موضوع: اخلاقی دروس
تاریخ جلسه : ١٣٩٠/٦/٣٠
شماره جلسه : ۱
-
اما م سجادعلیه السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں :''خف الله تعالی لقدرته عليک و استحی منه لقربه منک [2]''اس فرمان میں دو مہم جملے ذکر ہوئے ہیں ؛ ایک ''خدا سے خوف'' اور دوسرا ''خدا وند تبارک و تعالیٰ کی نسبت شرم وحیا کرنا''
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
خوف خدا[1]اما م سجادعلیه السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں :''خف الله تعالی لقدرته عليک و استحی منه لقربه منک [2]''اس فرمان میں دو مہم جملے ذکر ہوئے ہیں ؛ ایک ''خدا سے خوف'' اور دوسرا ''خدا وند تبارک و تعالیٰ کی نسبت شرم وحیا کرنا''
آپ(ع) فرماتے ہیں : ''خدا سے ڈرو ''؟ کیوں "لقدرته عليک '' ہم ایک دفعہ خدا سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہم اس کو آیندہ پر چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں : کچھ مدت کے بعد اس دنیا سے چلا جانا ہے ، ہمیں مرنا ہے ، قیامت ہے ، اگر وہاں پر شفاعت نہ ہو تو عذاب اور جہنم میں گرفتار ہوں گے ، ہماری خوف کی وجہ ،آیندہ ہے ، قیامت ہے ، اخروی عذاب ہے ۔
لیکن امام علیه السلامکے اس فرمان سے جو چیز میں استفادہ کرتا ہوں وه یہ ہے کہ حضرت یہ فرمانا چاہتا ہے ، آیندہ کی بات نہیں ہے ، بلکہ خدا چونکہ تم پر قدرت رکھتا ہے لہذا اس سے ڈرو، یعنی ہم اس بات کے متوجہ ہوں کہ ہماری تمام حرکات و سکنات : بولنا،دیکھنا، لکھنا،سوچنا،یہ سب خدا کی قدرت میں ہے ، اگر وہ چاہئے ، ایک سیکنڈبلکہ ایک سیکنڈ سے کم مدت میں ان سب چیزوں کو انسان سے لے لیتا ہے ، انسان کبھی یہ سوچتا ہے کہ اگر خدا انسان سے عقل کو لے لے ،تو کیا ہو گا ؟ !کبھی انسان جب کسی پاگل یا کم عقل انسان کو دیکھتا ہے ، کس نظر سے اسے دیکھتا ہے ؟اگرچه کچھ نہیں بولے لیکن اس کی طرف دیکھنا هی کسی خاص انداز سے ہے ،خدا کے پاس جو قدرت و طاقت ہے اس کے ذریعے انسان کےعقل کو اس سے لے سکتا ہے ، انسان پاگل ہو جائے گا ، وہ انسان سے بات کرنے کی اس قدرت کو لے سکتا ہے اس صورت میں وہ بہرا ہو جائے گا ، خد ا کی قدرت اس قدر وسیع ہے ،مخصوصاً ہمارے اس زمانہ میں کہ ہزاروں قسم کے امراض اور مشکلات انسان کو گھیر لے سکتیں ہیں ، کہ انسان ان میں سے کسی ایک سے بھی نجات نہیں پا سکتی ،یہ چیزیں انسان کے لئے خدا سے ڈرنے کے اسباب ہونی چاہئے ۔
ابھی تک ہمارے ذہن میں یہ بات تھی اور لوگوں کو بھی یہی بتاتے تھے کہ جہنم اور قیامت کے بارے میں موجود آیات کی طرف توجہ کریں اور خدا سے ڈریں، لیکن حقیقت یه هے جو چیز انسان کو ڈرنے پر ابھارتے ہیں وہ ابھی ہی ہے ابھی بھی انسان کو یہ جان لینا چاہئے کہ اگر ایک سیکنڈ کے لئے اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائےتو کیا کیا مصائب و مشکلات اسے گھیر نهیں لیتی ؟ کیوں نماز کے بارے میں سستی کرتے ہیں ؟!اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی قدرت اور عظمت کو بھول بیٹھے ہیں ،متوجہ نہیں ہے کہ کس کے سامنے حاضر ہیں ، نماز کے وقت میں بھی متوجہ نہیں ہے نماز کے وقت کے علاوہ تو ہے ہی بے خبر۔
جب انسان راستہ چل رہاہو ،تو ہمیشہ اس سوچ میں ہونا چاہئے کہ اے خدا! یہ تو ہے جو مجھے چلا رہا ہے ، یہ جملات جو انبیاء اور معصومینعلیهم السلام کے کلمات میں ہے کہ خدا وند عالم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :'' يا مَوْلايَ. أَنْتَ الَّذِي أَنْعَمْتَ، أَنْتَ الَّذِي أَحْسَنْتَ، أَنْتَ الَّذِي أَجْمَلْتَ، أَنْتَ الَّذِي أَفْضَلْتَ، أَنْتَ الَّذِي مَنَنْتَ، أَنْتَ الَّذِي أَكْمَلْتَ، أَنْتَ الَّذِي رَزَقْتَ، أَنْتَ الَّذِي أَعْطَيْتَ، أَنْتَ الَّذِي أَغْنَيْتَ، أَنْتَ الَّذِي أَقْنَيْتَ، أَنْتَ الَّذِي آوَيْتَ، أَنْتَ الَّذِي كَفَيْتَ.أَنْتَ الَّذِي هَدَيْتَ، أَنْتَ الَّذِي عَصَمْتَ، أَنْتَ الَّذِي سَتَرْتَ، أَنْتَ الَّذِي غَفَرْتَ. أَنْتَ الَّذِي أَقَلْتَ، أَنْتَ الَّذِي مَكَّنْتَ، أَنْتَ الَّذِي أَعْزَزْتَ[3]…''انسان کو خدا نے جتنی نعمتیں عطا کی ہے خدا کے سامنے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے تو نے ان چیزوں کو مجھے دی ہے ! خدا کی قدرت کی یاد آوری ، انسان کے اصلاح میں بہت زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے ۔
انسان کو یہ جان لینا چاہئے کہ خدا کی قدرت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے ، نہ صرف وہ خو د، بلکہ سب چیز خدا کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے ، ہم انسانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے مقابل میں کچھ بھی نہیں ہے ، انسان کے مختلف گروہ تمام مخلوقات کے مقابل میں کچھ بھی نہیں ہے ،اور تمام مخلوقات خدا کے مقابل میں صفر (0)ہے ،اس بات کی طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ ہم واقعا ًکچھ بھی نہیں ہیں ، لیکن یہی بشر ، یہی جسامت ، اسی حالت میں الوہیت اور خدا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے!!! ،کیوں؟ اگر یہ غلطی سے ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے خدا کو بھولا دیا ہے ، اور اگر ہم ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں ، تو یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے خدا کو بلا دیا ہے ، البتہ ان چیزوں کی واقعی وجہ یہ ہے کہ جو شخص غلطی کرتا ہے ، وہ پہلے درجہ پر خود کو دھوکہ دیتا ہے ، خود کو نقصان پہنچاتا ہے ،اور وه یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ دوسرے کو دھوکہ دے رہا ہے ۔
کبھی انسان حد سے اتنا بڑھ جاتا ہے کہ چاہتا ہے خدا کو بھی دھوکہ دے ، حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کی قدرت کو کم اور زیادہ نہیں کر سکتے (إِذا أَرادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُون)[4]یعنی ''کُنْ''کے ہوتے ہی '' فَيکُونُ''ہے ، ان دونوں کے درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے ایک سکینڈ کے لئے اگر وہ اپنے ارادہ کو اٹھا لیں تمام امکان ختم ہو کر رہے گا ، اگر انسان کو کچھ مدت کے لئے مستغنی بنائے ، کون ہے جو اس کے غرور کو ختم کرے ، کون ہے جو اس کی انانیت کو لے لیں؟
خدا سے ڈرنا ، عام موارد کی طرح نہیں ہے کہ جس طرح ایک قدرتمند انسان لذت لیتا ہے کہ دوسرے اس سے ڈرے ،اس طرح بھی نہیں ہے کہ خدا یہ چاہتا ہو کہ اس کا بندہ ، خدا کی ذا ت سے خائف رہے ، یہ خوف انسان کی رشد اور ترقی کی ایک سیڑھی ہے ، انسا ن جب اپنے اندر خدا کا خوف پیدا کرتا ہے اس کے بعد وہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا ،پھر کسی کے حق کو ضائع نہیں کرتا ، خدا کی حق کو ضائع نہیں کرتا ،خد ا اور لوگوں کے حقوق کی محافظت کرتا ہے ،لیکن اگر ہمارے اندر خوف نہ ہو ، ان سب چیزوں کو قدموں کے نیچے کچل دیتے ہیں ۔
میں کبھی دوستوں سے بتاتا ہوں ، کبھی کبھار میں نے خود بھی اسے انجام دیا ہے کہ جب احادیث کی کسی کتاب کے مطالعہ کے وقت ، جب کوئی اچھی حدیث نظر آتی ہے ،اس حدیث کو کسی کاغذ پر لکھ لیتا ہوں ، اپنے بچے کو دے دیتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ اسے اپنے میز پر رکھ لو، ایک دو ہفتہ اسے اپنے سامنے رکھ لو ،ان کے سامنے رکھنے سے پہلے ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے ، اپنے مطالعہ کے میز پر اسے لکھ لینا چاہئے :''خف الله تعالی لقدرته عليک واستحی منه لقربه منک''اسے اتنا لکھ لیں ، دیکھتے رہیں اور اس بارے میں اس قدر سوچیں تا کہ ہم بیدار ہو جائے ، ایک دفعہ بتانے ، سننے اور کسی مجلس میں چند منٹ بیٹھنے سے کچھ نہیں ہوتا ،ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم خدا سے کتنا ڈرتے ہیں ، خدا کی قدرت کے بارے میں کتنا سوچتے هیں؟!!! گذشتہ مہینے میں خدا کی قدرت کے بارے میں کتنا غور و فکر کیا ہے ؟ ! اتنا غور وفکر کرنا چاہئے کہ بیدار ہو جائے ، جب بیدار ہو جائے اس وقت حرکت کرنا شروع کریں ۔
خدا وندمتعالی ہم سب کو خائفین میں قرار دیں آمین رب العالمین
[1] -[1] -یہ درس حضرت آیت اللہ استاد شیخ جواد فاضل لنکرانی (دام عزه) نے اپنے درس خارج فقہ میں بیان فرمایاہے.
[2] - بحار الانوار ج ٦٨، ص٣٣٦
[3]- حلّى، سيد ابن طاووس، رضى الدين، على، الإقبال بالأعمال الحسنة (ط - الحديثة)، 3 جلد، انتشارات دفتر تبليغات اسلامى حوزه علميه قم، قم - ايران، اول، 1415 ه ق
نظری ثبت نشده است .