربنا اللہ ثم استقاموا'' ہے اور یہ عام انسانوں میں مرنے سے پہلے ثابت نہیں ہے جس وقت موت آتی ہے اس وقت واضح ہوتا ہے اگریہ ملاک ان میں پایا جائے تو اسی وقت ان پر ملائکہ نازل ہونگے ، ایک روایت میں ہے کہ راوی نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا  : «متي تتنزل عليهم الملائكة بأن لا تخافوا و لا تحزنو»  امام نے جواب میں فرمایا  :''عند الموت و یوم القیامة '' موت کے وقت اور قیامت کے دن ان پرفرشتے نازل ہوتے ہیں ، یہ عام لوگوں کے بارے میں ہے وگرنہ آئمه کے بارے میں خود امام باقر علیہ السلام نے حمران بن اعین سے فرمایا : «لتنزل علينا فتطأ فرشنا ملائکہ ہم پرنازل ہوتے ہیں ۔
و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين


برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .