موضوع: قرآن میں معاد
تاریخ جلسه : ١٣٩١/١/٢١
شماره جلسه : ۱۲
چکیده درس
-
جووگ دنیا ميں خدا کو اپنا رب جانتے ہيں اوراسی اعتقاد پران کی استقامت ہوتی ہے ، موت کے وقت ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہيں،مشہورمفسرین بتاتے ہيں یہ ان کے مرنے کے وقت ہے ، بعض بتاتے ہیں یہ دوسرے مواقع پر بھی ہے جیسے حشر میں روکنے کی تین جگہوں پر بھی ملائکہ نازل ہوتے ہيں :''عند الموت و فی القبر وعند البعث''۔
دیگر جلسات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
«إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمْ الْمَلَائِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ، نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِوَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ''
آیت شریفہ کا اجمالی بیان یہ ہے کہ جولوگ خداوند متعالی پراعتقاد رکھتے ہيں اورواقعی طور پراللہ تعالی وتبارک کو اپنا رب سمجھتے ہیں ،کسی اور چیز کو اپنا رب قرارنہیں دیتےاوراپنے کاموں کے تدابیر کو خدا سے مربوط سمجھتے ہيں ،اوراسی بات پر وہ استقامت رکھتے ہيں ، خدا فرماتا ہے :«تتنزل عليهم الملائكة» ملائکہ ان پرنازل ہوتے ہیں،کہاں پر ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہيں؟ بہت سارے مفسروں نے بتائے ہیں : مرتے وقت ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہيں،یعنی یہ لوگ جو دنیا ميں خدا کو اپنا رب جانتے ہيں اوراسی اعتقاد پران کی استقامت ہوتی ہے ، موت کے وقت ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہيں،مشہورمفسرین بتاتے ہيں یہ ان کے مرنے کے وقت ہے ، بعض بتاتے ہیں یہ دوسرے مواقع پر بھی ہے جیسے حشر میں روکنے کی تین جگہوں پر بھی ملائکہ نازل ہوتے ہيں :''عند الموت و فی القبر وعند البعث'' یہ بہت ہی اہم ہے کہ ان تین جگہوں پر ملائکہ ان کے ساتھ ہیں ۔
آیت کریمہ سے جو چیزاستفادہ ہوتی ہے یہ ہے کہ یہ فرشتے ان پر نازل ہوتے ہيں لیکن اس کے بعد یہ نہیں فرمایا ہے کہ یہ واپس جاتے ہيں ! بلکہ آیت کریمہ کی ظاہر سے یہ استفادہ کرسکتے ہيں کہ خدا وند متعالی فرماتا ہے جن لوگوں نے دنیا ميں''ربنا اللہ '' بتایا ہے اوراسی پر استقامت کیا ہے ، ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہيں اورانہیں کے ساتھ ہوتے ہيں، ان سے کہاجاتا ہے : «ألا تخافوا و لا تحزنوا» ڈرو نہیں اورغمگین نہ ہوں ،خوف اورحزن کے درمیان مختلف فرق بیان کیے ہيں بعض بتاتے ہیں :''الخوف انما یکون من مکروہ متوقع'' خوف آیندہ آنے والے زمانہ میں انسان کے لئے جو نا پسند چیزواقع ہونا ہے اس کے لحاظ سے ہے ، فرشتے ان سے فرماتے ہيں آیندہ کے بارے ميں کوئی خوف نہ کریں یعنی برزخ اور قیامت میں تمہارے لئے کوئی عذاب اورسختی نہیں ہے ، لیکن حزن ''انما یکون من مکروہ واقع وشرلاذم کالسیأات التی یحزنون من اکتسابہا و الخیرات التی یحزنون لفوتہا عنہم فالملائکۃ یقولون الذنوب مغفورۃ والعذاب مصروف عنہم'' اگر دنیا میں کوئی گناہ انجام دیا ہے تو اس لحاظ سے اب یہ غمگین اورحزین ہيں چونکہ اگر کوئی گناہ یا برائی انجام دیا ہے تواب اس کے آثار کے ظاہرہونے کا وقت ہے ، فرشتے ان سے فرماتے ہيں :''لا تخافواولاتحزنوا'' اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خوف آیندہ کی نسبت سے ہے کہ فرشتے ان سے بتاتے ہيں تمہیں کوئی عذاب نہیں ہو گا اورحزن گذشتہ کی نسبت ہے یعنی تمہاری گناہیں مٹ جائی گی اور تمہاری جو گناہیں تھیں وہ بخش دیا گیا ہے ''الذنوب مغفورۃ''.
قابل توجہ بات یہ ہے کہ چونکہ فرشتے ''الا تخافوا ولا تحزنوا'' بتاتے ہيں ، تو یہ مطلق ہے یعنی تمہیں کسی قسم کی پریشانی اورخوف نہیں ہے، اب ہم اگر اس آیت کے مطابق یہ بتائیں کہ فرشتے قبض روح کے وقت آتے ہیں اورانسان سے یہ بتاتے ہيں کہ ''الا تخافوا ولا تحزنوا'' تو اس کا معنی یہ ہے کہ مومن انسان اور وہ انسان جو ''ربنا اللہ ثم استقاموا'' کہتا ہے قبض روح کے وقت اسے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے چونکہ فرشتے ان سے ایسا بول رہا ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہمیں پہلے یہ واضح کرنا پڑے گا کہ ''قالوا ربنا اللہ '' سے مراد واضح ہے کہ لفظی قول مراد نہیں ہے ، یعنی زبان سے ''قالوا ربنا اللہ ''بولے اور آخر تک اس پر باقی رہے کہ اس قولی ''ربنا اللہ ''پر استقامت پیدا کرے ،هرگزیہ مراد نہیں ہے بلکہ اس ''قالوا ربنا '' سے مراد ''ثم استقاموا'' کے قرینہ کے مطابق ''ان الذین قالوا ربنا اللہ '' یعنی ''اعتقد بربوبیۃ اللہ '' قالوا صرف زبانی نہیں ہے ،بلکہ یقین کامل اور معرفت تام رکھنا مراد ہے ، یقین رکھتا ہے کہ اللہ ربّ ہے.
ربوبیت: اس کا بہت ہی وسیع معنی ہے ، یہ بولنے کے بعد اس اعتقاد پر استقامت بھی پیدا کرنا ہے یعنی اعتقاد اورعمل دونوں ميں استقامت پيدا کرنا ہے ،استقامت صرف اعتقاد ميں نہیں ہے ، اگر کوئی کسی اعتقاد پراوراسی اعتقاد کے مطابق عمل کرنے پر پایدار ہو تو اسے استقامت دکھانا کہتے ہيں ورگرنہ اگر صرف اعتقاد ميں استقامت ہو تو اسے استقامت کرنا نہیں بتاتے ، استقامت کا معنی ہے ''لا یمیل الی جانب الانحراف'' یعنی انسان صراط مستقیم سے نکل نہ جائے ، یعنی یہ انسان ایسا انسان تھا کہ پوری زندگی اس نے اعتقاد اورعمل کے لحاظ سے صراط مستقیم پررہا ہے ، واجبات کو انجام دیا ہے اور محرمات کو ترک کیا ہے ، ایک سکینڈ کے لئے بھی اس نے کسی کو خدا کا شریک قرار نہیں دیا ہے ، اعتقادات میں کوئی مشکل در پیش نہیں آیا ہے ، باطل فرقوں اور گروہوں کے سامنے پائیداری سے اسقامت کیا ہے ، واقعاً ایمان اورعمل صالح ميں خدا کے رضاپر استقامت دکھایا ہے ، اگرکوئی انسان چالیس سال تک خدا کی پرستش کرے اور نماز شب بھی پڑھنے والا ہو اور اس کے بعد خدا نہ کرے منحرف ہو جائے ، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، اس کے تمام اعمال حبط(ضائع) ہو جاتے ہیں ! آیت کریمہ میں جو '' استقاموا'' ہے اس کا معنی ہے یہ استقاموا ''الی آخر عمرہ استقاموا'' وگرنہ اگر کوئی انسان عمر کے آخری ایک گھنٹہ تک استقامت دکھائے اور آخری ایک گھنٹہ ميں استقامت پر نہ رہے !اعتقاد اورعمل ميں استقامت دکھانا آخری سکینڈ تک کے لئے ہونا چاہئیے اب اگر کوئی انسان اورمومن ایمان اورعمل صالح پر استقامت کرے اس کا نتیجہ موت کے بعد اور موت کے وقت سے شروع ہوتا ہے ، اس پر ملائکہ نازل ہوتے ہيں ۔
جی ہاں !اس دنیا ميں بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں،چونکہ اس آیه کریمہ میں فرماتے ہیں،ملائکہ نازل ہوتے ہیں اورکہتے ہیں :خوف مت کھاؤ،پریشان نہ ہوں«و ابشروا بالجنة التي كنتم توعدون» جس بہشت کی بشارت دی گئی ہے اس کی بشارت ہو«نحن اولياءكم في الحياة الدنيا و في الآخرة» یعنی دنیا میں ہم تمہارے ساتھ تھے ، ہم دنیا میں تمہارے مراقب تھے ، اب جب عالم قبر شروع ہوئی ہے تو ہم یہاں بھی تمہارے ساتھ ہیں اورآخرت تک ہم تمہارے ساتھ ہوں گے ، اوراس دنیا میں ملائکہ مومن انسان کو خطروں سے بچانے ، اچھے کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ہوتے ہیں جو انہیں دعا اوراستغفار کرتے ہیں ، اور ان کی یہ دعا اوراستغفار مومن کے اعتقاد اورعمل صالح میں استقامت کرنے کا سبب ہوتا ہے ،ا نسان تو ان ملائکوں کو نہیں دیکھ پا تا لیکن ملائکہ ان سے بولتے ہیں : «نحن اولياءكم في الحياة الدنيا» اس وقت یہ ایک واضح بات ہے کہ اسی دنیا ميں ملائکہ بشر کے ارواح میں اثرپزیر ہے ، بہت سارے سچے خواب ملائکہ کے اسی تاثیر کی وجہ سے ہے ، اور بہت سے کاموں ميں کامیابی بھی ملائکہ کے اسی تاثیر کی وجہ سے ہے ، اگر نماز تہجد ، نیک کاموں اور خدمت خلق کی توفیق ہوتی ہے تو انہیں ملائکہ کے برکت سے ہے کہ خداوند متعالی نے اس مومن انسان پران فرشتوں کو مامورکرتا ہے تا کہ اس کی مدد کرے ، اس بارے میں علامہ طباطائی کی ایک تعبیر ہے ، فرماتے ہیں«إنّ المراد» يعني ملائكه جو کہتے ہیں «نحن اولياءكم في الحياة الدنيا و في الآخرة المراد ولايتهم لهم بالتسديد و التأييد» فرشتے اس انسان کی تائید کرتے ہیں ،ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی انسان کو بہت ساری توفیقات حاصل ہوتی ہیں ، پچاس ساٹھ سال ميں قرآن کریم کا تفسیر لکھ لیتا ہے ، فقہ کا ایک دور لکھ لیتا ہے ، کتنے سارے طلاب کی تربیت کرتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ان سب کاموں کو خود انسان کر لیں بلکہ فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں ،اگر کسی انسان کوہرروز نمازجماعت کی توفیق حاصل ہے یہ فرشتے کی مدد کی وجہ سے ہے ، یہ اس کے لئے دعا کرتے ہیں ،مگرطالب علم کے بارے میں ہم نہیں پڑھتے ہيں کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے نکلتا ہے ، فرشتے اس کے نیچے اپنے بالوں کو بچھاتا ہے ،اور اس کے لئے استغفار کرتا ہے اوریہ کام اس کےدوبارہ گھر واپس آنے تک جاری رہتا ہے ۔
مرحوم علامہ فرماتا ہے : «فإن الملائكة المسددين هم المخصوصون بأهل ولايت الله» یہ ولایت خاص انسان مومن سے مخصوص ہے ، اس کے بعد فرماتاہے البتہ فرشتے تمام انسانوں کا محافظ ہے ، رزق ، حرزاور اجال کے فرشتوں کے ساتھ ہونے ميں مؤمن اور کافر ميں کوئی فرق نہیں ہے! «و أما ملائكة الحرص و موكل الارزاق و الآجال و مشتركون بين المؤمن و الكافر» یہ فرشتے مومن اور کافر سب کے لئے ہے لیکن مومن کے مخصوص فرشتے بھی ہيں جو اس دنیا میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں اورجب قبض روح ہوتا ہے تو اس وقت بھی یہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اوراس سے کہے گا: پریشان اورغمگین نہ ہو اورآسودہ خیال رہو تم بہشتی ہو اور جو وعدہ تم سے کیا گیا ہے وہاں تک پہنچ جاؤ گے ۔
دنیا ميں انسان اس چیز کی طرف متوجہ نہیں ہے ، ایک طرف سے فرشتے چاہتے ہیں اس انسان کو خدا کی طرف لے جا ئے اور دوسری طرف سے شیاطین اسے گمراہ کرنا چاہتا ہے ،شیطانوں اورفرشتوں کے درمیان ایک مقابلہ ہے ، فرشتے کوشش کرتے ہیں انسان خدا اور ہدایت کی طرف جائے ، اور شیاطین کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے گمراہ کرے ، اس بارے ميں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت نقل ہے «لو لا أنّ الشياطين يهومون علي قلوب بني آدم لنظروا إلي ملكوت السماوات» اگر شیاطین برے الہامات کو بنی آدم کے دلوں ميں ڈال نہ دیتے ، اسے دنیا طلبی کے طرف لے کر نہیں جاتے اس کے دل ميں مال ودولت کی محبت کو نه ڈالتے ، مقام پرستی اور شہرت پرستی کی طرف نہیں لے جاتے ،تو یہ انسان ملکوت آسمان کو دیکھ لیتا ۔
«نحن اولياءكم في الحياة الدنيا» یعنی دنیا میں یہ فرشتے پوری طرح انسان کی حفاظت کرتا ہے اورمومنین کے ارواح اورمکاشفات ميں موثر ہیں ،جو الہامات ہوتے ہيں ان میں بھی موثر ہیں اسی طرح شیاطین بھی ارواح میں وسوسہ ڈال کرموثر ہوتے ہیں قابل توجہ بات یہ ہے کہ ملائکہ الہی کی یہ ولایت مرنے کے بعد تک بھی باقی رہتی ہے اورقیامت تک باقی رہے گا بعض مفسرین کے تعبیر کے مطابق ملائکہ الہی کے مومن کے روح پر ولایت مرنے کے بعد بہت زیادہ قوی ہوتا ہے ،یہ بہت ہم اہم بات ہے ، دنیا میں انسان جسمانی اور مادی چیزوں سے وابستہ ہوتے ہیں لہذا فرشتے کچھ حد تک اس مومن میں اثر انداز ہو سکتے ہیں لیکن جب انسان اس جسمانی خواہشات سے جدا ہوتے ہیں تو اس میں ملائکہ کا اثر بہت زیادہ قوی ہو جاتا ہے ، دوسرے الفاظ میں ہم یوں بتا سکتے ہیں کہ جب انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے جسمانی خواہشات ختم ہوجاتی ہیں ،لہذا یہ خود ملائکہ کے جنس میں سے ہوجاتا ہے اور جب ملائکہ ہی کے جنس میں سے ہوجاتا ہے تو ان کے اثرات بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔
پس یہ آیت شریفہ جو دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی انسان دنیا میں خدا کے ربوبیت کا معتقد ہوں اور قولی ،عملی اور اعتقادی لحاظ سے استقامت رکھتا ہو اس وقت ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں «تتنزل عليهم الملائكة» کہ جملہ «نحن اولياءكم في الحياة الدنيا» قرینہ ہے ''تتنزل'' ملائکہ کا نازل ہونا ابھی نہیں ہے بلکہ یہ پہلے سے تھا لیکن ابھی بتایا جارہا ہے اور اسے خبر دی جارہی ہے کہ ہم دنیا میں تیرے محافظ تھے اور ابھی جب اس دنیا سے جار ہے ہو تو یہاں بھی ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔
یہ بتانا چاہتا ہوں «ألا تخافوا و لا تحزنوا» کے اطلاق سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ مومن انسان کا قبض روح بہت ہی آسان ہے ،چونکہ اگر قبض روح مشکل ہو تو اسے خوف ہونا چاہئے ، مگر ہم یہ بتائے کہ یہ «ألا تخافوا و لا تحزنوا» قبض روح ہونے کے بعد کے لئے ہے یہ کچھ حدتک آیت کریمہ کے ظاہر کا خلاف ہے ، اکثر مفسرین کہتے ہیں :''تتنزل'' یعنی ''حین الموت'' اور اس کے بعد کہتے ہیں :''و فی القبر و فی القیامت ''
اس آیت کریمہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ فرماتا ہے «لا تخافوا و لا تحزنوا» اس سے ہم نے یہ استفادہ کیا یہ مطلق ہے تو اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قبض روح کے وقت بھی ملائکہ موجود ہیں ، اور یہ بات ہم بتا چکے ہیں کہ قبض روح کبھی ایک فرشتے کے ذریعے ہے اور کبھی چند فرشتوں کے ذریعہ ،مومن کی قبض روح کے لئے چند فرشتے آتے ہیں تو ان سب کا آنا انسان مومن کے آرامش کا سبب بنتا ہے جب وہ دیکھتا ہے چند فرشتے تبسم اور خوشحال چہروں کے ساتھ آتے ہیں تو یہ انسان مومن کے دل میں آرامش پیدا کرتا ہے آیت میں فرماتا ہے : «تتنزل عليهم الملائكة» فرشتے آتے ہیں اور اس کا قبض روح بہت آسان ہو جاتا ہے ۔
ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے «وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ» کیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اور قرآن کریم نے پہلے انسان مؤمن کو بہشت کی بشارت نہیں ہے ؟ کیونکہ بشارت وہاں بولاجاتا ہے کہ ایک نئی اچھی خبر سے انسان کو باخبر بنائے ، ابھی بچہ کی تولد کی خبر دے یا کسی عزیز کے سفر سے آنے کی خبر دے تو یہ بشارت ہے لیکن یہ اگر آپ کو پہلے سے پتہ ہو تو دوبارہ بتانا بشارت نہیں ہے !پس اس آیت کریمہ میں کیسے فرمایا ہے «وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ» کیونکہ یہ خبر تو پہلے سے مومن کو دیا ہوا ہے ، جواب یہ ہے یہاں پر ''ابشروا بالجنۃ '' صرف خبر نہیں ہے ،بلکہ خود بہشت بشارت ہے اور کہتے ہیں بہشت کو دیکھ لو ، قبض روح کے وقت فرشتے ان سے یہ نہیں کہتے کہ تم بہشتی ہو ! یہ نہیں کہا جاتا کہ تمہیں بہشت دی جائے گی ، بلکہ یہ کہا جاتا ہے جس بہشت کا وعدہ دیا تھا اسے دیکھ لو ، لہذا بعض روایات میں ہے جس بہشت کی وعدہ دیا گیا تھا اسے دیکھ لیتا ہے البتہ اس میں داخل تو نہیں ہوتے! یہاں پر تین مختلف عناوین ہیں :
ایک بہشت کی بشارت ہے کہ یہ کہتے ہیں تم بہشتی ہو ،دوسرا خود بہشت کو دیکھنا ہے اورتیسرا بہشت میں داخل ہونا ہے ،بہشت اورجہنم میں داخل ہونا قیامت کے دن ہے،لیکن بہشت کو دیکھنا عالم برزخ میں ہے،عالم برزخ میں مومن کو بہشت ميں اس کی جگہ کو دیکھایا جاتا ہے اور اسی خوشی میں قیامت تک عالم برزخ ميں رہتا ہے چونکہ بہشت ميں اپنی جگہ کو دیکھ لیتا ہے ، یہ ہے ابشروا کے بارے ميں چند مطالب ۔
وصلی اللہ علی محمدو آلہ الطاہرین
آیت شریفہ کا اجمالی بیان یہ ہے کہ جولوگ خداوند متعالی پراعتقاد رکھتے ہيں اورواقعی طور پراللہ تعالی وتبارک کو اپنا رب سمجھتے ہیں ،کسی اور چیز کو اپنا رب قرارنہیں دیتےاوراپنے کاموں کے تدابیر کو خدا سے مربوط سمجھتے ہيں ،اوراسی بات پر وہ استقامت رکھتے ہيں ، خدا فرماتا ہے :«تتنزل عليهم الملائكة» ملائکہ ان پرنازل ہوتے ہیں،کہاں پر ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہيں؟ بہت سارے مفسروں نے بتائے ہیں : مرتے وقت ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہيں،یعنی یہ لوگ جو دنیا ميں خدا کو اپنا رب جانتے ہيں اوراسی اعتقاد پران کی استقامت ہوتی ہے ، موت کے وقت ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہيں،مشہورمفسرین بتاتے ہيں یہ ان کے مرنے کے وقت ہے ، بعض بتاتے ہیں یہ دوسرے مواقع پر بھی ہے جیسے حشر میں روکنے کی تین جگہوں پر بھی ملائکہ نازل ہوتے ہيں :''عند الموت و فی القبر وعند البعث'' یہ بہت ہی اہم ہے کہ ان تین جگہوں پر ملائکہ ان کے ساتھ ہیں ۔
آیت کریمہ سے جو چیزاستفادہ ہوتی ہے یہ ہے کہ یہ فرشتے ان پر نازل ہوتے ہيں لیکن اس کے بعد یہ نہیں فرمایا ہے کہ یہ واپس جاتے ہيں ! بلکہ آیت کریمہ کی ظاہر سے یہ استفادہ کرسکتے ہيں کہ خدا وند متعالی فرماتا ہے جن لوگوں نے دنیا ميں''ربنا اللہ '' بتایا ہے اوراسی پر استقامت کیا ہے ، ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہيں اورانہیں کے ساتھ ہوتے ہيں، ان سے کہاجاتا ہے : «ألا تخافوا و لا تحزنوا» ڈرو نہیں اورغمگین نہ ہوں ،خوف اورحزن کے درمیان مختلف فرق بیان کیے ہيں بعض بتاتے ہیں :''الخوف انما یکون من مکروہ متوقع'' خوف آیندہ آنے والے زمانہ میں انسان کے لئے جو نا پسند چیزواقع ہونا ہے اس کے لحاظ سے ہے ، فرشتے ان سے فرماتے ہيں آیندہ کے بارے ميں کوئی خوف نہ کریں یعنی برزخ اور قیامت میں تمہارے لئے کوئی عذاب اورسختی نہیں ہے ، لیکن حزن ''انما یکون من مکروہ واقع وشرلاذم کالسیأات التی یحزنون من اکتسابہا و الخیرات التی یحزنون لفوتہا عنہم فالملائکۃ یقولون الذنوب مغفورۃ والعذاب مصروف عنہم'' اگر دنیا میں کوئی گناہ انجام دیا ہے تو اس لحاظ سے اب یہ غمگین اورحزین ہيں چونکہ اگر کوئی گناہ یا برائی انجام دیا ہے تواب اس کے آثار کے ظاہرہونے کا وقت ہے ، فرشتے ان سے فرماتے ہيں :''لا تخافواولاتحزنوا'' اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خوف آیندہ کی نسبت سے ہے کہ فرشتے ان سے بتاتے ہيں تمہیں کوئی عذاب نہیں ہو گا اورحزن گذشتہ کی نسبت ہے یعنی تمہاری گناہیں مٹ جائی گی اور تمہاری جو گناہیں تھیں وہ بخش دیا گیا ہے ''الذنوب مغفورۃ''.
قابل توجہ بات یہ ہے کہ چونکہ فرشتے ''الا تخافوا ولا تحزنوا'' بتاتے ہيں ، تو یہ مطلق ہے یعنی تمہیں کسی قسم کی پریشانی اورخوف نہیں ہے، اب ہم اگر اس آیت کے مطابق یہ بتائیں کہ فرشتے قبض روح کے وقت آتے ہیں اورانسان سے یہ بتاتے ہيں کہ ''الا تخافوا ولا تحزنوا'' تو اس کا معنی یہ ہے کہ مومن انسان اور وہ انسان جو ''ربنا اللہ ثم استقاموا'' کہتا ہے قبض روح کے وقت اسے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے چونکہ فرشتے ان سے ایسا بول رہا ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہمیں پہلے یہ واضح کرنا پڑے گا کہ ''قالوا ربنا اللہ '' سے مراد واضح ہے کہ لفظی قول مراد نہیں ہے ، یعنی زبان سے ''قالوا ربنا اللہ ''بولے اور آخر تک اس پر باقی رہے کہ اس قولی ''ربنا اللہ ''پر استقامت پیدا کرے ،هرگزیہ مراد نہیں ہے بلکہ اس ''قالوا ربنا '' سے مراد ''ثم استقاموا'' کے قرینہ کے مطابق ''ان الذین قالوا ربنا اللہ '' یعنی ''اعتقد بربوبیۃ اللہ '' قالوا صرف زبانی نہیں ہے ،بلکہ یقین کامل اور معرفت تام رکھنا مراد ہے ، یقین رکھتا ہے کہ اللہ ربّ ہے.
ربوبیت: اس کا بہت ہی وسیع معنی ہے ، یہ بولنے کے بعد اس اعتقاد پر استقامت بھی پیدا کرنا ہے یعنی اعتقاد اورعمل دونوں ميں استقامت پيدا کرنا ہے ،استقامت صرف اعتقاد ميں نہیں ہے ، اگر کوئی کسی اعتقاد پراوراسی اعتقاد کے مطابق عمل کرنے پر پایدار ہو تو اسے استقامت دکھانا کہتے ہيں ورگرنہ اگر صرف اعتقاد ميں استقامت ہو تو اسے استقامت کرنا نہیں بتاتے ، استقامت کا معنی ہے ''لا یمیل الی جانب الانحراف'' یعنی انسان صراط مستقیم سے نکل نہ جائے ، یعنی یہ انسان ایسا انسان تھا کہ پوری زندگی اس نے اعتقاد اورعمل کے لحاظ سے صراط مستقیم پررہا ہے ، واجبات کو انجام دیا ہے اور محرمات کو ترک کیا ہے ، ایک سکینڈ کے لئے بھی اس نے کسی کو خدا کا شریک قرار نہیں دیا ہے ، اعتقادات میں کوئی مشکل در پیش نہیں آیا ہے ، باطل فرقوں اور گروہوں کے سامنے پائیداری سے اسقامت کیا ہے ، واقعاً ایمان اورعمل صالح ميں خدا کے رضاپر استقامت دکھایا ہے ، اگرکوئی انسان چالیس سال تک خدا کی پرستش کرے اور نماز شب بھی پڑھنے والا ہو اور اس کے بعد خدا نہ کرے منحرف ہو جائے ، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، اس کے تمام اعمال حبط(ضائع) ہو جاتے ہیں ! آیت کریمہ میں جو '' استقاموا'' ہے اس کا معنی ہے یہ استقاموا ''الی آخر عمرہ استقاموا'' وگرنہ اگر کوئی انسان عمر کے آخری ایک گھنٹہ تک استقامت دکھائے اور آخری ایک گھنٹہ ميں استقامت پر نہ رہے !اعتقاد اورعمل ميں استقامت دکھانا آخری سکینڈ تک کے لئے ہونا چاہئیے اب اگر کوئی انسان اورمومن ایمان اورعمل صالح پر استقامت کرے اس کا نتیجہ موت کے بعد اور موت کے وقت سے شروع ہوتا ہے ، اس پر ملائکہ نازل ہوتے ہيں ۔
جی ہاں !اس دنیا ميں بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں،چونکہ اس آیه کریمہ میں فرماتے ہیں،ملائکہ نازل ہوتے ہیں اورکہتے ہیں :خوف مت کھاؤ،پریشان نہ ہوں«و ابشروا بالجنة التي كنتم توعدون» جس بہشت کی بشارت دی گئی ہے اس کی بشارت ہو«نحن اولياءكم في الحياة الدنيا و في الآخرة» یعنی دنیا میں ہم تمہارے ساتھ تھے ، ہم دنیا میں تمہارے مراقب تھے ، اب جب عالم قبر شروع ہوئی ہے تو ہم یہاں بھی تمہارے ساتھ ہیں اورآخرت تک ہم تمہارے ساتھ ہوں گے ، اوراس دنیا میں ملائکہ مومن انسان کو خطروں سے بچانے ، اچھے کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ہوتے ہیں جو انہیں دعا اوراستغفار کرتے ہیں ، اور ان کی یہ دعا اوراستغفار مومن کے اعتقاد اورعمل صالح میں استقامت کرنے کا سبب ہوتا ہے ،ا نسان تو ان ملائکوں کو نہیں دیکھ پا تا لیکن ملائکہ ان سے بولتے ہیں : «نحن اولياءكم في الحياة الدنيا» اس وقت یہ ایک واضح بات ہے کہ اسی دنیا ميں ملائکہ بشر کے ارواح میں اثرپزیر ہے ، بہت سارے سچے خواب ملائکہ کے اسی تاثیر کی وجہ سے ہے ، اور بہت سے کاموں ميں کامیابی بھی ملائکہ کے اسی تاثیر کی وجہ سے ہے ، اگر نماز تہجد ، نیک کاموں اور خدمت خلق کی توفیق ہوتی ہے تو انہیں ملائکہ کے برکت سے ہے کہ خداوند متعالی نے اس مومن انسان پران فرشتوں کو مامورکرتا ہے تا کہ اس کی مدد کرے ، اس بارے میں علامہ طباطائی کی ایک تعبیر ہے ، فرماتے ہیں«إنّ المراد» يعني ملائكه جو کہتے ہیں «نحن اولياءكم في الحياة الدنيا و في الآخرة المراد ولايتهم لهم بالتسديد و التأييد» فرشتے اس انسان کی تائید کرتے ہیں ،ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی انسان کو بہت ساری توفیقات حاصل ہوتی ہیں ، پچاس ساٹھ سال ميں قرآن کریم کا تفسیر لکھ لیتا ہے ، فقہ کا ایک دور لکھ لیتا ہے ، کتنے سارے طلاب کی تربیت کرتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ان سب کاموں کو خود انسان کر لیں بلکہ فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں ،اگر کسی انسان کوہرروز نمازجماعت کی توفیق حاصل ہے یہ فرشتے کی مدد کی وجہ سے ہے ، یہ اس کے لئے دعا کرتے ہیں ،مگرطالب علم کے بارے میں ہم نہیں پڑھتے ہيں کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے نکلتا ہے ، فرشتے اس کے نیچے اپنے بالوں کو بچھاتا ہے ،اور اس کے لئے استغفار کرتا ہے اوریہ کام اس کےدوبارہ گھر واپس آنے تک جاری رہتا ہے ۔
مرحوم علامہ فرماتا ہے : «فإن الملائكة المسددين هم المخصوصون بأهل ولايت الله» یہ ولایت خاص انسان مومن سے مخصوص ہے ، اس کے بعد فرماتاہے البتہ فرشتے تمام انسانوں کا محافظ ہے ، رزق ، حرزاور اجال کے فرشتوں کے ساتھ ہونے ميں مؤمن اور کافر ميں کوئی فرق نہیں ہے! «و أما ملائكة الحرص و موكل الارزاق و الآجال و مشتركون بين المؤمن و الكافر» یہ فرشتے مومن اور کافر سب کے لئے ہے لیکن مومن کے مخصوص فرشتے بھی ہيں جو اس دنیا میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں اورجب قبض روح ہوتا ہے تو اس وقت بھی یہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اوراس سے کہے گا: پریشان اورغمگین نہ ہو اورآسودہ خیال رہو تم بہشتی ہو اور جو وعدہ تم سے کیا گیا ہے وہاں تک پہنچ جاؤ گے ۔
دنیا ميں انسان اس چیز کی طرف متوجہ نہیں ہے ، ایک طرف سے فرشتے چاہتے ہیں اس انسان کو خدا کی طرف لے جا ئے اور دوسری طرف سے شیاطین اسے گمراہ کرنا چاہتا ہے ،شیطانوں اورفرشتوں کے درمیان ایک مقابلہ ہے ، فرشتے کوشش کرتے ہیں انسان خدا اور ہدایت کی طرف جائے ، اور شیاطین کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے گمراہ کرے ، اس بارے ميں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت نقل ہے «لو لا أنّ الشياطين يهومون علي قلوب بني آدم لنظروا إلي ملكوت السماوات» اگر شیاطین برے الہامات کو بنی آدم کے دلوں ميں ڈال نہ دیتے ، اسے دنیا طلبی کے طرف لے کر نہیں جاتے اس کے دل ميں مال ودولت کی محبت کو نه ڈالتے ، مقام پرستی اور شہرت پرستی کی طرف نہیں لے جاتے ،تو یہ انسان ملکوت آسمان کو دیکھ لیتا ۔
«نحن اولياءكم في الحياة الدنيا» یعنی دنیا میں یہ فرشتے پوری طرح انسان کی حفاظت کرتا ہے اورمومنین کے ارواح اورمکاشفات ميں موثر ہیں ،جو الہامات ہوتے ہيں ان میں بھی موثر ہیں اسی طرح شیاطین بھی ارواح میں وسوسہ ڈال کرموثر ہوتے ہیں قابل توجہ بات یہ ہے کہ ملائکہ الہی کی یہ ولایت مرنے کے بعد تک بھی باقی رہتی ہے اورقیامت تک باقی رہے گا بعض مفسرین کے تعبیر کے مطابق ملائکہ الہی کے مومن کے روح پر ولایت مرنے کے بعد بہت زیادہ قوی ہوتا ہے ،یہ بہت ہم اہم بات ہے ، دنیا میں انسان جسمانی اور مادی چیزوں سے وابستہ ہوتے ہیں لہذا فرشتے کچھ حد تک اس مومن میں اثر انداز ہو سکتے ہیں لیکن جب انسان اس جسمانی خواہشات سے جدا ہوتے ہیں تو اس میں ملائکہ کا اثر بہت زیادہ قوی ہو جاتا ہے ، دوسرے الفاظ میں ہم یوں بتا سکتے ہیں کہ جب انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے جسمانی خواہشات ختم ہوجاتی ہیں ،لہذا یہ خود ملائکہ کے جنس میں سے ہوجاتا ہے اور جب ملائکہ ہی کے جنس میں سے ہوجاتا ہے تو ان کے اثرات بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔
پس یہ آیت شریفہ جو دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی انسان دنیا میں خدا کے ربوبیت کا معتقد ہوں اور قولی ،عملی اور اعتقادی لحاظ سے استقامت رکھتا ہو اس وقت ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں «تتنزل عليهم الملائكة» کہ جملہ «نحن اولياءكم في الحياة الدنيا» قرینہ ہے ''تتنزل'' ملائکہ کا نازل ہونا ابھی نہیں ہے بلکہ یہ پہلے سے تھا لیکن ابھی بتایا جارہا ہے اور اسے خبر دی جارہی ہے کہ ہم دنیا میں تیرے محافظ تھے اور ابھی جب اس دنیا سے جار ہے ہو تو یہاں بھی ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔
یہ بتانا چاہتا ہوں «ألا تخافوا و لا تحزنوا» کے اطلاق سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ مومن انسان کا قبض روح بہت ہی آسان ہے ،چونکہ اگر قبض روح مشکل ہو تو اسے خوف ہونا چاہئے ، مگر ہم یہ بتائے کہ یہ «ألا تخافوا و لا تحزنوا» قبض روح ہونے کے بعد کے لئے ہے یہ کچھ حدتک آیت کریمہ کے ظاہر کا خلاف ہے ، اکثر مفسرین کہتے ہیں :''تتنزل'' یعنی ''حین الموت'' اور اس کے بعد کہتے ہیں :''و فی القبر و فی القیامت ''
اس آیت کریمہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ فرماتا ہے «لا تخافوا و لا تحزنوا» اس سے ہم نے یہ استفادہ کیا یہ مطلق ہے تو اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قبض روح کے وقت بھی ملائکہ موجود ہیں ، اور یہ بات ہم بتا چکے ہیں کہ قبض روح کبھی ایک فرشتے کے ذریعے ہے اور کبھی چند فرشتوں کے ذریعہ ،مومن کی قبض روح کے لئے چند فرشتے آتے ہیں تو ان سب کا آنا انسان مومن کے آرامش کا سبب بنتا ہے جب وہ دیکھتا ہے چند فرشتے تبسم اور خوشحال چہروں کے ساتھ آتے ہیں تو یہ انسان مومن کے دل میں آرامش پیدا کرتا ہے آیت میں فرماتا ہے : «تتنزل عليهم الملائكة» فرشتے آتے ہیں اور اس کا قبض روح بہت آسان ہو جاتا ہے ۔
ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے «وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ» کیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اور قرآن کریم نے پہلے انسان مؤمن کو بہشت کی بشارت نہیں ہے ؟ کیونکہ بشارت وہاں بولاجاتا ہے کہ ایک نئی اچھی خبر سے انسان کو باخبر بنائے ، ابھی بچہ کی تولد کی خبر دے یا کسی عزیز کے سفر سے آنے کی خبر دے تو یہ بشارت ہے لیکن یہ اگر آپ کو پہلے سے پتہ ہو تو دوبارہ بتانا بشارت نہیں ہے !پس اس آیت کریمہ میں کیسے فرمایا ہے «وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ» کیونکہ یہ خبر تو پہلے سے مومن کو دیا ہوا ہے ، جواب یہ ہے یہاں پر ''ابشروا بالجنۃ '' صرف خبر نہیں ہے ،بلکہ خود بہشت بشارت ہے اور کہتے ہیں بہشت کو دیکھ لو ، قبض روح کے وقت فرشتے ان سے یہ نہیں کہتے کہ تم بہشتی ہو ! یہ نہیں کہا جاتا کہ تمہیں بہشت دی جائے گی ، بلکہ یہ کہا جاتا ہے جس بہشت کا وعدہ دیا تھا اسے دیکھ لو ، لہذا بعض روایات میں ہے جس بہشت کی وعدہ دیا گیا تھا اسے دیکھ لیتا ہے البتہ اس میں داخل تو نہیں ہوتے! یہاں پر تین مختلف عناوین ہیں :
ایک بہشت کی بشارت ہے کہ یہ کہتے ہیں تم بہشتی ہو ،دوسرا خود بہشت کو دیکھنا ہے اورتیسرا بہشت میں داخل ہونا ہے ،بہشت اورجہنم میں داخل ہونا قیامت کے دن ہے،لیکن بہشت کو دیکھنا عالم برزخ میں ہے،عالم برزخ میں مومن کو بہشت ميں اس کی جگہ کو دیکھایا جاتا ہے اور اسی خوشی میں قیامت تک عالم برزخ ميں رہتا ہے چونکہ بہشت ميں اپنی جگہ کو دیکھ لیتا ہے ، یہ ہے ابشروا کے بارے ميں چند مطالب ۔
وصلی اللہ علی محمدو آلہ الطاہرین
نظری ثبت نشده است .